الأربعاء، 9 فبراير 2011

پردہ قید کی علامت یا عفت وعصمت کی ضمانت


بسم اللہ الرحمن الرحیم
پردہ قید کی علامت یا عفت وعصمت کی ضمانت
الحمدللّه کفیٰ وسلام علیٰ عباده الذين اصطفیٰ  امابعد! فقد قال اللّه تعالیٰ في القرآن المجيد والفرقان الحميد : يَا أَيُّهَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاء الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْْهِنَّ مِن جَلَابِيْبِهِنَّ ذَلِکَ أَدْنَی أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْْنَ وَکَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَّحِيْماً  (الأحزاب: ٥٩)
ترجمہ:اے نبی! آپ اپنی بیویوں ، صاحبزادیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکالیا کریں، اس سے بہت جلدان کی شناخت ہوجایا کرے گی اور پھر ستائی نہ جائیں گی ،اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا، مہربان ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آخر الزماں نبی حضرت محمد صلى اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اور حضرت فاطمہ، ام کلثوم اورزینب رضى الله عنہن جیسی پاکیزہ صفت بیٹیوں اور صحابہ کرام رضى الله عنہم کی معزز خواتین اور صحابیات پر پردے کو واجب قرار دیتے ہوئے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ ان سب سے کہہ دیں کہ جب وہ باہر نکلیں تو ایک بڑی چادر سے اپنے پورے بدن کو ڈھانک لیں اورسر کے اوپر سے اسے لٹکا کر اس طرح گھونگھٹ نکال لیں کہ چہرہ نظر نہ آئے ،اور اس کی حکمت یہ بتائی کہ اس طرح سے ایک شریف زاد ی اور باحیا خاتون اور ایک غیر شریف خاتون میں تمیز ہوجائے گی اور پردے کی وجہ سے لوگوں کوفوراً معلوم ہوجائے گاکہ یہ کوئی معزز ،باحیا اور شریف عورت ہے، جس سے کسی کو اس کی جانب غلط نگاہ اٹھانے،زبان سے نا زیبا کلمات نکالنے اور چھیڑ چھاڑ کی جرأت نہیں ہوگی ، اس کے برعکس بغیر پردہ اور حجاب کے باہر نکلنے والی عورت اوباشوں کی نگاہوں کا مرکز ، اوران کے غیر مناسب جملوں ، چھیڑ چھاڑ اور بو الہوسی کا نشانہ بنے گی ۔
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پردہ کی کتنی اہمیت ہے، کیونکہ یہ کسی عالم اور مولوی کا حکم نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں، بلکہ یہ اللہ رب العالمین کا حکم ہے اوریہ حکم نبی اقدس صلى اللہ علیہ وسلم کے گھر اور شہرمیں اور عہد نبوی کے انتہائی پاکیزہ ماحول میں رہنے والی خواتین کو دیا گیا ہے، جس سے ہر عقلمند اور با شعور شخص خود فیصلہ کرسکتا ہے کہ آج کے اس بگڑے ہوئے حالات اور عریانیت وفحاشیت کے ماحول میں اس کی کتنی ضرورت ہے ۔
اس آیت کریمہ پر غور کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پردے کا یہ حکم عورتوں کی مصلحت اور فائدے کے لئے ہے ، کیونکہ وہ اس کی وجہ سے مردوں کی بد نگاہی اور اذیت رسانی سے محفوظ رہیں گی ، یہ حکم اس واسطے نہیں ہے کہ شریعت کی نگاہ میں عورتیں قابل اعتبار نہیں ہیں ۔
ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ مومنوں کو خطاب کرکے فرماتاہے: وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاء حِجَابٍ ذَلِکُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِکُمْ وَقُلُوبِهِنَّ (الأحزاب: ٥٣) اور جب نبی کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو، یہی تمہارے اور ان کے دلوں کے لئے کامل پاکیزگی کا ذریعہ ہے۔
اس آیت کریمہ میں بھی پردے کا حکم ہے اور مردوں کو حکم دیاگیا ہے کہ جب نبی صلى اللہ علیہ وسلمکی ازواج مطہرات سے کوئی چیز مانگناہوتو پردے کی آڑسے مانگیں اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس سے دونوں کے دل پاک و صاف رہیں گے،اور کوئی غلط خیال بھی کسی کے دل میں نہیں آنے پائے گا۔
معززقارئین!اسلام بنی نوع انسان کے تمام طبقات کے لئے اللہ کی عظیم رحمت بن کر آیا۔اور اس نے ہر طبقے کے سلب کردہ حقوق واپس دلائے اورعورتوں کو ذلت و خواری کے عمیق غار سے نکال کرعزت وسر بلندی کے اعلیٰ مقام پر بٹھایا ۔
مگر المیہ یہ ہوا کہ مرور ایام کے ساتھ عورت اور اسلام کی نورانی کرنوں کے درمیان جہالت ا ور دین سے لاعلمی کے تاریک پردے حائل ہو گئے ۔اور اسی حالت میں صدیاں گذر گئیں ، عین اسی دوران تہذیب جدید کے پر فریب نعروں نے ایک عالم کو مسحور کردیا۔اس فتنہ بہ داماں مغربی تہذیب کا سب سے بڑا نعرہ ، آزادی کاتھا۔
چنانچہ جب آزادی اور حق کی بات چلی تو دیگرتمام طبقات کے ساتھ طبقۂ نسواں کو بھی اس کے علمبرداروں نے یہ باور کرایاکہ اسلام نے اس کی آزادی سلب کی ہے،انھوں نے پردہ کے خلاف جدید تعلیم ،آزادی،اورمساواتِ مردوزن کے نام پربھر پور مہم چلائی۔ حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کومختلف جنسوں اور گروہوں میں تقسیم کیاہے اور ہر گروہ کے لئے خا ص فرائض و وظا ئف مقرر کئے ہیں ،اورانہیں فرائض کی انجام دہی کا مجموعی نام تمدن یا نظام عالم ہے ۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: إِنَّا کُلَّ شَیْْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ (القمر: ٤٩)
بیشک ہر چیز کو ہم نے ایک خاص اندازہ پرپیدا کیا ہے ۔اورایک دوسری جگہ فرمایا:   رَبُّنَا الَّذِیْ أَعْطَی کُلَّ شَیْْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَی  (طه: ٥٠) ہمارارب وہ ہے جس نے ہر شئے کو اس کا مکمل وجود عطاکیا پھر اسے اپنے فرائض بجالانے کی ہدایت کی۔
بیشک انسان فطرتاً آزاد ہے ۔لیکن اس کے حق آزادی کوتسلیم کرتے ہوئے اس امر کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ ہر انسان کااپنے حقیقی فرائض کو ادا کرنا نظام تمدن کالازمی عنصر ہے ۔اور انسان مختلف صلاحیتوں اور قوتوں کا مجموعہ ہے ۔اس میں سے بعض قوتیں اگر نیکیوں پر آمادہ کرتی ہیں تو بعض قوتیں برائیوں کی ترغیب دیتی ہیں۔اب اس اصول کو ذہن نشین کرکے آئیے دیکھیں کہ عورتوں کے طبعی فرائض کیا ہیں؟اور ان فرائض کے لحاظ سے وہ کس طرح کی آزادی کی مستحق ہیں؟اور کون سی آزادی ان کو اپنے فرائض سے بازرکھ سکتی ہے ؟
عورتوں کو قدرت نے دراصل جس مقصد کے لئے پیدا کیا ہے وہ ہے نوع انسانی کی افزائش اور اس کی حفاظت و تربیت ، اس لئے اسلام کہتا ہے کہ عورتوں کو چاہئے کہ حتی الامکان وہ اپنے طبعی فرائض کے میدان یعنی گھر میں محدود رہیں اور اپنے فرائض کو قدرت کی ہدایت کے مطابق انجام دیں ۔ ارشاد باری ہے:  وَقَرْنَ فِیْ بُيُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيّةَِ الْأُولَی  (الأحزاب: ٣٣)
جبکہ مغربی تہذیب کے علم برداروں اور پردہ کے مخالفین کا کہنا ہے کہ عورتوں کو پوری آزادی کے ساتھ مردوں کے دوش بدوش دنیا کے ثقافتی ، تعلیمی ، تمدنی ، اقتصادی اور سیاسی مشاغل میں شریک ہوناچاہئے اور پردہ کے قید و بند سے بالکل آزاد ہوکر مردوں کے شانہ بشانہ کالجوں ، اوریونیورسٹیوں میں پڑھنا پڑھانا اور کارخانوں ، آفسوں ،اور دکانوں میں کام کرنا چاہئے ، انھیں مردوں کے ساتھ رقص و سرود اور دیگر کلچر ل پروگراموں میں شرکت اور فلموں،ڈراموں ،شراب خانوں اور مخلوط کلبوں وغیرہ میں کام کرنے کی اجازت ہونی چاہئے ، ورنہ یہ انھیں ان کے حق آزادی سے محروم کرنااور غلامی کی زنجیروں میں مقید کرنا ہوگا، مگر ذراانصاف سے بتایا جائے کہ کیا عورت اور مرددومختلف جنس نہیں ہیں؟اور کیاخود فطرت نے عورتوں کی عزت و آبرو کی حفاظت وصیانت اور نسل انسانی کی صحیح طریقہ سے افزائش اور تربیت کے لئے ان کی ذمہ داریاں اور میدان عمل مردوں کی ذمہ داریوں اور میدان عمل سے الگ نہیں بنایا ہے ؟کیا قدرت نے جو دونوں کے درمیان پردہ کوحد فاصل قرار دیکر ہر ایک کو اس کے اپنے میدان عمل میں محدودکیا ہے وہ دونوں کے حق میں بہتر نہیں ہے؟ اور کیا یہ حقیت نہیں ہے کہ جب بھی اس حد فاصل کو اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے تمدن اور معاشرت کی بنیاد یں متزلزل ہونے لگی ہیں اور پورا معاشرہ اخلاقی اعتبار سے انحطاط و تنزلی کا شکارہوگیا ہے، بلکہ پوری قوم ہلاکت وبربادی کے قریب پہنچ گئی ہے ؟ کیا یونان و مصر کی تاریخیں یہ داستانیں نہیں سناتی ہیں؟ اور کیا خود مغربی دنیا آج اس کی وجہ سے پریشانیوں میں مبتلا نہیں ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ مسلمان خواتین پردہ کی برکت سے چودہ سو سال سے ان تمام مصائب وآلام کی زد سے محفوظ چلی آرہی ہیں جو ان کے سوا دنیا کی اور خوا تین پر واقع ہوئے ہیں؟
در حقیقت دنیا میں پردہ سے بڑھ کر اور کوئی ایسا ہتھیار نہیں ہے جو عورتوں کو مردو ں کے ہاتھوں میں کھلونا بننے سے محفوظ رکھ سکے، جس سے وہ مرد وں کی نفسانی خواہشات کا شکار ہونے اور ان کے اشاروں کے تابع ہونے سے بچ سکیں،جس سے وہ اپنی عزت وعصمت اور پاک دامنی و وقار کا تحفظ کر سکیں ،یہ تو آپ نے خود ملاحظہ کیا ہوگاکہ پردہ نشین لڑکیاں اور خواتین بے پردہ پھرنے والی لڑکیوں اور خواتین کی بہ نسبت زیادہ با عفت،پاک دامن اور باوقار ہوتی ہیں ،جس سے یہ حقیقت واشگاف ہو گئی کہ عورتوں کے پردہ میں رہنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ آزاد نہیں ہیں،بلکہ ایساانکی عزت وآبرو اور خودداری وغیرت کی حفاظت اور فطری تقاضوں کی بنا پر کیا گیا ہے۔
کچھ حضرات پردہ کو زمانۂ جاہلیت کی باقی ماندہ رسم بتاتے ہیں، جبکہ در حقیقت پردہ عزت و غیرت مندی کی علامت اور عورت کی حفاظت وسعادت کاعظیم ذریعہ ہے ،اس سے ایک شریف اور غیر شریف عورت میں فرق معلوم ہوتا ہے ۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پردہ عورتوں کی صحت کو کمزور کر کے انہیں مختلف بیماریوں کا شکار بنا دیتا ہے اور پردہ نشین عورتوں کے اعصاب کمزور ہو جاتے ہیں ۔
حالانکہ مشاہدہ اس کی تردید کرتا ہے ،پردہ کی وجہ سے عورتیں نہ مریض ہوتی ہیں اور نہ ضعیف الاعصاب ،بلکہ پردہ نشین خواتین بے پردہ گھومنے والی عورتوں کی بہ نسبت زیادہ تندرست اور قوی ہوتی ہیں ، کیونکہ مردوں کے ساتھ بے پردہ اور آزادانہ کام کرنے والی خواتین کو دن بھر ان مردوں کی خونخوارنگاہوں،عزت وغیرت کو ٹھیس پہنچانے والے جملوں اور قلب وجگر کو چھلنی کرنے والے غمزوں اور اشاروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس سے انھیں بڑی سخت روحانی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بے عزتی کا ہر وقت خطرہ ہو نے کی وجہ سے ٹینشن رہتا ہے، جس سے ان کی صحت گرتی جاتی ہے ۔مزید برآں صبح صبح اٹھ کرڈیوٹی پر جانے سے قبل گھر کے سارے کام نپٹانے اور شام کو جب تھکی ماندی آئیں تو پھر گھر کی ساری ذمہ داریوں کے بوجھ کی مصیبت الگ ہوتی ہے، علاوہ ازیں انہیں اپنی نگرانی میں بچوں کی خاطرخواہ تعلیم وتربیت نہ ہونے کا غم الگ ہو تا ہے، جب کہ پردہ نشین خواتین کو عموماً یہ سب ٹینشن اور پریشانیاں نہیں رہتیں،جس سے ان کی ذہنی وجسمانی صحت بہت اچھی رہتی ہے اسی واسطے عموماً دیکھا جاتا ہے کہ پردہ نشین عورتوں کے بچے بے پردہ عورتوں کی اولاد سے زیادہ صحت مند اور قوی الجثہ ہوتے ہیں ،ان کی تعلیم و تربیت بھی اچھی ہوتی ہے اور وہ بڑے سکون و راحت کی زندگی گزارتی ہیں ۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ پردہ کی وجہ سے شادی کا خواہاں مرد اپنی ہونے والی بیوی کو دیکھ نہیں سکتا اور یہ چیز کثرت طلاق اور عورت ومرد کے باہمی اختلاف وناچاقی کا بڑا باعث ہے۔
لیکن یہ دعویٰ بھی حقیقت سے بالکل عاری ہے، کیونکہ اسلام میں شادی کے خواہش مندمردوں اور عورتوں کو اپنے اولیاء کی موجود گی میں ایک دوسرے کو دیکھنے کی اجازت ہے ،اسی طرح پردہ نشین خواتین کی بکثرت طلاق کا دعویٰ بھی بالکل غلط ہے اور واقعات و حقائق کی دنیا میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ پردہ عورت کو تہذیب و ثقافت اور علم کے حاصل کرنے سے روکتا ہے اور اچھے مدارس وجامعات میں داخلہ لے کر اور بورڈنگ ہاؤس میں رہ کر اپنی علمی ،ثقافتی اور عقلی واخلاقی قوتوں کو بڑھانے سے محروم رکھتا ہے ۔
لیکن یہ دعوی بھی بالکل بے بنیاد ہے کیونکہ بالغ طالبات اور پردہ نشین خواتین کے لئے الگ مدارس و کالجزقائم کرکے ان کی تعلیم و تربیت کا بہترین انتظام کیا جاسکتا ہے، اس طرح پردہ میں رہ کر بھی وہ اپنی علمی،عقلی اور تہذیبی قوتوں میں اضافہ کرسکتی ہیں اور بے پردگی کی مضرتوں سے بھی محفوظ رہ سکتی ہیں ۔
غرضیکہ پردہ عورتوں کی فطرت اور منصبی فرائض کے عین مطابق اور ان کی عزت وعصمت کی حفاظت کے لئے از حد ضروری ہے، اور کسی طر ح بھی ان کے لئے نقصان دہ نہیں ہے۔ اسی واسطے اسلام نے اس کا حکم دیا ہے،اور آج مغربی خواتین بھی بڑی تیزی سے اسے اختیار کر رہی ہیں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم تمام لوگوں کوپردہ کی اہمیت وافادیت اوراس پر کئے جانے والے اعتراضات کی لغویت اوربطلان کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور سب کو اسلامی احکام کا پابند بنائے۔ آمین .
وآخر دعوا نا ان الحمد للہ رب العالمین.

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق