الثلاثاء، 8 فبراير 2011

فضائل محرم


                                   فضائل محرم

ڈاکٹر فضل الرحمن المدنی
جامعہ محمدیہ منصورہ، مالیگاؤں


محرم الحرام کا مہینہ ایک محترم اور تاریخی اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل مہینہ ہے ، اس مہینہ میں جن اعمال و عبادات کی فضیلت وارد ہے اگر مسلمان ن کو بجا لانے لگیں تو ان کی آخرت سنور سکتی ہے اور اس ماہ میں اہل ایمان کو جو فتح ونصرت اور کامیابی و کامرانی حاصل ہوئی ہے اور اسلامی تاریخ میں جو موڑ لیا ہے اور پھر قوم مسلم نے کامیابی وسربلندی کی شاہراہ پر اس طرح چل پڑی کہ اس کے سامنے کوئی قوم نہ ٹک سکی اور نہ اس کا راستہ روک سکی ، اگر مسلمان اس پر غور کریں اور کتاب و سنت کے نصوص کو مد نظر رکھیں تو نوح ماتم اور سینہ کوبی و مایوسی کو ترک کرکے پھر اسی عظم و حوصہ کے ساتھ وہ تاریخ کا رخ موڑ سکتے ہیں ، اس واسطے مناسب معلوم ہوتاکہ مسلمانوں کے سامنے اس ماہ کے فضائل وبرکات پر روشنی ڈالی جائے ، ہم جب کتاب و سنت کے نصوص پر غور کرتے اور تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو اس ماہ کے درج ذیل فضائل وخصوصیات معلوم ہوتی ہیں :
(۱)یہ مہینہ عظمت و حرمت والے مہینوں میں سے ہے: ارشاد باری ہے : ﭽ إِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُورِ عِندَ اللّہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْراً فِیْ کِتَابِ اللّہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرْضَ مِنْہَا أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ذَلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ فَلاَ تَظْلِمُواْ فِیْہِنَّ أَنفُسَکُمْ  (التوبۃ: ٣٦ )  مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک اس دن سے جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق کی کتاب اللہ اور لوح محفوظ میں بارہ ہے ، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ، یہی دین قیم ہے، پس ان میں تم اپنے نفسوں پر ظلم نہ کر و ۔
اور صحیحین وغیرہ میں حضرت ابو بکرہ رضى الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر ایک خطبہ دیا جس میں آپ نے فرمایا: ‘‘إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ثَلاَثٌ مُتَوَالِيَاتٌ ذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ’’ (صحيح البخاري: 8324 رقم: 4662، صحيح مسلم :3/ 1305رقم : 1679)  زمانہ گھوم کر اپنی اس ہیئت پر آگیاہے جس پر اس دن تھا جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق کی تھی۔سال کے بارہ مہینے ہیں جن میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں،تین مہینے مسلسل ہیں، ذی قعدۃ،ذی الحجۃ اور محرم(اور چوتھا مہینہ)رجب مضر ہے جو جمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان ہے۔
اس معنی کی حدیثیں حضرت ابوہریرہ،حضرت ابن عمر او ر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم وغیرہ سے بھی مروی ہیں۔(دیکھئے الدرر المنثور:۴۱۸۳ و ما بعدہ)
مذکورہ بالا آیت کریمہ اور احادیث نبویہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ :
الف۔ مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک بارہ ہے، نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ، اس میں ان مشرکین عرب کی تردید ہے جو اپنی مرضی سے کبھی سال تیرہ مہینے کا اور کبھی بارہ مہینے پچیس دن کا بنا لیتے تھے ۔ اسی طرح ان لوگوں کی بھی تردید ہے جو اپنی مصلحتوں کی خاطر ان مہینوں میں تقدیم و تاخیر ار ادل بدل کیا کرتے تھے ۔
ب۔عربی قمری سال کے یہ مہینے (محرم ، صفر، ربیع الاول ، ربیع الثانی .....الخ )نئے نہیں ہیں بلکہ یہ بہت قدیم ہیں ،جب اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق کی اسی وقت ان بارہ مہینوں کو بھی مقرر کرکے لوح محفوظ میں لکھ دیا ۔
ج۔یہ مہینے اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ ہیں ،اس واسطے ان کی اور ہجری سال کی جو ان مہینوں پر مشتمل ہے دیگر مہینوں اور سنوں کی بہ نسبت بڑی اہمیت اور فضیلت ہے ،اورمسلمانوں کو جہاں تک ہوسکے اپنے کاروبار اور خطوط وغیرہ میں اسلامی سال اور اس کی تاریخوں کو ہی استعمال کرنا چاہئے ، اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت عمر رضى الله عنہ  کے زمانے میں جب مسلمانوں کے لئے ایک اسلامی سن کے تقرر کا مسئلہ زیر غور آیا تو حضرت عمر رضى الله عنہ  اور صحابہ کرام رضى الله عنہم  نے یہودیوں اور عیسائیوں و غیرہ کے سن کواختیار نہیں کیا حالانکہ یہ سن موجود تھے ، بلکہ تبادلۂخیالات اور مشورہ کے بعد اسلامی سال اور اس کے مہینوں کو منتخب فرمایا ،اور ہمارے اسلاف نے ہمیشہ اسی سال اور تاریخ کو استعمال کیا ، چنانچہ آپ سیر و تراجم اور تاریخ کی کتابوں کو دیکھ جائیے سب میں اسی سن اور تاریخ کا استعمال ملے گا۔ مگر افسوس کہ آج اکثر مسلمانوں نے اسلامی کیلنڈر اور ہجری سال اور اس کے مہینوں کے استعمال کو ترک کردیا ہے اور عیسوی سن کو استعمال کرنے لگے ہیں،حتی کہ سعودی عرب کو چھوڑ کر مسلم حکومتیں بھی اپنے یہاں عیسوی سن کو ہی استعمال کرتی ہیں اور ہجری سن کو انھوں نے بالکل چھوڑ دیا ہے جو ایک بہت بڑی غفلت اور غلطی ہے تمام مسلمانوں کو عموماً اور مسلم حکمرانوں اور مسلم ممالک کو خصوصاً اس پر توجہ دینا چاہئے۔
د- ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرمت و عظمت والے ہیں اور یہ چاروں مہینے ذی قعدۃ ،ذی الحجۃ، محرم اور رجب ہیں، اس واسطے تمام مسلمانوں کوان کا احترام کرنا چاہئے۔اور ان میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں اور اعمال صالحہ کر نا چاہئے اور برائیوں سے اجتناب کر نا چاہئے۔
یوں تو مسلمانوں کو ہردن اور ہر مہینے میں جنگ وجدال اور ذنوب ومعاصی سے احتراز کرناچاہئے اور گناہوں کا ارتکاب یا نیکیوں کو ترک کر کے اپنے نفس پر ظلم نہیں کرنا چاہئے مگر ان مہینوں میں خصوصی طور پر معاصی اور جدال وقتال سے احتراز کرنا چاہئے,اس لئے کہ جیسے کچھ مخصوص مہینوں اور ایام میں نیکیوں کی خصوصی اہمیت وفضیلت ہے، اسی طرح کچھ مخصوص مہینوں میں گناہوں کے ارتکاب اور نیکیوں کے ترک کی بھی خصوصی قباحت اور خطرناکی ہے اور انہیں میں سے یہ چاروں حرمت والے مہینے بھی ہیں۔(الدرر المنثور:۴۱۸۷)
بہر حال آیت کریمہ اور احادیث نبویہ سے معلوم ہوتاہے کہ چار مہینے شریعت اسلامیہ کی نگاہ میں خصوصی عظمت وحرمت کے حامل ہیں اور ان مہینوں میں ماہ محرم کا مہینہ بھی ہے ،اس واسطے مسلمانوں کو ماہ محرم کا خصوصی احترام کرنا چاہئے اور حتی الامکان اس میں گناہوں اور جنگ وجدال سے اجتناب کرنا چاہئے۔
(۲،۳)یہ’’ اللہ کا مہینہ‘‘ ہے اور اس کے روزوں کی بڑی فضیلت ہے:اس ماہ کی دوسری اور تیسری فضیلت یہ ہے کہ اسے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’اللہ کا مہینہ ‘ ‘کہا ہے اوراس ماہ کے روزوں کی اور خاص طورپر عاشوراء کے روزے کی احادیث میں بڑی فضیلت وارد ہے، حضرت ابو ہریرہ رضى الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘ أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ وَأَفْضَلُ الصَّلاَةِ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ صَلاَةُ اللَّيْلِ ’’ (صحيح مسلم : 3/ 169) رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں اور فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز(یعنی تہجد کی نماز)ہے۔
اس حدیث میں ایک تواس ماہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ‘‘شَهْرُ اللَّهِ ’’  یعنی اللہ کا مہینہ قرار دیا ہے جو اس کی عظمت اورشرف ومنزلت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اس کی اضافت اللہ کی جانب اس کی تشریف وتعظیم پر دلالت کرتی ہے اور اس مہینہ کے علاوہ کسی اور مہینہ کو کتاب وسنت میں‘‘شَهْرُ اللَّهِ ’’  نہیں کہا گیا ہے۔
دوسرے اس ماہ کے روزوں کو آپ نے رمضان المبارک کے روزوں کے بعد سب سے افضل روزے قرار دیا ہے جیسے فرض نمازوں کے بعد تہجد کی نماز کو سب سے افضل نماز قرار دیا ہے۔
اور سنن ابو داود اور سنن الدارمی میں نعمان بن سعد حضرت علی رضى الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے ان سے دریافت کیا کہ رمضان کے بعد آپ مجھے کس ماہ کے روزے رکھنے کا حکم دیتے ہیں؟ انھوں نے فرمایا:میں نے ایک آدمی کے سوا کسی کو اس بارے میں سوال کرتے نہیں سنا، اس شخص کو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتے ہوئے سنا اس حال میں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اس نے عرض کیا :یا رسول اللہ! ماہ رمضان کے بعد آپ مجھے کس ماہ کے روزے رکھنے کا حکم دیتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر رمضان کے بعد روزے رکھنا چاہو تو محرم کے روزے رکھو ،کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے۔
اس حدیث میں بھی آپ نے اس ماہ کو ’’اللہ کا مہینہ‘‘ کہا ہے اور رمضان المبارک کے بعد اگر کوئی روزہ رکھنا چاہے تو اسے حکم دیا کہ ماہ محرم کے روزے رکھے۔
(۴)صوم عاشوراء سے ایک سال گزشتہ کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں:یہ تو اس ماہ کے عمومی روزوں کی فضیلت ہوئی مگر خاص طور سے عاشوراء کے روزوں کی اور زیادہ فضیلت ہے۔ اور ان سے ایک سال گزشتہ کے صغیرہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں ،حضرت ابو قتادۃ رضى الله عنہ سے مروی ایک طویل حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘ صِيَامُ عَاشُورَاءَ ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ ’’ (صحيح مسلم 6/ 55)  یعنی مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ عاشوراء کے روزوں کی وجہ سے وہ ایک سال گزشتہ کے گناہوں(صغیرہ) کو معاف فرما دے گا۔
رسول اللہﷺ عاشوراء کے روزوں کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے ،حضرت ابن عباس رضى الله عنہما  فرماتے ہیں: ‘‘مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَتَحَرَّى صِيَامَ يَوْمٍ فَضَّلَهُ عَلَى غَيْرِهِ إِلاَّ هَذَا الْيَوْمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَهَذَا الشَّهْرَ يَعْنِي شَهْرَ رَمَضَانَ ’’ (صحيح البخاری : حسب ترقيم فتح الباری 3/ 57)
رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے عاشوراء کے روزوں اور رمضان کے روزوں کے علاوہ فضیلت کے کسی دن کے روزے کا اتنا اہتمام کرتے نہیں دیکھا ۔
آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ان روزوں کے اہتمام کا حال یہ تھا کہ ہجرت سے قبل بھی آپ قریش کے ساتھ عاشوراء کے روزے رکھا کرتے تھے ،حضرت عائشہ رضى الله عنہا  فرماتی ہیں: ‘‘كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ ، وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَصُومُهُ فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ صَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تَرَكَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ ، وَمَنْ شَاءَ تَرَكَه. ’’ (صحيح البخاری : حسب ترقيم فتح الباری 3/ 57, صحيح مسلم : 2/ 795)
یعنی عاشوراء کے دن کا روزہ قریش جاہلیت میں رکھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہجرت سے قبل یہ روزہ رکھتے تھے پھر جب آپ مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں بھی آپنے یہ روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس کا حکم دیا ،پھر جب رمضا ن کے روزے فرض کئے گئے تو آپ نے اس کا(حکم دینا اور تاکید کرنا) ترک کردیا اورجو چاہتا یہ روزہ رکھتا اور جو چاہتا نہیں رکھتا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عاشوراء کے دن کی تعظیم قریش بھی کرتے تھے اور وہ اس دن کاروزہ بھی رکھتے تھے۔علامہ ابن القیم رحمہ الله زاد المعاد میں فرماتے ہیں: ‘‘لا ريبَ أن قريشاً كانت تُعظِّم هذا اليوم، وكانوا يكسُون الكعبة فيه، وصومه من تمام تعظيمه ’’ (زاد المعاد: 2/ 70 )  بلا شبہ قریش اس دن کی تعظیم کرتے تھے اور اسی دن کعبہ کو غلاف پہناتے تھے اور اس دن کا روزہ رکھنا اس کی مکمل تعظیم کی وجہ سے تھا۔
اور امام قرطبی رحمہ الله فرماتے ہیں: ‘‘لَعَلَّ قُرَيْشًا كَانُوا يَسْتَنِدُونَ فِي صَوْمِهِ إِلَى شَرْعِ مَنْ مَضَى كَإِبْرَاهِيمَ وَنُوحٍ’’ (فتح الباري - ابن حجر :4/ 248)  شاید قریش اس کے روزے کے سلسلہ میں حضرت ابراہیم  علىہ السلام اور نوح علىہ السلام جیسے ماضی کے کسی نبی کی شریعت پر اعتماد کرتے تھے۔
بہر حال قریش یوم عاشوراء کی تعظیم کرتے تھے اور اس کا روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہجرت سے قبل اس کا روزہ رکھتے تھے پھر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں یہود کو بھی دیکھا کہ عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں، ان سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ یہ بڑا عظیم دن ہے، اس دن اللہ نے حضرت موسیٰ علىہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تھا اور موسیٰ علیہ السلام نے شکرانہ کے طور پر اس دن کا روزہ رکھا اور ہم لوگ بھی اس کا روزہ رکھتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگوں کی بہ نسبت حضرت موسیٰ  علىہ السلام کی متابعت کے زیادہ حق دار ہم لوگ ہیں پھر آپ نے خود روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
حدیث کے الفاظ یہ ہیں : ‘‘عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضى الله عنهما أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَوَجَدَ الْيَهُودَ صِيَامًا يَوْمَ عَاشُورَاءَ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: « مَا هَذَا الْيَوْمُ الَّذِى تَصُومُونَهُ ». فَقَالُوا هَذَا يَوْمٌ عَظِيمٌ أَنْجَى اللَّهُ فِيهِ مُوسَى وَقَوْمَهُ وَغَرَّقَ فِرْعَوْنَ وَقَوْمَهُ فَصَامَهُ مُوسَى شُكْرًا فَنَحْنُ نَصُومُهُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم « فَنَحْنُ أَحَقُّ وَأَوْلَى بِمُوسَى مِنْكُمْ ». فَصَامَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ. ’’ (صحيح مسلم : 3/ 150,صحيح البخاری حسب ترقيم فتح الباری : 5/ 90 ) اور بخاری کی بعض روایتوں میں ہے : ‘‘وَنَحْنُ نَصُومُهُ تَعْظِيمًا لَهُ’’ ہم اس کی تعظیم میں روزہ رکھتے ہیں۔اور مسند احمد : ۲/۲۶۰ میں حضرت ابو ہریرہ  رضى الله عنہ کی روایت میں ہے :  ‘‘وهذا يوم استوت فيه السفينة على الجودي فصامه نوح وموسى شكرا لله تعالى’’ یہی وہ دن ہے جس میں نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑپر ٹھہری تھی تو انھوں نے  اللہ کے لئےشکریہ کے طور پر اس کا روزہ رکھا ۔
ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح علىہ السلام اور حضرت موسیٰ علىہ السلام نے بھی اس دن کا روزہ رکھا ہے اور قریش و یہود بھی اس کا روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا ۔
پھر رسول اللہ ﷺ نے اس کی مزید تاکید کی اور لوگوں کو برابر اس کا حکم دیتے اور اس پر ابھارتے رہے حتی کہ حضرت ربیع بنت معوذرضى الله عنہا  فرماتی ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کی صبح انصار کی بستیوں میں یہ کہلا بھیجا کہ جو صبح سے روزہ سے ہو وہ اپنے روزہ کو مکمل کرے اور جو صبح سے روزہ نہ ہووہ اس وقت سے باقی دن کا روزہ رکھے ، اس کے بعد ہم سب لوگ اس کا روزہ رکھتے تھے اور اپنے چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے تھے ، ہم ان کے لئے اُون کے رنگین کھلونے بنا کر انہیں مسجد لے جاتی تھیں اور جب ان میں سے کوئی کھانے کے لئے رونے لگتا تو ہم اسے یہ کھلونے دیدیتیں ، یہاں تک کہ افطار کا وقت ہوجاتا ۔( صحيح البخاری حسب ترقيم فتح الباری: 3/ 48, صحيح مسلم : 3/ 152)
اور حضرت جابربن سمرہ رضى الله عنہ سے روایت ہےوہ فرماتے ہیں : ‘‘كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَأْمُرُنَا بِصِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ وَيَحُثُّنَا عَلَيْهِ وَيَتَعَاهَدُنَا عِنْدَهُ فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ لَمْ يَأْمُرْنَا وَلَمْ يَنْهَنَا وَلَمْ يَتَعَاهَدْنَا عِنْدَهُ ’’ (صحيح مسلم : 3/ 149 )  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یوم عاشوراء کے روزوں کا تاکیدی حکم دیتے، ہمیں اس کی ترغیب دیتے ، ہمارا حال چال معلوم کرتے اور نصیحت فرماتے پھر جب رمضان کے روزے فرض کردئے گئے تو نہ آپ نے ہمیں اس کاپہلے کی طرح حکم دیا اور نہ منع ہی فرمایا ۔
ان حدیثوں سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ پہلے عاشوراء کا روزہ فرض تھا پھر رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس کی فرضیت منسوخ ہوگئی ، البتہ اس کا استحباب اور اس کی فضیلت برقرار رہی ، یہی امام ابو حنیفہ ، امام احمد ( ایک روایت میں ) ، ابن القیم, حافظ ابن حجر اور باجی ( مالکی) رحمہم الله وغیرہ کا مذہب ہے ، اور یہی راجح ہے۔
اور حضرت ابن عباس رضى الله عنہما سے روایت ہے : ‘‘حِينَ صَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم « فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ - إِنْ شَاءَ اللَّهُ - صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ ’’ (صحيح مسلم : 3/ 151)  جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے دن کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی رکھنے کا حکم دیا تو انھوں نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول یہ تو ایسادن ہے جس کی تعظیم یہود و نصاریٰ کرتے ہیں تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر میں اگلے سال زندہ رہا تو نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھوں گا ۔
اور ایک روایت میں ہے : ‘‘فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ - إِنْ شَاءَ اللَّهُ - صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ ». قَالَ فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ حَتَّى تُوُفِّىَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ’’  یعنی اگلے سال ہم ان شاء اللہ نویں تاریخ کو بھی روزہ رکھیں گے ،مگر اگلے سال کے عاشوراء کے آنے سے قبل ہی آپ کا انتقال ہو گیا ۔
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ‘‘صُومُوا يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَخَالِفُوا فِيهِ الْيَهُودَ ، صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا أَوْ بَعْدَهُ يَوْمًا ’’ (مسند أحمد بن حنبل: 1/ 241 )  عاشوراء کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو اور ایک دن اس سے قبل یا ایک دن اس کے بعد روزہ رکھو۔
اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم آخری عمر تک عاشوراء کے روزے کا اہتمام فرماتے رہے ،البتہ جب یہود و نصاریٰ نے آپ کی نبوت کے تمام دلائل کے واضح ہوجانے کے بعد بھی مکابرہ سے کام لیا اور آپ پرایمان نہیں لائے اور اللہ کی جانب سے ان کی مخالفت کا آپ کو حکم ہواتوصحابہ کرام رضى الله عنہ  کے توجہ دلانے پر آپ نے فرمایا : اگلے سال اگر ہم زندہ رہے تو ان کی مخالفت کی خاطر نویں تاریخ کو بھی روزہ رکھیں گے اور لوگوں کو حکم دیا کہ تم عاشوراء کا روزہ رکھو مگر یہود کی مخالفت کرو، اس طرح کہ ا س کے ساتھ ایک روزہ اور ملالو،اور نواور دس محرم کے یا دس اور گیارہ محرم کے روزے رکھو ۔ اور بعض روایتوں میں ہے : ‘‘صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا و بَعْدَهُ يَوْمًا ’’ ( شعب الإيمان : 5/ 330 ) اور اس سے ایک دن پہلے اور ایک دن بعد بھی روز ے رکھو۔
اسی واسطے بعض علماء نے کہا کہ عاشوراء کے روزوں کے تین درجے ہیں، سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ نو ،دس اور گیارہ محرم کے روزے رکھے جائیں ، اس کے بعد دوسرا درجہ یہ ہے کہ نو اور دس محرم کے روزے رکھے جا ئیں ، اور تیسرا اور آخری درجہ یہ ہے کہ صرف دس محرم کا روزہ رکھا جائے ، اور بعض علماء کا قول یہ ہے کہ سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ نو اور دس محرم کے روزے رکھے جائیں، کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کا ارادہ فرمایا تھا ، دوسرا درجہ یہ ہے کہ دس اور گیارہ کا روزہ رکھا جائے ،کیونکہ آپ نے فرمایا : ‘‘وَخَالِفُوا الْيَهُودَ ، صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا أَوْ بَعْدَهُ يَوْمًا ’’ یہود کی مخالفت کرو اور ایک دن اس سے پہلے یا ایک دن اس کے بعد روزہ رکھو۔ اور ا نھوں نے کہا کہ جو بعض روایتوں میں : ‘‘صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا و بَعْدَهُ يَوْمًا ’’ ہے اس میں ’’واو‘‘ ’’او‘‘ کے معنی میں ہے ، اس طرح دونوں روایتیں ایک معنی میں ہوجائیں گی اور دونوں میں کوئی تعارض نہ ہوگا ۔
بہر حال اس مہینہ کے فضائل میں سے یہ بھی ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ’’شہر اللّٰہ‘‘ کہا ہے ، اس کے روزوں کی اور خاص طورسے یوم عاشوراء کے روزوں کی اہمیت اور فضیلت متعدد احادیث سے ثابت ہے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہمیشہ اہتمام فرمایا ہے ، اس کا حکم دیا ہے اور عاشوراء کے روزوں کو ایک سال گذشتہ کے صغیرہ گناہوں کا کفارہ قرار دیا ہے ۔
(۵) یہ ہجری سا ل کا پہلا مہینہ ہے: اس ماہ کی پانچویں فضیلت یہ ہے کہ ا سے ہجری سال کا پہلا مہینہ ہونے کا شرف حاصل ہے ، اس کے آتے ہی ہجرت نبوی جو اسلامی تاریخ کا ایک عظیم الشان واقعہ ہے کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ۔ آپ حضرات کو معلوم ہے کہ سن ہجری کی بنیاد آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ ہجرت پر ہے، سن ہجری کے مہینوں کا وجود تو ابتدائے آفرینش سے ہے اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بھی ان مہینوں کا استعمال ہوتا تھا، جیسا کہ آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ میں رمضان ،شوال ، ذی قعدۃ، ذی الحجہ اور محرم وغیرہ کے تذکرہ سے معلوم ہوتا ہے مگراس اسلامی سن (سن ہجری )کا تقرر اور آغاز ۱۷ھ  میں حضرت عمر رضى الله عنہ  کے عہد خلافت میں ہوا ۔ فتح الباری میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضى الله عنہ  یمن کے گورنر تھے، ان کے پاس حضرت عمر رضى الله عنہ  کے فرمان آتے تھے جن پر تاریخ درج نہیں ہوتی تھی، ۱۷ھ  میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضى الله عنہ کے توجہ دلانے پر حضرت عمر رضى الله عنہ  نے صحابہ کرام رضى الله عنہم  کو جمع کیا اور ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا اور تبادلۂ خیالات کے بعد یہ طے پایا کہ اسلامی سن کی بنیاد ہجرت کے واقعہ کوبنایا جائے اور اس کی ابتدا ماہ محرم سے کی جائے کیونکہ ۱۳ھ نبوت کے ذی الحجہ کے بالکل اخیرمیں مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کا منصوبہ طے کرلیا گیا تھااور اس کے بعد جو چاند طلوع ہوا وہ محرم کا تھا ۔ ( فتح الباري ، شرح باب التاريخ ومن اين ارخوا التاريخ : ۳/ ۳۸۸ ،طبع دهلي)
آگے بڑھنے سے پہلے آئیے ذراس پر بھی تھوڑا سا غور کرلیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضى الله عنہ اور صحابہ کرام رضى الله عنہ  کے ہجرت کے اس واقعہ کو اسلامی سن کی بنیاد قرار دینے اور اس مہینہ کو اسلامی سن کا پہلا مہینہ قرار دینے میں کیا حکمت اور مصلحت ہے ؟اور انھوں نے ایسا کیوں کیا ؟
مذاہب عالم میں اس وقت جس قدر سنین مروج ہیں وہ عام طور سے کسی مشہور انسان کے یوم ولادت کی یاد دلاتے ہیں یا کسی واقعۂ مسرت و شادمانی سے وابستہ ہیں جس سے نسل انسانی کا بظاہر کوئی فائدہ نہیں ،مثلاً عیسوی سن کی بنیاد حضرت عیسیٰ علىہ السلام کی یوم ولادت ہے ، یہودی سن فلسطین پر حضرت سلیمان علىہ السلام کی تخت نشینی کے ایک پر شوکت واقعہ سے وابستہ ہے ، بکرمی سن راجہ بکرماجیت کی پیدائش کی یاد گار ہے ،رومی سن سکندر فاتح اعظم کی پیدائش کوواضح کرتا ہے لیکن اسلامی سن ہجری عہد نبوت کے ایک ایسے واقعہ سے وابستہ ہے جس میں یہ سبق پنہاں ہے کہ اگر مسلمان اعلاء کلمۃ الحق کے صلہ میں تمام اطراف سے مصائب و آلام میں گھرجائے ،بستی کے اکثر لوگ اس کے دشمن اور درپئے آزار ہوجائیں ، قریبی رشتہ دار اور اعزہ و اقارب بھی اس کے ختم کرنے کا عزم کرلیں اور ساتھی اور دوست و احباب بھی اسی طرح کی تکالیف میں مبتلا کردئے جائیں اور اس کی آواز حق کو جبراً ر وکنے کی کوشش کی جائے تو ا س وقت وہ مسلمان کیا کرے ؟ اس کا حل اسلام نے یہ نہیں تجویز کیا کہ کفر اور باطل کے ساتھ مصالحت کرلی جائے ، تبلیغ حق میں مداہنت اور رواداری سے کام لیا جائے اور اپنے عقائد و نظریات میں لچک پیدا کرکے ان میں گھل مل جایا جائے تاکہ مخالفت کا زور ٹوٹ جائے ، بلکہ اس کا حل اسلام نے یہ تجویز کیا کہ ایسی بستی اور شہر پر حجت تمام کرکے وہاں سے ہجرت کرجائے ۔
یہ واقعہ ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ ایک مسلمان اپنے گھر بار سے دست بردار ہو سکتا ہے ، اپنے مال و متاع کی قربانی دے سکتا ہے ، خاندان اور قبیلہ سے علاحدگی اختیار کرسکتا ہے لیکن وہ اپنے دین اور عقیدہ کو ترک نہیں کرسکتا۔
یہ واقعہ مظلومی و بے کسی اور پھر صبر و استقامت اور ثبات قدمی کی ایک زبر دست مثال پیش کرتا ہے ، اور بتلاتاہے کہ مظلوم و بے کس انسان کس طرح اپنے مشن میں کامیاب ہو سکتا ہے اور مصائب و آلام سے نکل کرکس طرح کامرانی و شادمانی حاصل کرسکتا ہے ۔
یہ واقعہ جہاں ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اسلام و ایمان کی راہ اور اعلاء کلمۃ اللہ کا کام آسان نہیں اس راہ کے مجاہدوں کو اپنی راہ میں پھولوں کے سیج نہیں ملیں گے بلکہ اپنی منزل مقصود تک پہونچنے کے لئے انھیں کانٹوں پر سے گزرنا پڑے گا ۔ وہیں اس سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ مسلمانوں کو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے ، ایک نہ ایک دن اللہ ان کی مدد ضرورفرمائے گا۔اور ان کے لئے انصار جیسے معاونین پیدا کرے گاجو ہر طرح ان کی مدد کریں گے۔ اور مدینہ جیسا دارالأمن عطا کرے گا جہاں اطمینان سے اعلان حق،اشاعت اسلام اور اعلاء کلمۃ اللہ کا کام کرسکیں گے۔
واقعہ ہجرت میں مخفی انھیں دروس و پیغامات کی بنا پر خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضى الله عنہ اور اس وقت کے صحابہ کرام رضى الله عنہم  نے اسے اسلامی سن کی بنیاد قرار دیا اور ماہ محرم کو اس کا پہلا مہینہ منتخب کیا ۔
ایک غلط فہمی اور اس کا ازالہ :یہ ہیں کتاب وسنت کی روشنی میں اس ماہ کے چند فضائل و خصوصیات،اور یہ ہے اس کی شرعی حیثیت اور بعض لوگوں کا جو یہ عقیدہ اور خیال ہے کہ اس ماہ محرم کی حرمت وعظمت حضرت حسین رضى الله عنہ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کی بناء پر ہے وہ سراسر غلط ہے ،اس واسطے کہ محرم الحرام کی حرمت بہت قدیم ہے اور حضرت حسین رضى الله عنہ کی شہادت کا واقعہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پچاس سال بعد پیش آیا۔پھر خود اسی مہینے میں اس سے بڑھ کر ایک اور سانحہ شہادت پیش آیا ہے، یکم محرم الحرام کو حضرت عمر فاروق رضى الله عنہ کی شہادت کا واقعہ، اگر بعد میں ہونے والی شہادت کی کوئی شرعی حیثیت ہوتی اور اس کاماہ محرم کی عظمت و حرمت پر کچھ اثر پڑتا تو حضرت عمر رضى الله عنہ کی شہادت بدرجۂ اولیٰ اس لائق تھی کہ اہل اسلام اس بارے میں پہلے اس کا اعتبار کرتے۔اسی طرح سید الشہداء حضرت حمزہ،خلیفۂ ثالث حضرت عثمان ،خلیفۂ رابع اور خود حضرت حسین کے والد محترم حضرت علی رضى الله عنہم وغیرہ کی شہادتوں کے مہینوں کی بھی ان شہاد توں کی وجہ سے عظمت ہوتی۔مگر ایسا نہیں ہے تو حضرت حسین رضى الله عنہ  کی شہادت کا بھی ماہ محرم کی حرمت وتقدس میں کوئی دخل نہیں ۔
اس و اسطے مسلمانوں کو چاہئے کہ جو چیزیں اس ماہ کی فضیلت کے سلسلے میں صحیح ادلۂ شرعیہ سے ثابت ہیں(جیسے اس میں بکثر ت روزے رکھنا اور خاص طور سے عاشوراء کے روزے ا ورجنگ وجدال اور معاصی سے اجتناب اور نیکیوں میں کوتاہی سے احتراز کرنا )انہیں اپنائیں اور جن کا ثبوت کتاب اللہ اور احادیث صحیحہ سے نہیں ہے انہیں ترک کردیں۔
اس ماہ میں جو واعظین اور علماء شہادت حسین رضى الله عنہ  کے واقعہ کورطب ویابس اور صحیح وغلط میں تمیز کئے بغیر بڑے شوق سے گلے پھاڑ پھاڑ کر بیان کرتے ہیں،اس کے لئے مجلسیں منعقد کرتے ہیں اور اپنی تقریروں کو دلچسپ بنانے کے لئے غلط سلط اور شیعی روایتوں کو بیان کرتے اور بسا اوقات حضرت معاویہ رضى الله عنہ اور حضرت یزید رحمہ الله وغیرہ پر زبان طعن دراز کرتے ہیں وہ درست نہیں،اگر اس مہینے کی مناسبت سے ہمارے واعظین اور مقررین کو بیان کرنا ہے تو اس ماہ کے صحیح صحیح فضائل اور مسائل کو بیان کریں ، اس ماہ میں حضرت موسیٰ علىہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون اور اس کے لشکر سے جو اللہ نے نجات عطافرمائی اور فرعون اور اس کی فوج کو غرق کیا اس کو بیان کریں اور بتائیں کہ اہل ایمان کو دشمنوں کی قوت و سطوت اور ظلم و ستم سے کبھی گھبرانا اور اللہ کی نصرت و تائید سے مایوس نہیں ہو نا چاہئے ،اس کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں،انھیں بیان کرنا ہے تو ہجرت نبوی کے واقعہ کو بیان کریں ،ا ور اس میں جو مسلمانوں کے لئے درس اور عبرت وموعظت کی باتیں ہیں انہیں بتائیں، اس سے مسلمانوں کی اصلاح ہوگی اور ان نازک حالات میں جب مسلمان ہر طرف دشمنوں کے نرغے میں ہیں اور فرعون وقت نے اپنے تمام لاؤ ولشکر اور انتہائی مہلک اور تباہ کن اسلحوں کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بزن بول دیا ہے ، اور صہیونی وسلیبی جنگ اپنے شباب پر ہے مسلمانوں کو اس سے حوصلہ ملے گا اور حضرت عمربن خطاب رضى الله عنہ وغیرہ صحابہ کرام نے جس مقصد کے لئے ہجرت کے واقعہ کو اسلامی سن کی بنیاد اور اس ماہ کو اس کا پہلا مہینہ قرار دیا تھاوہ مقصد حاصل ہوگا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق اور مسلک سلف کی اتباع کی توفیق عطا فرمائے اورتمام بدعات و سيئات سے محفوظ رکھے۔آمین.
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

هناك تعليقان (2):

  1. جزاكم الله خيرا يا دكتور على هذه المعلومات القيمية وجعله في ميزان حسناتك

    ردحذف
  2. جزاکم اللہ خیراوحسن الجزاء
    ماشاء اللہ نہایت جامع اور عمدہ مضمون

    ردحذف