الأربعاء، 16 فبراير 2011

آداب تعليم و تربيت


آداب تعليم
و
تربيت

تالیف

ڈاکٹر فضل الرحمن المدنی
جامعہ محمدیہ ، منصورہ مالیگاؤں

مقدمہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللّه کفیٰ وسلام علی عباده الذين اصطفیٰ اما بعد!
تعلیم وتربیت کا عمل بڑا ہی مہتم بالشان اور اخلاص ،محبت اور صلاحیت ولیاقت کا متقاضی ہے ، اسی واسطے اس کی ذمہ داری اللہ جل شانہ کی جانب سے انبیاء علیہم السلام پر ڈالی گئی اور ان کے بعد بڑ ے بڑے ائمہ کرام اور ماہرین فن علماء عظام جنہیں ورثۃالانبیاء ہونے کا شرف حاصل ہے اس کو انجا م دیتے رہے۔
کتاب وسنت اور آثار سلف میں اس موضوع پر اچھا خاصہ مواد مو جود ہے، اور علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ (۴۶۳ھ)امام نووی رحمہ اللہ (۶۷۶ھ)،ابن جماعہ رحمہ اللہ (۷۳۳ھ)اور نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ (۱۳۰۷ھ) وغیرہ بہت سے علماء کرام نے اس مو ضوع پر اپنے زمانے کے حالا ت و مقتضیات کے مطابق روشنی ڈالی ہے اور اساتذہ و طلبہ کے لئے تعلیم وتعلّم کے آداب بتلائے ہیں، مگر افسوس کہ ہندوستان میں عصری علوم کے اساتذہ کی ٹریننگ اور طریقۂ تدریس کی تعلیم کے لئے تو بہت سے کالج ہیں اور حسب ضرورت مختصر مدت کے لئے بھی اساتذہ کی ٹریننگ کا پروگرام ہو تا رہتا ہے، مگر عربی مدارس وجامعات میں اس فن کی تعلیم اور نئے اساتذہ کی ٹریننگ پر توجہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے، اسی واسطے جب جامعہ محمدیہ میں طریقۂ تدریس کا مضمون داخل نصاب کیا گیا تو بروقت اس کے لئے کوئی مناسب کتاب دستیاب نہ ہو سکی اور اساتذہ اپنے مطالعہ اور تجربہ کی روشنی میں کچھ مفید باتیں طلبہ کو بتاتے اور اس موضوع سے متعلق کچھ کتابوں کی جانب رہنمائی کردیتے۔
ایک مرتبہ اس موضوع پر سابق شیخ الجامعہ شیر خان جمیل احمد العمری کے زیر اشراف اساتذۂ کرام کی کئی میٹنگیں ہوئیں ، اور کچھ درسی کتابوں کے طریقۂ تدریس پر ان کتابوں کے پڑھانے والے اساتذہ نے تحریری اظہار خیال بھی کیا، مگر بات نا مکمل ہی رہی،دوسال قبل کلیہ عائشہ صدیقہ میں منہج بحث اورطریقۂ تدریس کی گھنٹی ناچیز کو ملی، اس موقع پر میں نے اس موضوع پر عربی اور اردو میں جو کتابیں دستیاب ہوسکیں ان کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اکثر کتابیں انگریزی میں اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں کا چربہ ہیں ،اور عربی مدارس کے اساتذہ اور دینی کتابوں کی تدریس کے تعلق سے ان کی افادیت بہت کم ہے، اس واسطے عربی مدارس اور عموماً ان میں پڑھائی جانے والی کتابوں کا لحاظ کرتے ہوئے چند اہم اہم باتیں میں نے طالبات کی تفہیم میں سہولت اور پہلے عربی میں پڑھانے اور پھر اردو میں اس کا ترجمہ کرنے کی ڈبل محنت سے بچنے کے لئے اردو میں محاضرہ (لیکچر) کی شکل میں ان کے سامنے پیش کیں اور ان کے متعلق مختصر نوٹ اور اشارے تیار کئے، پھر اس کے کچھ گوشوں پر مجلہ صوت الحق میں روشنی ڈالی، بعد میں کئی احباب کا مطالبہ ہوا کہ کچھ مزید تفصیل و توضیح کے بعد اسے کتابی شکل میں شائع کردیا جائے ،تاکہ اس سے استفادہ کا حلقہ اور وسیع ہوجائے ۔چنانچہ ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اسے کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے ، امید ہے کہ جہاں نئے اساتذہ اس سے استفادہ کریں گے وہیں تجربہ کار اور اس فن کے ماہرین اساتذہ کرام اپنے گراں قدر مشوروں سے نوازیں گے ۔
اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ اسے قبولیت سے نوازے ، ہمارے لئے ذخیرۂ آخرت بنا ئے ،جن اساتذۂکرام نے اپنے مفید مشوروں اور تجاویز سے نوازا ہے انھیں اجر جزیل عطا فرمائے ، اور جو گوشے ابھی تشنہ ہیں انھیں مکمل کرنے کا ہمیں موقع اور توفیق عطا فرمائے۔ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم ، وتب علینا انک انت التواب الرحیم.وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین.
دکتور فضل الرحمن المدنی
        جامعہ محمدیہ ، منصورہ ,  مالیگاؤں
                 ۲۰؍۹؍۲۰۰۲ء


بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
باب اول
تعلیم وتربیت کی اہمیت وفضیلت
جب تک کسی کام کی اہمیت و فضیلت اور افادیت و ضرورت کا علم نہ ہو آدمی اس کو اچھی طرح اوردلچسپی و محنت سے انجام نہیں دیتا ہے۔نیز آج بہت سے لوگ تعلیم وتربیت کے کام کو کچھ اہمیت نہیں دیتے۔اور جو حضرات اس کام سے متعلق ہیں انہیں بڑی حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، خاص طور سے علوم شریعت کے اسا تذہ ومعلّمات کو’’ملے اور ملانیوں‘‘ کے نام سے مخاطب کر کے بزعم خود ان کی تذلیل وتحقیر کرتے ہیں ۔اور بہت سے اساتذہ و معلّمات بھی ان لوگوں کی اس غلط روش کی بنا پر احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں، اس واسطے مناسب یہ معلوم ہو تاہے کہ تعلیم و تربیت کے آداب و طرق کو بیان کرنے سے پہلے ان کی اہمیت و فضیلت اور ضرورت پر روشنی ڈالی جائے ، تاکہ ان لوگوں کی غلط فہمیوں کا ازالہ ہواور اس پیشے سے متعلق اسا تذہ ومعلّمات اسے ایک انتہائی معزز اور قابل فخر عمل سمجھ کر پورے انشراح صدر اور اطمینان کے ساتھ انجام دیں ۔
تعلیم وتربیت انبیاء علیہم السلام کا عمل
تعلیم و تربیت کا کام بڑا ہی عظیم المرتبت اور اہمیت کا حامل عمل ہے، اس لئے کہ یہ انبیاء علیہم السلام کا عمل ہے ۔ اوران کی بعثت اسی عظیم الشان کام کی انجام دہی کی خاطر ہوئی تھی۔ارشاد الٰہی ہے: هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّيِّيْنَ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو علَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَکِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَإِن کَانُوا مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِيْنٍ  (الجمعة: ٢)
اللہ ہی کی ذات ہے جس نے امیوں میں ایک رسول انھیں میں سے مبعوث فرمایا،جو ان پر اس کی آیتوں کی تلاوت کرتا ہے،ان کا تزکےۂ نفس کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے ، اگرچہ وہ اس سے قبل کھلی ہوئی ضلالت وگمراہی میں تھے۔
یہ آیت کریمہ بڑے واضح طورسے اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت،لوگوں کے سامنے آیات قرآنیہ کی تلاوت ، کتاب وسنت کی تعلیم،اور لوگوں کی تربیت اور تزکيۂ نفس کے لئے ہوئی تھی۔
دوسری جگہ ارشاد باری ہے: لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَی الْمُؤمِنِيْنَ إِذْ بَعَثَ فِيْهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَکِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَإِن کَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلالٍ مُّبِيْنٍ آل (عمران: ١٦٤)
اللہ نے مومنوں پر احسان فرمایا۔ اس لئے کہ انھیں میں سے ایک رسول مبعوث کیا، جو ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے۔ان کا تزکیہ فرماتا ہے،اورانہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے ، اگر چہ اس سے قبل وہ کھلی ہوئی ضلالت میں تھے۔
یہاں کتاب سے مراد کتاب اللہ یعنی قرآن کریم ہے اورحکمت سے مراد سنت نبویہ اور دیگر دانائی و عقلمندی کی باتیں ہیں۔اور تزکیۂ نفس سے مراد ان کے عقائد،اعمال اور اخلاق کی اصلاح و تطہیر اور تمام ظاہری و باطنی برائیوں کا ازالہ ہے۔
اس آیت کریمہ سے ایک بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں کو کتاب و سنت کی تعلیم دینا ، ان کے نفوس کا تزکیہ فرمانا،اور اللہ تعالیٰ کا اس کام کے لئے آپ کو مبعوث فرماناکوئی معمولی بات نہیں، بلکہ ایک عظیم نعمت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنا احسان قرار دیا ہے۔
دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت لوگوں کی تعلیم اور تزکیۂ نفوس کے لئے ہوئی تھی ،اور خاص اسی مقصد كے لئے اللہ نے آپ کو اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا تھا، اور جب تعلیم وتربیت سید المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء علیہم السلام کا عمل ہوا، جس كے لئے اللہ جل شانہ نے انہیں مبعوث فرمایا تھا تو یقیناً یہ بڑا عظیم الشان،اور ا ہمیت کا حامل عمل ہے، اس کو حقیر سمجھنا کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔
تیسری بات اس آیت کریمہ پر غور کرنے سے یہ معلوم ہو تی ہے کہ تعلیم و تربیت کا کام کرنے والے علماء اور مخلص معلّمین و اساتذہ اور خاص طور سے علوم شرعیہ کے اساتذہ و معلّمین انبیاء علیہم السلام کے وارث اور نائب ہیں،جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ ‘‘علماء انبیاء کے وارث ہیں۔(رواه ابوداود والترمذي وابن حبان والحاکم مصححا من حديث ابي الدرداء ، و حسنه حمزة الکناني، واورده البخاري في الترجمة ، وهذا يشعربان له اصلا وله شواهد يتقوی بها. انظر فتح الباری :1/160)
اور جب انبیاء علیہم السلام اللہ کے نزدیک بڑے معزز اوربرگزیدہ لوگ تھے تو ان کے وارثین (اساتذہ ومعلّمات) بھی یقیناًبڑے معزز و محتر م لوگ ہوں گے اور ان کا عمل اور پیشہ بھی بڑا محترم مانا جائے گا۔
اس سے یہ حقیقت بھی واشگاف ہوتی ہے کہ اساتذہ و معلّمات اور خاص طور پر دینی علوم کے اساتذہ و معلّمات کو حقیر سمجھنا اور ان کے پیشے کو حقا رت کی نظر سے دیکھنا بڑی نادانی کی بات ہے ۔
تعلیم ایک قابل رشک عمل ہے
تعلیم ایک قابل رشک عمل اور تعلیم و تربیت کا کام کرنے والے مخلص اساتذہ قابل رشک اور لائق صد فخر لوگ ہیں، حضرت عبد اللہ بن مسعودرضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ لاَ حَسَدَ إِلاَّ فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالاً فَسُلِّطَ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْحِكْمَةَ فَهْوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا.‘‘( صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 1/ 28 , صحيح مسلم : 2/ 201)
صرف دو آدمیوں پر رشک کرنا جائز ہے،ایک اس شخص پر جس کو اللہ نے مال ودولت سے نوازا، پھر اس کو حق اورنیک کاموں میں خرچ کرنے کی بھر پور توفیق دی ، دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے علم و حکمت سے نوازا،تو وہ اس سے لوگوں کے درمیان صحیح اور شریعت کے مطابق فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کواس کی تعلیم دیتا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کتاب و حکمت یعنی قرآن وسنت اور علوم شرعیہ کی تعلیم دینا اور لوگوں کے معاملات کو کتاب و سنت کی روشنی میں حل کرنا،اللہ کی بہت بڑی نعمت اور قابل رشک عمل ہے ،اور اس کو حقیر سمجھنا قطعاًدرست نہیں۔
تعلیم صدقۂ جاریہ ہے
حضرت ابو ہریرہ  رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلاَّ مِنْ ثَلاَثَةٍ إِلاَّ مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ ‘‘ (صحيح مسلم : 5/ 73)
جب انسان مرجاتاہے تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے ،مگر تین چیزوں کا ثواب اسے بعد میں بھی ملتا رہتا ہے،ان تینوں چیزوں میں سے ایک تو صدقۂ جاریہ ہے،جیسے اس نے کوئی مسجد تعمیر کرادی،یاکوئی مدرسہ،یا مسافر خانہ یا یتیم خانہ بنوا دیا۔یا کسی جگہ پانی کی قلت دیکھی تو کنواں کھدوادیا ،تو اس صدقۂ جاریہ کا ثواب اسے انتقال کے بعد بھی ملتا رہے گا۔
دوسرا وہ علم جس سے انتفاع کا سلسلہ بعد میں بھی جاری رہے ، اور لوگ اس کے انتقال کے بعد بھی اس سے استفادہ کرتے رہیں ،جیسے اس نے کچھ طلبہ کو علوم شرعیہ کی تعلیم دی اور انہیں مفید علم سکھایا اور پھر ان طلبہ نے تعلیم وتدریس اور دعوت وتبلیغ یا تصنیف وتالیف کے ذریعہ اس سے افادہ کا سلسلہ جاری رکھا، یا کوئی کتاب لکھ دی جس سے لوگ اس کے بعد بھی مستفید ہوتے رہے۔ تو جب تک لوگ اس کتاب کو پڑھتے،اور اس سے استفادہ کرتے رہیں گے اسے اجر وثواب ملتا ر ہے گا ۔
تیسری موت کے بعد کام آنے والی چیز وہ نیک اولاد ہے جو اس كے لئے دعائیں کرتی ر ہے۔ظاہر ہے کہ اولاد بھی صحیح تعلیم وتر بیت کی وجہ سے ہی نیک بنتی اور اپنے والدین کے حقوق پہچا نتی اور ان كے لئے دعاء خیر کرتی ہے، اور اولاد کی تعلیم وتر بیت اگر صحیح نہ ہو تو ان کے بگڑنے کا قوی اند یشہ رہتاہے۔
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’ مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهِ ‘‘ (رواہ احمد ومسلم وابوداود والترمذی وصححہ، انظر صحیح الجامع الصغیر وزیادتہ: ۵؍۲۹۰)
جس نے کسی اچھے کام کی جانب لوگوں کی رہنمائی کی تو اسے بھی اس نیک کام کے کرنے والے کے مثل اجرو ثواب ملے گا۔
طلبہ و طالبات کو کتاب وسنت اور علوم شرعیہ کی تعلیم دینا بلا ریب ان کی خیر کی جانب رہنمائی کرنا ہے۔اس واسطے یہ طلبہ و طالبات علوم شرعیہ کو سیکھنے کے بعد جو تعلیم و تربیت،دعوت وتبلیغ اور اصلاح معاشرہ کا کام کریں گے، اور جتنے بھی نیک اعمال اس تعلیم وتربیت کی وجہ سے وہ انجام دیں گے ان سب اچھے کاموں کا اجر وثواب ان کے اساتذہ اور مربیوں کو بھی ملے گا۔
حضرت ابو ہریرہ  رضى اللہ عنہ کی ایک دوسری روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا :’’ إِنَّ مِمَّا يَلْحَقُ الْمُؤْمِنَ مِنْ عَمَلِهِ وَحَسَنَاتِهِ بَعْدَ مَوْتِهِ عِلْمًا عَلَّمَهُ وَنَشَرَهُ، أَوْ وَلَدًا صَالِحًا تَرَكَهُ، أَوْ مَسْجِدًا بَنَاهُ، أَوْ بَيْتًا لِابْنِ السَّبِيلِ بَنَاهُ، أَوْ نَهَرًا كَرَاهُ، أَوْ صَدَقَةً أَخْرَجَهَا مِنْ مَالِهِ فِي صِحَّتِهِ وَحَيَاتِهِ تَلْحَقُهُ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهِ ‘‘. (رواہ ابن ماجہ : ۱؍۸۸(۲۴۲) وقال الألبانی:اسنادہ حسن کما قال المنذری، وبہ رواہ ابن خزیمۃ فی صحیحہ.(مشکاۃ۱؍۸۵)
یعنی مومن کو اس کی نیکیوں اور اعمال صالحہ میں سے جو چیزیں مرنے کے بعد نفع دیتی ہیں ان میں سے علم ہے جس کی وہ تعلیم دے اور نشرواشاعت کرے،اور نیک اولادہے جس کو اس نے اپنے پیچھے چھوڑا، قرآن کریم ہے جسے اس نے کسی کو دیدیا، مسجدہے جس کی اس نے تعمیرکی،یا سرائے ہے جس کو اس نے مسافروں كے لئے بنایا، یا نہر ہے جو اس نے کھدوائی ،یا وہ صدقہ ہے جس کو اس نے اپنی زندگی میں اور بحالت صحت اللہ کی راہ میں دیا،یہ وہ چیزیں ہیں جن کا اجروثواب مومن کو اس کے مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مَنْ عَلَّمَ عِلْمًا , فَلَهُ أَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهِ ، لاَ يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الْعَامِلِ ‘‘ (رواہ ابن ماجہ وقال فؤادعبدالباقی:المتن ثابت معنی، وإن تکلم فی الزوائد علی إسنادہ:۱؍۸۸(۲۴۰)جس نے کسی کو کوئی علمی بات بتائی تو اس کو اس پر عمل کرنیوالے کے مثل ثواب ملے گا ،اور عمل کرنے والے کے اجر میں کچھ کمی نہیں ہو گی ۔
ان تمام احادیث سے معلوم ہو تا ہے کہ تعلیم بہترین صدقۂجاریہ ہے جس کا ثواب اساتذہ ومعلّمات کو ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ملتا رہے گا۔
مخلص معلم مجاہد ہے
حضرت ابو ہریرہ  رضى اللہ عنہ فرماتے ہیں: مَنْ جَاءَ مَسْجِدِي هَذَا ، لَمْ يَأْتِهِ إِلاَّ لِخَيْرٍ يَتَعَلَّمُهُ أَوْ يُعَلِّمُهُ ، فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللهِ ، وَمَنْ جَاءَ لِغَيْرِ ذَلِكَ ، فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الرَّجُلِ يَنْظُرُ إِلَى مَتَاعِ غَيْرِهِ ‘‘(رواہ ابن ماجہ:۱؍۸۲ (۲۲۷) وفی الزوائد:اسنادہ صحیح علی شرط مسلم)
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان فرماتے ہوئے سنا:جو شخص میری اس مسجد میں صرف خیر کی تعلیم دینے یا حاصل کرنے آیا اسے مجاہد فی سبیل للہ کا درجہ حاصل ہے اور جو اس کے علاوہ کسی اور دنیاوی کام کی غرض سے آیا تو وہ اس شخص کی طرح ہے جس کی نظر غیر کے مال پر لگی ہو۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اخلاص اور سچی نیت سے اچھی باتوں کی تعلیم دینا جہاد فی سبیل ا للہ اور مخلص معلم مجاہد فی سبیل ا للہ کے درجہ میں ہے۔
معلم قوم کا معمار اور ترقی کا باعث ہے
قوموں کی ترقی اور عروج میں تعلیم کا بڑا دخل ہے ،جو قوم جتنا زیادہ تعلیم یافتہ ہو گی وہ قوم ا تنا ہی زیادہ ترقی یا فتہ ہو گی، اور وہ برابر آ گے بڑھتی،ترقی کر تی اور جدید تحقیقات وایجادات کے با ب میں نمایاں کار کردگی کا مظاہرہ کرتی جائے گی ،اور اقوام عالم میں معزز بن کر رہے گی ،اور جو قوم جس قدر جاہل ،ان پڑھ اور علم سے نا بلد ہو گی وہ قوم اسی قدر تنزلی وانحطاط اور ذلت وخواری کا شکار ہو گی، اسی نقطے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فر مایا:   يَرْفَعِ اللّهُ الَّذِيْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَالَّذِيْنَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ  (المجادلة: ١١) اللہ تعالیٰ مومنوں اور اہل علم کے در جا ت کو بلندفرماتا ہے۔
اس اعتبار سے اساتذہ ومعلّمات علم کی اشاعت کرکے قوم کو ترقی دیتے اور اسے بام عر و ج تک پہنچاتے ہیں، اس واسطے ان کو کبھی یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ہماری اور ہمارے کام کی کیا حیثیت ہے ۔ کیونکہ ان کا کام قوم و ملت کی تعمیر کاکام ہے،اور ان کا معاشرہ میں بڑاہی مقام ہے،ان کی وجہ سے فرزندان قوم کی ترقی ہو تی ہے،وہ اعلی مناصب حاصل کرتے ہیں اور انہیں کی محنت وجدو جہد کے نتیجہ میں پوری قوم دینی و دنیوی اعتبار سے کامیاب اور فائز المرام ہوگی۔
مثال کے طور پر حضرت عبد اللہ بن عباس رضى الله عنہما جوبہت مشہور صحابی ہیں انہیں ترجمان القرآن اور حبر الامۃکہا جاتا ہے ،ان کا شمار صغار صحابہ میں ہو تا تھا، مگر اس کے باوجودان کے علم اورتفقہ فی الدین میں تفوق کی وجہ سے حضرت عمر رضى اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں انہیں اپنی مخصوص مجلسوں میں شریک فرماتے تھے ، کچھ معمر لوگوں کو یہ بات اچھی نہیں لگی اور اعتراض کرتے ہوئے کہنے لگے: حضرت عمر رضى اللہ عنہ اس کو ہماری مجلسوں میں کیوں شریک کرتے ہیں؟ اس عمر کے تو ہمارے بچے ہیں ۔
حضرت عمررضى اللہ عنہ کو جب اس کی اطلاع ملی تو ایک دن ان لوگوں کو جمع کرکے پوچھا: إِذَا جَاء نَصْرُ اللّهِ وَالْفَتْحُ    (النصر: ١) کا کیا مطلب ہے ؟اس کی تفسیر بیان کیجئے، سب لوگوں نے اس کا عام معنی اور مطلب بتایا کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا ہے کہ جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے اور آپ لوگوں کو دین میں فوج درفوج داخل ہوتے دیکھئے اورتو اپنے رب کی حمد وثناء اور پاکی بیان کیجئے اور توبہ و استغفار کیجئے ،بے شک آپ کا رب توبہ قبول کر نے والا ہے۔
مگر جب آپ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضى الله عنہما سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا: اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے انتقال کی خبر دی ہے اور بتایا ہے کہ جب اللہ کی مدد آجائے اور مکہ فتح ہو جائے اور لوگ اسلام میں جوق درجوق داخل ہوں تو آپ اپنے رب کی تعریف و تسبیح میں لگ جائیے اور توبہ و استغفار کر تے ہوئے آخرت کی تیاری کیجئے، چنانچہ اب مکہ فتح ہو چکا ہے، لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہو رہے ہیں،اور اللہ نے جس مقصد كے لئے آپ کی بعثت فر مائی تھی وہ مقصد حاصل ہو گیا ہے، لہٰذا اب آپ کا مشن ختم ہو چکا ہے، اب آپ سفر آخرت کی تیاری کیجئے ۔ اسی بناء پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سورہ پڑھتے تو فرماتے کہ اللہ نے مجھ کو اختیار دیا ہے چاہے میں دنیا کو پسند کروں یا آخرت کو۔یہ سن کر حضرت عمر رضى اللہ عنہ نے فرمایا : ابن عباس رضى اللہ عنہ نے اس آیت کے بارے میں جو بتا یا ہے میں بھی وہی جانتا ہوں، اور اگر یہ کچھ اور بتاتے تو میں کہتاکہ انھوں نے غلطی کی ہے، اس طرح حضرت عمررضى اللہ عنہ نے لوگوں کو احساس دلایا اور بتایا کہ ابن عباس رضى الله عنہما کو اپنی خصوصی مجلسوں میں شریک کر نے کی وجہ ان کا علم وفضل ہے۔(صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري :4/ 248)
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ علم ترقی کا باعث ہے ، اس سے افراد کی بھی ترقی ہوتی ہے، اور پوری قوم کی بھی، بہر حال معلم علم کی نشر واشاعت کرکے قوم اور افراد کو ترقی دینے والا ہوتاہے۔ اس اعتبار سے تعلیم اور معلّمین کا بڑا مقام ہے ۔
تعلیم قرآن نزول رحمت وسکینت کا باعث
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طویل حدیث میں فرمایا:’’مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِى بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلاَّ نَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمُ الْمَلاَئِكَةُ وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ ‘‘(صحيح مسلم : 8/ 71)
جب بھی کچھ لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اکٹھا ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت کرتے اور اس کے معانی ومطالب کو سمجھتے سمجھاتے، اس کا درس دیتے اور سنتے ہیں تو ان پر سکینت کا نزول ہوتا ہے،ان پر رحمت الٰہی سایہ فگن ہوتی اور انہیں فرشتے گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کا تذکرہ اپنے پاس کے مقرب فرشتوں میں کرتا ہے۔
اس سے معلوم ہوتاہے کہ کتاب اللہ کی تلاوت اور اس کے درس وتدریس کا عمل بڑا ہی با برکت اور عظیم المرتبت عمل ہے ، تبھی توایسی مجلسوں میں فرشتے شرکت فرماتے ہیں اور اس عمل میں مشغول لوگوں پر اللہ کی رحمت اور سکینت کا نزول ہو تا ہے۔اور ان کے اس نیک عمل کا تذکر ہ اللہ تعالیٰ اپنے مقرب فرشتوں کے درمیان کرتا ہے۔
معلم قرآن سب سے بہتر
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ ‘‘(صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري: 6/ 236)
تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن کو خود سیکھے اور دوسروں کو بھی سکھائے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی تعلیم دینے والے کی بڑی فضیلت ہے اور اللہ کے نزدیک ایسا شخص سب سے بہتر اور افضل ہے۔
یاد رہے کہ یہاں قرآن کریم کی تعلیم میں قرآن ناظرہ پڑھانا، حفظ کرانا،تجوید و قراء ت کی تعلیم دینا اور اس کا ترجمہ اور تفسیربتانا سب داخل ہیں۔قرآن کی تعلیم کسی طرح کی بھی ہو سب ْ ’’ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ ‘‘کے عموم میں داخل ہیں، اور سبھی ’’خیر‘‘ کا باعث ہیں۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اساتذہ و معلّمات کو اگر ایک دو گھنٹیاں ناظرہ قرآن یا حفظ و تجوید کی دے دی جائیں تو ناک بھوں چڑھاتے ہیں ، اوراسے اپنے لئے ذلت و حقارت کی بات سمجھتے ہیں۔یہ سوچ غلط ہے ،قرآن کریم کی تعلیم بہر صور ت بڑے خیر وبرکت کی چیز ہے ،اس کا معلم بہر صورت ’’ خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ ‘‘ کا مصداق ہے۔
علاوہ ازیں قرآن پڑھانے والا استاذ ایک ایک حرف پڑھنے پر دس دس نیکیاں پائے گا ، اور اس کے یہ تلامذہ نماز میں یا خارج نماز جب بھی قرآن پڑھیں گے اس کو بھی اس کا ثواب ملے گا ۔ غور فرمائے کہ یہ کتنا بابرکت عمل ہوا، اس واسطے ناظرۂ قرآن وغیرہ کی تعلیم کو بھی حقیر نہیں سمجھنا چا ہئے ۔
استاذ حدیث كے لئے دعاء نبوی
قر آن کی تعلیم و تدریس کی طرح احادیث کی تعلیم کی بھی بڑی فضیلت ہے، جس بندہ کو اللہ کی جانب سے یہ توفیق مل جائے کہ وہ حدیث نبوی کو سنے،اسے یاد کرے،اس کے معانی ومطالب کو سمجھے اور پھر اسے تعلیم و تدریس کے ذریعہ دوسروں تک پہونچائے و ہ بڑا ہی خوش نصیب ہے۔اس كے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی ہی اچھی دعا ہے ۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَيْسَ بِفَقِيهٍ ‘‘(رواہ الشافعي بسند صحيح والبيهقي في المدخل,  انظر المشکاة : ۱ ؍ ۷۸)
اللہ اس بندے کو تروتازہ اور خوش و خرم رکھے جس نے میری حدیث کو سنا، پھر اسے یاد کیا ، پھر اسے سمجھا اور دوسروں تک پہونچایا،کیونکہ کبھی حامل فقہ(حافظ حدیث)غیر فقیہ ہو تا ہے اور کبھی یہ حامل فقہ (حافظ حدیث) ایک ایسے شخص تک حدیث پہونچاتا ہے جو اس سے زیادہ فقیہ ہو تا ہے۔
یعنی حدیث کے سننے، یاد کرنے اور سمجھنے کے بعد دوسروں تک پہونچانے میں مصلحت اور فائدہ یہ ہے کہ کبھی یہ حافظ حدیث فقیہ نہیں ہو تا ، اور حدیث کا جو ظاہری مفہوم ہے اس سے زیادہ اور مسائل کا استنباط واستخراج وہ اس سے نہیں کر سکتا،اور دوسرا شخص جس تک یہ حدیث پہونچاتا ہے وہ فقیہ ہو تا ہے،ا ور اس سے وہ اوربہت سے مسائل کا استنباط کرلیتا ہے۔اور کبھی یہ فقیہ ہو تا ہے مگر دوسرا اس سے بڑا فقیہ ہو تا اور اس سے زیادہ مسائل کے استنباط کی صلاحیت رکھتا ہے چنانچہ وہ اس حدیث سے اور بہت سارے مسائل کا حل اور جواب نکال لیتا ہے۔
اس حدیث سے احادیث نبویہ کے سننے ،پڑھنے ،یاد کرنے ،سمجھنے اور تعلیم وتبلیغ کے ذریعہ دوسروں تک پہچانے کی بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ نیز اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حفظ حدیث کے ساتھ فقہ الحدیث کی بھی بڑی اہمیت ہے، اور فقہ اور فقہاء کا بڑا مقام ہے کیونکہ فقہ کی خاطر ہی احادیث کی تعلیم وروایت کا حکم دیا گیا اور یہ فضیلت بتائی گئی ہے ۔
تعلیم ایک فریضہ اور کتمان علم موجب عذاب
تعلیم صرف ایک معزز اور فضیلت والا عمل ہی نہیں بلکہ ایک اہم دینی فریضہ ہے۔اسی سے دین کا قیام اور علم کی بقا ء ہے،اگرتعلیم و تدریس کا سلسلہ بند ہو جائے تو علم کا خاتمہ ہو جائے گا ،اور ہر طرف جہالت کا دور دورہ ہو گا، لوگ اپنے دین،اخلاق اور تہذیب وتمدن سے نابلد اوردور ہوجائیں گے، اس واسطے اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب سے تعلیم کا عہد وپیمان لیا: وَإِذَ أَخَذَ اللّهُ مِيْثَاقَ الَّذِيْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ لَتُبَيِّنُنّهُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَکْتُمُونَه     (آل عمران: ١٨٧) اور جب اللہ نے ان لوگوں سے جو کتاب دئے گئے یہ عہد لیا کہ اسے لوگوں سے بیان کرو گے اور چھپاؤ گے نہیں۔
اور ضرورت کے باوجود تعلیم سے روگردانی کرنے والوں اور علم کو چھپانے والوں کے بارے میں یہ خبر دی کہ ان پر اللہ کی اور لعنت کرنے والوں کی لعنت ہوتی ہے ،ارشاد باری ہے: إِنَّ الَّذِيْنَ يَکْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِنَاتِ وَالْهُدَی مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِیْ الْکِتَابِ أُولَئِکَ يَلعَنُهُمُ اللّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ  (البقرة: ١٥٩ )
جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجود یکہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں كے لئے بیان کر چکے ہیں ، ان لوگوں پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے ۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم حاصل کرنے کے بعد اسے دوسروں تک پہچانے کا حکم دیا اور فرمایا:’’ لِيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ ‘‘ (رواہ البخاری :۱؍۱۹۸ (۱۰۴) جو یہاں موجود ہے وہ اس شخص تک پہونچا دے جو یہاں حاضر نہیں ہے۔
اور کتمان علم کو اتنا بڑاجر م قرار دیاکہ اس کی بنا پر قیامت کے دن آگ کی لگام لگائے جا نے کی وعید سنائی، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَهُ ثُمَّ كَتَمَهُ أُلْجِمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ ‘‘(رواہ احمد وابوداود والترمذی وحسنہ،وقال الألبانی:اسنادہ صحیح)جس سے کوئی علمی بات پوچھی گئی اور وہ اسے معلوم تھی پھر بھی اس نے اسے چھپایا تو قیامت کے دن اسکے منہ میں آگ کی لگام لگا ئی جائے گی۔
اور ایک حدیث میں ہے:’’ طَلَبَ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ ‘‘(رواه ابن عبد البر والبيهقي: وجمع السيوطي طرقه حتی أو صلها الیٰ الخمسين وحکم من اجلها علی الحديث بالصحة ، وحکی العراقي صحته عن بعض الائمة ، وحسنه غير ما واحد وقال الألبا ني: صحيح. انظرصحيح الجامع الصغير:4/11 ح 3809) علم کا طلب کرنا ہر مسلمان پر فر ض ہے۔
اور ظاہر ہے کہ جب ہر مسلمان پر علم کا حصول فرض ہے تو علماء اور مدرسین پر تعلیم وتدریس بھی فرض ہو گی، کیونکہ تعلیم کے بغیر حصول علم نا ممکن ہے اور قاعدہ ہے’’  مَالا يَتِمُّ الْوَاجِبُ اِلّا بِهِ فَهُوَ وَاجِبٌ ‘‘ یعنی جس کے بغیر کوئی واجب مکمل نہ ہو تو وہ بھی واجب ہو تا ہے، اورغالباً اسی بنا پر کتمان علم پر وہ وعیدیں وارد ہیں جن کا تذکرہ اوپر ہو چکا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تاکید کرتے ہوئے فر مایا: ’’ بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً ‘‘ (صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 4/ 207) میری جانب سے پہنچادو خواہ ایک آیت ہی کیو ں نہ ہو۔
اس حدیث میں’’ بَلِّغُوا ‘‘ امر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے، اور جب تک کوئی قرینۂ صارفہ نہ پایا جائے امروجوب پر دلالت کر تا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ تبلیغ علم اور تعلیم کتاب و سنت فرض ہے۔
اور تدریس بھی تعلیم و تبلیغ کا ایک ذریعہ ہے اس لئے یہ بھی فرض ہوگی،البتہ دوسرے دلائل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم بعض حالات میں فرض عین اور بعض حالات میں فرض کفایہ ہے ، جہاں صرف ایک ہی عالم لوگوں کے مسائل کو صحیح طریقہ پر سمجھنے اور سمجھانے والا ہووہاں اس کے اوپر ان کی تعلیم فرض عین ہوگی۔اورجہاں بہت سے علماء ہوں اور چند ایک کے تعلیم و تدریس کا کام انجام نہ دینے سے اس پر کوئی اثر پڑنے والا نہ ہو وہاں پر فرض کفایہ ہو گی ۔
بہرحال مجموعی طور سے مسلمانوں کا لحاظ کیجئے تو یہ فرض کفایہ ہے یعنی ہر بستی اور ہر قوم میں کچھ ایسے علماء کا ہونا فرض ہے جو وہاں لوگوں میں تعلیم و تربیت ،انذار وتبشیر اور امر بالمعروف والنھی عن المنکر کا فریضہ انجام دیں ،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:   وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُواْ کَآفَّةً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقّهُواْ فِیْ الدِّيْنِ وَلِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (التوبة: ١٢٢ ) اور مؤمنوں کو یہ نہیں چاہئے کہ سب کے سب (حصول علم كے لئے ) نکل کھڑے ہوں، ایساکیوں نہیں کرتے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت نکل کر جایاکرے تاکہ وہ دین کا علم حاصل کریں اور یہ لوگ جب اپنی قوم میں واپس آئیں توان کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں۔
باب ثانی
کامیاب معلم کے اوصاف
تعلیم و تربیت کا عمل ایک بڑا ہی مقدس ، اہمیت کا حامل اور مشکل عمل ہے ۔ اس کو نتیجہ خیز اور صحیح طریقہ پر انجام دینے اور اس میں کامیاب ہونے کے لئے معلم کے اندر چند اوصاف کا پایاجانا نہایت ضروری ہے ۔ جو درج ذیل ہیں:
(۱)اخلاص:
ایک کامیاب معلم كے لئے سب سے پہلا اور ضروری وصف یہ ہے کہ وہ اپنے تدریس و تعلیم کے عمل میں مخلص ہو، اور اس کا اس عمل سے مقصد حصول رضائے الٰہی،احیاء علوم کتاب وسنت، شریعت اسلامیہ کی نشرو اشاعت،اصلاح معاشرہ،اور لوگوں کو شرک وکفر اور بدعات وخرافات سے نکال کر کتاب وسنت کی شاہراہ اور توحید وہدایت کے صراط مستقیم پر لگانا ہو۔
اس سے مقصد کوئی دنیوی غرض،حصول مال ودولت،جاہ و منصب،معاصرین پر فوقیت ، شہرت،طلبہ اور عوام کی بھیڑ جمع کرنا،دوسرے علماء کو شکست دے کر انہیں خاموش کر نا وغیرہ نہ ہو ۔
اس لئے کہ تعلیم وتعلّم ایک عبادت ہے جیسا کہ حدیث’’’’مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِى بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ ‘‘الخ سے معلوم ہو تا ہے،اور عبادت کی صحت اور قبولیت كے لئے اخلاص اور صحیح نیت شرط ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ حُنَفَاء وَيُقِيْمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّکَاةَ وَذَلِکَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ (البينة: ٥ ) انہیں حکم نہیں دیا گیا مگر اس کا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اس حال میں کہ وہ اسی كے لئے ا طاعت کو خالص کر نے والے ہوں۔
اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى ، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا ، أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ ‘‘(صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 1/ 2 , صحيح مسلم : 6/ 48)
تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے،اور ہرشخص كے لئے اس کی نیت کے مطابق اجر ہے ، چنانچہ جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول كے لئے ہے۔اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی کا سبب ہے،اور جس کی ہجرت دنیا کے حصول یا کسی خاتون سے شادی كے لئے ہے اس کی ہجرت اسی كے لئے ہے جس كے لئے اس نے ہجرت کی۔
اورجب ہجرت جیسا عمل جس میں آدمی اپنے گھر بار اور اعزاء واقارب کو چھوڑ کر دوسری جگہ چلا جاتا ہے بغیر سچی نیت کے عند اللہ مقبول اور مفید نہیں تو تعلیم وتدریس کا عمل بغیر اخلاص کے کیسے مقبول اور رضاء الٰہی کاموجب ہو گا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور بہت سے دوسرے مؤلفین نے اسی حدیث سے اپنی کتاب کا آغاز فرمایا ہے، اور اس سے ان کا مقصد اس کتاب کے پڑھنے اور پڑھانے والوں کو متنبہ کرنا ہے کہ وہ اپنی نیتوں کی اصلاح کرلیں،اور پڑھنے پڑھانے کا مقصد رضائے الٰہی اورا علاء کلمۃ اللہ کو بنالیں، کیونکہ اگر نیت درست نہیں تو یہ پڑھنا پڑھانا بے کار ، بلکہ وبال جان ہے، اور آخرت میں عذاب الٰہی کا موجب ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا يُبْتَغَى بِهِ وَجْهُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لاَ يَتَعَلَّمُهُ إِلاَّ لِيُصِيبَ بِهِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْيَا لَمْ يَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. يَعْنِى رِيحَهَا. (رواه احمد وابوداود وابن ماجه وصححه الحاکم والذهبي ، وقال العراقي : جيد ، وقال الألباني : اسناده صحيح.مشکاة:۱؍۷۸)
جس نے کوئی علم جس سے اللہ کی رضا مندی مطلوب ہو تی ہے دنیاوی فائدہ كے لئے حاصل کیا تو اس کو قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نہیں ملے گی۔
اور حضرت کعب بن مالک  رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِيُجَارِىَ بِهِ الْعُلَمَاءَ أَوْ لِيُمَارِىَ بِهِ السُّفَهَاءَ أَوْ يَصْرِفَ بِهِ وُجُوهَ النَّاسِ إِلَيْهِ أَدْخَلَهُ اللَّهُ النَّارَ ‘‘(رواه الترمذي وقال: غريب ، وقال الالباني:لکن يشهد له الحدثيان بعده . انظر المشکاة:۱؍۷۷)
جو شخص اس واسطے علم حاصل کرتا ہے تاکہ اس کی وجہ سے علماء پر فخر کرے،یا اَن پڑھ اور کم سمجھ لوگوں سے جھگڑا کرے، یا لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرے، تواللہ تعالیٰ اس کو جہنم میں داخل کرے گا ۔
اور حضرت ابو سعید خدری رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ إِنَّ أَوَّلَ النَّاسِ يُقْضَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ عليه رَجُلٌ اسْتُشْهِدَ فَأَتَى بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعْمَتَهُ فَعَرَفَهَا، فَقَالَ: مَا عَمِلْتَ فِيهَا ؟ فَقَالَ: قَاتَلْتُ فِي سَبِيلِكَ حَتَّى اسْتُشْهِدْتُ، قَالَ: كَذَبْتَ ولكنك قاتلت لأَنْ يُقَالَ: جَرِيءٌ فَقَدْ ثم أمر بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وعلمه وَقَرَأَ الْقُرْآنَ فَأَتَى بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، فَقَالَ: مَا عَمِلْتَ فِيهَا ؟ قَالَ: تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ وعلمته وَقَرَأْتُ فيك الْقُرْآنَ وَعَلَّمْتُهُ، قَالَ: كَذَبْتَ ولكنك تعلمت العلم ليقال : عالم ، وقرأت القرآن ليقال : هو قارئ فَقَدْ قِيلَ ثم أمر بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللهُ مِنْ أَنْوَاعِ الْمَالِ فَأَتَى بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، فَقَالَ: مَا عَمِلْتَ فِيهَا ؟ فقَالَ: مَا تَرَكْتُ مِنْ شَيْءٍ تُحِبَّ أَنْ أُنْفِقَ إِلَّا أَنْفَقْتُ فِيهِ لَكَ، قَالَ: كَذَبْتَ إِنَّمَا أَرَدْتَ أَنْ يُقَالَ: فُلَانٌ جَوَادٌ فَقَدْ قِيلَ فَأُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ ، وَرَجُلٌ وسَّعَ اللّهُ عَلَيهِ وأَعْطَاهُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ کُلِّهِ ، فَاُتِيَ بِهِ فعرَّفهُ نِعَمَهُ، فَعَرَفَهَا، قَالَ:فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ:مَاتَرَکْتُ مِنْ سَبِيْلٍ تُحِبُّ أن ينْفَقَ فِيهَا اِلاَّأنْفَقْتُ فِيهَا لَکَ قَالَ:کَذَبْتَ، وَلٰکِنَّکَ فَعَلْتَ لِيُقَالَ:هُوَ جَوَادٌ، فَقَدْ قِيْلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فسُحِبَ علٰی وَجْههِ ثُمَّ اُلقِيَ فِي النَّارِ‘‘(رواه مسلم،انظر المشکاة:۱؍۷۱-۷۲)
سب سے پہلے قیامت کے دن جس کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا وہ ایک شہید ہو گا،اس کو لایا جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نعمتوں کی یاد دلائے گا، وہ ان نعمتوں کوپہچان لے گا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس سے فر مائے گا کہ تو نے اس سلسلہ میں کیا عمل کیا ؟ تو وہ کہے گا کہ میں نے تیری راہ میں جہاد کیا یہاں تک کہ شہید کر دیا گیا، اللہ تعالیٰ فر مائے گا تو نے غلط کہا، تو نے اس لئے جنگ کی تھی تاکہ تجھے بہادر کہا جائے، اور تجھے یہ کہا گیا۔ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا اور اس کو منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
دوسرا وہ شخص ہوگا جس نے علم حاصل کیا اور دوسروں کو تعلیم د ی اور قرآن پڑھا، اس کو بھی لا یا جائے گا اور پھر اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کو اسے بتائے گا جن کا وہ اعتراف کرے گا ،پھر اللہ تعالیٰ اس سے فر مائے گا کہ تو نے اس کے بارے میں کیا عمل کیا ؟ وہ کہے گا میں نے علم سیکھا اور دوسروں کو سکھایا اور تیری رضا کے لئے قرآن پڑھا، اللہ تعالیٰ فر مائے گا :تو نے کذب بیانی کی، تو نے علم اس لئے سیکھا تھا تاکہ تجھے عالم اور قاری کہا جا ئے ،اور لوگوں نے تجھے کہا، پھر اس کے بارے میں بھی حکم ہو گا اور منھ کے بل گھسیٹ کر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔
تیسرا وہ شخص ہوگا جس کو اللہ نے ہر قسم کے مال ومتاع سے نوازا ،اس کو بھی لایا جائے گا اور اس کے سامنے بھی نعمتوں کا تذکرہ کیا جائے گا ،وہ ان کا اعتراف کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ فر مائے گا کہ تو نے اس مال سے کیا عمل کیا؟ وہ عرض کرے گا :مولا میں نے کوئی راہ نہ چھوڑی جہاں تیری رضا کے لئے مال خرچ نہ کیا ہو، اللہ تعالیٰ فر مائے گا تو نے کذب بیانی کی، تونے اس لئے مال خرچ کیا تاکہ تجھے سخی کہا جائے، اور وہ کہا گیا، پھر اس کے بارے میں بھی حکم دیا جائے گا اور منہ کے بل گھسیٹ کر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
اس واسطے اساتذہ و معلّمین کو سب سے پہلے اپنی نیتوں کی اصلاح کرنی چاہئے ،ان کا یہ عمل خالصۃً لوجہ اللہ ہونا چاہئے،اور تنخواہ اور دیگر مراعات کو اصل مقصد ہر گز نہیں بنا نا چاہئے،یہ سب ثانوی چیزیں ہیں اور انہیں ثانوی درجہ ہی میں ہی رکھنا چاہئے ،ورنہ آخرت میں ساری محنت رائیگا ں چلی جائے گی اور بڑے بھیانک انجام کا سامنا کرنا پڑے گا۔اَعاذَنا اللّهُ مِن هذِهِ البَلِيَةِ و الخَسَارَةِ۔
(۲) طلبہ کی تعلیم وتر بیت اور اصلاح کا حریص ہو نا:
استاذکو اپنے طلبہ وطالبات کی تعلیم وتربیت اور اصلاح کا بہت حریص ہونا چاہئے،ان کی تعلیمی ترقی اور اصلاح کے لئے خود بھی خوب محنت کرنی چاہئے اور ان سے بھی خوب محنت کرانی چا ہئے ۔ اگر ان کے اندر کوتاہی اور غفلت دیکھے تو انھیں بار بار نصیحت کرے ۔ اچھی طرح سمجھائے، علم کی اہمیت وفضیلت بتائے ۔ان کی کامیابی اور ہدایت کے لئے دعائیں کرے۔ اوراگر اس کی محنت اور جد وجہد کے باوجود کوئی طالب علم راہ راست پر نہیں آتا تو اسے اس پر غم اور افسوس ہو ۔
ایک استاذکو اپنے طلبہ کی تعلیم وتربیت کی ہر وقت فکر رہنی چاہئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو معلم انسانیت تھے اور جن کی زندگی تمام اساتذہ ومعلّمات کے لئے اسوہ اور نمونہ ہے آپ کو اپنی امت کی اصلا ح و ہدایات کی اس قدر فکر تھی کہ شب و روز اس کے لئے محنت کرتے،ہر طرح سے انھیں سمجھاتے،قر بانیاں دیتے،تکلیفیں برداشت کر تے۔پھر بھی جب وہ راہ راست پر نہیں آتے اور ایمان اوررشد وہدایت کی راہ اور صراط مستقیم پر نہیں چلتے تو آپ کو ایسا غم ہو تاکہ لگتا اس کی وجہ سے آپ اپنے نفس کو ہلاک کر ڈالیں گے۔اللہ تعالیٰ آپ کو خطاب کر کے فرماتا ہے:فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلَی آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيْثِ أَسَفاً  (الكهف: ٦) لگتا ہے اگر یہ لوگ اس قرآن پر ایمان نہیں لائیں گے تو آپ ان کے پیچھے اپنے نفس کو ہلاک کرڈالیں گے۔
اس واسطے اسوۂ نبوی کے مطابق اساتذہ و معلّمات کو بھی اپنے تلامذہ کی تعلیم و تربیت کے لئے بھر پور محنت اورجدوجہد کرنی چاہئے۔طلبہ کو خوب شوق اور جذبہ سے پڑھانا چاہئے۔ کلاس میں ٹائم پاس نہیں کرنا چاہئے۔
(۳)تعلیم و تدریس سے دلچسپی :
کسی بھی عمل میں کامیابی کے لئے اس کا شوق اور دلچسپی سے انجام دینا ضروری ہے ،اگر کسی کام سے دلچسپی نہ ہو اور اسے بادل نخواستہ انجام دیا جائے تو پھر اس میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوتی ہے۔ اور جو شخص بھی کسی کام کو اپنے دل کی آمادگی اور ہنسی خوشی سے انجام نہیں دے گا اس میں وہ کامیاب نہیں ہوگا ۔ اس واسطے تعلیم و تربیت کے عمل میں کامیابی کے لئے بھی اس سے دلچسپی ہونا اور شوق و رغبت سے انجام دینا ضروری ہے اور کسی بھی استاذ اور معلمہ کو تربیت و تعلیم کا پیشہ اختیار کرنے سے قبل یہ جائز ہ لینا ضروری ہے کہ اس کے اندر اس کے لئے رغبت اور خواہش ہے یا نہیں ۔ اور وہ اس کام کو پورے شوق و ذوق اور دلچسپی سے انجام دے سکتا ہے یا نہیں ۔ اگر اس کے اندر اس کا شوق اور قلبی رجحان و میلان ہو تو ٹھیک ہے ورنہ اس خار دار اور دشوار گذار وادی میں اسے قدم نہیں رکھنا چاہئے۔
کچھ لوگوں کو تعلیم و تدریس سے دلچسپی نہیں ہوتی ہے، مگر کسی کے دباؤ کی وجہ سے تدریس کا پیشہ اختیار کرلیتے ہیں اور نا کام رہتے ہیں ، ایسے لوگوں کو چاہئے کہ پوری جرأت سے اس حقیقت کا اعتراف اور اظہار کر کے اس پیشہ کو ترک کردیں اور جس کام سے دلچسپی ہو اس کو اختیار کریں۔ بعض لوگ کوئی کام نہ ملنے کی وجہ سے کسی مدرسہ میں پڑھانے لگتے ہیں ۔ اور بچوں کو محنت سے نہیں پڑھاتے ، بلکہ وقت گذاری کرتے ہیں اور دوسرا کام تلاش کرتے رہتے ہیں اور جیسے ہی دوسرا کام مل جاتا ہے مدرسہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔یہ تعلیم اور طلبہ پر بڑا ظلم ہے ،ایسے حضرات عند اللہ جوا بدہ ہوں گے، مدرسہ کے ذمہ داروں کو بھی ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنا چاہئے۔ جوذمہ داران مدارس ایسے لوگوں کو کم تنخواہ کی بنا پر تلاش کرتے ہیں وہ بھی بہت بڑی غلطی کا شکار ہیں۔انھیں اس سے احتراز کرنا چاہئے ،ورنہ وہ بھی عند اللہ مسؤل ہوں گے۔
(۴)وضع قطع ،صفائی ستھرائی اور اخلاق وغیرہ میں مثالی ہو نا:
اساتذہ کو شکل و صورت ، وضع قطع، لباس، صفائی ستھرائی ، اخلاق و محبت ، وعدہ وفائی ، کلاس میں حاضری ، روزہ، نماز ، وقت کی پابندی اور دیگر تمام ذمہ داریوں اور فرائض اور واجبات کی ادائیگی میں اپنے آپ کو مثالی بنا کر رکھنا چاہئے ۔اس واسطے کہ طلبہ و طالبات ان کو اپنے لئے اسوہ و نمونہ اور آئیڈیل مانتے ہیں۔ انھیں کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔اور جتنا اعتماد انھیں اپنے اسا تذہ و معلّمات پر ہوتا ہے اتنا اعتماد انھیں اپنے والدین پر بھی نہیں ہوتاہے ۔ کیونکہ وہ انکو علم وفضل،تقوی وپرہیز گاری ، اخلاص واخلاق اور حکمت و دانائی میں اعلی معیار پر سمجھتے ہیں۔اس واسطے اساتذہ و معلّمات کو ہمیشہ اپنے منصب ومقام کا خیال رکھنا چاہئے۔ اور ہر چیز میں طلبہ وطالبات کے سامنے بہترین اسوہ پیش کرنا چاہئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو معلم انسانیت تھے آپ کی حیات مبارکہ پر نظر ڈالئے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہر نیک عمل میں دوسرں كے لئے اسوۂحسنہ تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ  (الأحزاب: ٢١) بیشک تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔حضرت عائشہ رضى الله عنہا  جو آپ کی زوجہ مطہرہ تھیں اور آپ کے ظاہری و باطنی اور خارجی و داخلی امور اور تمام حالات سے سب سے زیادہ واقف تھیں وہ فرماتی ہیں: ’’ كَانَ خَلْقُهُ الْقُرْآنَ ‘‘ (مسند أحمد بن حنبل: 6/ 91)آپ کا اخلاق اور آپ کی سیرت قرآن کریم کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔
چنانچہ اگر آپ نے عبادت کا حکم دیا تو آپ کا حال یہ تھا کہ عبادت الٰہی کے لئے اتنی محنت کرتے اور راتوں کو اتنی دیر تک نمازیں پڑھتے کہ آپ کے پاؤں پر ورم آجاتا اور جب آپ سے کہا جاتا کہ آپ کے تو تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کردئے گئے ہیں پھر آپ اس قدر کیوں عبادت کرتے ہیں ؟ تو آپ فرماتے:’’ أَفَلاَ أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا ‘‘ کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔(صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 2/ 63 , صحيح مسلم :  8/ 141)
آپ کے جو د و سخا کا یہ عالم تھا کہ حضرت انس رضى اللہ عنہ کے بقول آپ سے جب بھی کوئی چیز طلب کی گئی آپ کی زبان مبارک سے کسی نے لفظ ’’نا ‘‘نہیں سنا ،ایک بار ایک شخص نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر سوال کیا توآپ نے اس کو اتنی بکریاں عطافرمائیں کہ اس نے اپنی قوم میں جاکر کہا : لوگو! اسلام قبول کرلو، کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اتنا عطاکرتے ہیں کہ پھر فقر وفاقہ کا کوئی خوف نہیں رہتا ۔ ( صحیح مسلم کتاب الفضائل ،باب فی سخاوۃ صلی اللہ علیہ وسلم: ۶؍۳۰)
آپ کے زہد وقناعت کی یہ حالت تھی کہ چٹائی پر سوتے اور آپ کے بدن پر اس کے نشانات بن جاتے، صحابہ کرام  رضى الله عنہم  نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول!کیوں نہ ہم آپ كے لئے ایک بچھونا تیار کر دیں ، جسے آپ چٹائی پر بچھا لیا کریں۔ آ پ نے فرمایا: مجھے دنیا سے کیا لینا دینا ہے، میرا تو اس سے بس اتنا ہی تعلق ہے جیسے کوئی مسافر ایک پیڑ کے نیچے سستانے كے لئے کچھ دیر بیٹھے اور پھر وہاں سے چل د ے ۔(رواہ الترمذی وقال: ھذا حدیث حسن صحیح )
فقر و فاقہ پر صبر کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ کچھ صحابہ کرام رضى الله عنہم  نے اپنے فقر و فاقہ کی شکایت کی اور کرتہ اٹھا کر پیٹ پر بندھا ہو ا پتھر دکھایا اور کہنے لگے : اے اللہ کے رسول! ہم نے شدت بھوک سے پیٹ پر پتھر باندھ رکھا ہے ۔ آپ نے اپنے بطن مبارک سے چادر ہٹائی تو شکایت کرنے والے صحابی نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیٹ پر ایک کے بجائے دو پتھر باندھ رکھے ہیں ۔ پھر وہ بھی صبر و رضا کا پیکر بن گیا ۔ ( رواہ الترمذی : ۴؍ ۵۸۵ (۲۳۷۱)
آپ کے اللہ پر توکل و اعتماد اور حوصلہ کی بلندی کا یہ عالم تھا کہ ایک غزوہ سے واپسی میں ایک منزل پر پہونچ کر آپ نے صحابہ کرام ث کو آرام کرنے کا حکم دیا اور خود بھی اپنی تلوار ایک ببول کے درخت پر لٹکا کر آرام فرمانے لگے ، تھوڑی دیر بعد ایک دشمن ادھر آنکلا ، آپ کو سوتا دیکھ کر اس نے موقع کو غنیمت سمجھا ،اورآپ کی تلوار اپنے ہاتھ میں لے کر ناپاک ارادہ سے اسے سونتا کہ آپ کی آنکھ کھل گئی، آپ فوراً کھڑے ہو گئے ۔ دشمن نے تلوار دکھا تے ہوئے کہا:’’ مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي ؟‘‘ اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ نے بڑے اعتماد اور حوصلہ و جرأ ت سے فرمایا: ’’ اللَّهُ ‘‘، یہ سن کر اس کے ہاتھ پاؤں تھر تھر کانپنے لگے اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر گئی، آپ نے تلوار اٹھا لی اور فرمایا: ’’ مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي ؟ ‘‘ بتا ؤ اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا ؟ یہ سن کر وہ دشمن معافی مانگنے لگا اور آپ سے کبھی نہ لڑنے کا عہد کیا تو آپ نے اسے معاف کردیا۔( صحيح البخاري: 4/ 48)
غرضیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبادت وریاضت ،جود وسخا، صدق وصفا ، امانت و دیانت، جرأت و شجاعت ، زہدو تقو ی ، صبر و ضبط ، اخلاق و محبت، وعدہ وفائی وغیرہ ہر چیز میں لوگوں كے لئے اسوہ و نمونہ تھے ۔
اسی طرح اساتذہ و معلمات کو بھی اپنے تلامذہ کے لئے ہر اچھی چیز میں اسوہ اورنمونہ ہونا چاہئے، ورنہ ان کی تعلیم و تربیت کا خاطر خواہ فائدہ نہ ہوگا۔ کیونکہ حسن عمل اور اعلی کردار کے بغیر نہ تعلیم و تر بیت مؤثر ہوتی ہے ،نہ وعظ و نصیحت ۔ بلکہ اس پر اللہ کی وعید ہے، ارشاد خدا وندی ہے:يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ (2) کَبُرَ مَقْتاً عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ  (الصف: ٢ - ٣)
اے مومنو! تم ایسی باتیں کیوں کہتے ہو جن پر خود عمل نہیں کرتے، اللہ کے نزدیک یہ بڑی ناپسندیدہ اور ناراضگی کی بات ہے کہ تم لوگ ایسی باتیں کہو جن کو تم خود نہیں کرتے ۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بسند صحیح مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: قیامت کے دن ایک شخص کو لا کر جہنم میں ڈالا جائے گا ۔ جہنم میں اس کی انتڑیاں با ہر آجائیں گی اور وہ ان کے درمیان اس طرح چکر کاٹے گا جیسے گدہا چکی کولے کر گھومتا ہے، یہ دیکھ کر اہل جہنم اس کے ارد گرد جمع ہوجائیں گے اور کہیں گے: اے فلاں! یہ تم کو کیا ہوا؟ کیا تم دنیا میں لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے منع نہیں کرتے تھے ؟ وہ کہے گا: ہاں ایسا ضرور تھا، لیکن میں تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتا تھا اور خود نہیں کرتا تھا ، اور تمہیں بری باتوں سے روکتا تھا اور خود کرتا تھا ، اس واسطے آج مجھے یہ سزا دی گئی ہے۔(متفق علیہ)
بہر حال اساتذہ و معلّمات کو اعمال صالحہ ، اخلاق فاضلہ، شکل و صورت، لباس اور وضع قطع، منکرات و محرمات سے اجتناب اور ہر اچھی چیز میں اپنے طلبہ و طالبا ت اور تمام لوگوں كے لئے بہتر ین نمونہ ہونا چاہئے۔ اسواسطے کہ طلبہ کلاس میں صرف استاذ کے درس اور لیکچر کو نہیں سنتے، بلکہ ان کے لبا س ، وضع قطع ،عادت و اطوار اور عقائد و خیالات وغیرہ کا بھی اثر لیتے ہیں ۔ لہٰذا اگر اساتذہ کر ا م طلبہ کی صحیح تعلیم و تربیت کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اپنا جائزہ لیں اور جو اعلیٰ اقدارواوصاف ان کے اندر پیدا کرنا چاہتے ہیں پہلے اپنے اندر پیدا کریں ۔طلبہ میں ا نھیں چیزوں کا انعکاس ہوگاجو اساتذہ میں ہوگا ۔
(۵)باصلاحیت ہونا:
ایک مدرس کے لئے ضروری ہے کہ وہ جس فن یا کتاب کو پڑھانے کے لئے لے اس میں اسے اچھی طرح مہارت حاصل ہو ،یا کم از کم اس کے اندر اتنی لیاقت اور صلاحیت ہو کہ وہ مطالعہ کرکے اس کی تیاری کرسکے اور طلبہ کو اسے اچھی طرح پڑھاسکے اور اس کا حق ادا کرسکے ۔ اگر کسی کے اندر اتنی علمی لیاقت نہ ہو تو اس کے لئے تدریس کا عمل مناسب نہیں ، البتہ اگر وہ بڑی جماعت کی کتابوں اور طلبہ کو نہ پڑھاسکتا ہو مگر چھوٹی جماعتوں میں تدریس کا عمل بآسانی انجام دے سکتا ہو تو بلا تکلف صدر مدرس سے اظہار حقیقت کر کے جس جماعت کی کتابوں کو بآسانی پڑھاسکتا ہو اس کی گھنٹیاں لے لے ۔ اور اگر کوئی خاص مضمون یا خاص کتاب پڑھانے میں اس كے لئے پریشانی ہوتو ذمہ داروں سے کہہ کر اس کے بدلے دوسرا مضمون یا کتاب لے لے ،ویسے نئے مدرسین كے لئے زیادہ مناسب یہی ہوتا ہے کہ کسی بھی فن کو اس کی ابتدائی کتابوں سے پڑھانا شروع کریں اور جب ایک دو سال اسے پڑھالیں اور اچھی طرح اس کتاب کو سمجھ لیں اور اطمینان ہوجائے تب اس سے اونچی کتاب پڑھائیں ، اس طرح آہستہ آہستہ آگے بڑھتے رہیں اور پھر بڑی بڑی کتابوں کو پڑھانے لگیں ۔
 بعض اساتذہ کو ہم نے دیکھا ہے کہ وہ ذہین ، محنتی اور با صلاحیت و باہمت ہوتے ہیں اور شروع ہی سے بڑی کتابیں پڑھانے لگتے ہیں مگر ایسا کم اور عموما چھوٹے مدارس میں ہوتا ہے۔ بہر حال مدرس جو فن یا کتاب پڑھائے اس کو اس پر دسترس اور عبور ہونا چاہئے اور بلا صلاحیت اور علم کے پڑھانا درست نہیں ،ارشاد باری ہے : وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ أُولئِکَ کَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً   (الإسراء: ٣٦) جس چیز کاتمہیں علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو، بیشک کان ، آنکھ اور دل کے بارے میں ان میں سے ہر ایک سے سوال کیا جائے گا ۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : قُلْ َهذِهِ سَبِيْلِیْ أَدْعُو إِلَی اللّهِ عَلَی بَصِيْرَةٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ  (يوسف: ١٠٨)اے نبی کہہ دیجئے یہ میرا راستہ ہے ، میں اور میرے متبعین بصیرت کے ساتھ اللہ کی جانب دعوت دیتے ہیں ۔
(۶)متواضع ہونا:
استاذ کو ہمیشہ متواضع ہو نا چاہئے، اور تعلي اور فخرو مباہات سے اجتناب کرنا چاہئے ،تواضع ہر آدمی کا بہترین زیور ہے، اس سے اس کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوتاہے،لوگ اس سے محبت اور اس کی مجلسوں سے خوب استفادہ کرتے ہیں ،اور متکبرشخص سے لوگوں کو نفرت ہوتی ہے،کہتے ہیں جو درخت جتنا زیادہ پھل دار ہوتا ہے وہ اتنا ہی جھکا ہوا ہوتا ہے ،اسی واسطے جس استاد کے پاس جتنا زیادہ علم ،صلاحیت اور تقوی وپرہیزگاری ہو اسے اتنا ہی متواضع ہونا چاہئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بعض اوقات کوئی اعرابی آجاتا اورآپ کے ساتھ گستاخی اور بے ادبی سے پیش آتا، مگر آپ خندہ پیشانی سے اس کو جواب دیتے اور صبر وضبط سے کام لیتے ۔تواضع آپ کا شیوہ تھا، آپ خود تکبر اور فخرو مباہات سے بچتے تھے اور صحابہ کرامث کو بھی بچنے کی تلقین کرتے تھے۔
ہمارے اسلاف کے تواضع کا یہ حال تھا کہ جب ابو جعفر منصور نے حج کیا تو وہ مدینہ منورہ بھی آیا ،وہاں اس نے امام مالک  رحمہ الله کو بلایا اور کہا : میں چاہتا ہوں کہ آپ کی کتاب ’’الموطأ‘‘ کے متعدد نسخے بنوا ؤں اور ایک ایک نسخہ ہر شہر میں بھیج دوں اور لوگوں کو حکم دوں کہ جو مسائل اس میں ہیں انھیں پر عمل کریں ۔اور ان کے علاوہ جو مسائل ان کے پاس ہوں ان کو ترک کریں ۔کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں اس کی اصل اہل مدینہ کی روایت اور ان کا علم ہے ۔مگر امام مالک  رحمہ الله نے عرض کیا : امیر المؤمنین! ایسا نہ کیجئے ،لوگوں کے پاس اس سے پہلے بہت سی باتیں پہونچی ہیں ،لوگوں نے بہت سی حدیثیں سنی ہیں،صحابہ کے اقوال و فتاوی پر ان کا عمل ہے ،اور اب ان کے لئے ان فتاووں اور احادیث کا چھوڑنا بہت گراں اورمشکل ہو گا۔اس واسطے جن مسائل پر وہ عمل کرتے ہیں انھیں کرنے دیجئے اور اس کتاب پر عمل کرنے پر مجبور نہ کیجئے ۔
ایک مرتبہ عبد الرحمن بن قاسم رحمہ الله نے امام مالک  رحمہ الله سے کہا: اہل مصر سے زیادہ میں کسی کو بیوع کا علم رکھنے والا نہیں جانتا، امام مالک رحمہ الله نے پوچھا : ایسا کیوں ہے ؟ انھوں نے عرض کیا : آپ کی وجہ سے ۔ امام مالک رحمہ الله نے فرمایا: میں تو خود بیوع نہیں جانتا ،پھر وہ لوگ میری وجہ سے اس کو کیسے جانیں گے ؟ یہ تھا اما م مالک رحمہ الله کا تواضع۔
اور اس میدان میں امام مالک ؒ اکیلے نہیں ہیں، بلکہ ہمارے اسلاف کا یہی طریقہ تھا۔ امام شافعیؒ فرماتے تھے : میری خواہش ہے کہ لوگ مجھ سے یہ علم سیکھ لیں اور اس کی نسبت میری جانب نہ کریں اور نہ ہی لوگ میری تعریف کریں، تاکہ مجھے اس کا اجرو ثواب ملے ۔
بہر حال استاذ کو تواضع اختیار کرنا چاہئے اور کبر و نخوت اور بیجا ڈینگ ہانکنے سے اجتناب کر نا چاہئے۔
(۷)باہمّت ہونا:
ایک استاذ کوباہمت اور بارعب ہونا چاہئے، تاکہ وہ پوری جر ا ء ت اور اطمینان قلب کے ساتھ طلبہ کو کلاس میں پڑھا سکے ،ان کے اخلاق و عادات کی اصلاح کر سکے ، ان کے اعتراضات اور سوالات کے جواب دے سکے ، ان کے ساتھ بحث و مباحثہ کر سکے ۔ اور اس کے رعب کی وجہ سے طلبہ مطالعہ کرکے اور سبق و آموختہ یاد کرکے آئیں ، اور ہوم ورک وغیرہ کرنے میں سستی نہ کریں ، اس کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھیں،اور ادارہ کے اصول و ضوابط کی پابندی کریں۔
شروع شروع میں ہر استاذ و معلمہ کو کلاس میں طلبہ کے سامنے کھڑے ہونے اور بولنے اور اسباق کے پڑھانے میں کچھ خوف محسوس ہوتا ہے اور گھبراہٹ ہوتی ہے ، لیکن آہستہ آہستہ یہ خوف ختم ہوجاتا ہے، ہمت مضبوط اور جھجک دور ہوجاتی ہے ، اور پھر ایسی عادت ہوجاتی ہے کہ درس اور لیکچر وغیرہ میں ذرا بھی پریشانی نہیں ہوتی ۔ مگر کچھ لوگ دل کے بڑے کمزور اور پست ہمت ہوتے ہیں ، اور کلاس میں جانے کے تصور سے ہی وہ پریشان ہوجاتے ہیں ، اور کلاس میں پہونچ کر تھر تھر کانپنے لگتے ہیں ،ہوش و حواس کھو دیتے ہیں ، زبان خشک ہوجاتی ہے ، چہرے کا رنگ فق ہوجاتاہے اور جب بھی پڑھانے جاتے ہیں ان کا یہی حال ہوتا ہے ، چنانچہ نہ وہ درس کی تشریح خاطر خواہ انداز میں کر پاتے ہیں ،نہ کلاس میں طلبہ پر کنٹرول کرپاتے ہیں، نہ طلبہ پر ان کا رعب رہتا ہے کہ اسباق و آموختہ یاد کر یں اور ہوم ورک کرکے لائیں، نہ وہ طلبہ سے ادارہ کے قوانین کی پابندی کراپاتے ہیں ، اس طرح وہ تعلیم و تربیت کے عمل میں بالکل ناکام رہتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو تعلیم و تربیت کا عمل ترک کر کے کوئی دوسرا کام کرنا چاہئے ، اور اس میدان میں انھیں لوگوں کو قدم رکھنا چاہئے جن لوگوں کے پاس ہمت و جرأت ہو، جو اپنی بات کو بلا جھجک طلبہ کے سامنے پیش کرسکیں ،جو عبارت خوانی اور مسائل کی تشریح کرتے وقت نہ گھبرائیں ،نہ ڈ ریں ،جو طلبہ پر کنٹرول کرسکیں، جو طلبہ کے اعتراضات کا بے با کی سے جواب دے سکیں، جو ان کی شرارتوں اور شور ہنگاموں سے دل برداشتہ نہ ہوں، بلکہ کمال جرا ء ت ودانشمندی سے ان کا علاج کر سکیں، جو حق بات کہیں اور’’ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنے ہوئے بیٹھے نہ رہیں۔
بہر حال اخلاص وعلم کے ساتھ اساتذہ ومعلمات میں مناسب جراء ت وہمت کی بھی ضرو ر ت ہے۔اس کے بغیر تعلیم وتربیت کا عمل صحیح طریقے پر انجام نہیں دیا سکتا۔
(۸)خوش اخلاق وملنسارہونا:
معلم کو بڑاہی خوش اخلاق ، صابر ،ملنسار اور خوش طبع ہونا چاہے، اسے طلبہ وطالبات سے ہمیشہ خندہ پیشانی اور نرمی سے پیش آنا چاہئے۔انھیں اپنے بچوں کی طرح سمجھنا چاہئے،ان کے ساتھ شفقت و محبت کا سلوک کرنا چاہئے ، اگر کوئی طالب علم بیمار ہو تو مزاج پرسی کرنا اور اس کے دوا علاج کی فکر کرنی چاہئے ،چھوٹے بچوں کو تسلی دینا اور حال چال معلوم کرنا چاہئے ،اگر کوئی بچہ غریب اور مالی اعتبار سے کمزور ہے تو بقدر استطاعت اس کی مدد کرنا یا سفارش کرنا چاہئے ۔اسی طرح اگر کوئی بچہ پڑھنے میں کمزور ہے تو درس سے خارج اوقات میں اس کو پڑھا دینا یا کسی اچھے اور ذہین طالب علم کو اسے پڑھانے كے لئے لگا دینا چاہئے ، اس سے ان کی ہمت افزائی ہوتی ہے ،مدرسہ اور اس کے ماحول سے وہ جلدمانوس ہوجاتے ہیں اور پڑھنے میں ان کا دل لگنے لگتا ہے اور کامیاب ہو جاتے ہیں اور کبھی ان سے بے ادبی اور نالائقی سرزد ہو جائے تو ان سے الجھنے کی بجائے عفو و درگذر سے کا م لینا ، محبت سے انھیں سمجھانا اور اصلاح کرنے کی کوشش کرناچاہئے ۔ اور جب اس سے کام نہ چلے تب زجر وتوبیخ اور سزا کے طریقے استعمال کرنا چا ہئے ۔
بعض علماء کرام نے لکھا ہے کہ بچوں کی اصلاح وسزا کے سلسلہ میں وہی اسلوب اور طریقہ اختیار کرنا چاہئے جو بیو ی کی اصلاح کے لئے شریعت اسلا میہ نے بتا یا ہے ،یعنی پہلے انہیں اچھی طرح سمجھانا چاہئے ، اس سے کام نہ چلے توزجر وتوبیخ کرنا چاہئے ،اس سے بھی کام نہ چلے تو ان سے بات چیت بند کردینا چاہئے، اور اس سے بھی کام نہ چلے تب سزادینا چاہئے، مگر اصلاح کی نیت سے اور مناسب اور ہلکی سزا دیں اور چہرے اور نازک وحساس اعضاء پر نہ ماریں ،مقصد اصلاح ہو، تعذیب نہ ہو ، اور طلبہ کی اصلاح و تربیت میں ان کے سرپرستوں اور دیگر اساتذہ اور ذمہ داروں سے بھی مدد لیں اور جب کسی طرح اصلاح نہ ہو سکے تب اخراج کی سفارش کریں۔
اسی طرح اساتذہ کو اپنے زملاء ،طلبہ کے سرپرستوں اور ادارہ کے ذمہ داروں وغیرہ کے ساتھ بھی خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہئے،اس سے طلبہ وغیرہ پر بڑا اچھا اثر پڑتا ہے، ان کی اخلاقی تربیت ہوتی ہے اور ایک دوسرے سے تعلق خاطر اور محبت ہوتی ہے اور وہ بھی ان کی عزت واحترام اور قدر کر نے لگتے ہیں۔
(۹)زبان وبیان پر قدرت رکھنا:
اساتذہ و معلّمات کو زبان وبیان پر بھر پور قدرت ہو نی چاہئے، تا کہ وہ مضمون ،طلبہ کے معیار، اور حالات وظروف کے مطابق مناسب الفاظ میں اپنے مافی الضمیرکی تعبیر کر سکیں اور اپنی باتوں کو طلبہ کے سامنے اسطرح پیش کر سکیں کہ وہ جلد از جلد اور اچھی طرح سمجھ جائیں اور وہ باتیں ان کے دل وماغ کو اپیل کر سکیں اور ذہن میں راسخ ہو جائیں۔ ان کا اسلوب خوبصورت اوردلکش ہونا چا ہئے، ان کے اندر اتنی صلاحیت ہونی چاہئے کہ مختلف پیرائے میں اپنی باتوں کو سمجھا سکیں اور وقت پر منا سب الفاظ اور جملوں کا استعمال کر سکیں۔ تذکیر وتانیث اور واحد و جمع کے استعمال اور رعایت میں ان سے غلطی نہ ہو۔ وہ الفاظ کے صحیح تلفظ سے واقف ہوں اور انھیں ان کے مخارج کی رعایت کر کے ادا کرتے ہوں، انھیں اچھے اچھے جملے، مثالیں، آیات واحادیث ،حکماء کے اقوال ، مصطلحات ، ضرب الامثال اور اشعار وغیرہ مناسب مقدار میں یادہوں اور ان کابروقت استعمال جانتے ہوں۔ اور زبان و ادب کے اصول وضوابط کی رعایت کرتے ہوئے خوبصورت اور فصیح وبلیغ جملوں کا استعمال کرنے کی قدرت رکھتے ہوں ، ان کی ہر بات مدلل اور دلنشین ہو اور زبان میں لکنت اور تتلاہٹ نہ ہو۔
معلوم رہے کہ استاذ کو جس قدر زبان وبیان پر قدرت ہو گی اور وہ اپنی باتوں کو جس قدر مختلف انداز، متعدد اسالیب اور آسان پیرائے میں سمجھانے کی صلاحیت رکھے گا اسی قدر وہ تعلیم و تر بیت کے میدان میں کامیاب ہوگا۔اسی واسطے انبیاء علیہم السلام کو فصاحت وبلاغت، اور زبان وبیان کی بڑی اعلی صلاحیتوں سے نوازا گیا تھا،ان کی زبان بڑی ادبی اور معیاری ہوتی تھی، بڑے ادباء اور فصحاء وبلغاء اس میں کوئی عیب نہیں نکال سکتے تھے، وہ جس وقت قوم سے خطاب کرتے ایک سماں بندھ جاتا ، لوگوں سے گفتگو فرماتے تو ان کا اسلوب اور بیان اتنا موثر ہو تا کہ لگتا مخاطبین کے دل و دماغ پر انھوں نے جادو کر دیا ہے، اسی واسطے ان کے مخالفین لوگوں کو ان سے ملنے اور گفتگو کر نے سے منع کرتے تھے اور اس کے لئے بھر پور جدوجہد کرتے تھے ،حضرت موسی علىہ السلام کی زبان میں بعض اسرائیلی روایتوں کے بموجب بچپن میں منھ میں انگارہ رکھ لینے کی وجہ سے لکنت ہوگئی تھی اور ان کے بھائی حضرت ہارون علىہ ان سے زیادہ فصیح اللسان تھے ، اس لئے انھوں نے اپنی مدد كے لئے اللہ تعالیٰ سے اپنے بھائی کو نبوت عطا کرنے کی دعا کرتے ہوئے عرض کیا: وَأَخِیْ هَارُونُ هُوَ أَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَاناً فَأَرْسِلْهُ مَعِیَ رِدْءاً يُصَدِّقُنِیْ إِنِّیْ أَخَافُ أَن يُکَذِّبُونِ (القصص: ٣٤) اور میرابھائی ہارون(علىہ السلام)مجھ سے زیادہ فصیح زبان والا ہے، پس تو اسے بھی میرا مددگار بناکر بھیج دے کہ وہ میری تصدیق کرے، مجھے ڈر ہے کہ وہ سب مجھے جھٹلا دیں گے۔ پھر اللہ نے ان کی دعا قبول کرتے ہوئے فرمایا: قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِأَخِيْکَ وَنَجْعَلُ لَکُمَا سُلْطَاناً فَلَا يَصِلُونَ إِلَيْْکُمَا بِآيَاتِنَا أَنتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَکُمَا الْغَالِبُونَ (القصص: ٣٥) ہم تیرے بھائی کے ساتھ تیرا بازو مضبوط کردیں گے اور تم دونوں کو غلبہ دیں گے ،چنانچہ فرعونی تم تک پہونچ ہی نہیں سکیں گے، ہماری نشانیوں کی وجہ سے تم اور تمہاری تابعداری کرنے والے ہی غالب ر ہیں گے۔
بہر حال تعلیم وتربیت اور دعوت وتبلیغ کے میدان میں زبان وبیان پر قدرت اور فصاحت وبلاغت کی بڑی اہمیت ہے، اس واسطے اساتذہ کرام کو اس کے لئے بھی محنت کرنا چاہئے اور ان کے اندر یہ صلاحیت بھی وافر مقدار میں ہونا چاہئے۔
(۱۰)حالات حاضرہ اور جدید مسائل سے واقف ہونا:
اساتذہ کرام کو حالات حاضرہ، عصر حاضر کے جدید مسائل اور نئے سماجی ومعاشرتی امور سے بھی واقف ہونا چاہئے، تاکہ وہ نصوص کتاب وسنت اور ادلۂ شرعیہ کی روشنی میں ان پر گفتگو اور تبصرہ کرسکیں اور اپنے دروس ومحاضرات اور خطبات وغیرہ میں موقع و محل کی مناسبت سے انکی تاریخ ، پس منظر،اسباب وعلل،ان میں حصہ اور دلچسپی لینے والے عناصر اور ان کے اغراض ومقاصد،صحیح حقائق،تدلیسات وتلبیسات، ان کا صحیح حل اور طریقِ کار وغیرہ کے بارے میں تفصیلی روشنی ڈال سکیں۔ اور بہت سے عالمی ،علمی، سیاسی، سماجی اور تعلیمی مسائل کے سلسلے میں جو طلبہ کے ذہنوں میں اشکالات اور الجھنیں رہتی ہیں وہ دور کر سکیں، تاکہ وہ قوم وملت کی قیادت وسیادت،معاشرے کی خدمت ا ور ان کے مسائل کا حل اطمینان قلب اور انشراح صدر کے ساتھ پیش کر سکیں۔اس کی خاطر انہیں اخبارات وجرائد اور دیگر وسائل اعلام ونشر واشاعت سے استفادہ کرنا چاہئے۔بڑے بڑے علماء ومفکرین کے افکار وخیالات کا مطالعہ کرنا چاہئے اور کتاب وسنت کے نصوص پر غور کر کے صحیح رائے اورفکر تک پہونچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور انہیں کنویں کا میڈک بن کر ہر گز نہیں رہنا چاہئے۔بلکہ انہیں مقامی، ملکی اور عالمی حالات سے پوری واقفیت رہنی چاہئے۔تبھی وہ تعلیم وتربیت کے حقیقی مقاصد کو حاصل کر سکتے ہیں۔ اور ان کی تعلیم وتربیت سے فقہاء، محدثین،مجددین، مفکرین،مصلحین اور قائدین پیدا ہو سکتے ہیں۔ دنیا میں کوئی صالح انقلاب آسکتا ہے۔اورانسانیت کی صحیح تعمیر اور قوم وملت کی اصلاح وبیداری کا کام ہوسکتا ہے، ورنہ نہیں۔
(۱۱) بچوں کی نفسیات وغیرہ سے واقف ہونا:
استاد کو بچوں کی نفسیات، ان کی ذہنی وجسمانی صلاحیت، ان کے گھر کے حالات وماحول اور مزاج وغیرہ سے اچھی طرح واقف ہونا چاہئے، اسے معاملہ شناس، زیرک اور ہو شیار ہونا چاہئے تاکہ ان سب امور کا اعتبار کرتے ہوئے تعلیمی عمل کو انجام دے اور کامیابی اس کی قدم بوسی کرے۔ورنہ نتیجہ اس کے برعکس ہوگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے :’’ نحنُ معشرَ الأنبياءِ اُمِرنَا انْ نُنَزِّلَ النَّاسَ مَنَازِلَهُم ونُکَلِّمَهُمْ عَلٰی قَدْرِعُقُوْلِهِمْ ‘‘۔(رواہ ابوداود)
ہم انبیاء کی جماعت کو حکم دیا گیا کہ لوگوں کے مراتب ودرجات کا خیال رکھیں اور ان سے ان کی عقلی صلاحیت کے مطابق گفتگو کریں۔
چنانچہ علم کی قدروقیمت سے نا آشنا،تعلیم اور مدرسے سے نفرت رکھنے والے طلباء کے سامنے علمی موتیوں کو بکھیرنے سے قبل انھیں علم کی قدروقیمت اور اہمیت وفضلیت بتانی چاہئے اور جب وہ اس کے قائل اور قدرداں ہو جائیں اور ان کے اندر حصول علم کا شوق ہوجائے تب ان کے سامنے علمی باتیں پیش کرنی چاہئے ،ورنہ اس کی مثال ایسے ہو گی جیسے کوئی خنزیروں کی گردنوں میں سونے کا ہار پہنائے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جانب منسوب ایک قول ہے:’’لَا تَطْرَحِ الْلُؤلُؤَ اِلی الْخِنْزِيْرِ ،فَاِنَّ الْخِنْزِيْرَ لاَ يَصْنَعُ بِالْلُؤ لُؤِ شَيْئاً، وَلَا تُعْطِي الْحِکْمَةَ لِمَنْ لاَ يُرِيْدُهَا فَاِنَّ الْحِکْمَةَ خَيْرٌ مِّنَ الْلُؤ لُوؤ، وَمَنْ لَا يُرِيْدُهَا شَرٌّ مِّنَ الْخِنْزِيْرِ‘‘  خنزیر کو موتی نہ دو، کیونکہ خنزیر موتی لے  کر کچھ نہیں کرے گا ،اور حکمت اس کو نہ دو جو اس کا خواہش مند نہ ہو کیونکہ حکمت موتی سے بہتر ہے ،اور جو اسے نہ چاہے وہ سور سے بھی بدتر ہے۔(جامع بیان العلم وفضلہ: ص۱۳۲)
اساتذہ کو چاہئے کہ تعلیم وتربیت میں ہمیشہ طلبہ وطالبات کی نفسیات کا خیال کریں۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ لحاظ فرمایا کرتے تھے۔ایک مرتبہ ایک نوجوان آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:یا رسول اللہ! مجھے زنا کی اجازت دیجئے۔ یہ سن کر قریب تھا کہ صحابہ کرام رضى الله عنہ  اس پر ٹوٹ پڑتے۔مگر آپ نے فرمایا:اسے چھوڑ دو اور میرے قریب آنے دو۔جب وہ آپ کے قریب آگیا تو آپ نے فرمایا:’’أتُحِبُّهُ لأمِّکَ‘‘کیا تم یہ بری حرکت اپنی ماں كے لئے پسند کرو گے؟اس نے جواب دیا:اللہ کی قسم۔نہیں، اورکوئی بھی اپنی ماں کے ساتھ زنا کو کیسے پسند کرسکتا ہے؟پھر آپ نے اس کی لڑکی،بہن،پھوپھی اور خالہ کی مثال دے کر پوچھا کہ ان میں سے کسی كے لئے تم زنا کو پسند کرتے ہو؟اس نے سب کا جواب نفی میں دیا۔پھر آپ نے فرمایا:اسی طرح کوئی شخص بھی پسند نہیں کرے گا کہ تم اس کی ماں، بیٹی،بہن، پھوپھی یا خالہ کے ساتھ زنا کرو۔اس سے زنا کی قباحت اس کے ذہن میں بیٹھ گئی اور آپ کی باتوں پر مطمئن اور زنا کی حرمت کا قائل ہوگیا۔پھر آپ نے اس کے جسم پر اپنا دست مبارک پھیرا اور اس کے حق میں یہ دعا کی:’’اللّٰهُمَّ اغْفِرْ ذَنْبَهُ، وَطَهِّرْ قَلْبَهُ ،وَحَصِّنْ فَرْجَهُ‘‘(رواہ الطبرانی)اے اللہ اس کے گناہ معاف فرمادے،اس کا دل پاک کردے اور اس کی شرمگاہ کی حفاظت فرما۔
اس حدیث کے راوی امامہ باہلی رضى اللہ عنہ  کا بیان ہے کہ آپ کی اس دعا کے بعد وہ نوجوان کبھی کسی برائی کی جانب مائل نہیں ہوا۔
ایک مرتبہ بنی فزارہ کے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:یا رسول للہ!میری بیوی نے ایک کالے رنگ کا بچہ جنا ہے،حالانکہ میں گورا ہوں اور میری بیوی بھی گوری ہے۔آپ نے فرمایا:کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟اس نے جواب دیا:ہاں یا رسول اللہ! آپ نے پوچھا :ان کا رنگ کیسا ہے؟جواب دیا:ان کا رنگ سرخ ہے،آپ نے فرمایا کیا تمہارے اونٹوں میں کوئی خاکستری رنگ کا اونٹ بھی ہے؟جواب دیا:ہاں،پھر آپ نے فرمایا: یہ رنگ کہاں سے پیدا ہوگیا؟ اس نے جواب دیا: اس کی گذشتہ پشت میں کوئی خاکستری رنگ کا اونٹ رہا ہوگا، جس کا اثر اس پر آگیا ہے۔آپ نے فرمایا:اسی طرح تمہاری یا تمہاری بیوی کی گذشتہ پشت میں کوئی شخص کالے رنگ کا رہا ہوگا جس کا اثر تمہارے نو مولود بچے پر آگیا ہے۔(صحيح مسلم : 4/ 211)
یہ سن کر وہ شخص مطمئن ہوگیا اور دربار رسالت سے اطمینان ویقین کی دولت لے کر واپس گیا۔بہر حال اساتذہ کو اپنے طلبہ اور مخاطبین کی نفسیات،مزاج ،ماحول اور ذہنی وعقلی صلاحیت وغیرہ کا بھر پور علم ہونا چاہئے۔اور تعلیم وتدریس میں برابر اس کا لحاظ رکھنا چاہئے۔
(۱۲)مز من امراض اور بڑے جسمانی عیوب سے خالی ہونا:
تعلیم وتربیت کے عمل کو صحیح طور پر انجام دینے كے لئے ضروری ہے کہ استاذ کسی مزمن اور بڑی بیماری میں مبتلا نہ ہو۔کیونکہ اگر استاذ کسی مزمن مرض میں مبتلا ہو تو وہ تعلیم وتربیت جیسے اہم اور مشکل عمل کو صحیح طور سے انجام نہیں دے سکتا اور اس کے لئے جتنی محنت کرنی چاہئے وہ محنت نہیں کرسکتا۔نیز اپنی مستقل بیماری کی وجہ سے وہ بکثرت غیر حاضری کرے گا جس کی وجہ سے بھی تعلیم کا نقصان ہوگا۔
اسی طرح اگر کسی استاذ کے اندر کوئی بڑا جسمانی عیب یا  ملفت نظر چیز پائی جاتی ہے تو اس کا بھی تعلیم پر برا اثر پڑے گا۔جیسے کوئی شخص بہت ناٹا یا بونا ہے تو اس كے لئے تعلیم وتربیت کے عمل میں خاصی پریشانی ہوگی اور شریر ومنچلے لڑکے اس کو دیکھ کر ہنسیں گے،مذاق اڑائیں گے اور پیٹھ پیچھے برے القاب سے پکاریں گے۔اور کلاس پر کنٹرول کرنا اور صحیح طور سے پڑھانا اس كے لئے مشکل ہو جائے گا۔کوئی ٹیبل پر بیٹھنے ،کوئی کرسی پر کھڑا ہونے كے لئے کہے گا ،کوئی اس کی کتاب لینے اور کوئی خود اسے گود میں اٹھانے کی کوشش کرے گا۔اس طرح اس سے تعلیم وتربیت کا عمل صحیح طور پر نہیں ہو پا ئے گا۔
اسی طرح اگر کوئی بہت موٹا یا بہت لمبا تڑنگا ہے تو وہ بھی لوگوں كے لئے ملفت نظر ہوگا اور طلبہ درس کو توجہ سے سننے کے بجائے اس کے مٹاپے اور قد وقامت پر غور وفکر اور تبصرہ کریں گے۔ اور شریر لڑکے ’’موٹو ‘‘اور’’ لمبو ‘‘کہہ کر تنا بز بالا لقاب کے گناہ کاارتکاب کریں گے۔
اسی طرح اگر کوئی ملفت نظر حد تک لنگڑا یا لولا ہے تو اس کو بھی تعلیم میں پریشانی ہوگی۔کم سننے اور کم دیکھنے والے اور بہت زیادہ ہکلانے والے استاذ كے لئے بھی دشواریاں ہوں گی۔اور بالکل بہرے یا گونگے شخص كے لئے تو پڑھانا ناممکن ہے۔ نابینا شخص كے لئے بھی تدریس کا عمل پریشان کن ہوتا ہے۔البتہ اگر مہذب،باوقار اور اہل علم کی دل سے عزت وقدر کرنے والے بڑی جماعت کے طلبہ ہوں تو باصلاحیت اساتذہ سے بعض جسمانی عیوب کے باوجود استفادہ کرسکتے ہیں۔اور ایسی صورت میں انہیں ایک معلم اور مربی کی حیثیت سے رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ورنہ عام حالات میں اصحاب مدارس وجامعات کو اس پر بڑی سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور ایسے علماء کرام اور با صلاحیت حضرات سے دوسرے طریقوں سے استفادہ کرنا چاہئے۔بہر حال ان میں سے ا کثر صفات از قبیل کمالیات ہیں ،جن کا حتی الامکان لحاظ کرنا چاہئے۔ لیکن کچھ استثنائی اور مخصوص صورتوں میں انہیں نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔

باب ثالث
آداب تعلیم وتربیت
تعلیم وتربیت کی اہمیت وفضیلت اور کامیاب معلم کے اوصاف پر کچھ روشنی ڈالنے کے بعدمناسب معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم وتربیت کے آداب و طرق پر کچھ روشنی ڈالی جائے، ممکن ہے کہ ہمارے اساتذۂ کرام اور خاص طور سے نئے فارغین وفارغات اس سے استفادہ کریں اور ان کا تدریس وتعلیم کا عمل کامیاب اور بارآور ثابت ہو،اور ترقی ان کی قدم بوسی کرے۔
(۱)کلاس میں آنے سے قبل درس کی تیاری او رمطالعہ کرنا :
اساتذہ اور معلّمات کوکلاس میں تدریس كے لئے جانے سے قبل جو سبق پڑھانا ہے اس كے لئے اچھی طرح تیاری اورمطالعہ کرنا چاہئے، اس کی عبارت کو اچھی طرح حل کرنا اور سمجھنا چاہئے ۔ اس کے مسائل اور مضامین کو ذہن نشین کرنا چاہئے ۔مشکل الفاظ کے معانی ، واحد، جمع، جملوں میں استعمال وغیرہ کو جاننا چاہئے ، اورکسی لفظ اور عبارت کو حتی الامکان غیر مفہوم نہیں رہنے دینا چاہئے ، کسی درس کو بغیر سمجھے اور بغیر معرفت و بصیرت کے پڑھانا غلط ہے ۔جیسا کہ آیت کریمہ: قُلْ َهذِهِ سَبِيْلِیْ أَدْعُو إِلَی اللّهِ عَلَی بَصِيْرَةٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ  (يوسف: ١٠٨) اس کی واضح د لیل ہے۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ مَنْ أُفْتِىَ بِغَيْرِ عِلْمٍ كَانَ إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ ‘‘ (رواہ ابو داود والدارمی، و قال الألبانی: سندہ حسن .مشکاۃ:۱؍۸۱)جس نے بغیر علم کے کوئی فتویٰ دیا تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہوگا۔
مطالعہ سے جہاں علم وبصیرت حاصل ہوتی ہے وہیں استاد جب مطالعہ اور سبق کی تیاری پہلے سے کر کے کلاس میں پڑھانے جاتا ہے تو اسے اپنے اوپر مکمل اعتماد ہو تا ہے، اور وہ پورے اطمینا ن اور انشراح صدر کے ساتھ پڑھا تا ہے ۔اور اگر پہلے سے مطالعہ اور تیاری نہیں کی ہے تو اسے اطمینان نہیں ہوتا۔اورہر وقت اسے خوف لگا رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی عبارت حل نہ کرسکوں،کوئی مسئلہ طلبہ پوچھ لیں اور میں نہ بتا سکوں ،اس طرح وہ پورے درس میں پریشان رہتا ہے ۔ اور اگر کبھی کوئی مسئلہ صحیح طریقہ سے نہیں جانتا اوراٹکل سے بتا دیا اور غلطی ہو گئی تو گناہ کے ساتھ اس کا انکشاف ہو نے پر اس کے علمی وقار کو بھی نقصان پہنچے گا ۔ اور طلبہ کا اس پر اعتماد ختم ہو جائے گا۔
پرانے اور تجربہ کار اساتذہ کو بھی مطالعہ اور درس کی تیاری کا اہتمام کرنا چاہئے،اور کبھی اس خوش فہمی میں مطالعہ ترک نہیں کرنا چاہئے کہ یہ مضمون یا کتاب ہم بہت دنوں سے پڑھاتے ہیں اور ساری باتیں ہمیں یاد ہیں اور اب مطالعہ کی ضرورت نہیں، کیونکہ کبھی پرانے اساتذہ بھی مطالعہ نہ کرنے کی صورت میں بعض عبارتوں میں پھنس جاتے ہیں اور اسی طرح بعض مسائل بروقت یاد نہیں آتے جس سے انہیں بڑی شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے، اس واسطے تمام اساتذہ ومعلّمات کودرس کی تیا ر ی اور مطالعہ کا اہتمام کرنا چاہئے۔
مصادر ومراجع اور اپنے مضامین كے لئے معاون چیزوں کے حاصل کرنے کا اہتمام کرنا:
اس موقع پر اساتذہ ومعلّمات سے یہ گذارش کرنا غیر مناسب نہ ہو گا کہ انھیں اپنے مضامین سے متعلق مصادر و مراجع اور معاون چیزوں کو ضرور رکھنا چاہئے۔اگر وہ ان مصادر ومراجع کو خرید سکتے ہوں تو بہتر ہے، ورنہ مدرسہ کے مکتبہ سے حاصل کرلیں، ہر مدرس کی کوشش ہونی چاہئے کہ جن کتابوں کی عموماً اسے ضرورت پڑتی ہے ،جیسے لغت کی کتابیں ،نقشے ، شرحیں وغیرہ انھیں خرید لے، تاکہ جہاں بھی رہے ان سے استفادہ کرے اور کسی سے اسے مانگنا نہ پڑے۔
 دنیا کے تمام پیشے کے لوگ اپنے اوزار اورضروری سامان خو دخرید کر رکھتے ہیں، چنانچہ بڑھئی کے پاس اس کے اوزار، لوہار کے پاس اس کے اوزار،راجگیرکے پاس اس کے اوزار، اسی طرح تمام کام کرنے والوں کے پاس عموماً ان کے اوزار رہتے ہیں ،اسی طرح اساتذہ و معلّمات کو بھی اپنے پیشۂ تدریس سے متعلق ضروری سامان اور کتابیں وغیرہ رکھنا چاہئے، اس سے انھیں کافی سہولت ہو گی اور پریشانیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑ ے گا ۔
کبھی ایک مدرس کو ایسے مدرسہ میں پڑھانا پڑتا ہے جہاں خاطر خواہ اور حسب ضرورت مراجع اور کتابیں نہیں ہوتیں، یا بعض کتابوں کے صرف ایک دو نسخے ہوتے ہیں اور دوسرے اساتذہ پہلے نکلوالیتے ہیں تواس کو پریشانی ہوتی ہے ۔اوراگر اس کی ذاتی کتابیں ہوں تو وہ گھر،مدرسہ اور سفر وحضر ہر جگہ ان سے استفادہ کرسکتا ہے۔اور مختلف مصادر ومراجع کے مطالعہ سے حاصل ہونے والی معلومات اور ان کے حوالہ جات کو بھی وہ ان کے حاشیہ میں درج کرسکتا ہے، جبکہ مدرسہ وغیرہ کی کتابوں میں یہ ساری سہولتیں نہیں ہوتیں، اور اگر کچھ اہم معلومات نوٹ بھی کرلیں تو دوسرے سال وہ کتاب کسی دوسرے کے پاس چلی جاتی ہے اور ساری محنت اکارت ہو جاتی ہے۔
بہر حال اساتذہ کو اپنے مضامین سے متعلق معاون کتابیں اور اہم مصادر ومراجع کو خریدنے اور ا پنے پاس رکھنے کا اہتمام کرنا چاہئے ،اس سے انہیں تعلیم وتربیت میں بڑی مدد ملے گی اور کافی سہولت ہوگی۔
مطالعہ کا طریقہ:
مطالعہ شروع کرنے سے قبل معاون کتابیں اور قلم کاغذ وغیرہ اپنے پاس رکھ لینا چاہئے ، تاکہ ضروری باتیں مطالعہ کے وقت نوٹ کر سکیں اور مطلوبہ معلومات کم سے کم وقت میں حاصل کر سکیں ۔
ضروری معلومات اپنی ذاتی کتاب کے حاشیہ پر یا مستقل کاپی اور نوٹ بک میں مختصراً لکھ لینا چاہئے ۔ مفصل اور طویل مسائل کے مصادر اور حوالہ جات مع جلد اور صفحہ نوٹ کرلینا چاہئے،تاکہ دوبارہ مراجعہ اورمطالعہ میں سہولت ہو ،مطالعہ کے وقت ایسی جگہ نہیں بیٹھنا چاہئے جہاں شور و غل یا کوئی اورڈسٹرب کرنے والی چیزہو ،تاکہ ذہن باربارمنتشرنہ ہو،چنانچہ کھڑکی کے پاس یا ایسی جگہ جہاں لوگ بیٹھ کر باتیں اور گپ شپ کرتے ہوں مطالعہ کرنا قطعاً مناسب نہیں ۔مطالعہ نشاط کی حالت میں اورمناسب وقت پر کریں،سخت تھکے ہونے یاپریشانی یانیند اور ذہنی انتشار کی حالت میں مطالعہ کرنا بے کار ہے ۔ اسی طرح مناسب روشنی اور مناسب وقت کابھی لحاظ کرنا چاہئے، اندھیرے میں یا سخت دھوپ اور گرمی میں یا سخت سردی میں مطالعہ کرنا ٹھیک نہیں ۔
مطالعہ کے وقت جونئی باتیں ذہن میں آئیں انہیں بر وقت لکھ لینا چاہئے، تاکہ نسیان کی وجہ سے بعد میں لکھنے میں پریشانی نہ ہو۔
جو باتیں گھر پر مطالعہ سے حل نہ کر سکیں اور اس کے متعلق کوئی کتاب مدرسے کی لائبریری میں ہو تو درس سے پہلے ہی وہاں جا کر مطالعہ کر لینا چاہئے۔
دوسرے اساتذہ سے استفادہ کرنا:
ذاتی مطالعہ اور غور و فکر سے اگرکوئی مسئلہ یا عبارت حل نہ ہو سکے تو با صلاحیت اساتذہ اور دوسرے علماء کرام سے پوچھ لینا چاہئے ۔اس سلسلہ میں جس سے بھی تعاون مل سکے اور مسئلہ حل ہو سکے اس سے پوچھ لینا ہرگز معیوب نہیں،حتی کہ چھوٹے اساتذہ اور تلامذہ سے بھی بعض مسائل کے پوچھ لینے میں کوئی حرج نہیں ۔ فرمان الٰہی :فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّکْرِ إِن کُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (النحل: ٤٣) اگر تمہیں علم نہ ہو تواہل علم سے پوچھ لو ۔ میں عموم ہے اور محدثین کرام کے یہاں ’’رواية الاکابر عن الاصاغر‘‘ معلوم و معروف ہے۔
ابو بکر عبد اللہ بن زبیر الحمیدی جوامام شافعی رحمہ الله کے شاگرد ہیں فرماتے ہیں کہ میں مکہ سے مصر تک امام شافعی رحمہ الله کے ساتھ رہا ،میں ان سے مسائل کے سلسلہ میں استفادہ کرتا تھا اورو ہ مجھ سے حدیث کے سلسلہ میں استفادہ کرتے تھے۔ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے امام شافعی رحمہ الله نے کہا : تم لوگ حدیث کے بارے میں مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہو ،اس واسطے جب تمہارے نزدیک کوئی حدیث صحیح ہو جائے تو ہمیں بتادو تاکہ ہم اس کو لے سکیں ۔اور صحابہ کرام  رضى الله عنہم کی ایک جماعت کا تابعین سے روایت کرنا ثابت ہے اور ان سب سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت اُبی رضى اللہ عنہ کے سامنے قرآن پڑھنا اور یہ فرمانا کہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تم پر پڑھوں ۔ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ فاضل کو مفضول سے علمی استفادہ میں ہتک نہیں محسوس کرنی چاہئے۔ (تذکر ۃ السامع والمتکلم فی ادب العالم والمتعلّم:ص۲۹)
کوئی مسئلہ معلوم نہ ہونے کی صورت میں“ لا أدری” کہنا:
اگر کوئی مسئلہ ذاتی مطالعہ اور دوسروں سے پوچھنے کے باوجود بر وقت حل نہ ہو سکے تو درس کے وقت طلبہ سے صراحت کے ساتھ کہدیں ’’لا ادری‘‘ یعنی مجھے بروقت یہ مسئلہ معلوم نہیں، اوربعد میں تحقیق اور مطالعہ کرکے بتائیں گے۔
اگر کسی مسئلہ میں صحیح علم نہ ہو تو صرف اپنی ناک بچانے کے لئے غلط سلط یا اندازے سے کوئی بات نہیں بتانی چاہئے، بلکہ خندہ پیشانی سے عدم واقفیت کا اعتراف کرنا چاہئے اور پھر معلومات حاصل کر کے بعد میں بتا دینا چاہئے ۔اس سے استاد کا علمی وقار قائم اور طلبہ کااس پر اعتماد برقرار رہتاہے اور وہ بلا علم بات کرنے اور غلط بیانی کے اس گناہ اوروبال سے بھی محفوظ ر ہتا ہے جس کی جانب حدیث ’’ مَنْ أُفْتِىَ بِغَيْرِ عِلْمٍ كَانَ إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ ‘‘ میں اشارہ کیا گیا ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود متعد دسوالات کے جوابات میں لا علمی کا اظہار فرمایا اور جب ان کے بارے میں وحی نازل ہوئی تب بتايا ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودرضى اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ يَا أَيُّهَا النَّاسُ ، مَنْ سُئِلَ مِنْكُمْ عَنْ عِلْمٍ هُوَ عِنْدَهُ ، فَلْيَقُلْ بِهِ ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ ، فَلْيَقُلْ : اللَّهُ أَعْلَمُ ، فَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ أَنْ تَقُولَ لِمَا لاَ تَعْلَمُ : اللَّهُ أَعْلَمُ ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : {قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ} ‘‘ (مسند أحمد 1/ 431 )
لوگو !جس سے کسی علمی مسئلہ کے بارے میں پوچھا جائے تو اگر اسے معلوم ہو تو چاہئے کہ بتائے ،اور جس کے پاس اس کے بارے میں علم نہ ہو وہ ’’اللّٰہُ اَعْلَمُ ‘‘کہہ دے، اس لئے کہ یہ بھی علم ہے کہ جس کے بارے میں آدمی نہ جا نتا ہو’’اللّٰہُ اَعْلَمُ‘‘ کہہ دے ، اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے فرمایا : ’’آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس پر اجرت نہیں طلب کرتا ہوں،اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں۔
حضرت ابراہیم  بن طہمان رحمہ اللہ کو لوگوں کو مسائل بتانے پربیت المال سے ماہانہ وظیفہ ملتا تھا ، ایک دن ایک مسئلہ کے بارے میں ان سے سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا : ’’لاأدری‘‘یہ مسئلہ مجھے نہیں معلوم ، بعض لوگوں نے کہا :ہر ماہ اتنی اتنی تنخواہ لیتے ہو اور ایک مسئلہ اچھی طرح نہیں جانتے ؟ انھوں نے برجستہ کہا:’’ اِنَّمَا آخُذُ عَلٰی مَا اُحْسِنُ ،وَلَوْ أخَذْتُ عَلٰی مَالَااُحْسِنُ لَفَنِیَ بَيْتُ الْمَالِ ولَا يَفْنیٰ مَالَا اُحْسِنُ‘‘ میں جو اچھی طرح جانتا اور بتاتا ہوں اسی پر تنخواہ لیتا ہوں، اگر میں ان باتوں پر پیسے لینے لگوں جن کا مجھے ٹھیک سے علم نہیں توبیت المال کا خزانہ ختم ہوجائے گااور میری وہ باتیں ختم نہ ہوں گی جنھیں میں اچھی طرح نہیں جانتا۔
خلیفہ کو ان کا یہ جواب بہت پسند آیا اور اس نے انھیں انعام اور خلعَت سے نوازا اور تنخواہ میں بھی اضافہ کردیا۔(العلم و الدین:ص۲۴،۲۵)
اورابو عمر الزاہد فرماتے ہیں کہ میں ابو العباس ثعلب کی مجلس میں تھا ،ایک سائل نے ان سے کسی مسئلہ کے بارے میں پوچھا ، انھوں نے کہا ’’لاادری‘‘ یعنی یہ مسئلہ مجھے معلوم نہیں ۔اس نے کہا:آپ’’لاادری ‘‘ کہتے ہیں حالانکہ لوگ آپ کے پاس اونٹوں پر کجاوے کَس کر اور ہرہر شہرسے سفر کر کے آتے ہیں؟ابو العباس ثعلب نے اس سے کہا:اگر تیری ماں کے پاس میرے ’’ لا ادری‘‘ کے برابر اونٹوں کی مینگنیاں ہو جائیں تو وہ مال دار ہو جائے گی۔(مصدر سابق :ص۲۴)
غرضیکہ اساتذہ کومطالعہ اور تیاری کر کے کلاس میں آنا چاہئے اور مطالعہ وتحقیق کے بعد ’’علی وجہ البصیرۃ‘‘پڑھانا چاہئے اورجو چیزیں معلوم نہ ہوں بلا جھجک ان کے بارے میں اپنی لا علمی کا اظہار کر دینا اور بعد میں تحقیق و مطالعہ کر کے بتانا چا ہئے ۔
(۲)کلاس میں استاذ کی ہیئت میں آنا:
اساتذہ کو علمی تیاری کے ساتھ ذ ہنی اور جسمانی طور بھی پر تیار ہو کر کلاس میں آنا چاہئے۔ چنانچہ پہلے نہا دھو کر، اچھے کپڑے پہن کر اورخوشبو لگا کر تروتازہ ہو جائیں پھر کلاس میں آکر پورے نشاط کے ساتھ درس دیں ۔امام مالک  رحمہ اللہ باقاعدہ غسل کرکے عمامہ اور اچھے کپڑے زیب تن فرما کر اور خوشبو لگا کر درس میں آتے تھے ۔(انظر رحلۃ الامام الشافعی : ص ۲۴)
بعض اساتذہ میلے کچیلے کپڑے میں اور اچھی طرح ہاتھ منھ دھوئے بغیر کلاس میں آجاتے ہیں ،بعض اساتذہ کے کپڑے سکڑے ہوئے اور داڑھی اور سر کے بال پراگندہ اور مونچھوں کے بال بے ہنگم ہو تے ہیں اور اسی طرح وہ کلاس میں پڑھانے آجاتے ہیں ۔ان کا یہ عمل درست نہیں ۔ کیونکہ ایک تو وہ اس سے اپنے طلبہ کے سامنے کوئی اچھا نمونہ نہیں پیش کرتے،بلکہ وہ نا دانستہ طور پر انھیں بھی لا ابالی پن کی تعلیم دیتے ہیں۔
دوسرے یہ اسلام کی نظافت و طہارت کے آداب و احکام اور اہل علم کی شان کے خلاف ہے ۔
تیسرے اس کی وجہ سے کسل مندی اور سستی ہوتی ہے ،اور ذہنی اور جسمانی نشاط نہیں ہو تا۔ اور ظاہر ہے کہ ذہنی اور جسمانی نشاط کے بغیر استاذ تعلیم و تفہیم کا پورا حق ادا نہیں کر سکتا۔
(۳) کلاس میں اول وقت میں پہنچنااوروقت کی پابندی کرنا:
اساتذہ کو چاہئے کہ وہ وقت کی پابندی کریں ،اور اپنی گھنٹی شروع ہو تے ہی کلاس میں پہونچ جائیں ۔ اگر اساتذہ کلاس میں تاخیر سے آئیں گے تو طلبہ بھی آنے میں تاخیر کریں گے ،بلکہ ان سے زیادہ ہی تاخیر سے آئیں گے ۔نتیجہ یہ ہوگا کہ اسکول اور کلاس میں بدنظمی پیدا ہو گی ،درس کا حق ادا نہیں ہو گا اور مقررہ نصاب بھی مکمل نہیں ہو پائے گا۔کیونکہ اگر مدرس پانچ منٹ بھی لیٹ کر کے آئے گا تو کم از کم پانچ چھ منٹ طلبہ کی حاضری اور کلاس کا جائزہ لینے میں لگ جائیں گے، اس کے بعد عبارت خوانی ہوگی، اس کے بعد درس شروع ہو گا ،اس طرح لگ بھگ دس بارہ منٹ چلے جائیں گے اور بمشکل تمام ۲۵سے۳۰منٹ درس کے لئے ملیں گے جن میں اطمینان سے سبق پڑھاکر کورس مکمل کرنا مشکل ہوگا۔
اسی طرح اساتذہ کو گھنٹی ختم ہونے کے بعد جلد از جلد درس ختم کردینا چاہئے، بعض اساتذہ زبر دستی دوسرے اساتذہ کی گھنٹیوں میں اپنی کتابیں پڑھاتے رہتے ہیں، جس سے ایک تو ان اساتذہ کو باہر کھڑے ہوکر انتظار کرنا پڑتا ہے اور تکلیف ہوتی ہے ۔دوسرے ان کی حق تلفی ہوتی ہے اور ان کا کورس ختم نہیں ہوتا ۔تیسرے بسا اوقات اس کی وجہ سے اساتذہ میں جھگڑے ہوتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کی چغلخوری اور شکایت کرتے ہیں اور بدنام و گنہگار ہوتے ہیں ،اس واسطے اساتذہ کو اپنے وقت کی پابندی کا بہت خیال رکھنا چاہئے۔
(۴)کلاس میں داخل ہوتے وقت سلام کرنا:
اساتذہ جب کلاس میں جائیں تو داخل ہو تے وقت طلبہ سے سلام کریں ۔ بعض اسکولوں میں دیکھنے میں آتا ہے کہ استاذ جب کلاس میں داخل ہو تا ہے تو وہ سلام نہیں کرتا، بلکہ طلبہ کو کھڑے ہو کر سلام کرنے کے لئے کہتا ہے اور اگر کوئی طالب علم کھڑا نہ ہو تو اسے سزادیتا ہے ۔یہ طریقہ اسلامی اصول کے خلاف ہے ۔اسلامی طریقہ یہ ہے کہ آنے والا بیٹھے ہوئے لوگوں کو سلام کرے ،ارشاد باری ہے:يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتاً غَيْْرَ بُيُوتِکُمْ حَتَّی تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَی أَهْلِهَا  (النور: ٢٧)اے مومنو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں نہ داخل ہو ا کروجب تک کہ گھر والوں سے اجازت اور ان کی رضا نہ لے لو اور ان سے سلام نہ کر لو۔
اورحضرت انس رضى اللہ عنہ ایک مرتبہ بچوں کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کیا اور فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔( صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 8/ 68 , صحيح مسلم : 7/ 6)
اسی طرح کسی مجلس میں آنے پر وہاں کے لوگوں کو اپنی تعظیم کے لئے کھڑا کرنا بھی اسلامی طریقہ نہیں ،بلکہ یہ عجمیوں کا شعار اور طریقہ ہے ۔ اس سے بھی اجتناب کر نا چاہئے ۔ حضرت انس بن مالک رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی شخص معزز اور محبوب نہیں تھا ۔لیکن ان کی عادت تھی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریف لاتے ہوئے دیکھتے تو تعظیماً کھڑے نہ ہو تے، اس لئے کہ و ہ جا نتے تھے کہ آپ اسے ناپسند فرماتے ہیں ۔ (رواہ احمد و التر مذی ،وھو حدیث حسن)
              اور حضرت ابو امامہ رضى اللہ عنہسے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ میں چھڑی لئے ہوئے ہمارے مجمع میں تشریف لائے ،ہم آپ کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے تو آپ ناراض ہوئے اور فرمایا : ’’ ’’ لاَ تَقُومُوا كَمَا تَقُومُ الأَعَاجِمُ يُعَظِّمُ بَعْضُهَا بَعْضًا ‘‘ (انظر مسند احمد:۵؍۲۵۳،وابوداود:۵؍۳۹۸(۵۲۳۰)
جیسے عجمی لوگ ایک دوسرے کی تعظیم میں کھڑے ہوتے ہیں اس طرح مجھے دیکھ کر تم لوگ کھڑے نہ ہو ا کرو۔
ایک مرتبہ حضرت معاویہ
رضى اللہ عنہ باہر نکلے، وہا ں ابان بن زبیررضى اللہ عنہ اور ابن عامررضى اللہ عنہ تھے ،آپ کو دیکھ کر ابن عامر کھڑے ہو گئے اور ابن زبیر بیٹھے رہے، حضرت معاویہ رضى اللہ عنہ نے ابن عامررضى اللہ عنہ سے فرمایا : ’’ اجْلِسْ فَإِنِّى سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ : مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَمْثُلَ لَهُ الرِّجَالُ قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ‘‘(رواہ ابو داود:۵؍ ۸ ۹ ۳،وا لترمذ ی :۵؍۹۰ ، وقال : حد یث حسن )بیٹھ جاؤ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:جسے پسند ہو کہ لوگ اس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوں اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔
بہر حال کلاس میں داخل ہوتے وقت اساتذۂ کرام کوخود سلام کرنا چاہئے اور طلبہ کو اپنی تعظیم کے لئے کھڑا نہیں کرنا چاہئے،بلکہ انھیں اس سے منع کرنا چاہئے۔
(۵) کلاس میں داخل ہوتے ہی طلبہ کی حاضری لینا:
کلاس میں آنے کے بعد اساتذہ کو سب سے پہلے طلبہ کی حاضری لینی چاہئے اورتاخیر سے آنے والوں کو غیر حاضر بنانا اور سختی سے تنبیہ کرنا چاہئے ۔اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ طلبہ اول وقت میں ہی کلاس میں پہونچ جائیں گے، درس كے لئے زیادہ وقت ملے گا، اساتذہ اطمینان سے پورا سبق پڑھائیں گے ، درمیان میں کوئی تشویش نہیں ہو گی اور طلبہ ڈسپلن اور نظام کی پابندی کے عادی بنیں گے ۔
بعض اساتذہ شروع میں تو حاضری لے لیتے ہیں مگر بعد میں آنے والے طلبہ کو بھی حاضر بناتے رہتے ہیں۔اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔بلکہ الٹے نقصان ہوتا ہے ۔
اسی طرح بعض اساتذہ گھنٹی کے اخیر میں حاضری لیتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طلبہ وقت کی پابندی نہیں کرتے اور اخیر تک آتے رہتے ہیں، جس سے درس میں تشویش ہو تی ہے اور جو طلبہ سبق کے ابتدائی حصے میں غیر حاضر رہتے ہیں وہ استاذ کے درس اور علمی فوائد سے محروم رہتے ہیں اور استاذ کی محنت خاطر خواہ بار آور نہیں ہوتی۔
جو طلبہ درس سے غیر حاضر رہیں اساتذہ کو ان کے بارے میں پرشش اورتحقیق کرنی چاہئے ،اور غیر معقول عذر ہونے کی صورت میں ان کی تنبیہ كے لئے مناسب کاروائی کرنی چاہئے۔تاکہ ان کی یہ بری عادت چھوٹ جائے اور وہ حقیقی طالب علم بن سکیں۔
(۶)کلاس کا جائزہ لینا:
حاضری لینے کے بعد اسا تذہ کو کلاس کا جائزہ لینا چاہئے اور طلبہ کے لباس ،شکل و صورت ، اور وضع قطع پر نظر ڈالنی چاہئے۔اسی طرح یہ بھی دیکھنا چاہئے کون درس کے لوازمات :کتاب ، کاپی اور قلم وغیرہ لایا ہے اور کون نہیں ۔نیز یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ کوئی غیر درسی چیزیں خاص طور سے گندے رسالے اور ناول وغیرہ تو لے کر نہیں آیا ہے اور درس سننے کے بجائے انھیں رسالوں اور کتابوں کو  پڑھتا ہے۔
بعض طلبہ کلاس میں کھیل کے سامان، ٹیپ ریکارڈ اور کیسٹیں لے کر آتے ہیں اور اساتذہ کی نظریں بچاکر ان سے کھیلنے اور محظوظ ہونے میں لگے رہتے ہیں اور سبق نہیں سنتے ۔کلاس میں ایسے طلبہ کی حاضری بے معنی ہوتی ہے۔ اس واسطے اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ درس شروع کرنے سے قبل کلاس کا جائزہ لیں اور جہاں انہیں آداب درس کے خلاف کوئی چیز نظر آئے فورا اس پر تنبیہ اور طلبہ کی ا صلا ح کریں ۔
(۷)کلاس میں طلبہ کو بٹھانے کا اصول:
کلاس کا جائزہ لیتے وقت اس کو بھی دیکھنا ضروری ہے کہ طلبہ کلاس میں قاعدے سے بیٹھے ہیں یا نہیں ، اگر طلبہ قاعدے سے نہیں بیٹھے ہیں اور اِدھر اُدھر متفرق و منتشر ہیں تو پھر درس کا خواطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا ۔
مختلف مدارس و جامعات میں طلبہ کے کلاس میں بٹھانے کے الگ الگ اصول ہیں، اس واسطے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس موضوع پر بھی کچھ گفتگو ہوجائے ۔
بعض مدارس میں طلبہ کو کلاس میں بٹھانے کا اصول یہ ہے کہ سالانہ امتحان میں نمبرات کے حساب سے جیسے ان کی ترتیب ہوتی ہے اسی ترتیب سے کلاس میں بٹھاتے ہیں ،اس میں جہاں یہ فائدہ ہے کہ ذہین اور محنتی طلبہ کے آگے اور استاذ کے قریب ہونے کہ وجہ سے ، وہ صحیح صحیح عبارت خوانی کرتے ، استاذ کی باتوں اور درس کو جلدی اور اچھی طرح سمجھتے ہیں اور بعد میں اپنے ساتھیوں کو مذاکرہ کراتے اور درس سمجھاتے ہیں ، وہیں اس میں یہ خامی بھی ہے کہ اس سے کمزور طلبہ پیچھے ہوجاتے ہیں جو ایک تو پہلے سے پیچھے اورکمزور ہوتے ہیں دوسرے استاذ سے دور اور آخری صفوں میں ہوجانے کی وجہ سے استاذ کے درس اور تقریر کو صحیح اور مکمل طور سے نہیں سن پاتے ،جس سے سبق کے بہت سے اجزاء ان کی سمجھ میں نہیں آتے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ترقی کرنے کے بجائے علمی اعتبار سے اور پیچھے ہوتے جاتے ہیں۔علاوہ ازیں اس سے بہت سے طلبہ استاذ کی نظروں سے دور ہونے اور سبق کے برابر نہ سننے کی وجہ سے اونگھنے اور سونے لگنے لگتے ہیں یا کسی دوسرے کام میں مشغول ہوجاتے ہیں ۔ اس طرح یہ طلبہ تعلیم میں مزید کمزور اور پیچھے ہو تے جاتے ہیں ۔
بعض اساتذہ کمزور ، معذور اور شریر بچوں کو آگے بٹھاتے ہیں، تاکہ کمزور اور اونچا سننے والے بچے استاذ کی باتوں کو اچھی طرح سن اور سمجھ سکیں اور تعلیم میں پیچھے نہ رہ جائیں ،اسی طرح وہ طلبہ جو شرارت کرتے ہیں یا درس کے وقت سوتے رہتے ہیں انھیں بھی آگے بٹھاتے ہیں تاکہ ان پر برابر نظر رہے اور انھیں سونے یا شرارت کرنے کا موقع نہ ملے، یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن اگر سارے ذہین بچے پیچھے چلیں جائیں تو یہ ہوسکتا ہے کہ استاذ کی کچھ علمی باتیں وہ بھی نہ سن پائیں اور کمزور بچے بھی نہ سمجھ پائیں جس سے وہ باتیں غیر مفہوم رہ جائیں ۔ اورجامع ترمذی: ۵؍۷۳ (۷۲۵ ۲) سنن ابی داود :۵؍۱۶۴(۴۸۲۵) الادب المفرد للبخاری :ص۲۹۲(۱۱۴۱) میں حضرت جابر بن سمرۃ رضى اللہ عنہ کی روایت ہے : ’’ كُنَّا إِذَا أَتَيْنَا النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم جَلَسَ أَحَدُنَا حَيْثُ يَنْتَهِى ‘‘ ہم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوتے تو مجلس جہاں ختم ہوتی وہیں بیٹھ جاتے تھے ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجلس اور کلاس میں پہلے آنے والوں کو آگے اور مدرس کے قریب بیٹھنے کا زیادہ حق ہے اور ہر شخص جیسے جیسے آئے پیچھے ترتیب سے بیٹھتا جائے۔
البتہ صحیح بخاری :۱؍۱۵۶(۶۶) ’’ باب من قعد حيث ينتهي به المجلس ومن رأى فرجة في الحلقة فجلس فيها ‘‘ اور جامع الترمذی :۵؍۷۳ ( ۲۷۲۴)میں ابوو ا قد اللیثی سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرماتھے اور آپ کے ساتھ دوسرے لوگ بھی تھے کہ تین آدمی آئے جن میں سے دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کے قریب آئے اور کھڑے ہوگئے ، پھر ایک آدمی نے حلقہ میں ایک خالی جگہ دیکھی اور وہاں جاکر بیٹھ گیا اور دوسرا ان کے پیچھے جاکر بیٹھ گیا اور تیسرا پیٹھ پھیر کر چلاگیا ، رسول اللہْ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی باتوں سے فارغ ہوئے تو فرمایا :’’ کیا میں تم لوگوں کو تینوں افراد کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ اس میں سے ایک نے اللہ کے پاس پناہ لی ، اور دوسراشرمایا (اور اس کی وجہ سے مجلس سے واپس نہیں گیا ) تو اللہ نے بھی اس سے شرم کی (اور اس پر رحم فرمایا ) اور تیسرا رخ پھیر کر چلا گیا تو اللہ نے بھی اس سے رخ پھیر لیا ‘‘۔
اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ اگر آگے کی صفوں میں یا حلقۂدرس میں کوئی جگہ خالی ہوتو بعد میں آنے والے شخص کے لئے اس جگہ بیٹھنا نہ صرف جائز ہے بلکہ مستحب بھی ہے ۔ اور ان حدیثوں سے مجموعی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو طلبہ کلاس میں پہلے آئیں وہ آگے بیٹھیں اور بعد میں آنے والے جہاں جگہ خالی دیکھیں وہاں یا اخیر مجلس میں بیٹھیں ۔
اس میں کئی فائدے ہیں ، مثلاً: آگے بیٹھنے کے لئے ہر طالب علم کلاس میں پہلے پہونچنے کی کوشش کرے گا اوراس میں ہر طالب علم کے لئے آگے بیٹھنے اور استاذ کے درس سے اچھی طرح استفادہ کرنے کا موقع رہتا ہے ، اور جس کو بھی علم کا شوق ہوگا خواہ وہ ذہین و فطین ہو یا کمزور اور غبی ، وہ پہلے آکر استاذ کے قریب اور سامنے بیٹھنے کی کوشش کرے گا ۔
رہے کلاس میں سونے اور شرارت کرنے والے طلبہ تو استاذ انھیں تنبیہ کرسکتا اور اول وقت میں کلاس میں بلاکر اپنے قریب اور سامنے بٹھا سکتا ہے ،بصورت دیگر اپنے دائیں بائیں بٹھا سکتا ہے ۔
اس واسطے میرے نزدیک یہ طریقہ سب سے زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے، البتہ درس کی مصلحت کی خاطر استاذ کبھی بعض ذہین طلبہ کو آگے بلا سکتا ہے ۔جیسا کہ امام مالک  رحمہ الله نے امام شافعی رحمہ الله کو بلایا تھا۔ (انظر رحلۃ الامام الشافعی: ص۲۵،۲۶ )
(۸)عبارت خوانی کرانا:
حاضری اور کلاس کاجائزہ لینے کے بعد اساتذہ کسی طالب علم سے اس دن پڑھائے جانے والے سبق کی عبارت خوانی کرائیں اور اعراب ،تلفظ اور لب و لہجہ میں اگر کوئی خامی یا غلطی ہو تو اس کی اصلاح کریں ۔
عبارت خوانی میں اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ روزانہ ایک ہی طالب علم ،یاصرف چند طلبہ ہی عبارت خوانی نہ کریں ۔بلکہ کلاس کے تمام طلبہ سے باری باری عبارت خوانی کرائیں، ورنہ جو طلبہ عبارت خوانی نہیں کریں گے وہ قواعد( نحو و صرف) کی تطبیق، اورالفاظ کی صحیح ادائیگی میں کمزور رہ جائیں گے اور کتاب صحیح طریقہ سے نہیں سمجھ سکیں گے، نیز وہ محنت کرنا چھوڑ دیں گے اور کم ہمتی و بزدلی کا شکار ہو جائیں گے، جس سے و ہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے ۔
مطالعہ کے لئے باری مقرر کرنے کے بجائے سب کو روزانہ مطالعہ کر کے آنے کا مکلف کریں اور ہر روز بدل بدل کر اپنی مرضی سے بھی کسی طالب علم سے عبارت پڑھوائیں ۔یہ طریقہ باری مقرر کرنے سے زیادہ بہتر ہے، اس واسطے کہ اس سے سارے طلبہ روزانہ مطالعہ اور عبارت فہمی كے لئے محنت کریں گے، اور باری مقرر کرنے کی صورت میں جس کی باری ہو گی صرف وہی مطالعہ کر ے گا اور باقی طلبہ غفلت سے کام لیں گے ۔البتہ اگر زیادہ کتابیں اور گھنٹیا ں ہوں اور ساری کتابوں کا مطالعہ اور مذاکرہ ہر طالب علم کے لئے مشکل ہو تو اس طرح باری مقرر کی جا سکتی ہے کہ ہر طالب علم کم از کم ایک کتاب کی عبارت خوانی روزانہ ضرور کرے۔
(۹) درس کے وقت کلاس میں نظم برقرار رکھنا:
اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ درس کے وقت اپنے کلاس میں نظم و نسق کو برقرار رکھیں ،کلاس پر ان کا مکمل کنٹرول ہو ۔ اور طلبہ درس کے وقت خاموشی اور توجہ سے درس سنیں ،ضروری باتیں نوٹ کریں، اور اِدھر اُدھر تانک جھانک، جھگڑا لڑائی اورکھیل کود سے اجتناب کریں اور دوسری کتابوں اور مجلات و جرائد کا مطالعہ نہ کریں۔
اسی طرح درس کے وقت طلبہ کی آمد و رفت کا سلسلہ بند ہو نا چاہئے ۔ کیونکہ دوران سبق طلبہ کے بار بار آنے جانے سے درس میں کافی تشویش اور پریشانی ہو تی ہے، افکا ر کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے،خیالات منتشر ہو جاتے ہیں اور اساتذہ و طلبہ کی توجہ دوسری طرف چلی جاتی ہے۔
بعض اساتذہ کو دیکھا گیا ہے کہ کلاس میں چند طلبہ انہیں گھیر کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اپنی باتوں میں انہیں لگائے رہتے ہیں اور دوسرے طلبہ چپکے چپکے پیچھے سے باہر نکل جاتے ہیں۔اس طرح درس کا بھی نقصان ہوتا ہے اور کلاس اور اسکول میں بد نظمی ہوتی ہے۔اساتذہ کو بہت ہوشیار ہونا چاہئے اور طلبہ کی اس قسم کی سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہئے۔اور کلاس پر مکمل کنٹرول رکھنا چاہئے۔
(۱۰)آسان زبان و بہترین اسلوب اختیار کرنا:
درس کی تفہیم اور مسائل کی توضیح میں اساتذہ کو ہمیشہ ایسی زبان استعمال کرنی چاہئے جو عام فہم اور طلبہ وطالبات کے معیار کے مطابق ہو ،تا کہ وہ ان کی باتوں کو آسانی سے سمجھ سکیں ۔مشکل الفا ظ ، دوسری زبانوں کے غیر مانوس کلمات اورمقفیٰ ومسجع عبارتوں کا درس میں استعمال کرنا ٹھیک نہیں ، اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں رسول اسی قوم میں سے مبعوث فرمایا، جو ان کی زبان سے اچھی طرح واقف ہوتا تھا ، اور انھیں کی زبان میں انھیں وعظ و نصیحت کرتا ،تعلیم دیتااور دعوت و تبلیغ کرتا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ  ﮟ  إبراهيم: ٤ اور ہم نے ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا تاکہ ان کے سامنے وضاحت سے بیان کردے۔
جب اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کوبھیجتے وقت اس بات کا لحاظ رکھا کہ وہ اپنی قوم کی زبان سے اچھی طرح واقف ہوں، اور انبیاء علیہم السلام اپنی قوم کوانہیں کی زبان میں تعلیم دیتے تھے تو اساتذہ اور معلّمات کو بھی اس کا لحاظ رکھنا چاہئے، اور تدریس وتفہیم میں طلبہ کی زبان اور ان کے معیار کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ ماہرین تعلیم کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ بچوں کی ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں ہی ہونی چاہئے، تاکہ ان کو سمجھنے میں سہولت ہو اور زبان اور مسائل کے سمجھنے کا ڈبل بوجھ ان پر نہ پڑ ے ۔
(۱۱)درس کے وقت آواز کاواضح اور بلند ہونا:
اساتذہ کی آواز درس دیتے وقت اتنی بلند ہونی چاہئے کہ کلاس کے تمام طلبہ وطالبات اسے بآسانی سن سکیں، اور زبان اتنی واضح ہو نی چاہئے کہ سب بآسانی سمجھ سکیں ۔
بعض اساتذہ و معلّمات درس کے وقت اپنی آواز اتنی پست رکھتے ہیں کہ طلبہ و طالبات صحیح طریقہ سے ان کی باتیں نہیں سن پاتے،ایسی صورت میں ان کے درس کاخاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تھے توآپ کی آواز بلند ہوتی تھی۔ حضرت جابررضى اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے اور قیامت کا ذکر فرماتے تو آپ کا غضب شدید ہوجاتا اور آپ کی آواز بلند ہوجاتی۔ (صحيح مسلم : 3/ 11)
اور حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے ۔ آپ جب ہمارے پاس پہونچے تو نماز کا وقت تنگ ہوگیا تھا، اور ہم وضو کررہے اور اپنے پاؤں پر مسح کر رہے تھے۔ آپ نے یہ دیکھ کر بلند آواز سے پکار کر دویا تین بار فرمایا:’’ وَيْلٌ لِلأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ ‘‘. (رواہ البخاری :۱؍۸۴۳) آگ کے عذاب کی خرابی ہے ان ایڑیوں كے لئے جو خشک رہ جا ئیں ۔
اس سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت بات کو مکرر سہ کرر بیان کرنا چاہئے وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ معلم کی آواز بقدر ضرورت بلند ہونی چاہئے تاکہ سارے مخاطبین سن سکیں۔ لہٰذا اساتذہ و معلّمات کو چاہئے کہ درس میں اپنی آواز اسقدر بلند رکھیں کہ تمام طلبہ وطالبات بآسانی اسے سن سکیں اور مناسب آواز اور دلکش انداز میں شوق ورغبت سے پڑھائیں، بے دلی سے اور ایسی پست آواز میں نہ پڑھائیں کہ ان کی بات طلبہ کی سمجھ میں نہ آئے ، جو اساتذہ و مدرسین ایسا کرتے ہیں وہ عموما ناکام رہتے ہیں،ہم نے ایک عرب استاذ کو دیکھا ،جب وہ کلاس میں آتے تو اپنی جگہ پر بیٹھتے ہی کتاب میز پر رکھتے اور سرنیچا کر کے پڑھانے لگتے ، ان کی آواز اتنی پست ہوتی کہ طلبہ کو برابر سنائی نہیں پڑتی اور ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا کہتے ہیں ،اورجب درس طلبہ کی سمجھ میں نہیں آتا اور دیکھتے کہ شیخ سر اوپر اٹھا کر دیکھتے بھی نہیں ہیں تو آہستہ آہستہ کلاس سے بھاگ نکلتے اور کبھی کبھی صورت حال یہ ہوتی ہے کہ صرف دو چار طلبہ ہی کلاس میں رہ جاتے ۔
بہر حال اساتذہ کی آواز بقدر ضرورت بلندہو نی چاہئے ،اور انھیں تمام طلبہ سے مخاطب ہونا اورچاروں طرف دیکھنا چاہئے ، بولنے کی رفتار درمیانی اور معتدل ہو نی چاہئے، نہ بہت تیز ہو کہ طلبہ تمام باتیں اپنی گرفت میں نہ لے سکیں اور نہ اتنی سست ہو کہ وہ اکتا جائیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے با ر ے میں وارد ہے کہ جب آپ گفتگو فرماتے تو آپ کا ایک ایک لفظ اس طرح واضح ہو تا تھا کہ گننا چاہیں تو گن سکتے تھے۔
درس اور وعظ ونصیحت میں اس کا بھی لحاظ رکھنا چاہئے کہ آواز اس قدر بلند ، اور کرخت نہ ہو کہ سننے والوں پر گراں اور ان کے ذوق سماعت پر بار گزرے۔ بے تحاشہ چیخنے کی وجہ سے ہی گدہے کے بارے میں کہاگیا ہے : إِنَّ أَنکَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيْرِ  (لقمان: ١٩) بیشک گدھے کی آواز سب سے خراب آواز ہے۔
اس واسطے درس میں بے تحاشہ چیخنے سے بھی احتراز کرنا چاہئے اور مناسب ودلکش آواز میں درس دینا چاہئے ۔
(۱۲) درس کے مسائل اور عبارتوں کی اچھی طرح تشریح کرنا:
اساتذہ کو چاہئے کہ درس کے مسائل اور عبارتوں کی اچھی طرح تشریح کریں اور جومسائل اور باتیں تفصیل طلب ہوں انھیں تفصیل کے ساتھ سمجھائیں، صرف ترجمہ کر کے یا سر سر ی اشارہ کر کے نہ گزر جائیں، البتہ جو باتیں طلبہ کے لئے آسان ہوں اور جنھیں وہ پہلے سے پڑھ اور سمجھ چکے ہوں ان کی جانب اشارہ کرنا ہی کافی ہے ۔اسی طرح مشکل عبارتوں کی بھی اچھی طرح تفہیم کریں ، پہلے مفردات کی تشریح کریں ،پھر پوری عبارت کو سمجھائیں ،لفظی ترجمہ، اصطلاحی ترجمہ ، واحد ،جمع اور مصدر ،اصل مادّہ ،باب ،صیغہ اور ترکیب وغیرہ بتائیں ،تاکہ عبارت اچھی طرح حل ہوجائے اور اس کا مفہوم اچھی طرح واضح ہو جائے ۔
(۱۳) طلبہ کے معیار کے مطابق باتیں بتانا:
علمی اور فقہی باتوں کو پیش کرتے وقت طلبہ ، طالبات اور حاضرین کے ذہنی وعلمی معیار اور عمر وغیرہ کا لحاظ رکھنا چاہئے اور ان کے سامنے ایسی باتیں ہرگز نہیں پیش کرنی چاہئے جو ان کی سمجھ سے بالا تر ہو ں۔حضرت علی رضى اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا يَعْرِفُونَ أَتُحِبُّونَ أَنْ يُكَذَّبَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ‘‘ (رواہ البخاری : ۱؍۲۲۵) لوگوں سے ایسی باتیں بیان کرو جو وہ سمجھ سکیں ،کیا تم لوگ چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی جائے ۔
اور بعض روایتوں میں ہے :’’دَعُوْا مَا يُنْکِرُوْن‘‘(رواہ آدم بن ا یاس وابو نعیم) یعنی جو باتیں اور مسائل ان کے معیار سے بلند ہوں اور جو وہ نہ سمجھ سکتے ہوں اور ان کوبیان کرنے کی صورت میں انکار کرنے اور فتنہ میں پڑ جانے کا خطرہ ہو ان مسائل اور باتوں کو چھوڑ دو۔
اور عبد اللہ بن مسعودرضى اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ مَا أَنْتَ بِمُحَدِّثٍ قَوْمًا حَدِيثًا لاَ تَبْلُغُهُ عُقُولُهُمْ إِلاَّ كَانَ لِبَعْضِهِمْ فِتْنَةً ‘‘ (صحيح مسلم : 1/ 9) جب آپ کسی قوم سے ایسی باتیں کریں گے جو ان کی سمجھ سے بالاتر ہوں گی تو یہ ان میں سے بعض لوگوں کے لئے فتنہ کا باعث ہوں گی۔
اس لئے علمی باتیں اور مسائل پیش کرتے وقت مخاطبین کے علم ،عمر اور سمجھ بوجھ وذہنی معیار کا لحاظ کرنا ضروری ہے ۔ بعض اساتذہ نابالغ بچوں اور بچیوں کے سامنے نکاح ، جماع، غسل جنابت،حیض ونفاس اور ولادت وغیرہ کے مسائل چھیڑ دیتے ہیں ،بعض لوگ چھوٹے بچوں کے سامنے انکار حدیث کی تاریخ اورمنکرین حدیث کے شبہات وغیرہ بیان کرتے ہیں، جو ان کی عمر اور عقل
کے اعتبار سے قطعاً مناسب نہیں۔
(۱۴)مکر ر سہ کر ر سمجھا نا:
اگر کوئی مسئلہ ایسا ہو جس کو طلبہ و طالبات ایک مرتبہ بتانے اور سمجھانے سے بآسانی نہ سمجھ سکتے ہوں تو انھیں وہ مسئلہ مکرر سہ کرر سمجھا نا چاہئے، تا کہ طلبہ اسے اچھی طرح سمجھ سکیں ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کرتے ہیں : ’’ أَنَّهُ كَانَ إِذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلاَثًا حَتَّى تُفْهَمَ عَنْهُ ، وَإِذَا أَتَى عَلَى قَوْمٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ سَلَّمَ عَلَيْهِمْ ‘‘ (بخاری:۱؍۱۸۸ مع الفتح) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب لوگوں سے گفتگو فرماتے اور کوئی بات کہتے تواس کو تین مرتبہ دہراتے یہاں تک کہ وہ بات اچھی طرح لوگوں کے سمجھ میں آجاتی ۔اور جب کسی قوم کے پاس آتے تو سلام کرتے اور تین مرتبہ ان سے سلام کرتے ۔
امام نووی رحمہ الله فرماتے ہیں :یہ حدیث اس صورت پر محمول ہے جب مجمع بڑاہو۔ (الاذکار: ص۲۱۹ )
میں کہتا ہوں کہ بات کے اعادہ کے سلسلہ میں یہ اس صورت پر بھی محمول ہوگی جب کوئی بات مشکل ہونے یا کسی اور بنا پر ایک مرتبہ کہنے اور سمجھانے سے مخاطبین کی سمجھ میں نہ آئے ،الحمد للہ آج ماہرین تعلیم نے بھی اعادہ وتکرار کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے اور تدریس کے اسالیب میں سے ایک اہم چیز درس کے اعادہ کو بھی مانا ہے ۔
مگر اساتذہ و معلّمات کو چاہئے کہ درس کے اعادہ اورمکرر سہ کرر سمجھانے میں اس کی حاجت و ضرورت کا ضرورلحاظ کریں ،ایسا نہ ہو کہ بالکل آسان اور عام فہم مسائل کو بلاضرورت مکرر سہ کرر سمجھائیں ۔ اساتذہ کرام کو معلوم ہے کہ کچھ طلبہ کم پڑھنے اور امتحان میں محنت سے بچنے کے لئے جھوٹ بولتے اور بلاوجہ یہ کہتے رہتے ہیں کہ استاذ ! یہ سبق پھر سے سمجھائیے ،ہم لوگوں کی سمجھ میں نہیں آیا ہے، ایسے طلبہ سے ہوشیار رہیں اور بلاوجہ درس کے اعادہ و تکرار سے بچیں۔
(۱۵) عملی طور سے(پریکٹیکل) کر کے دکھانا :
کچھ مسائل اور چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ جب تک ان کو عملی طور سے کر کے نہ دکھایا جائے طلبہ کی سمجھ میں نہیں آتیں ،ایسی چیزوں کو عملی طور سے(پریکٹیکل) کر کے دکھا نا چاہئے ،کتاب و سنت میں اس کی کئی نظیر موجود ہیں ،مثال کے طور پر جب نماز کی فرضیت نازل ہوئی توحضرت جبریل علىہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو روز باقاعدہ نماز پڑھ کر دکھایا، پہلے روز اول وقت میں، اور دوسرے روز آخروقت میں ، اور پھر فرمایا:’’ وَالْوَقْتُ فِيمَا بَيْنَ هَذَيْنِ الْوَقْتَيْنِ ‘‘(سنن أبي داود محقق وبتعليق الألباني: 1/ 150 , سنن الترمذي: 1/ 278 , المستدرك على الصحيحين للحاكم : 1/ 306)اور وقت ان دونوں وقتوں کے در میا ن ہے۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صحابہ کرام کو نماز پڑھ کر دکھایا اور فرمایا: ’’صَلُّوْا کَمَا رَأيْتُمُو نِیْ اُصَلِّیْ‘‘(رواہ البخاری و احمد، انظر البخاری: ۱؍۱۱۱[۳۱ ۶ ] و مسند احمد :۵؍۵۳)
ایک مرتبہ آپ نے منبر پر نماز پڑھی اور جب سجدہ کرنا ہوا تو الٹے قدم نیچے اتر کر سجدہ کیا اور پھر منبر پر لوٹ آئے۔ اورنماز سے فراغت کے بعد لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:’’ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا صَنَعْتُ هَذَا لِتَأْتَمُّوا وَلِتَعَلَّمُوا صَلاَتِي ‘‘ (البخاری:۲؍۳۹۷) اے لوگو! میں نے ایسا صرف اس لئے کیا تاکہ تم لوگ میری اقتداء کرو اور میری نماز سیکھ لو۔اسی طرح آپ نے حج بھی عملًا کر کے دکھا یا اور فرمایا: ’’ خُذُوا عَنِّي مَنَاسِكَكُمْ ‘‘(رواہ احمد: 3 / 318) تم لوگ مجھ سے مناسک حج سیکھ لو۔
آج بھی عربی مدارس میں نیچے کے درجات میں طلبہ سے عملی وضو کرایا جاتا،اور عملی نمازیں پڑھائی جاتیں ہیں ،اس واسطے کہ اگر ان طلبہ کو صرف زبانی وضوء کا طریقہ بتا دیا جائے تو کچھ بھی ان کے پلّے نہیں پڑے گا ،لیکن جب سامنے وضو کر کے انہیں دکھایا جاتاہے ،اور اپنے سامنے کھڑا کرکے باقاعدہ انہیں عملی نماز پڑھائی جاتی ہے، تو طلبہ وضو کا مکمل طریقہ اور نماز میں قیام، رکوع ، سجدہ، جلسہ ، تشہد وغیرہ تمام اعمال کا صحیح طریقہ سیکھ لیتے ہیں اور انہیں ساری دعائیں یاد ہو جاتیں ہیں۔
بہر حال جن چیزوں کی تعلیم و تفہیم کے لئے عملی طور سے کر کے دکھانا ضروری یا زیادہ مفید ہو انھیں عملی طور سے کر کے دکھانا چاہئے، عصری علوم کی تعلیم میں پریکٹیکل کی بڑی اہمیت ہے ، خاص طور سے سائنس اور طب میں۔مگر دینی علوم کی تعلیم میں بھی اس کی ضرورت پڑتی ہے، اور بوقت ضرورت اس کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔
(۱۶)مثالوں کے ذریعہ سمجھانا:
بہت سی باتیں اوراصول وقواعد مثالوں کے بغیر سمجھ میں نہیں آتے، اور کچھ باتیں ایسی ہو تی ہیں جو مثالوں سے بہت جلد سمجھ میں آجاتی ہیں، اور بغیر مثال کے سمجھانے میں دیرلگتی اور پر یشا نی ہوتی ہے، ایسی باتوں کومثالوں کے ذریعہ سمجھانا چاہئے ، کتاب وسنت میں اس کی بہت سی مثا لیں مو جود ہیں ۔
مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مَثَلُهُمْ کَمَثَلِ الَّذِیْ اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا أَضَاء تْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَکَهُمْ فِیْ ظُلُمَاتٍ لاَّ يُبْصِرُونَ  (البقرة: ١٧) ان لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی ،پھر جب اس کے آس پاس کی چیزیں روشنی میں آگئیں تو اللہ نے ان کے نور کوچھین لیا اور انھیں اندھیرے میں چھوڑ دیا ،جو دیکھتے نہیں۔
اس میں اللہ نے ان لوگوں کے بارے میں جو پہلے تو مسلمان ہوئے ،لیکن پھر جلدہی منافق ہو گئے، بتایا کہ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اندھیرے میں تھا، پھر اس نے روشنی جلائی جس سے اس کا ماحول روشن ہو گیا اور مفید اور نقصان دہ چیزیں اس پر واضح ہو گئیں ، پھردفعتًا وہ روشنی بجھ گئی، اور وہ حسب سابق تاریکیوں میں گھر گیا، یہ منافقین بھی پہلے شرک کی تاریکی میں تھے ،پھر مسلمان ہوئے تو ایمان کی روشنی میں آگئے، اور حلال و حرام اور خیر و شر کو پہچان گئے ،پھر دوبارہ نفاق کی جانب لوٹ گئے تو ساری روشنی جاتی رہی ۔ (فتح القدیر)
ایک دوسری جگہ فرمایا : مَّثَلُ الَّذِيْنَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِيْلِ اللّهِ کَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنبُلَةٍ مِّئَةُ حَبَّةٍ وَاللّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ وَالله وَاسِعٌ عَلِيْمٌ  (البقرة: ٢٦١)جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کئے ہوئے مال کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں ،اور ہر بالی میں سو دانے ہوں،اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بڑھا چڑھا کر دیتاہے،اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔
اسی طرح باتوں کی وضاحت اور مسائل کی توضیح و تشریح کے لئے اور بہت سی مثالیں قرآن کریم میں موجود ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی باتوں کو سمجھانے كے لئے مثالوں کا استعمال کیا ہے، مثلاً آپ نے فرمایا:’’ مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِى تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى ‘‘(صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 8/ 12 , صحيح مسلم : 8/ 20)
مومنوں کی مثال آپسی لطف و محبت اور رحم دلی میں ایک جسم کے مانند ہے کہ اس کے کسی بھی عضومیں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بخار،درد اور جاگنے میں برابر شریک ہوتا ہے ۔
اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے باہمی ربط اور محبت و تعلق کو ایک مثال کے ذریعہ سمجھایا ہے کہ مسلم معاشرہ ایک جسم کی طرح ہے، جیسے جسم کے کسی ایک عضو میں بیماری اور تکلیف ہو تو پورا جسم تکلیف میں شریک ہوتا ہے، ایسے ہی اگر کسی مسلمان کو تکلیف ہو تو اس تکلیف میں سارے مسلمانوں کو شریک ہونا چاہئے ۔
ایک حدیث میں آپ نے فرمایا:’’ مَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِى يَقْرَأُ الْقُرْآنَ مَثَلُ الأُتْرُجَّةِ رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا طَيِّبٌ وَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِى لاَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ التَّمْرَةِ طَعْمُهَا طَيِّبٌ وَلاَ رِيحَ لَهَا وَمَثَلُ الْفَاجِرِ الَّذِى يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الرَّيْحَانَةِ رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا مُرٌّ وَمَثَلُ الْفَاجِرِ الَّذِى لاَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الْحَنْظَلَةِ طَعْمُهَا مُرٌّ وَلاَ رِيحَ لَهَا وَمَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ كَمَثَلِ صَاحِبِ الْمِسْكِ إِنْ لَمْ يُصِبْكَ مِنْهُ شَىْءٌ أَصَابَكَ مِنْ رِيحِهِ وَمَثَلُ جَلِيسِ السُّوءِ كَمَثَلِ صَاحِبِ الْكِيرِ إِنْ لَمْ يُصِبْكَ مِنْ سَوَادِهِ أَصَابَكَ مِنْ دُخَانِهِ ‘‘ (سنن أبي داود محقق وبتعليق الألباني : 4/ 406)
اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اترجہ (سنترے کے مانند ایک خوش ذائقہ اور خوشبو دار پھل)کی مانند ہے ،جس کی بو بھی اچھی ہو تی ہے اور ذائقہ بھی اچھا ہوتا ہے ۔اور اس مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا کھجور کی طرح ہے، جس کا ذائقہ اچھا ہو تا ہے ، مگر اس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی۔ اور اس فاجر کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے، ریحانہ(ایک خوشبو دار پھل) کی مانند ہے، جس کی بو اچھی ہو تی ہے، مگرذائقہ کڑوا ہو تا ہے ،اور اس فاجر کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا، اندرائن کی مانند ہے، جس کا ذائقہ بھی کڑوا ہوتا ہے، اور اس میں کوئی بو بھی نہیں ہوتی ۔اچھے ساتھی کی مثال مسک والے کی مانند ہے  اگر تمہیں اس میں سے کچھ نہیں لگے گا توخوشبو ضرور ملے گی،  برے ساتھی کی مثال بھٹی والے(لوہار وغیرہ) کی مانند ہے ،اگر تمہیں اس کی سیاہی نہ لگے، تو اس کا دھواں تو ضرور لگے گا۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن اور فاجر اور ان کے قرآن پڑھنے اور نہ پڑھنے کے عمل کے اثرات کو محسوس چیزوں سے تشبیہ دے کر بہت زیادہ آسان قابل فہم اور اثر انگیز بنادیا ہے،اسی طرح برے ساتھی کو لوہار سے تشبیہ دے کر یہ واضح فرمایا ہے کہ جس طرح لوہار کے پاس بیٹھنے والا اگر اس کے کوئلے کی سیاہی اورآگ کی چنگاریوں سے بچ بھی جائے تو کم از کم اسے دھواں تو لگے گا ہی ۔ ا سی طرح برے شخص کی صحبت میں رہنے والے کو بھی اس کی وجہ سے کچھ نہ کچھ تکلیف اور نقصان ضرورپہونچے گا ۔اس واسطے بروں کی صحبت سے حتی الامکان دور رہنا چاہئے۔
بہر حال کتاب و سنت میں بہت سی باتوں کی توضیح مثالیں دیکر اور تشبیہ اور تمثیل کے ذریعہ کی گئی ہے، اس واسطے اساتذہ و معلّمات کو بھی اپنی باتوں کو سمجھانے كے لئے مثالوں سے مدد لینی چا ہئے ۔
(۱۷)اشارے کے ذریعہ سمجھانا:
بعض اشیاء کا اشارے کے ذریعہ سمجھا نا آسان ہو تا ہے اور اس سے مخاطبین بات کو بڑی آسانی سے سمجھ لیتے ہیں، ایسی صورت میں اساتذہ کو تفہیم کے لئے اشارے کااستعمال کرنا چاہئے، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سمجھانے کے لئے کہ قمری مہینہ کبھی انتیس دن کا ہو تا ہے اور کبھی تیس دن کا اشارے سے کام لیا، اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو پھیلا کر اشارہ کرتے ہوئے فر مایا : ’’الشَّهْرُ هٰکَذا وَ هٰکَذاوَ هٰکَذا‘‘ کبھی مہینہ اس طرح اور اس طرح اور اس طرح ہوتا ہے اور تیسری مرتبہ انگوٹھے کو موڑلیا ، پھر فرمایا: ’’ ’’الشَّهْرُ هٰکَذا وَ هٰکَذاوَ هٰکَذا ‘‘اور اس مرتبہ انگوٹھے کو نہیں موڑا، اس طرح آپ نے اشارہ فرمایا کہ مہینہ کبھی انتیس کا اور کبھی تیس کا ہو تا ہے ۔  (صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 7/ 68 , صحيح مسلم : 3/ 123)
اسی طرح مسلمانو ں کے باہمی ربط و تعلق کو بتانے كے لئے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ إِنَّ الْمُؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا ‘‘مومن مومن کے لئے عمارت کی مانند ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے میں پیوست ہو کر اس کومضبوط کرتا ہے ،راوی حدیث حضرت ابوموسیٰ اشعری رضى اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ وَشَبَّكَ أَصَابِعَهُ ‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر جال بنا کر دکھایا۔ (صحيح البخاري  حسب ترقيم فتح الباري : 1/ 129 , صحيح مسلم : 8/ 20)
اورحضرت سہل بن سعد الساعدی رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ أَنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ فِي الْجَنَّةِ هَكَذَا وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى ‘‘(صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري :  7/ 68) میں اور یتیم کی کفاکت کرنے والا جنت میں ان دونوں انگلیوں کی طرح ہوں گے ۔اور یہ کہتے ہوئے آپ نے درمیانی اور شہادت والی انگلی سے اشارہ کیا۔
ظاہر ہے کہ اس اشارے سے صحابہ کرام کی سمجھ میں یہ بات بڑی آسانی سے آگئی ہوگی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ایک دوسرے سے بالکل قریب ہوں گے اور دونوں کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہو گی۔
ایک بار سفیان بن عبد اللہ رضى اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ: اللہ کے رسول یہ ارشاد فرمائیے کہ آپ کی نظر میں میرے لئے کون سی چیز سب سے زیادہ خطرناک ہے ؟آپ نے اپنی زبان کو پکڑ کر فرمایا:یہ۔(رواه الترمذي :  4/ 607 وصححہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر جواب میں ’’یہ‘‘ کہہ کرجہاں اس بات کی جانب اشارہ فرمایا کہ زبان کے استعمال میں بے احتیاطی سب سے خطر ناک امر ہے وہیں آپ نے زبان کو پکڑ کر اس بات کی جانب بھی اشارہ کردیا کہ زبان پر گرفت ہونا اور اس کو اپنے قابو میں رکھنا ضروری ہے ۔
در اصل بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں لوگ اشارے سے بڑی آسانی کے ساتھ سمجھ جاتے ہیں اور صرف زبان سے کہنے سے یا تو اسے دیر میں سمجھتے ہیں یا سمجھ ہی نہیں پاتے ہیں ، ایسے مواقع پر تفہیم کے لئے اشاروں کا استعمال کرنا زیادہ مناسب اوربہتر یا ضروری ہو تا ہے۔
بہر حال تعلیم و تربیت کا کام کرنے والوں کو چاہئے کہ اپنی باتوں کو اچھی طرح سمجھانے اور واضح کرنے کے لئے حسب ضرورت اشاروں سے بھی مدد لیں۔
(۱۸)نقشہ بنا کر یا لکیریں کھینچ کر سمجھانا:
بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو نقشہ بنا کر یا لکیروں سے اس کی شکل بنا کر دکھانے اور سمجھا نے سے مخاطبین کوفورا سمجھ میں آجاتی ہیں،اور اگر ویسے سمجھایا جائے تو سمجھ میں نہیں آتیں ۔ ایسی چیزو ں کونقشہ کے ذریعہ یا خطوط کھینچ کر سمجھانا چاہئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حسب ضرورت ا یسا کیا کرتے تھے ۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے ، آپ نے ایک سیدھی لکیر کھینچی ،پھر اسکے دائیں جانب دو لکیریں اوربائیں جانب دو لکیریں کھینچیں ،پھر درمیان والی لکیر پر اپنا ہاتھ رکھا اور فر مایا: یہ اللہ کا راستہ ہے ،پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی: وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِيْماً فَاتَّبِعُوهُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَن سَبِيْلِهِ  الأنعام: ١٥٣  (رواہ ابن ماجہ: ۱؍۲۴) یہی میرا سیدھا راستہ ہے پس تم اسی کو اختیار کرو اور دوسرے راستوں کواختیار نہ کرو اس لئے کہ وہ تم کو اس کے راستے سے ہٹاکر متفرق کردیں گے۔
اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے ایک خط کھینچا اور فرمایا کہ یہ اللہ کا راستہ ہے، پھر چند خطوط اس کے دائیں اور بائیں جانب کھینچے، پھر فرمایا کہ یہ ایسے راستے ہیں جن میں سے ہر ایک پر شیطان ہے اور جو اپنی جانب بلاتا ہے ۔پھر آیت کریمہ: وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِيْماً فَاتَّبِعُوهُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَن سَبِيْلِهِ  کی تلاوت فرمائی ۔(مسند احمد:۱؍۴۳۵،۴۶۵)
پہلی روایت کے مطابق
 دوسری روایت کے مطابق
غور فرمائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطوط کھنچ کر آیت کریمہ اور اللہ کی راہ’’ صراط مستقیم ‘‘کی تشریح کس قدر عام فہم انداز میں فرمائی، جس سے صحابہ کرام رضى الله عنہم کے ذہنوں میں یہ بات بڑی آسانی سے جا گزیں ہو گئی کہ اللہ کا سیدھا راستہ صرف ایک ہے اور باقی تمام راستے شیطانوں اور گمراہی وضلالت کے ہیں۔
ایک دوسری روایت میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں سمجھانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مربع نما شکل بنائی ۔ اور اس کے بیچ سے باہر نکلتا ہوا ایک خط کھینچا اور اس درمیانی خط سے ملا کر چھوٹے چھوٹے خطوط کھینچے ۔پھر مربع کے درمیان میں انگلی رکھ کر فرمایا:یہ انسان ہے اور مربع بنانے والے خطوط اس کی موت ہیں اور یہ چھوٹے چھوٹے خطوط حوادث و مصائب ہیں جو انسان پر حملہ کرتے رہتے ہیں۔اگر ان کا نشانہ چوک جاتا ہے تواجل آلیتا ہے ،اور مربع سے باہر نکلتا ہوا جو خط ہے وہ انسان کی آرزو اور تمنا ہے ۔جہاں تک آدمی کبھی نہیں پہنچ پاتا۔
 حافظ ابن حجر  رحمہ الله نے فتح الباری(۱۱؍۲۳۷)میں مختلف محدثین کرام کی بنائی ہوئی شکلیں نقل کی ہیں اور اس شکل کو سب سے زیادہ معتمد قرار دیا ہے۔
اس خاکہ کی مدد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات واضح فرمائی کہ انسان اور اس کی آرزؤوں کے درمیان حادثات اور مصائب حائل ہیں، پھر موت چاروں طرف سے انسان کو گھیرے ہوئے ہے، جس سے کوئی راہ فرار نہیں ۔اورانسان کو کتنی بھی طویل زندگی کیوں نہ ملے اس کی آزوئیں ادھوری رہ جاتی ہیں، اور کوئی بھی انسان زندگی میں اپنی تمام تمناؤں کی تکمیل نہیں کر پاتا۔(انظر صحیح البخاری مع الفتح:۱۱؍۲۳۵۔۲۳۷، سنن ابن ماجہ:۲؍۱۴۱۴،رسول خدا کا طریق تربیت ص ۴۶،۴۹)


(
۱۹) اہم چیزوں کو لکھانا اورتختۂ سیاہ کا استعمال کرنا :
اساتذہ و معلّمات کو ضرورت کے مطابق طلبہ کو سمجھانے كے لئے کبھی کبھی تختۂ سیاہ (بلیک بو ر ڈ ) کا بھی استعمال کرنا چاہئے ،کچھ باتوں کا املا کرانا چاہئے، اور کچھ چیزیں لکھ کر بتانا چاہئے، اور جو با تیں اہم اور ضروری ہوں انھیں ضرور لکھانا چاہئے ،تا کہ وہ طلبہ کے پاس محفوظ رہیں،کیونکہ کہا جا تا ہے ’’الذھن خوّان‘‘ یعنی ذہن بہت خیانت کرنے والا ہے، بہت ساری باتوں کے بارے میں آ دمی سوچتا ہے کہ یہ ہمیشہ یاد رہیں گی مگر حافظہ خیا نت کرجاتا ہے اور وہ باتیں ذہن سے نکل جاتی ہیں ۔
خاص طور سے چھوٹے بچوں كے لئے ضروری باتیں بلیک بورڈ پر ضرورلکھ دینا چاہئے، تا کہ وہ دیکھ کر صحیح صحیح اپنی کا پیوں پر نقل کر لیں اور ان کے پاس محفوظ رہیں،اور ساتھ ہی بچوں کولکھنے کی اہمیت بھی بتانا چا ہئے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب انبیاء علیہم السلام  پر اپنے کلام کو نازل فرمایا، تو صرف انبیا ء علیہم السلام کی زبانی ان کی تبلیغ پر اکتفاء نہیں کیا ، بلکہ انھیں کتابی شکل میں بھی عنایت فر ما یاتاکہ وہ محفوظ رہیں اور لوگ مقررہ مدت تک ان سے استفادہ کرتے رہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قرآن کریم کی حفاظت كے لئے کاتبین وحی کو مقرر فرمایا ۔جو آپ پرنازل ہونے والی سورتوں اورآیتوں کو آپ کی ہدایت کے مطابق مصحف میں لکھتے تھے، فتح مکہ کے سال قبیلہ خزاعہ کے لوگوں نے بنی لیث کے ایک شخص کو قتل کردیا، جب اس واقعہ کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی تو آپ نے اپنی سواری پر سوار ہوکر ایک عظیم الشان خطبہ دیا جس میں حرم کی عظمت وحرمت اور اس کے آداب کی تفصیل اور قتل میں قصاص ودیت کے احکام کو بیان فرمایا، جب آپ خطبہ سے فارغ ہوئے تو یمن کے ایک صحابی ابو شاہ رضى اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول مجھے یہ خطبہ لکھوا دیجئے ۔آپ نے صحابہ کرام رضى الله عنہم کو ابو شاہ كے لئے یہ خطبہ لکھ کر دینے کا حکم دیا ۔ اور فر مایا : ’’ اُکْتُبُوْا لِأبِيْ شَاهْ‘‘ابو شاہ کے لئے لکھ دو۔(صحيح البخاري مع فتح الباري : 3/ 165)
اسی طرح آپ نے عمر و بن حزم رضى اللہ عنہ وغیرہ كے لئے صدقات، دیات، فرائض اور سنن کے متعلق ایک کتاب تحریر کروائی تھی۔(انظر جامع بیان العلم واھلہ)
ان سب سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریر کا تعلیم و تبلیغ میں بڑا دخل اور اس کی بڑی اہمیت ہے ، اس واسطے طلبہ ا وراساتذہ کواہم اہم مسائل کے لکھنے لکھانے کا اہتمام کرنا چاہئے اور فرائض اور ریاضی وغیرہ کے مسائل کی تفہیم کے لئے بلیک بورڈ کا استعمال ضرور کرنا چاہئے۔
(۲۰)تدریس میں اعتدال و تدریج سے کا م لینا :
اساتذہ کو اس بات کا بھی لحاظ رکھنا چاہئے کہ اسباق کو تدریجا اور تھوڑا تھوڑا کر کے پڑھائیں ،ایسا نہ ہو کہ سال کا اکثر وقت گپ شپ میں گذار دیں اور جب امتحان کا وقت قریب آئے تو جلدی جلدی پڑھائیں،اور مقررہ نصاب میں سے کچھ پڑھائیں اور کچھ چھوڑ دیں، اورطلبہ سے کہیں کہ تم لوگ اسے خود سے پڑھ لینااور یاد کر لینا ،یا اکثر ایام کلاس سے غیر حاضر رہیں ، اورد نیا بھر کے دورے اور سفر کرتے رہیں اور اخیر میں آکر تیزی سے کتابوں کا دورہ کرا دیں، یہ طریقہ ہرگز صحیح نہیں ہے،طلبہ کو تھوڑا تھوڑاان کی قابلیت ا ور فہم کی صلاحیت کے مطابق پڑھانا اور سمجھانا چاہئے ۔ دورہ نہیں کرانا چاہئے، اور نہ وقت گذاری کرکے اکٹھے زیادہ پڑھا نا چا ہئے ۔
سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ایک استاذ کو جب کوئی کتاب پڑھانے کے لئے دی جائے تو وہ سب سے پہلے سال بھر کے تعلیمی ایام کا حساب لگا ئے، اس طرح کہ سال کے تین سو ساٹھ دن جوڑ کر دیکھے کہ ان میں سے کتنے دن تعلیم ہو گی، اور کتنے ایام رخصت وغیرہ میں نکل جائیں گے ۔ حساب لگاتے وقت رخصت علالت ، رخصت اتفاقی ،جمعہ کی چھٹیاں ،سہ ماہی ، ششماہی اور سالانہ امتحان اور ان کی تیاریوں کی چھٹیاں ،عید ،بقرعید کی چھٹیاں وغیرہ تمام تعطیلات کو مد نظر رکھیں، بلکہ حساب لگاتے وقت یہ بھی ملحوظ رکھناچاہئے کہ درمیان میں مہمانوں کی آمد، یا مدرسہ کے ذمہ داروں کی تشریف آوری کی وجہ سے لگ بھگ کتنے دن تعلیم نہیں ہو گی، اور اس کا بھی خیال رہے کہ یقینی طور سے سالانہ امتحان کی تیاری سے کم از کم پندرہ، بیس روز پہلے ہی کورس ختم ہوجائے ،کیونکہ اگر ایسا نہ ہو گاتو طلبہ کو مذاکرہ، آموختہ کے اعادہ، اور اساتذہ سے پوچھنے كے لئے موقعہ نہیں ملے گا ، اور نہ مدرس انھیں امتحان اور اسکی تیاری کے بارے میں کچھ بتا سکے گا۔ جبکہ مدرس کو امتحان سے پہلے اس کے بارے میں اہم اہم باتیں ضرور بتانا چاہئے،مثلاً یہ کہ امتحانی سوالات کے جوابات کیسے لکھنا چاہئے ، امتحان کی تیاری کیسے کرنی چاہئے ،پرچہ لکھتے وقت کن کن چیزوں کا لکھناضروری ہے وغیرہ وغیرہ۔
یاد رہے کہ جو اساتذہ سال بھر کا ٹائم ٹیبل بنا کر پڑھاتے ہیں وہ مناسب رفتار سے اور اچھی طرح پڑھا تے ہیں، اور ان کا کورس بھی آسانی سے ختم ہو جاتا ہے ۔اور جن کا کوئی ٹائم ٹیبل نہیں ہو تا وہ صحیح طریقے سے نہیں پڑھاتے ،اور عموماً ان کا کورس بھی وقت پر ختم نہیں ہوتا،اور تعلیمی میدان میں وہ ناکام رہتے ہیں، اس واسطے کہ وہ کبھی اتنا کم پڑھاتے ہیں کہ طلبہ کو نہ آسودگی ہوتی، اور نہ کورس ختم ہو تا ہے، اور کبھی اتنا زیادہ پڑھادیتے ہیں کہ طلبہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا، اور جو کچھ وہ پڑھا تے اور بتاتے ہیں وہ اسے ہضم نہیں کر پاتے۔ کیونکہ وہ نہ اتنا مطالعہ کرکے آتے ہیں اور نہ ہی استاذ اطمینان اور تفصیل کے ساتھ پڑھاتا ہے، بلکہ جلدی جلدی عبارت پڑھاکر آگے بڑھ جاتا ہے ،اور بہت سی چیزوں کو چھوڑ کرکہہ دیتا ہے کہ اب تم لوگ بڑی جماعت میں پہونچ گئے ہو، خود سے سمجھ لینا ، اور یاد کر لینا،اوردونوں صورتوں میں طلبہ کا علمی خسارہ ہوتا ہے۔
اسی طرح اساتذہ و معلّمات کو سبق کے سمجھانے اور معلومات دینے میں بھی اعتدال سے کام لینا چاہئے، نہ اتنی کم معلومات دیں کہ درس کا خاطر خواہ فائدہ نہ ہو اور طلبہ کی علمی تشنگی برقرار رہے، اور نہ اتنی تفصیل میں جائیں کہ ان کا سمجھنا اور یاد رکھنا طلبہ کے لئے مشکل یا نا ممکن ہو ۔مثلا ترجمہ معانی القرآن پڑھا تے وقت مفردات کی لغوی اور نحوی صرفی تشریح کرنی چاہئے ،آیات کا لفظی اور سلیس ترجمہ کرنا چاہئے ،سبب نزول اور آیتوں سے مستنبط ہونے والے کچھ مسائل بھی بتانا چاہئے ، صرف لفظی ترجمہ پر ہی اکتفا ء کرنا اور شان نزول وغیرہ کو بالکل ترک کردینامناسب نہیں ۔ اسی طرح کسی جگہ اتنی معلومات دے دینا کہ طلبہ ہضم نہ کرسکیں اور کسی جگہ بالکل خاموشی اختیار کرنا یا بہت مختصر معلومات دینابھی مناسب نہیں۔ صحیحین وغیر ہ کتب حدیث کے پڑھانے والے بعض اساتذہ صرف ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘کہنے پر اکتفا کرتے ہیں،اور جامعہ اسلامیہ میں تفسیر کے ایک استاذ تھے جو تفسیر فتح القدیر للشوکانی پڑھا تے تھے، وہ جب پڑھانے آتے تو زبانی آیتیں پڑھتے جاتے اور جلالین میں جتنی مختصر تفسیر ہے اتنی ہی مختصرتفسیر بیان کر دیتے، بلکہ صرف الفاظ قرآن کے آسان عربی میں ترجمے پر اکتفاء کرتے، اور کسی روز پاؤ پارہ ،کسی روز آدھا پارہ پڑھا کر چلے جاتے ،اس پرکئی طلبہ نے کہا:شیخ! تفسیر فتح القدیر مفصل ہے ،اس میں لغت، نحو، صرف، بلاغت، فقہ ، احادیث و آثاروغیر ہ کے مسائل بیان کئے گئے ہیں ،آپ ان پر بھی روشنی ڈالیں اورکچھ باتیں اپنی جانب سے بھی بتائیں، جتنی باتیں آپ بتاتے ہیں وہ بہت مختصر اور نا کافی ہیں ۔اس پر انھوں نے جواب دیا کہ میں جانتاہوں کہ تم لوگ کچھ نہیں سمجھ پاؤگے اسی واسطے میں جامعہ میں پڑھانے كے لئے نہیں آ رہا تھا ،مگر شیخ ابن باز  رحمہ الله نے اصرار کیا، اور کہا : آپ سے طلبہ کو فائدہ ہو گا، اس واسطے میں چلا آیا ، اگر ہم زیادہ بتائیں گے تو تم لوگوں کے کچھ پلے نہیں پڑے گا ۔اس پر طلبہ نے کہا :شیخ !مزید بتائیے ہم لوگ ان شاء اللہ سمجھیں گے ۔ توانھوں نے ایک آیت پڑھی ،اورجاہلی شعراء کے تقریبا ۱۰۰ اشعار اس کے ایک غریب لفظ کی تفسیر وتشریح میں پڑھے ،او ر پھر پوچھا کہ بتاؤ: کیا سمجھا ؟اور کتنا یاد ہے ؟
در حقیقت یہ افراط و تفریط اور حد اعتدال سے تجاوز کرناہے ۔ کہ یا تو اتناکم بتائیں کہ فتح القدیر کو جلالین بنادیں، یا اتنا زیادہ بتائیں کہ ایک لفظ پر ۱۰۰؍ اشعار سنائیں اور چاہیں کہ سب طلبہ کو بر وقت یاد بھی ہو جائے ،یہ تدریس کے صحیح منہج کے خلاف ہے ۔ہر مدرس اور معلمہ کوطلبہ اور طالبات کے معیار کے مطابق معتدل انداز میں کتاب پڑھانا اور معلومات دینا چاہئے، اور مناسب مقدار میں روزانہ پڑھانا چاہئے ۔اگراعتدال اور تدریج سے کام نہیں لیا گیا تو درس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا۔
جامعہ سلفیہ کے ہمارے اساتذہ میں سے ایک استاذ مولانا عبد المعید بنارسی رحمۃ اللہ علیہ تھے، یہ منطق ،فلسفہ اور نحو وصرف میں بڑے ماہر تھے، اس کے ساتھ تفسیر وحدیث بھی اچھا پڑھاتے تھے ، یہ ہمیشہ تعلیمی سال کی ابتداء ہی میں تعلیمی ایام کا حساب لگا لیتے ، جس میں جملہ تعطیلات کے علاوہ یہ بھی ملحوظ رکھتے کہ کبھی ناظم اعلی صاحب کے آنے کی وجہ سے اور کبھی کسی مہمان کی آمد اور کبھی کوئی ہنگامی پروگرام ہونے کی وجہ سے اسباق کا کتنا ناغہ ہوگا، پھر یہ دیکھتے کہ کتاب میں کتنے صفحات اور ہر صفحہ میں کتنی سطریں ہیں ،پھر انھیں تعلیمی ایام پرتقسیم کر کے دیکھتے کہ روزانہ کتنا پڑھائیں تو کورس آسانی سے ختم ہو جائے گا ؟ پھر اسی حساب سے روزانہ پڑھاتے، اورمعلومات بھی اتنی مقدار میں دیتے کہ طلبہ آسانی سے سمجھ جاتے ،جیسے جلالین میں ترجمہ کراتے اور اس میں مذکورہ مسائل کو متوسط انداز میں اچھی طرح سمجھاتے، نہ بہت لمبی تقریر کرتے اور نہ بہت اختصار سے پڑھاتے، جس سے طلبہ بھی مطمئن رہتے اور سب سے پہلے نصاب بھی ختم ہو جاتا۔ بہر حا ل اساتذہ کو تعلیم و تدریس میں اعتدال اور تدریج کا لحاظ رکھنا چاہئے ۔
غورفرمائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کا نزول ۲۳؍ سال میں تھوڑا تھوڑا کر کے ہوا، اور ایک ہی مرتبہ پورا قرآن نازل نہیں کردیا گیا،کیوں؟ اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے یاد کرنے اور لو گو ں تک پہچانے میں آسانی ہو، او ر لوگوں کو بھی اس کے سمجھنے، یاد کرنے، اور عمل کرنے میں سہولت ہو ۔
اسی طرح اسلامی احکام و فرائض کا نزول بھی بتدریج ہوا، اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو انھیں ایک ہی مرتبہ نازل کر دیتا، مگر متعدد مصلحتوں کے پیش نظر ایسا نہیں کیا ۔ بہر حال تدریج اور اعتدال قرآن کریم کا منہج ہے، اور اس میں بڑی حکمتیں اور فوائد ہیں، اس واسطے اساتذہ و معلّمات کو بھی تعلیم و تربیت میں اس کا لحا ظ رکھنا چا ہئے۔
حضرت معاذ بن جبل رضى اللہ عنہ کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن بھیجا تو انھیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: تم ایک ایسی قوم کی طرف جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں، تم انھیں پہلے توحید و رسالت کی دعوت دینا، وہ جب یہ بات مان لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسو ل ہیں تو پھر انھیں یہ بتانا کہ اللہ نے ان پر شب و روز میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ یہ بھی تسلیم کرلیں تو پھر انھیں یہ بتانا کہ اللہ نے ان پر زکاۃ فرض کیاہے جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور غریبوں اور فقیروں پر خرچ کی جائے گی۔ متفق علیہ(مشکوٰۃ:۱؍۵۵۵ ح ۱۷۷۲)
ان تمام دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم و تربیت میں تدریج و اعتدل کا لحاظ کرنا ضروری ہے ۔
(۲۱)مسائل کو آسان بنا کر پیش کرنا:
اساتذہ ومعلّمات کی ذمہ داری ہے کہ جو کتابیں پڑھائیں انھیں طلبہ وطالبات کے سامنے آسان اورقابل فہم و قابل حفظ بنا کر پیش کریں ۔ اور تعلیم اور مدرسہ کا ذکر بچوں کے سامنے اس طرح کریں کہ انہیں مدرسہ آنے اور تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہو۔
افسوس کہ برصغیر میں بچوں کو ان کے گھر والے ،محلہ پڑوس کے لوگ ،رشتہ دار اورخود بعض اساتذہ اورمدرسہ کے ذمہ داران بھی اس طرح ڈراتے ہیں کہ گویا بچے کو مدرسہ میں استاذ کے پاس پڑھنے کے لئے نہیں، بلکہ قصاب کے پاس ذبح کرنے کے لئے بھیجا جاتاہے ،اور مدرسہ تعلیم و تربیت کی جگہ اور درس گاہ نہیں، بلکہ بچوں کا مذبح ہے ۔ کسی بچے نے کوئی شرارت کی کہ امی یا ابو یا دادی کی آواز آئی :ارے یہ بہت شرارت کرنے لگا ہے، اس کا نام مدرسہ میں لکھادو ۔ وہاں ماسٹر صاحب یا میاں صاحب یا مولوی صاحب اس کو ٹھیک کر دیں گے ۔ کوئی کہتا ہے کہ وہاں اتنی پٹائی ہو گی کہ چھٹی کا دودھ یاد آجائے گا ۔کوئی مرغا بنانے ،کوئی پیٹھ پر اینٹ لادنے ، کوئی دیر تک اٹھک بیٹھک کرانے، کوئی کرسی بنانے ، اور کوئی کان اینٹھنے کا تذکرہ اتنے بھیانک انداز میں کرتا ہے کہ مدرسہ کا تصور بچہ کے ذہن میں کسی ایسے وحشت ناک جیل کی شکل میں ہوتا ہے۔ جس میں بچوں کو مارنے پیٹنے اور طرح طرح کی اذیتیں دینے کے لئے اساتذہ و معلّمین کے نا م پر انتہائی ظالم اور بے رحم قسم کے داروغہ اور پولیس کے لوگ رہتے ہوں۔
بعض اساتذہ و معلّمات بھی طلبہ و طالبات کو خوف زدہ کرتے اور ڈراتے رہتے ہیں کہ مدرسہ خالہ پھوپھی کا گھر نہیں ہے ، چمڑی ادھیڑ لیں گے ۔بعض معصوم بچوں کو بری طرح پیٹتے بھی ہیں ۔ بچوں کو ڈرانے کا یہ اسلوب اور طریقہ بالکل غلط اور انتہائی نقصان دہ ہے۔اس سے بچے پہلے ہی مدرسہ اور اساتذہ سے متنفر اور خوف زدہ ہو جاتے ہیں ،اور پھر یا تو وہ مدرسہ جاتے ہی نہیں، یا جاتے ہیں تو ڈرے اور سہمے ہوئے رہتے ہیں۔ جس سے ان کے اندر بزدلی و کم ہمتی پیدا ہو جا تی ہے، جو تعلیم و تربیت اور ہر ناحیہ سے بچوں کے لئے نقصان دہ ہے ۔
اس کے برخلاف ہم نے سعودی عرب میں دیکھاکہ بچوں کو مدرسہ جانے سے پہلے تعلیم کی خوب تر غیب دی جاتی ہے ،مدرسہ ، اس کے ماحول اور وہاں کی مشغولیات کو اس انداز میں ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے کہ وہ بڑے شوق اور رغبت سے مدرسہ جاتے ہیں،اور مدرسہ میں بھی انہیں بڑے لاڈو پیارسے پڑھایا جاتا ہے،ان کے لئے کھیل اور تفریح کے مناسب سامان اور پروگرام ہو تے ہیں،وہاں انہیں چاکلیٹ اور مشروبات بھی دئے جاتے ہیں، جس سے طلبہ بلا کسی سختی اور مار پیٹ کے خود ہی مدرسہ جاتے ہیں، بلکہ اس كے لئے بے قرار رہتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ تعلیم كے لئے ترغیب و تسہیل کا انداززیادہ صحیح اور بہتر ہے۔
بہت سے اساتذہ کچھ کتابوں کو پڑھانے سے پہلے ہی کہنے لگتے ہیں کہ یہ کتا ب بہت مشکل ہے اور کسی کے سمجھ میں آنے والی نہیں ہے، لیکن پھر بھی ہم پڑھا ئے دیتے ہیں، نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ طلبہ پہلے ہی سے مایوس ہو جاتے ہیں اور اس کے درس کو توجہ سے نہیں سنتے ، اس طرح وہ کتاب انکی سمجھ میں نہیں آتی، حالانکہ اگراستاذ صرف یہ کہے کہ یہ کتاب ذرا مشکل تو ہے لیکن آپ لوگ توجہ دیجئے ان شاء اللہ سمجھ میں آجائے گی، اور طلبہ درس توجہ سے سنیں ،تو اسے آسانی سے سمجھ سکتے ہیں ، کیو نکہ ؂
مشکلے نیست کہ آساں نہ شود               مرد باید کہ ہراساں نہ شود
بہر حال اساتذہ و معلّمات ا ور والدین وغیرہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے سامنے مدرسہ اور تعلیم کا ذکر اچھے انداز میں کریں، اورمدرسے کا ماحول ایسا عمدہ ، خوش گوار اوردلچسپ بنا ئیں کہ بچے وہاں خود اپنے شوق اور رغبت سے جائیں، اور اساتذہ جو کتابیں یا مضامین پڑھائیں انھیں آسان اور قابل فہم بنا کر پیش کریں، طلبہ کی ہمت افزائی ،اور مدد کریں، اور کوئی ایسا قول و فعل ان سے صادر نہ ہو جس سے طلبہ کو تعلیم سے نفرت ہو اور وہ مدرسہ نہ جائیں یا چھوڑ دیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذرضى اللہ عنہ اورحضرت ابو موسی رضى اللہ عنہ کو جب یمن کی جانب روانہ کیا تو انھیں یہ نصیحت فرمائی:’’ يَسِّرَا ، وَلاَ تُعَسِّرَا وَبَشِّرَا ، وَلاَ تُنَفِّرَا ‘‘(صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 4/ 79 , صحيح مسلم : 5/ 141) لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنا ، سختی نہ کرنا ،ان کو بشارت دینا اور نفرت نہ دلانا،نیز آپ نے فر مایا ’’اِنَّ الدِّيْنَ يُسْرٌ، وَلَن يُّشَادَّ أحَدٌ اِلاغُلِبَ ،فَسَدِّدُوْا، وَقَارِبُوْا، وَاَبْشِرُوْا. ‘‘(البخاری: ۱؍۹۳) بیشک دین آسان ہے ۔ جو شدت کا رویہ اپنائے گا وہ مغلوب ہو جائے گا ،اس لئے سیدھی اور میانہ روی اپناؤ، اور بشارت حاصل کرو۔
(۲۲) طلبہ کو تعلیم کی اہمیت و فضیلت بتانا:
اساتذہ و معلّمات کی ذمہ داری ہے کہ وہ طلبہ و طالبات کو وقتاً فوقتاً تعلیم کی ضرورت و اہمیت اور اس کے فضائل و فوائد بتاتے رہیں،خاص طور سے نئے سال کی ابتداء میں اور ان طلبہ کے سامنے جو مدرسہ میں نئے نئے داخل ہوئے ہوں علم کی فضیلت پر ضرور روشنی ڈالیں اور بتائیں کہ علم ایک بہت بڑی نعمت اور بیش بہا دولت ہے، اس کی وجہ سے انسان کو دین و دنیا کے متعلق بڑی اچھی اچھی اور مفید معلومات حاصل ہو تی ہیں۔عزت و سربلندی ملتی ہے اور اس سے دنیا اور آخرت میں درجات بلند ہو تے ہیں ،قرآن مجید و سنت نبویہ میں اس کی بڑی تا کید اور ترغیب ہے ۔علم ہی سے افراد اور قومیں ترقی کرتی ہیں، اور آخرت کی کامیابی و کامرانی کا دارو مدار بھی علم وعمل پر ہے ۔
پھر انھیں صحابۂ کرام رضى الله عنہم اور اسلاف کے واقعات سنائیں اور بتائیں کہ انھوں نے حصول علم كے لئے کس قدر محنت کی اور قربانیاں پیش کی ہیں۔انھیں بتائیں کہ علم کی خاطر پریشانیاں اور اساتذہ کی سختیا ں بھی برداشت کرنی پڑتی ہیں، حضرت جبریل  علىہ السلام جب پہلی مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی لے کر آئے تو انھوں نے آپ کو اتنے زور سے بھینچا کہ آپ کو کافی تکلیف پہونچی ، پھرفرمایا : ’’اِقْرَ أ‘‘ پڑھو،آپ نے کہا: ’’مَا اَنَا بِقَارِي‘‘مجھے پڑھنا نہیں آتا، پھر دوسری مرتبہ بھی اسی طر ح کیااور آپ نے اسی طرح جواب دیا، پھر تیسری مرتبہ بھی اسی طرح کیا اور فرمایا: ﭽ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ (3) الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4) عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ   (العلق: ١ - ٥)پڑھئے اپنے اس رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، جمے ہوئے خون سے انسان کی تخلیق کی،پڑھئے اور آپ کارب بڑا کریم ہے ،جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی ، انسان کو وہ سکھایا جس کااسے علم نہ تھا ۔(انظر صحیح البخاری:۱؍۲۳)
کبھی کھانے پینے کے انتظام میں کچھ پریشانی اور کمی ہو اور طلبہ کھانے کی شکایت کریں تو انہیں حضرت ابو ہریرہ رضى اللہ عنہ کا عبرت انگیز واقعہ سنائیں اور بتائیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضى اللہ عنہ جوعلم حدیث کے بہت بڑے حافظ اور مکثرین صحابہ میں سے تھے ، انھوں نے حصو ل علم کی خاطر بڑی تکلیفیں برداشت کیں،یہاں تک کہ کبھی کبھی بھوک کے مارے ان کا یہ حا ل ہوتا تھا کہ سینے کے بل مسجد میں پڑے رہتے ، ایک مرتبہ شدید بھوک کی وجہ سے نکل کر راستہ پر بیٹھ گئے ، ادھر سے حضرت ابو بکر رضى اللہ عنہ کا گذر ہوا تو ان سے ایک آیت کے بارے میں سوال کیا، مقصد صرف یہ تھا کہ وہ ان کی حالت کو سمجھ جائیں اور گھر لے جاکر کھانا کھلا دیں ،مگر وہ جواب دے کر آگے بڑھ گئے ، پھر ادھر سے حضرت عمر رضى اللہ عنہ گذرے تو ان سے بھی ایک آیت کے بارے میں سوال کیا ،وہ بھی جواب دے کر چلے گئے،اتنے میں وہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ہوا، آپ انھیں دیکھ کر مسکرائے،پھر فرمایا: ابو ہریر ہ ! میرے گھر آجاؤ۔ وہ آپ کے پیچھے پیچھے گئے ،گھر پہنچ کر آپ نے ازواج مطہرات سے پوچھا کہ کھانے کے لئے کچھ ہے ؟ جواب ملا کہ ایک پیالہ دودھ ہے جسے فلاں شخص نے ہدیہ میں بھیجا ہے۔ آپ نے حضرت ابو ہریرہ رضى اللہ عنہ سے فرمایا:تمام اصحاب صفہ کو بلالاؤ۔( اصحاب صفہ مدرسۂ نبوی کے وہ طلبہ تھے جو ایک طرح سے مسلمانوں کے مہمان تھے ،ان کے پاس مال و متاع اور اہل و عیال نہیں تھے ۔آپ کے پاس اگر صدقہ کا مال آتاتو سب ان کے پاس بھیج دیتے اور ہدیہ ہوتا تو آپ بھی ان کے ساتھ شریک ہو جاتے) حضرت ابو ہریرہ رضى اللہ عنہ کو اس وقت یہ بات اچھی نہیں لگی ،  وہ سوچنے لگے : ایک پیالہ دودھ ہے اور سارے اصحاب صفہ کو بلالاؤں گا تو کیا ہو گا ؟مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا اس واسطے سب کو بلا لائے، جب سب آکر بیٹھ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ابو ہریرہ ! پیالہ لو اور سب کو پلاؤ، وہ سوچنے لگے کہ جب تک میری باری آئے گی پتہ نہیں کچھ بچے گا بھی کہ نہیں،مگر الحمد ﷲاس دودھ میں اتنی برکت ہوئی کہ تمام اصحاب صفہ نے سیر ہو کر پیا ،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضى اللہ عنہ سے فرمایا: ابوہر یرہ! اب تم پیو ،وہ فرماتے ہیں میں نے پیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور پیو، میں نے اور پیا، آپ نے فرمایا اور پیو، میں نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دیکر بھیجا ہے اب کوئی گنجائش نہیں ہے ،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ اپنے ہاتھ میں لیا اور سب سے اخیر میں ا لحمد للہ اور بسم اللہ کہہ کرنوش فرمایا۔(رواہ الترمذی:۴؍۶۴۸ (۴۷۷ ۷) وقال: ھذا حدیث حسن صحیح)
بہر حال طلبہ کو بتانا چاہئے کہ علم کی راہ میں بھوک وپیاس کی تکلیف، اساتذہ کی ڈانٹ، مار اور سفر کی مشقتیں وغیرہ برداشت کرنی پڑتی ہیں، صحابہ کرام رضى الله عنہم نے ایک ایک حدیث کی طلب كے لئے ایک ایک ماہ کا سفر کیا ہے ، محدثین کرام رحمہم اللہ حصول علم كے لئے مختلف شہروں کا سفر کرتے ،کئی مرتبہ ایسا ہو تا کہ ان کے پاس کھانے پینے كے لئے کچھ نہیں ہوتا ۔ اور فاقہ یا درخت کی پتیوں پر گذارہ کرنا پڑتا ، بعض مر تبہ وہ اینٹ کا تکیہ بنانے پر مجبور ہوتے تھے۔(انظرمناقب الامام احمدلابن الجوزی ص:۲۵ ،۲۶)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ایک مرتبہ مکہ میں تھے ۔ ایک چور ان کا سامان اور کپڑے چرا لے گیا جس کی بنا پر وہ استاذ کے پاس پڑھنے نہیں جاسکے، ان کے ساتھی حال معلوم کرنے آئے تو سارا معاملہ بتایا ۔انھوں نے تعاون کرنا چاہا اور کہا کچھ پیسے یا تو صلہ رحمی کے طور پر یا قرض لے لو، مگر انھوں نے لینے سے انکار کر دیا ۔پھر بعض ساتھیوں نے یہ تجویز رکھی کہ آپ کچھ حدیثیں اپنے ہاتھ سے لکھ دیں ہم اس کی اجرت دے دیں گے،آخربمشکل تمام وہ اس پر راضی ہوئے اس طرح ان کے لئے کپڑوں کا انتظام کیا گیا۔ (انظر مناقب الامام احمد لابن الجوزی ص :۲۳۰)
مختصر یہ کہ طلبہ کے سامنے علم کی اہمیت وفضیلت بیان کرتے رہنا چاہئے، اور انھیں بتانا چاہئے کہ علم کی خاطر مختلف تکالیف اور مشقتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں، اس سے ان کے اندر علم کا شوق اوراس کے لئے ہر قسم کی تکلیفیں برداشت کرنے اورقربانیاں دینے کا جذبہ پیدا ہو گا۔
(۲۳) طلبہ کی ہمت افزائی کر نا:
جوطلبہ وطالبات ذہین و فطین ،صالح وپرہینر گار اور اچھے اخلاق و عادات کے حامل ہوں اساتذہ کو ان کی ہمت افزائی کرتے رہنا چاہئے۔ اسی طرح جو طلبہ ا چھے نمبرات سے کامیابی حاصل کریں یا اچھی تقریر کریں ،یا کسی سوال کا برجستہ صحیح جواب دیں ،یا نماز کی برابر پابندی کریں یا کوئی اور نمایاں اور اچھا کارنامہ انجام دیں ان کی بھی ہمت افزائی کرنی چاہئے ۔
غزوۂ تبوک کے موقع پرمسلمانوں کو سخت مالی مشکلات کا سامنا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے تعاون کی اپیل کی تو حضرت عثمان غنی رضى اللہ عنہ نے ایک ہزاردینار پیش کئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دیناروں کو اچھالتے جاتے اور فرما تے جاتے :آج کے بعد عثمان غنی کو کوئی گناہ نقصان نہیں پہنچائے گا۔( فضا ئل الصحابۃ للامام احمد بن حنبل:رقم۷۳۸،۸۴۶)
یہ ان کے ایثار و قربانی اور انفاق فی سبیل اللہ کی عزت افزائی اور تحسین تھی۔
اس موقع پر سب سے زیادہ ایثار ایک غریب اورمحنت کش صحابی نے کیا، جنھوں نے رات بھر پانی کھینچ کھینچ کردو صاع چھو ہارہ کمایا،پھراس میں سے ایک صاع چھو ہارہ اپنے اہل و عیال كے لئے رکھا اور ایک صاع آپ کی خدمت میں لاکر پیش کیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس جذبۂ ایثار کی بڑی قدر کی اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا: ان چھوہاروں کو قیمتی مالوں کے ڈھیر پر بکھیر دو ۔ (تفسیر ابن کثیر:۲؍۴۹۲)
اسی طرح جوطلبہ اپنی غربت اور پریشانیوں کے باوجود حصول تعلیم میں لگے ہوں ان کی دل جوئی اور ہمت افزائی کرنی چاہئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمار بن یا سررضى اللہ عنہ اور ان کے اہل خانہ کو توحید کی خاطر کفار کی اذیتیں برداشت کرتے دیکھتے تو ان کی دلجوئی اور ہمت افزائی کرتے ہوئے فرماتے:’’ اَبْشِرُوْا آلَ يَاسِرْ فَاِنَّ مَوْعِدَ کُمُ الْجَنَّةُ‘‘ (المعجم الأوسط للطبراني: 2/ 141 , المستدرك على الصحيحين للحاكم : 3/ 438) اے یاسر کے گھر والو ! تمہیں خوشخبری ہو ، تمہارے لئے جنت کا وعدہ ہے ۔
اسی طرح اساتذہ ان غریب اور کمزور حال طلبہ کو تسلی دیں اور ان کی ہمت افزائی کرتے ہوئے ان سے کہیں : صبر کرو اور محنت سے پڑھوان شاء اللہ تمہارا مستقبل روشن ہوگا، کامیابی تمہاری قدم بوسی کرے گی ، اور تمہاری محنت، صبر اور قربانی کا پھل تمہیں ضرور ملے گا۔
حضرت عمر بن خطاب رضى اللہ عنہ حضرت ابن عباس رضى اللہ عنہ کی ان کے علم و فضل کی وجہ سے تعریف کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے’’نِعْمَ تَرْجُمَانُ الْقُرآنِ ابنُ عَبَّاس‘‘ ابن عباس کیا ہی بہترین قرآن کی تفسیر کرنے والے ہیں، اور کبھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما تشریف لاتے تو فرماتے: ’’جَاءَ فَتَی الْکُهُولِ ، وَذُو اللِّسَانِ السَّؤلِ، وَالقَلْبِ الْعَقُولِ‘‘ ادھیڑ عمر والے کی متانت وسنجیدگی اور سوال کرنے والی زبان اورعقل رکھنے والے دل کامالک نوجوان آگیا۔
عبد الملک بن عبد العزیز بن ابی سلمہ الماجشون فرماتے ہیں کہ میں منذر بن عبد اللہ الحزامی کے پاس آیا ، اس وقت میں کمسن تھا، مگر میں نے جب ان سے گفتگو کی تو میری زبان میں فصاحت دیکھ کر انھوں نے میری جانب زیادہ التفات کیا، پھر پوچھا تم کون ہو ؟ میں نے کہا عبد الملک بن عبد العزیز بن ابی سلمہ ۔ انھوں نے فرمایا:’’ اُطْلُبِ الْعِلْمَ فَاِنَّ مَعَکَ حِذَاءَ کَ وَ سِقَاءَ کَ ‘‘ تم علم حاصل کرو، تمہارے پاس تمام اسباب موجود ہیں۔
امام زہری اپنے تلامذہ سے فرمایا کرتے تھے ’’لاَ تُحَقِّرُوا أنْفُسَکُمْ لِحَدَاثَةِ أنْفُسِکُمْ‘‘ تم لوگ اپنے آپ کو اپنی کم عمری کی وجہ سے حقیر مت سمجھو ۔
اچھے اساتذہ ہمیشہ اپنے طلبہ کی ہمت افزائی کرتے اور انھیں محنت کرنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ تم ہی لوگ مستقبل میں امت کے کشتىبان ہوگے۔ قوم کی قیادت اور سیادت تمہیں لوگوں کو سنبھالنی ہے، تمہیں لوگوں میں کوئی محدث بنے گا ، کوئی مفسر، کوئی مفتی بنے گا،کوئی قاضی، کوئی مصنف بنے گا، کوئی صحافی۔تمہیں کو جامعات و مدارس اور دینی جماعتوں اور تحریکوں کی ذمہ داریوں کو سنبھالنا ہے، اس واسطے خوب محنت کرواور اپنے آپ کو ہر اعتبار سے ان ذمہ داریوں کو اٹھانے کا اہل بناؤ اگرتم لوگوں نے ابھی محنت نہیں کی اور اپنے آپ کو اس کے لئے تیار نہیں کیاتو تمہارا اور قوم کا بہت خسارہ ہو گا ۔
طلبہ کی ہمت افزائی کرنا ،انہیں علم کا شوق دلانا، ان کی خفتہ صلاحیتوں کو بیدار کرنا نہایت ضروری ہے، تا کہ وہ سلف کے بہترین خلف بن سکیں اور جو ذمہ داریاں ان پر امت کی اصلاح ،دینی ودنیوی قیادت،اسلامی عقیدہ وتہذیب کی حفاظت او ر علم کی نشرو اشاعت کے سلسلہ میں آنے والی ہیں انہیں بحسن و خوبی ادا کرسکیں۔
(۲۴) کبھی کبھی طلبہ سے سوالات کرنا:
اساتذہ کو چا ہئے کہ طلبہ سے کبھی کبھی سوالات کرتے رہیں،ان سے سوالات کرنے کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ اس سے ان کے ذہن کا صیقل ہوتا ہے، جس طرح لوہے پر زنگ لگ جاتا ہے تو اسے صیقل کیا جاتا ہے جس سے اس کی صفائی ہو جاتی ہے اور چمکنے لگتا ہے اور چھری وغیرہ ہو تو تیز بھی ہوجاتی ہے، اسی طرح ذہنوں کوبھی سوالات کے ذریعہ صیقل کیا جاتا ہے، کیونکہ اگر طلبہ اپنے ذہنوں کو استعمال نہ کریں اور یوں ہی چھوڑ دیں تو ان میں بھی زنگ لگ جاتا ہے اور کند ہو جاتے ہیں، اور اگر اساتذہ وغیرہ ان سے برابر سوالات کر تے رہیں اور وہ اپنے ذہنوں کو برابر استعمال کرتے رہیں تو ان کا ذہن تیز ر ہتاہے اور سوچنے سمجھنے اور یاد رکھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے ۔
دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے طلبہ سبق اور آموختہ برابر یادکرتے اور اپنی معلومات تازہ رکھتے ہیں، اور اگر اساتذہ صرف پڑھاتے رہیں اور کبھی ان سے سوالات نہ کریں اور آموختہ نہ سنیں تو وہ خالی کلاس میں درس کے سماع پر اکتفاء کرتے ہیں، نہ مطالعہ کرتے ہیں، نہ سبق یاد کرتے ہیں ،نہ آموختہ دہراتے ہیں، اور ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی کند پڑ جا تی ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابۂ کرام رضى الله عنہم سے ان کی معلومات کا جائزہ لینے اور ان کے ذہنوں کو صیقل کرنے كے لئے کبھی کبھی سوالات پوچھا کرتے تھے ، ایک مرتبہ آپ نے صحابۂ کرام ث سے پوچھا : بتاؤ وہ کون سا درخت ہے جس کی مثال مومن کی سی ہے اور اس کے پتے جھڑتے نہیں؟حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ سب لوگوں کا ذہن جنگل کے درختوں کی طرف گیا، مگر میرا ذہن فوراً کھجور کی طرف گیا، کیونکہ تھوڑی دیر قبل ہی آپ کے سامنے کھجور کے گاپھا کا میٹھا گودا پیش کیا گیا تھا اور آپ نے ہم لوگوں کے ساتھ اسے تناول فر مایا تھا۔ میں نے بتا نا چاہا مگر دیکھا کہ میں سب سے چھوٹا ہوں اس لئے خاموش رہا ۔ پھر لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ آپ ہی بتائیے وہ کون سا درخت ہے؟ آپ نے فرمایا:کھجور کا درخت۔ ( بخاری: ۱؍۱۴۷ مع الفتح)
علاوہ ازیں سوال و جواب کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے مخاطبین و حاضرین کو باتیں بہت جلد سمجھ میں آجا تی ہیں۔ کیونکہ سوال کی وجہ سے مخاطبین اس کی جانب پورے طور سے متوجہ ہوجاتے ہیں اور گفتگو میں دلچسپی لیتے ہیں، اسی واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم و تفہیم کے لئے کبھی کبھی اس انداز کو بھی اختیار فرمایاکرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے صحابہ کرام ثسے پوچھا : ’’اَتَدْرُوْنَ مَنِ الْمُسْلِمُ ؟‘‘ کیا تم لوگ جانتے ہو کہ مسلمان کون ہے؟ انھوں نے کہا : ’’اللّهُ وَرَسُولُهُ اَعْلَمُ ‘‘اللہ اور اس کے رسول کو اس کا زیادہ علم ہے ، آپ نے فرمایا:’’ اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِهِ وَ يَدِهِ ‘‘ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں۔پھر آپ نے فرمایا:’’ اَتَدْرُوْنَ مَنِ الْمُؤمِنُ؟‘‘ کیا تم جانتے ہو مومن کون ہے ؟ صحابہ نے کہا : ’’ اللّهُ وَرَسُولُهُ اَعْلَمُ ‘‘اللہ اور اس کے رسول کو اس کا زیادہ علم ہے۔آپ نے فرمایا: ’’اَلْمُؤمِنُ مَنْ أمِنَهُ الْمُؤمِنُوْنَ عَلیٰ أنْفُسِهِمْ وَ أمْوَالِهِمْ ‘‘ مومن وہ ہے جس سے اہل ایمان اپنی جانوں اور مالوں کے سلسلہ میں مامون و محفوظ رہیں۔ (مسند أحمد بن حنبل: 2/ 206)
اس واسطے اساتذہ کرام کو بھی طلبہ سے سوالات کرتے رہنا چاہئے اور خاص طور سے جماعت ثالثہ تک کے طلبہ سے خوب پوچھنا اور آموختہ ودرس سنتے رہنا چاہئے ،تاکہ ان کو نحو، صرف وغیرہ کے قواعد اور بنیادی باتیں اچھی طرح یاد ہو جائیں۔
(۲۵)طلبہ کو محنت پر ابھارنا:
یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ کوئی چیز بھی بغیر محنت اورجد وجہد کے حاصل نہیں ہو تی ۔ مگر حصول علم کے لئے خصوصی طور پر محنت کی ضرورت ہے ،قاعدہ ہے:’’مَنْ جَدَّ وَجَدَ‘‘جو محنت اور کوشش کرے گا وہ پائے گا۔’’وَلَيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَاسَعیٰ‘‘انسان كے لئے وہی ہے جو اس نے محنت کر کے حا صل کیا ۔ ’’ بَقَدْرِ الْکَدِّ تُکْتَسَبُ الْمَعَالِیْ ‘‘ کدو کاوش کے مطابق ہی اعلی مراتب حاصل ہوتے ہیں۔
ہمارے اسلاف, محدثین ، فقہاء اور بڑے بڑے ائمہ کرام نے جو مختلف علوم میں اعلیٰ مقامات حاصل کئے اور انھیں ان علوم وفنون میں جو مہارت حاصل ہوئی ان میں ان کی محنت اور جد وجہد کا بھی بڑادخل تھا ۔مثلاً امام بخاری رحمہ اللہ امیر المؤمنین فی الحدیث مانے جاتے ہیں اور ان کی کتاب صحیح بخاری’’ اَصَحُّ الْکُتُبِ بَعْدَ کِتَابِ اللّٰهِ‘‘ مانی جاتی ہے،مگر ان کو اور ان کی کتاب کو یہ مقام ویسے نہیں حاصل ہوا،اس کے لئے انھوں نے بڑی محنت اور جد وجہد کی، حصول علم کے لئے ان کی حرص و خواہش اور جد وجہد کا یہ عالم تھاکہ رات کو کئی کئی مرتبہ بیدار ہوتے، اٹھ کر چراغ جلاتے اور ذہن میں جو علمی نکتے اور فوائد کی باتیں آتیں انھیں نوٹ کرتے ،اور پھر چراغ بجھاکر لیٹ جاتے ، حتی کہ بعض راتوں میں آپ اس طرح بیس بیس مرتبہ اٹھتے ۔
ابو الوفاء ابن عقیل  رحمہ الله  کے علمی شوق کا یہ عالم تھاکہ وہ کہتے ہیں : میں پوری کوشش کرتا ہوں کہ کھانے میں کم سے کم وقت صرف ہو، چنانچہ وقت بچانے کی خاطر میں روٹی کی بجائے کیک کے سفوف کو ترجیح دیتا ہوں، اور اسے پانی کے ساتھ نگل لیتا ہوں،اس طرح مطالعہ اورعلمی فوائد کو نوٹ کرنے کے لئے وقت بچاتا ہوں۔وہ فر ماتے تھے کہ میں اپنے لئے حلال نہیں سمجھتا کہ اپنی عمر کی ایک ساعت بھی ضائع کردوں۔یہاں تک کہ جب میں تھک جاتا ہوں اور زبان مذاکرہ اور قراء ۃ سے قاصر اورآنکھیں مطالعہ سے عاجز ہو جاتی ہیں تو آنکھیں بند کر کے چپ چاپ لیٹ جاتا ہوں، اور اس آرام کی حالت میں بھی غورو فکر کرتا رہتا ہوں،اور جو علمی باتیں اور نکات ذہن میں آتے ہیں ان کو ترتیب دیتارہتا ہوں، پھر جب کچھ آرام کر کے اٹھتا ہوں تو انھیں ترتیب سے لکھ لیتا ہوں ، آج میری عمر اسّی سال ہے مگر میرے علمی ذوق و شوق اور تڑپ میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے ، بیس سال کی عمر میں حصول علم کی جتنی خواہش اورلگن میرے اندر تھی آج اس سے زیادہ ہی ہے ۔
شیخ مجد الدین ابو البرکات عبد السلام بن عبد اللہ جو ا بن تیمیہ الجد کے نام سے مشہور ہیں اور جنکی تصنیفات میں سے ’’منتقی الأخبار من احادیث سید الأخیار ‘‘ جس کی شرح ’’نیل الاوطار للشوکانی ‘‘ ہے اور ’’المحرر فی الفقہ‘‘ وغیرہ بیش قیمت کتابیں ہیں، ان کے حصول علم کے شوق و حرص اور اپنے اوقات کو بے کار ضائع ہو نے سے بچانے کی خواہش کا یہ عالم تھا کہ ان کے بارے میں شیخ عبد الرحمن بن عبد الحلیم بن تیمیہ رحمہ اللہ فر ماتے ہیں کہ ہمارے دادا جب بیت الخلاء جاتے تومجھ سے کہتے : کتاب کو تم بلند آواز سے پڑھو، تاکہ میں بیت الخلاء میں بھی سنتا رہوں، اوریہ صرف اس خاطر تھا کہ ان کا یہ وقت حصول علم سے خالی نہ جائے ۔(دیکھئے:مقدمۃ المحررفی الفقہ:ص۱۳، العلم و الدین:۱۰،۱۱)
اس واسطے اساتذہ و معلمات کو خود حصول علم کے لئے خوب محنت کرنی چاہئے اور طلبہ و طالبات کو بھی برابرحصول علم کے لئے محنت کرنے کی تاکید کرتے رہنا چاہئے اور ان کے اندر مطالعہ کا شوق پیدا کرنا اور انھیں علم کے دینی و دنیوی فوائد بتاتے رہنا چاہئے۔
(۲۶)حصول علم کے اہم اور آسان طریقوں سے آگاہ کرنا:
اساتذہ ومعلّمات کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ طلبہ وطالبات کی حصول علم کے آداب وافضل طر یقوں کی جانب رہنمائی کرتے رہیں۔مثلاًکلاس میں غسل کرکے یا کم ازکم ہاتھ منہ دھوکر اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر آنا ،تاکہ نشاط رہے اور نیند نہ آئے ،روزانہ مطالعہ کرنا، اسا تذہ درس میں جو باتیں بتائیں انھیں توجہ سے سننا اور سمجھنے کی کوشش کرنا،کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو دوبارہ استاذ سے پوچھ لینا ،درس کے وقت بات کر نے اور سونے سے احتراز کرنا ۔وغیرہ وغیرہ
انھیں یہ بھی بتائیں کہ کلا س میں اساتذہ کی بتائی ہوئی باتوں کو تفصیل کے ساتھ نوٹ کرنا ممکن نہیں ہوتا ، اس لئے خاص خاص باتیں اشارات میں نوٹ کرلیں اورجب کلاس ختم ہو نے کے بعد اپنے کمرے میں جائیں تو تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد انہیں تفصیل سے لکھ لیں، اس واسطے کہ ان اشارات کو بر وقت سمجھنا آسان ہوتا ہے، مگرایک دو ہفتہ کے بعد ان کو دیکھیں گے تو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آئے گا،لہذاہر روز کا درس اسی دن تعلیم کے بعد لکھ لینا چاہئے، اور آج کا کام کل پر نہیں ٹالنا چاہئے۔ اسی طرح حصول علم کے جو آسان طریقے اور آداب ہیں انھیں وقتاً فوقتاً طلبہ کو بتاتے ر ہنا چاہئے۔
(۲۷)طلبہ کو اپنے وقت کو منظم کرنے کی ترغیب دینا:
بہت سے طلبہ وطالبات اپنی طا لب علمی کی زندگی بڑے غیر منظم طریقے پر گذارتے ہیں ، چنانچہ پڑھنے کے وقت سوتے ،اور سونے کے وقت پڑھتے یا کھیلتے ہیں ، بے وقت کھاتے اور بے وقت بازار جاتے ہیں ،اسی طرح نہانے دھونے وغیرہ کے سلسلے میں بھی انکا کوئی نظام نہیں ہو تا ، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ تعلیم میں بھی نا کام ہو جاتے ہیں۔اور دوسرے کا موں میں بھی کامیاب نہیں ہو تے۔
اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ اپنے طلبہ کو ہمیشہ اپنے اوقات کو منظم کرنے اور وقت کی پابندی کر نے کی ترغیب دیں، اور تنظیم اوقات کے جو فوائد اور وقت کی پابندی نہ کرنے اور غیر منظم زندگی گزارنے کے جو نقصانات ہیں انھیں بتائیں، اور پھر اس سلسلہ میں جو طلبہ کوتاہی کریں اورغفلت سے کام لیں ان کے ساتھ کوئی رعایت نہ کریں ۔
جوطلبہ کلاس کے وقت بلا کسی معقول عذر کے سونے یاکھیلنے یا نہانے دھونے یا تعلیم کو چھوڑ کر کسی اور کام میں مشغول رہیں ان کو اس سے سختی سے منع کرنا چا ہئے ،اور جو نہ مانیں ان کے خلاف تادیبی کاروائی کرنی چاہئے ۔کیونکہ جب تک وقت کی صحیح تنظیم اور پابندی نہیں ہوگی صحیح طور سے علم حاصل نہیں ہو سکتا ۔نیز یہ چیز ہمیشہ کے لئے مضر ہے ،اگردور طالب علمی سے ہی اس سلسلہ میں طلبہ کی اصلاح نہ کی گئی تو وہ ہمیشہ كے لئے بد نظمی کے عادی ہو جائیں گے۔اور ان کی پوری زندگی غیر منظم طریقہ پر اور ناکام گزرے گی۔
(۲۸)نشاط کے وقت پڑھنے پرابھارنااور کلاس میں تازہ دم ہوکرآنے كے لئے تاکید کرنا:
جیسے مسلسل کام کرنے کی وجہ سے بدن تھک جاتا ہے، اسی طرح مسلسل پڑھنے اور ذہنی کام کرنے کی وجہ سے ذہن بھی تھک جاتا ہے ،اور جیسے بدن تھکا ہوا ہو تو جسمانی کام صحیح طور سے نہیں ہوتا ہے اسی طر ح جب ذہن اور دماغ تھکا ہوا ہو اور ذہنی نشاط اور سکون خاطر نہ ہوتو پڑھنے پڑھانے کا کام بھی صحیح طریقہ سے نہیں ہوتا ۔اس واسطے طلبہ کو کلاس میں ہاتھ منھ دھو کر بلکہ ممکن ہو تو غسل کرکے،اورصاف ستھرے کپڑے پہن کر اور خوشبولگاکرآنے کی تاکید کرنا چاہئے، تاکہ درس کے وقت ان میں نشاط رہے اور وہ توجہ سے سبق سن اور سمجھ سکیں ۔اسی طرح طلبہ کو سونے اور آرام کرنے کے وقت سونے اور آرام کرنے کی تاکید کرنا چاہئے، تاکہ کلاس میں انہیں نیند نہ آئے اور وہ اتنے تھکے ہوئے نہ ہوں کہ درس میں دل نہ لگے۔
ا گر کوئی طالب علم بیماری یا کسی وجہ سے رات کو نہ سو سکے اور تعلیم کے وقت اس پر تکان اور نیند کا غلبہ ہو تو اس سے کہنا چاہئے کہ کلاس سے رخصت لے کر آرام کر ے اور جب نیند پوری ہوجائے اور اسے سکون وآرام مل جائے تب پڑھے ۔تھکے ماندے اور نیند سے پریشان طلبہ کو پڑھانا ،یا ایسے وقت پڑھانا جب سب کو نیند آرہی ہو یا سخت گرمی یا سردی سے سب پریشان ہوں بے سود ہے ، اس سے احترازکرنا چاہئے ۔
مدارس کے ذمہ داروں کو بھی اس کا لحاظ کرنا چاہئے کہ سخت گرمی یا سردی میں اساتذہ و طلبہ کو پڑھنے پڑھانے کا مکلف نہ کریں ، بلکہ ایسے وقت میں تعطیل کردیں ۔حضرت عبد اللہ بن مسعودرضى اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’إنَّ لِلْقُلُوبِ نَشَاطًا وَإِقْبَالاً ، وَإِنَّ لَهَا لَتَوْلِيَةً وَإِدْبَارًا ، فَحَدِّثُوا النَّاسَ مَا أَقْبَلُوا عَلَيْكُمْ ‘‘ دلوں میں نشاط اور رغبت بھی ہو تی ہے،ا ور اعراض و بے رغبتی بھی ،اس واسطے جب لوگوں میں نشاط، رغبت اور توجہ ہو تو ان سے حدیثیں بیان کرو۔
اور حضرت علی رضى اللہ عنہفرماتے ہیں :’’ دلجمعی حاصل کرو ،ذہن کو انتشار سے بچاؤ اور اس کے لئے حکمت کی پر لطف باتوں سے مدد لو ۔جیسے بدن تھک جاتاہے اسی طرح دلوں میں بھی اکتاہٹ پیداہو جاتی ہے‘‘۔
حضرت ابو وائل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عبد اللہ بن مسعودرضى اللہ عنہ نکل کر ہمارے پاس آئے پھر فرمایا: ’’ إِنِّي أَخْبَرُ بِمَكَانِكُمْ وَلَكِنَّهُ يَمْنَعُنِي مِنَ الْخُرُوجِ إِلَيْكُمْ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَتَخَوَّلُنَا بِالْمَوْعِظَةِ فِي الأَيَّامِ كَرَاهِيَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا ‘‘( رواہ البخاری وغیرہ )
مجھے آ پ لوگوں کے بیٹھنے کا علم ہے مگر مجھے نکل کرآپ لوگوں کے پاس آنے سے صرف یہ مانع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے وعظ و نصیحت میں ہمارے اکتاجانے کے ڈرسے ناغہ کرتے تھے ۔
بہر حال اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ طلبہ کو نشاط کے وقت پڑھنے اور مطالعہ کرنے پر ابھاریں اور بتائیں کہ نشاط کے وقت پڑھنے اور تھک جانے کی صورت میں آرام کرنے سے مطالعہ کا خاطر خواہ فائدہ ہو گا اور صحت و تندرستی بھی قائم رہے گی ۔
خود اساتذہ کو بھی اس بات کا لحاظ رکھنا چاہئے کہ جب طلبہ اکتاجائیں اور ان کے اندر نشاط اور رغبت نہ ہو توان کی چھٹی کردیں۔ اوراگر گھنٹی ختم نہ ہو ئی ہو تو دلچسپ علمی چٹکلوں اور اہل علم کے پر لطف اور عبرت انگیز واقعات کے ذکر اور اچھے اشعار پڑھنے سننے اور بیت بازی وغیرہ میں وقت صرف کریں۔
(۲۹)احکام شرعیہ اور اسلامی اخلاق و عادات کی پا بندی کرانا :
اساتذہ ومعلّمات کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ طلبہ وطالبات کو اسلامی اخلاق وعادا ت ، اوراحکام شرعیہ کی پابندی،اوردینی ا مور کے لحاظ کرنے کی تعلیم وترغیب دیں، ایسا نہ ہو کہ مدرسہ میں رہ کر وہ صرف کتاب خوانی کریں، اور اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ کی جانب توجہ نہ دیں،مدرسہ صرف تعلیم گاہ ہی نہیں بلکہ تربیت گاہ بھی ہے ،اس واسطے طلبہ کی تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت کا بھی خیال رکھنا     چا ہئے اور انہیں اخلاق فاضلہ،عادات اسلامیہ اور احکام شرعیہ کی پابندی کی تاکید کرتے رہنا چاہئے ۔
امام مدائنی فرماتے ہیں کہ عبد الملک بن مروان نے اپنے بچوں کے اتالیق سے کہا : ’’عَلِّمْهُمُ الصِّدْقَ کَمَا تُعَلِّمُهُمُ الْقُرْآنَ ‘‘ ان کو سچائی کی ایسی ہی تعلیم دو جیسے تم انہیں قرآن کی تعلیم دیتے ہو ۔
کیونکہ اگر سچائی نہ ہو ، حسن اخلاق نہ ہو ، بات چیت کا سلیقہ نہ ہو ، چھوٹے بڑے کی تمیز نہ ہو، احکام شرعیہ کی پابندی نہ ہو تو ایسی صورت میں تعلیم ، مدرسہ اور قرآن و حدیث اور دیگر علوم شرعیہ کے پڑھنے پڑھانے کا کیافا ئدہ؟ اس واسطے جیسے طلبہ کوکتاب و سنت اور دیگر علوم کی تعلیم دیتے ہیں ویسے ہی انھیں اخلاق حسنہ اور احکام شرعیہ کی پابندی کی بھی تعلیم دینی چاہئے۔
عبد الملک بن مروان نے یہ بھی کہا: ’’وَجَنِّبْهُمُ السَّفَلَةَ‘‘ہمارے بچوں کو نچلے درجے کے لوگوں سے دور رکھئے’’فَاِنَّهُمْ أسْوَأ النَّاسِ رَغْبَةً فِيْ الْخَيْرِ وَ أقَلُّهُمْ أدَباً‘‘ اس واسطے کہ نچلے درجے کے لوگ نیکیوں کی سب سے کم رغبت رکھنے والے اور قلیل الادب ہو تے ہیں ۔( الدین و العلم : ص ۲۰ )
بہر حال طلبہ کو برے لوگوں کی صحبت سے دور رکھتے ہوئے اچھے اخلاق وعادات کا عادی اور شرعی امور کا پابند بنانا چاہئے ۔اور انھیں اپنے لباس، وضع قطع اورشکل و صورت وغیرہ کو درست کرنے اور شریعت کے مطابق رکھنے کی ترغیب دیتے اور تاکید کرتے رہنا چاہئے ۔
(۳۰) بوقت ضرورت طلبہ کو تنبیہ کرنا:
اساتذہ ومعلّمات کو بوقت ضرورت طلبہ وطالبات کو تنبیہ کرتے رہنا چاہئے ،اور اگر تعلیم و تربیت کے لئے انھیں سزا دینے کی ضرورت پڑے تو سزابھی دینا چاہئے، لیکن پہلا مرحلہ سمجھا نے کا ہے جیسا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کے سلسلہ میں فرمایا : ’’مُرُوْا أوْلادَکُمْ بِالصَّلاَةِ وَهُمْ أبْنَاءُ سَبْعِ سِنِيْنَ،وَاضْرِبُوْهُمْ عَلَيْها وَهُمْ أبْنَاءُ عَشْرِ سِنِيْنَ ، وَ فَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِِ‘‘ ( رواه احمد:۱؍۱۸۰، ۱۸۷، وابوداود، وسنده حسن کما قال الالباني في حاشية المشکاة؍۱۸۱)
جب بچے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز کا حکم دو،اور جب دس سال کے ہوجائیں اور نماز نہ پڑھیں تو انہیں مار مار کرنماز پڑھاؤ اور ان سب کے بستر الگ الگ کر دو۔
اس لئے اگر کچھ طلبہ یا طالبات سمجھانے سے راہ راست پر نہ آئیں ، اچھی باتوں پر عمل نہ کریں اور برے اخلاق و عادات کے عادی بنتے جارہے ہوں تو انہیں سزا دینی چاہئے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال کے بچے کو نماز نہ پڑھنے پر مارنے کا حکم دیا ہے۔البتہ اگر دس سال سے کم عمر کے بچے ہوں تو انھیں حتی الامکان مارنے سے احتراز کرنا چاہئے اور اچھی طرح ترغیب اور باربار تاکید سے اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے۔
اسی طرح دس سال یا اس سے زیادہ عمر کے طلبہ کو بوقت ضرورت دوسری سزا بھی دے سکتے ہیں ، حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ الله جوبہت ہی نیک اور صالح خلیفہ گذرے ہیں، یہاں تک کہ بعض لوگوں نے ان کو خلیفۂ خامس مانا ہے ،ان کی تربیت كے لئے ان کے والد محترم نے صالح بن کیسان  رحمہ الله کو اتالیق مقرر کیا تھا، یہ بہت اچھے اور باصلا حیت عالم تھے، اور جہاں ان کی تعلیم کا خیال رکھتے تھے وہیں ان کی تربیت پربھی گہری نظررکھتے تھے، تاکہ وہ اسلامی اخلاق وعادات سے آراستہ ہو جائیں، اور انھیں کسی غلط چیز کی عادت نہ پڑے، اس سلسلہ میں وہ ذرا بھی تساہلی ا ورسستی نہیں کرتے تھے۔
ایک مرتبہ عمر بن عبد العزیز رحمہ الله کی نماز با جماعت چھوٹ گئی توصالح بن کیسان رحمہ الله نے انھیں بلوایا اور پوچھا کہ نماز میں تاخیر کیوں ہوئی ؟انہوں نے جواب دیا کہ بال سنوار نے لگا تھا جس کی وجہ سے جماعت چھوٹ گئی، صالح بن کیسان رحمہ الله نے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ الله کے والد کے پاس اطلاع بھجوائی کہ آپ کے صاحبزادے اتنے زیادہ شوقین ہو گئے ہیں کہ بال سنوارنے میں جماعت چھوڑ دیتے ہیں۔اس پر ان کے والد محترم عبد العزیز  رحمہ اللہ نے ان کی یہ سزا متعین کی کہ ان کے با لوں کو منڈوا دیا جائے تا کہ نہ یہ بال رہیں اور نہ ان کے سنوارنے میں نماز چھوٹے ۔ ( انظرسیر اعلام النبلاء: ۵ ؍ ۶ ۱ ۱ )
دراصل اگرطلبہ وطالبات کو یوں ہی شتر بے مہار کی طرح چھوڑ دیا جائے اوران کی غلطیوں اور شرارتوں پر تنبیہ نہ کی جائے تو وہ بگڑ جا تے ہیں، اور ان کی صحیح تربیت نہیں ہو پاتی ہے ۔ اس واسطے بوقت ضرورت اصلاح کی خاطر انھیں تنبیہ کرنا اور سزا دینا چاہئے، البتہ بے تحاشہ پیٹناا وربلا ضرورت سزادینا غلط ہے ، حدیث نبوی ہے ’’مَنْ لَا يَرْحَمْ لَا يُرْحَمْ ‘‘ جو رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا ،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْيُؤ قِّرْ کَبِيْرَنَا وَيَرْحَمْ صَغِيْرَنَا‘‘ ( رواہ احمد :۲؍۲۰۷)جو ہم میں سے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کااحترام نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔
اس لئے جہاں بڑوں کا احترام واجب ہے وہیں چھوٹوں پر شفقت بھی ضروری ہے،اور طلبہ وطالبات کو بلاوجہ یا کسی ذاتی رنجش یا خاندانی عداوت کی بنا پر سزا دینااورمارنا درست نہیں، اسی طرح کسی کو ذاتی رنجش کی بناپر فیل کردینا ،یا اپنے بچوں اور بچیوں کو استحقاق سے زیادہ نمبرات دینا اور دوسرے بچوں کوکم نمبر دینا ،یہ ساری چیزیں غلط اور ظلم ہیں، ان کاقیامت کے روز حساب دینا ہوگا۔اس لئے اساتذہ کو ہر چیزمیں اعتدال وانصاف سے کام لینا چاہئے ۔
سزا میں اس کی بھی گنجائش ہے کہ کسی طالب علم کو بوقت ضرورت کلاس سے باہر کردیں، یا مدرسہ سے اس کا اخراج کردیں۔حضرت موسیٰ علىہ السلام  جب حضرت خضر  رحمہ الله کے پاس حصول علم كے لئے تشریف لے گئے تو انھوں نے یہ شرط رکھی کہ جو کچھ میں کروں اسے صرف دیکھنا اور اعتراض وتنقید نہ کر نا ۔ بلکہ میرے بتانے سے پہلے اس چیز کے بارے میں سوال بھی نہ کرنا۔مگر حضرت موسی      جیسے جلالی پیغمبر بھلا کہاں صبر کرپاتے، چنانچہ جب دونوں آدمی کشتی میں سوار ہوئے تو ملاح نے انہیں بزرگ لوگ سمجھ کر ان سے کرایا نہیں لیا،مگر حضرت خضر رحمہ الله نے کشتی کا ایک تختہ توڑ دیا، اس پرحضرت موسیٰ        سے صبر نہ ہوسکااوربول پڑے: ’’آ پ کا عمل بڑا عجیب ہے، کیا آپ لوگوں کو ڈبونا چاہتے ہیں‘‘؟ حضرت خضر  رحمہ اللہ نے کہا :’ ’ کیامیں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے؟‘‘ حضرت موسی علىہ السلام  نے فوراً معذرت پیش کی، مگرآگے بڑھے تو حضرت خضر رحمہ الله نے ایک بچے کو ما رڈالا، حضرت موسی علىہ السلام  کو پھر صبر نہ ہوا، اورکہا :آپ نے ایک معصوم بچے کو ناحق مار ڈالا، آپ نے غلط کیا،حضرت خضر  رحمہ اللہ نے کہا:’’ کیا میں نے تم سے کہا نہیں تھاکہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے‘‘؟ حضرت موسی  علىہ السلام  نے پھر معافی مانگی، اور کہاکہ اگر آئندہ مجھ سے ایسی غلطی ہوئی تو آپ اپنے ساتھ نہ رکھئے گا، پھر دونوں آگے بڑھے اور ایک بستی میں پہنچے جہاں کے لوگوں نے درخواست کے باوجود ان کی ضیافت سے انکار کردیا۔مگر حضرت خضر رحمہ الله نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو گرنے کے قریب تھی، اور اس کو درست کرنے لگے ، حضرت موسی علىہ السلام کو پھر صبر نہ ہوا،ا ور کہنے لگے :’’اگر آپ چاہتے تو اس کی مزدوری لے سکتے تھے‘‘ حضرت خضر  رحمہ الله نے فرمایا : ﭽ قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْْنِیْ وَبَيْْنِکَ سَأُنَبِّئُکَ بِتَأْوِيْلِ مَا لَمْ تَسْتَطِع عَّلَيْهِ صَبْراً ﭼ (الكهف: ٧٨)یہ ہمارے اور آپ کے درمیان جدائی ہے۔ آپ جن باتوں پر صبر نہیں کر سکے میں ان کی تشریح آپ کے سامنے کروں گا۔ اور پھر ان کی تشریح کرتے ہوئے ان کی حکمتیں بتائیں۔ (انظر سورہ الکہف:۶۶۔۸۲)
اسی طرح طلبہ وطالبات کو بھی کسی غلطی پر تین یا اس سے زائد مرتبہ تنبیہ اورمعاف کر نے کے بعد خارج کرسکتے ہیں ۔لیکن یا د رہے کہ ہراستاذ نہ خضر  رحمہ اللہ ہے اور نہ ہرطالب علم حضرت موسیٰ، مگر بہر حال اس سے بوقت ضرورت طلبہ کے اخراج کا جواز اور ثبوت ملتا ہے ، ا ور جب یہ بات واضح ہوجائے کہ کسی طالب علم یا طالبہ کامدرسہ میں رکھنا بے فائدہ ہے، بلکہ اس کا رکھنا مدرسہ اور دوسرے طلبہ و طالبات کے لئے نقصان دہ ہے، تو ایسی صورت میں اس کا اخراج کیا جا سکتا ہے۔
جس طرح ہسپتال میں جب ڈاکٹر کسی مریض کے علاج سے مایوس ہو جاتے ہیں تو اس کا ڈسچارج کر دیتے ہیں اور اس کے گھر والوں سے کہہ دیتے ہیں کہ اس کا علاج یہاں نہیں ہو سکتا اسے یہاں سے لے جائیے ۔ اور گھر رکھئے یا کسی بڑ ے ڈاکٹر کو دکھائیے ،اسی طرح جب کسی طالب علم کی اصلاح سے اہل مدرسہ مایوس ہو جائیں تو اس کا اخراج کر سکتے ہیں۔
سزا دینے میں اس بات کابھی لحاظ رکھنا چاہئے کہ جرم کیسا ہے؟ اور کب اور کن حالات میں اس جرم کا وقوع ہوا ہے؟ مثلاً کسی طالب علم نے سبق یاد نہیں کیا تو آپ اسے پہلے بلاکر سمجھائیں کہ تمہارا یہ عمل غلط ہے ، اگر سبق یاد نہیں کرو گے تو تمہارے اندر کچھ بھی علمی لیاقت نہیں پیدا ہو گی، اگر کسی کے والد عالم ہیں تو اسے یہ بھی سمجھائیں کہ تمہارے والد اتنے بڑے عالم ہیں ، تمہیں تو ان کا جانشین اور اپنے گھر کا روشن چراغ بننا چاہئے ، نہ کہ چراغ تلے اندھیرا ہو۔ پھر بھی وہ اپنی اصلاح نہ کرے تو سزا دے سکتے ہیں۔
اگر کبھی کوئی طالب علم ایسی غلطی کرے جس پر اگر اسے برسر عام نہ سزا دی جائے تو اس کے نقصانات عام ہونے اور اس کے دوسرے طلبہ پر غلط اثرات پڑنے کا قوی اندیشہ ہو تو اسے برسر عام سزا دینی چاہئے۔ جیسے کوئی طالب علم اپنے کسی استاذ یا ادارہ کے ذمہ دار سے سب کے سامنے جھگڑا اور ہاتھا پائی کرے تو مشورہ کے بعد اسے سب کے سامنے سزا دینی چاہئے، تاکہ دوسرے طلبہ و طالبات کو ایسی حرکت کرنے کی جر أت نہ ہو ۔شریعت اسلامیہ میں بھی بہت ساری سزائیں ایسی ہیں جن کو برسرعام دینے کا حکم ہے ۔
اور اگر جرم ایساہے کہ تنہائی میں بھی سزا دینے یا تنبیہ کرنے سے اصلاح ہو سکتی ہے تو بلاوجہ سب کے سامنے زجر وتوبیخ کر کے یا سزا دے کرطالب علم کی بے عزتی نہیں کرنی چاہئے، ہشام بن عبد الملک نے اپنے بچے کے اتالیق سے کہا تھا: ’’اِذَا سَمِعْتَ مِنْهُ الْکَلِمَةَ الْعَوْرَاء فِيْ الْمَجْلِسِ بَيْنَ جَمَاعَةٍ فَلاتُؤنِّبُهُ لِتُخْجِلَهُ،وَعَسیٰ اَنْ يَنْصُرَخَطَأهُ فَيَکُوْنَ نَصْرُهُ لِلْخَطَأ أقْبَحَ مِنْ اِبْتِدْاءِهِ بِهِ،وَلٰکِنْ اِحْفَظْهَا عَلَيهِ فَاِذَا خَلافَرُدَّهُ عَنْهَا.(الدین والعلم:ص۲۱)
جب تم میرے بچے سے مجلس میں کوئی غلط بات سنو تو سب کے سامنے ہی اس کی سرزنش کر کے شرمندہ نہ کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی وجہ سے وہ اپنی غلطی کی تائید کرنے لگے، تو اس کا اپنی غلطی پر اصرار کرنا غلطی کی ا بتدا سے زیادہ قبیح ہو۔بلکہ جب کوئی غلطی دیکھو تو یاد رکھو اور جب تنہائی میں ملے تو سمجھا دو ۔
کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ اگرطالب علم کو تنہائی میں بلا کرسمجھا دیجئے تو اس کا بہت اچھا اثر ہو تا ہے ، اور وہ فوراً اپنی غلطی کا اقرار کر کے آئندہ نہ کرنے کا عہد کرلیتا ہے ،لیکن اگر مجلس میں اسے ٹوک دیجئے تو وہ اور ضد کرنے لگتا ہے کہ اب تو ہماری بے عزتی ہو ہی گئی ہے، اس واسطے اب ہم اسی طرح کریں گے، دیکھتے ہیں کہ یہ ہم کوکتناڈانٹتے مارتے اور سزا دیتے ہیں۔
بہرحال سزا دینے میں موقع ومحل، جرم کی نوعیت اور حالات وغیرہ کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، اور جہاں سمجھانے سے کام چل جائے وہاں سزا نہیں دینی چاہئے، جہاں صرف زجر و توبیخ کی ضرورت ہو وہاں مارنا نہیں چاہئے،اور جہاں تنہائی میں سزا دینے سے اصلاح ہو جائے وہاں سب کے سا منے سزا نہیں دینی چاہئے۔ اور نہ بلا وجہ اخراج کرنا چاہئے۔ بلکہ ایک والد کی طر ح ہمیشہ ادارہ اور بچوں کی مصلحت کو ملحوظ رکھنا چاہئے، سزا برائے اصلاح ہونی چاہئے، برائے تعذیب نہیں۔
باب رابع
مختلف کتابوں کی تدریس کے طریقے
تفسیر اور علوم قرآن کی تدریس کا منہج
ہندوستان میں اکثر جا معات اورمدارس اسلامیہ میں ترجمہ و تفسیر قرآن کی جو کتا بیں پڑھا ئی جاتی ہیں انھیں تین مرحلوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
(۱) ترجمۃ معانی القرآنکا مرحلہ:اس مرحلہ میں درس کے وقت طلبہ کے پاس ترجمہ و تفسیر کی کوئی کتاب نہیں ہوتی، صرف معرّ یٰ قرآن کریم رہتا ہے، اور عموماً مدرس بھی اپنے سامنے صرف معرّ یٰ قرآن ہی رکھتا ہے، اور ازخود آیات کے معانی کا ترجمہ اور تفسیر کرتا ، اور مفردات کے معانی ، وا حد ، جمع، اور صیغے وغیرہ بتاتا ہے ،نیز طلبہ بھی عمر ، علم اور عقل و فہم کے اعتبار سے ابتدائی مرحلہ میں رہتے ہیں۔
(محققین علماء نے ترجمہ قرآن کے بجائے ترجمہ معانی القرآن کہنے کو زیادہ صحیح قرار دیا ہے، کیونکہ قرآن کریم کے الفاظ و آیات کا اسی فصاحت و بلاغت اور جامعیت کے ساتھ دوسری زبان میں ترجمہ کر نابہت مشکل بلکہ محال ہے۔ اس لئے کہ قرآن کے الفاظ وآیات میں جو فصاحت و بلاغت ، سلاست و جا معیت اور ادبی وعلمی چاشنی پائی جاتی ہے و ہ دوسر ی زبانوں کے مترجمین کے الفاظ و جملوں میں نہیں پائی جا سکتی ۔ صرف ان کے معانی کی حسب الامکان تفسیر اورترجمانی ہو تی ہے ، اس واسطے ترجمۃ القر آن کے بجائے ترجمۃ معانی القرآن کہنا زیادہ مناسب اور صحیح ہے۔)
(۲) تفسیر جلالین کی تدریس کا مرحلہ: اس مرحلہ میں مدرس اور طلبہ کے سامنے جلال الدین سیوطی اور جلال الدین محلی کی لکھی ہوئی یہ مختصر تفسیر ہوتی ہے ۔اور مدرس اسی کی عبارتوں کی تشریح و توضیح کرتا ہے۔
(۳) تفسیر فتح القدیر للشوکانی اور تفسیر ابن کثیر کی تدریس کا مرحلہ:اس مرحلہ میں اساتذہ اور طلبہ کے سامنے تفسیر کی یہ دونوں مطول کتابیں ہو تی ہیں جن میں متنوع قسم کے تفصیلی معلومات ہیں۔
ترجمۃ معانی القرآن کی تدریس کا منہج
(۱) ترجمہ معانی القرآن کادرس شروع کرنے سے پہلے بطور تمہید قرآن مجید کے مقام ومرتبہ اور اس کے فضائل کو بیان کیا جائے اوراحترام مصحف کے وجوب اورآداب تلاوت پر روشنی ڈالی جائے اور یہ بتایا جا ئے کہ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء تھے اسی طرح قرآن بھی تمام آسمانی کتابوں کا خاتم ہے ، اور تورات و انجیل وغیرہ آسمانی کتابیں خاص خاص قوم وعلاقہ کے لئے نازل کی گئی تھیں، لیکن جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتمام انس و جن کے لئے مبعوث فرمایا گیا اسی طرح قرآن کریم کو تمام انس و جن کے لئے تا قیا م قیامت دستور زندگی اور کتاب ہدایت بنا کر نازل کیا گیا ہے ا ور یہ کتاب بہت ہی مقدس ہے، لہٰذا اس کا احترام کرنا اور اس کو پڑھتے وقت اس کی تلاوت کے آداب کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
فضائل قرآن اور آداب تلاوت کے موضوع پر علامہ ابن کثیر کا ایک رسالہ ہے جو تفسیر ابن کثیر کے آخر میں مطبوع ہے اور الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی میں بھی اس کا مفصل بیان ہے۔
(۲)قر آن مجید کے ترجمہ اور معانی ومطالب کو جاننے اور سمجھنے کی ضرورت اور اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا جائے کہ قرآن کے معانی و مطالب کو سمجھے بغیراس کے نزول کا اصل مقصد حاصل نہیں ہوتا۔
(۳)جن آیات کا درس دینا ہو پہلے ان کی تلاوت ترتیل وتجوید کے ساتھ کرائی جائے، ایک طالب علم تلاوت کرے اور تمام طلبہ توجہ سے سنیں اور اگر طالب علم سے تلاوت میں کہیں غلطی ہو تو استاذ اصلاح کرے۔ تلاوت کے وقت استاذ اور طلبہ ایسا انداز اختیار کریں کہ احساس ہو کہ کوئی بڑی عظیم الشان اور مقدس کتاب پڑھی جارہی ہے۔بہتر یہ ہے کہ ہر روز ایک نئے طالب علم سے تلاوت کرائی جائے ، تاکہ سب کا ناظرہ بھی صحیح ہو جائے۔ اور سب کو مجلس میں بے خوف و خطر تلاوت کرنے کی جرأت ہو اور جھجھک ختم ہوجائے۔
(۴)جس سورہ کا درس دیں شروع میں اس سورہ کا نام اور وجہ تسمیہ بتا ئیں، اور وہ سورت مکی ہے یا مدنی اس کی بھی توضیح کریں، اور مکی و مدنی کا کیا مطلب ہے ابتدا ء میں ا س پر بھی روشنی ڈالی جائے۔
(۵)جن سورتوں اورآیات کے فضائل میں صحیح احادیث وآثار وارد ہوں ان کے فضائل بھی ان احادیث وآثار کی روشنی میں بتائے جائیں۔
(۶)سورتوں اورآیات کے مرکزی مضمون کو بتایا جائے، مثلاً اس کا مرکزی مضمون توحید کا اثبات اور شرک کی تردید ہے، یاقیامت کا بیان ہے وغیرہ وغیرہ۔
(۷) آیات کے مفردات کی تشریح کی جائے اور ان کے معانی، واحد ،جمع ،صیغے، ابواب اور اصل مادہ کو بتا یا جائے۔
(۸) اہم اور ضروری مقامات پرنحوی صرفی ترکیب ،جملہ اسمیہ ،جملہ فعلیہ، صفت موصو ف ، مضا ف مضاف الیہ،فاعل ، مفعول اور ضمیروں کے مراجع وغیرہ بھی بتائیں۔
(۹) آیتوں کا پہلے لفظی اور پھر بامحاورہ ترجمہ کیا جائے ۔
(۱۰)جن آیتوں اور سورتوں کی شان نزول ہو ان کی شان نزول بھی بتائی جائے ،کیونکہ اس سے ان کے معانی کے سمجھنے میں بڑی مدد ملتی اورسہولت ہو تی ہے۔
(۱۱)آیتوں کی تفسیر و تشریح کرتے وقت یہ منہج اختیار کیا جائے کہ پہلیقرآن کی تفسیر قرآن سے، پھر احادیث نبویہ سے ،پھر آثار صحابہ ا و ر علماء تابعین ودیگر ائمہ جیسے مجاہد،قتادہ، مقاتل وغیرہ کے اقوال سے کی جائے۔ اور تفسیر ماثورکو چھوڑ کر تفسیربالرأی کو اختیار نہ کیاجائے۔
(۱۲)اگر بظاہر کسی آیت کا تعارض کسی دوسری آیت یا حدیث سے نظرآئے تو اس تعارض کو دفع کیا جائے اورتطبیق کی صورت بتائی جائے۔
(۱۳)جدید مسائل وحالات کے بارے میں قرآن کے مخفی اشاروں اور ہدایتوں پر حسب ضرورت روشنی ڈالی جائے ۔
(۱۴)سورتوں وآیتوں میں جو باہمی ربط اور مناسبت ہے اس کی وضاحت کی جائے ،مگر تکلف سے کام نہ لیا جائے۔
(۱۵)آیات سے عقائد ، عبادات ، معاملات اور اخلاقیات وغیرہ کے جو مسائل مستنبط ہوتے ہیں اوران میں عبرت و موعظت کی جو باتیں ہیں ان پرروشنی ڈالی جائے۔
نوٹ:۱- ثانی ،ثالث اور رابع کے طلبہ کے معیار اور عمر میں جو فرق ہوتا ہے اس کا لحاظ کیا جائے۔اور ہر جماعت کے طلبہ کو معلومات ان کے معیار کے اعتبارسے دئے جائیں۔
۲-  اگرطلبہ کو کوئی اشکال ہو یا وہ کچھ نہ سمجھ پائیں اور پوچھنا چاہیں تو انھیں اس کا پورا پوراموقع دیا جائے اور فراخ دلی و وسعت ظرفی سے ان کے سوالات کے جوابات دئے جائیں۔
۳-اساتذہ اور طلبہ دونوں ضروری معلومات کو نوٹ کرنے كے لئے کا پیاں رکھیں اور روزانہ ضروری چیزیں نوٹ کر لیا کریں ۔
۴- اساتذہ ضروری چیزیں طلبہ کو لازمی طور سے نوٹ کرادیں۔ اور کبھی کبھی ان کی کاپیاں چیک کر لیا کریں،تا کہ معلوم ہو سکے کہ وہ صحیح اور برابرلکھ رہے ہیں یا نہیں۔کوتاہی کی صورت میں ترغیب وترہیب، اورمناسب تبنیہ سے کام لیں۔
مراجع ومصادر:اساتذہ بطور مراجع ومصادر تفسیر ابن کثیر،فتح القدیر للشوکانی،المفردات للراغب الأصفہانی،احسن التفاسیر للشیخ احمد حسن الدہلوی،احسن البیان:ترجمہ مولانا محمد صاحب جو نا گڑھی و تفسیرحافظ صلاح الدین حفظہ اللّٰہ،لغات القرآ ن ترتیب مولانا عبد الرشید نعمانی ومولاناعبد الدائم جلالی،لغات القرآن للشیخ راحت اللّٰہ مدنی،اشرف الحواشی للشیخ محمد عبدہ الفلاح ، قرآن مجید بدو ترجمہ مع تفسیر مولانا عبد القادر محدث دہلوی و حاشیہ مولانا عبد القہار دہلوی وغیرہ کتب تراجم و تفاسیر سے استفادہ کریں ۔
تفسیر جلالین کی تدریس کا منہج
اس کتاب کی تدریس کا منہج یہ ہے :
(۱)کتاب کے دونوں مصنفوں’’جلالین الدین سیوطی اور جلال الدین محلی شافعی‘‘کا تعارف کرایا جائے اور ان کے نام ،تاریخ پیدائش،اساتذہ و تلامذہ،علمی مقام ، خدمات، تصنیفات اور تاریخ وفات وغیرہ کے بارے میں قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی جائے۔
(۲)کتاب کا تعارف کرایا جائے اور اس کے منہج اور خصوصیات کو بتا یا جائے۔
(۳)طلبہ سے صحیح عبارت خوانی کرائی جائے اور اعراب کی غلطیوں کی اصلاح کی جائے ۔
(۴)عبارت کی اچھی طرح تشریح وتفہیم ہو۔
(۵)کتاب میں ذکرکردہ مسائل کی ۔ خواہ وہ تفسیر سے متعلق ہوں یا قرأت سے یا نحو، صرف ، بلا غۃ ، فقہ اور تاریخ وغیرہ سے۔ اچھی طرح توضیح کی جائے۔
(۶) کتاب میں جو مسائل مرجوح یا غلط ہیں ان کی نشاندہی کرکے صحیح مسائل کی وضاحت کی جائے ۔
(۷)قرآن کریم اور جلالین کی عبارت میں تمیز کر نے اور طلبہ کو جلالین کے طرز پر تفسیر کرنے کی کبھی کبھی مشق کرائی جائے۔
مراجع و مصادر:اس کے اساتذہ بطور مراجع: الجمل ،کمالین لمحمد نعیم،زبدہ التفسیر للدکتور محمد سلیمان الاشقر،تیسیر الکریم الرحمن للشیخ عبد الر حمن بن ناصر السعدی، فتح البیان للنواب صدیق حسن خان، تفسیرابن کثیر، تفسیر طبری، تفسیر قرطبی،اور دیگر معاون کتب سے بوقت ضرورت استفادہ کریں۔
نوٹ:اگر اصحاب مدارس اس کی جگہ زبدۃ التفسیر کو نصاب میں داخل کرلیں تومیرے خیال میں زیادہ بہتر ہو گا ۔کیونکہ یہ کتاب ان بہت سی غلطیوں سے پاک ہے جو تفسیر جلالین میں پائی جا تی ہیں۔
تفسیر ابن کثیر اورفتح القدیر للشوکانی کی تدریس کا منہج
ان دونوں کتابوں کی تدریس میں درج ذیل چیزوں کو ملحوظ رکھا جائے۔
(۱)مصنف کتاب کا تفصیلی تعارف کرایا جائے۔
(۲)کتاب کا تعارف کرایا جائے اور اس کے منہج وخصوصیات وغیرہ پر روشنی ڈالی جائے۔
(۳)صحیح عبارت خوانی اور عبارت فہمی پر خصوصی توجہ دی جائے۔
(۴)لفظ بالفظ ترجمہ کرنے کے بجائے کتاب میں وارد مسائل کی تشریح کی جائے۔اور جب طلبہ عبارت خوانی میں غلطی کریں تو عبارت ترجمہ وتشریح کے ساتھ سمجھا دی جائے۔
(۵)کتاب میں کوئی مسئلہ مرجوح یا غلط ہو تو اس کی وضاحت دلیل کے ساتھ کی جائے۔
مراجع ومصادر:بطور مراجع :تفسیر الطبری ،تفسیر القرطبی ،فتح البیان للنواب صدیق حسن خان، اضواء البیان للشنقیطی ودیگر کتب تفسیر سے استفادہ کیا جائے۔
روائع البیان کی تدریس کا منہج
اس کتاب کی تدریس کا مناسب طریقہ یہ ہے کہ:
(۱) پہلے بطورتمہید احکام القرآن کی چند مشہور کتابوں کا تعارف کرائیں اور اس قسم کی تفسیر کی کتابوں کی خصوصیات اور ان کے فوائد پر روشنی ڈالیں۔
(۲)جس محاضرہ کا درس ہو اس سے متعلق آیات کو پڑھ کر یا بورڈ پر لکھ کر ان کی مصنف کے طرز پر تفسیر وتشریح کریں اور جو احکام ان سے مستنبط ہو تے ہوں ان کو بتائیں۔
(۳)مسائل میں ائمہ کے اقوال اور ان کے دلائل کو بیان کرنے کے ساتھ راجح مذہب کی تعیین بھی دلائل کے ساتھ کریں۔
(۴)قرأت کے اختلاف سے جہاں مسائل میں اختلاف ہو تا ہے وہاں وجوہ قرأت پر بھی روشنی ڈالیں ۔
(۵)طلبہ کو تاکید کریں کہ وہ کتاب کی عبارت حل کر کے آئیں اور کوشش کے باوجود جو عبارت سمجھ میں نہ آ ئے اس کے بارے میں پوچھ لیں اور مدرس اس کی تشریح کرے۔
(۶)محاضرہ ختم ہونے کے بعد اگر کچھ وقت رہے تو کسی طالب علم سے عبارت خوانی کرائیں اور جہاں غلطی ہو تصحیح کریں۔
مراجع ومصادر:بطور مراجع تفسیر القرطبی ، احکام القرآن للامام الشافعی، احکام القرآن لابن العربی، احکام القرآن للجصاص ،فتح القدیر للشوکانی،فتح البیان للقنوجی، اضواء البیان للشنقیطی وغیرہ کا مطالعہ کریں۔
فتح المنان بتسہیل الإتقان کی تدریس کا منہج
(۱) علوم القرآن کی اہمیت وضرورت اور اس کی تاریخ پر مختصر روشنی ڈالیں۔
(۲) فن علوم القرآن کی مشہور کتابوں کا تعارف کرائیں۔
(۳) فتح المنان اور الاتقان کے مؤلفین کی مختصر سوانح حیات بتائیں۔
(۴)نصاب کے لئے منتخب کردہ ابواب کی نشاندہی کریں۔
(۵)غریب الفاظ اور عبارت کا ترجمہ و تشریح کریں۔
(۶) اگر موجودہ درس کا سابقہ درس سے ربط و تعلق ہو تو دونوں درسوں کا خلاصہ ذکر کر کے ربط و تعلق کی وضاحت کریں۔
(۷) زیادہ اہمیت کے حامل اسباق و مسائل کی جانب طلبہ کی توجہ مبذول کرائیں۔
(۸)کورس کو مکمل کرنے کی کوشش کریں۔
مصادر و مراجع : الاتقان فی علوم القرآن ،مباحث فی علوم القرآن، البرھان فی علوم القرآن وغیرہ کتب سے استفادہ کریں۔
التفسیر والمفسرون کی تدریس کا منہج
(۱) کتاب اور مؤلف کا مختصر تعارف کرائیں ۔
(۲)علم تاریخ التفسیر کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالیں۔
(۳)طلبہ سے عبارت خوانی کرائیں اور اعراب کی غلطیوں کی اصلاح کریں۔
(۴)غریب الفاظ اور عبارت کا ترجمہ اور تشریح کریں۔
(۵) درس کا خلاصہ اپنے الفاظ میں بیان کریں۔
(۶) پڑھانے کے بعد درس کے متعلق طلبہ سے سولات کریں۔
(۷) کورس مقررہ وقت پر ختم کرنے کی کوشش کریں۔
(۸)طلبہ کو سوالات کا موقع دیں، اور ان کے سوالات کا تسلی بخش جواب دیں۔
کتب حدیث کی تدریس کا منہج
بلوغ المرام کی تدریس کامنہج
(۱) بطور تمہید حدیث کا لغوی و اصطلاحی معنی بتایا جائے اور اس کے مقام اور تشریعی اہمیت پر روشنی ڈالی جائے۔
(۲) مؤلف کتاب حافظ ابن حجر ؒ کا مختصر تعارف کرایا جائے اور ان کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالی جائے۔
(۳)کتاب کا تعارف کرایا جائے جس میں اس کے نام ،مرتبہ،اور خصوصیات پر روشنی ڈالی جائے۔ اور بتایا جائے کہ یہ کتب حدیث کی قسموں میں سے کس قسم میں سے ہے۔
(۴) کتاب کے مقدمہ کی اچھی طرح تشریح کریں اور اس میں وارد مصطلحات کو زبانی یاد کرائیں۔
(۵) جن مصطلحات حدیثیہ کا ذکر کتاب میں آیا ہے ان کی تشریح کریں اور حفظ کرائیں۔
(۶)صحیح عبارت خوانی کرائیں اور غلطیوں کی اصلاح کریں ۔
(۷) حدیثوں کی روایت کرنے والے صحابہ کرام کا مختصر تعارف کرائیں اور شروع میں صحابہ کے مقام و مرتبہ پر بھی مختصر روشنی ڈالیں۔
(۸) پہلے حدیث میں وارد کلمات غریبہ کی تشریح کریں اور پھر پوری حدیث کا ترجمہ کر کے اس کے مفہوم کی وضاحت کریں۔
(۹) حدیث سے مستنبط ہو نے والے مسائل کی جانب اشارہ کریں تاکہ طلبہ کواستنباط مسائل کا طریقہ معلوم ہو سکے ۔ نیز باب سے اس کی مناسبت بھی بتائیں۔
(۱۰) اگر حدیث کی شانِ ورود ہو تو اس کو بھی بتائیں۔
(۱۱) جن حدیثوں کا بظاہر کسی دوسری حدیث یا آیت سے تعارض ہو ان کے تعارض کو دفع کریں اور تطبیق یا ترجیح کی صورت بتائیں، مگر زیادہ تفصیل میں نہ جائیں۔
(۱۲) یہ کتاب دوسری اور تیسری جماعت میں مقرر ہے اور دونوں جماعتوں میں چالیس چالیس حدیثوں کا حفظ بھی ہے، شروع سال میں ہی ان حدیثوں کا انتخاب کر کے طلبہ کو بتا دیں اور تھوڑا تھوڑا کر کے انھیں یاد کراتے اور سنتے رہیں ۔
مراجع ومصادر:سبل السلام للصنعانی، فتح العلام للنواب صدیق حسن خان ،حاشیہ الدھلوی، فقہ الاسلام للشیخ شیبۃ الحمد، ترجمہ بلوغ المرام للشیخ عبد التواب ملتانی ،اتحاف الکرام للشیخ صفی الرحمن ا لمبارکفوری وغیرہ کتابوں کو مطالعہ میں رکھیں ۔ بوقت ضرورت نیل الاوطار للشوکانی وغیرہ سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
مشکاۃ المصابیح کی تدریس کامنہج
(۱)حدیث کی تعریف ، اس کے اقسام ،اور اس کی تشریعی حیثیت پر ذرا تفصیل سے روشنی ڈالی جائے ۔
(۲)مشکاۃ اور مصابیح کے مؤلفین کی مختصر سوانح حیات اور علمی خدمات کا تعارف کرایا جا ئے ۔
(۳)دونوں کتابوں کا تفصیلی تعارف کرایا جائے اوردونوں کے منہج کے فرق کو بیان کیا جائے۔
(۴) مقدمۃالکتاب کی اچھی طرح تشریح و توضیح کریں۔
(۵) جماعت رابعہ میں شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کا مقدمہ بھی نصاب میں داخل ہے، اس کی تشریح کے ساتھ مصطلحات کو زبانی یاد کرا ئیں۔ بہتر ہے کہ ہفتہ میں ایک روز اس کی گھنٹی رکھیں۔
(۶) عبارت خوانی اور اس کی تصحیح ہو ،مفردات کی تشریح اور پھر مکمل حدیث کا ترجمہ ا ور پھر اس کے مفہوم کی وضاحت اور تشریح کی جائے۔
(۷)اگر کسی حدیث کی شان ورود ہو تو اس کو بھی بیان کریں۔
(۸) جہاں تعارض ہو وہاں رفع تعارض قدرے تفصیل سے کریں۔
(۹) احادیث سے مسائل کے استنباط کی جانب رہنمائی کی جائے۔
(۱۰)احادیث ضعیفہ کے ضعف اور ممکن ہو تو اسباب ضعف کو بھی بیان کریں۔
(۱۱)ہرسال ابتدا میں ہی مدرسین حفظ کے لئے چالیس حدیثوں کی تعیین کردیں اور سال بھر تھوڑا تھوڑا کر کے یاد کراتے اور سنتے رہیں۔
(۱۲)اختلافی مسائل میں( خاص طور سے جن کا ذکر حاشیہ میں ہے ) راجح قول کو مع دلیل بیان کریں۔
مراجع ومصادر:مرعا ۃ المفاتیح للشیخ عبید اللّٰہ المبارکفوری،المرقاۃ للملاعلی القاری،انوارالمصابیح للشیخ عبد السلام البستوی۔مظاہرحق للنواب قطب الدین الدہلوی،مشکاۃ المصابیح بتحقیق الشیخ ناصر الدین الألبانی وغیرہ کا مطالعہ کریں ۔ اور کتاب کا حاشیہ بالاستیعاب پڑھیں، المجلد الثانی میں اگر مذکورہ کتابوں سے کام نہ چلے تو نیل الاوطارللشوکانی اور کتب ستہ کی شرحوں سے مدد لیں۔
نوٹ : عبد الحکیم خان اختر شاہ جہاں پوری کے ترجمۂ مشکاۃسے اجتناب کریں ۔ یہ شخص پکا بدعتی ہے اور ترجمہ میں اس نے بہت جگہ تحریف سے کام لیا ہے، اگر اسے مطالعہ میں رکھیں تو بہت ہی تحقیق سے کام لیں، اور طلبہ کو بھی اس کی غلطیوں اور خطرناکیوں سے متنبہ کر تے رہیں۔
جامع الترمذی کی تدریس کا منہج
(۱) بطور تمہید مختصراً تدوین حدیث کی تاریخ پر روشنی ڈالیں اورکتب حدیث کے اقسام مع امثلہ بتائیں۔
(۲) مؤلف کتاب(امام ترمذی  رحمہ الله) کا تفصیلی تعارف کرائیں ۔
(۳) کتاب کا تعارف کرائیں جس میں ، کتب ستہ میں اس کے مقام ، اس کے منہج، اسکی قبولیت اور خصوصیات وغیرہ پر تفصیل سے روشنی ڈالیں۔
(۴) اسناد اور اس کی اہمیت کا بیان اور سند کے پڑھنے اور لکھنے میں فرق کی وضاحت ہو اور حدثنا،اخبرنا،سمعت ،عن، قال، روی وغیرہ الفاظ روایت اور تحویل وغیرہ کی تشریح کریں ۔
(۵) امام ترمذی رحمہ الله نے جن اصطلاحات کا اس کتاب میں تذکرہ کیا ہے ان کی تشریح و توضیح مع امثلہ کریں ۔
(۶) مشہور رواۃ حدیث اور ضعفاء ومدلسین کے بارے میں ضروری معلومات بہم پہونچائیں ۔
(۷) مشکل احادیث کا ترجمہ وتشریح اور ان سے مسائل کا استنباط کریں ۔
(۸) امام ترمذی رحمہ الله نے حدیثوں کے بعد فقہاء کے اقوال بھی ذکر کئے ہیں،ان مسائل میں راجح قول کی تعیین کریں، اور اس کے خلاف وارد حدیثوں کا جواب دیں ۔
(۹) جہاں حدیثوں میں تعارض نظر آئے وہاں تعارض کو دفع کریں ۔
مراجع ومصادر : تحفۃ الأحوذی للشیخ عبد الرحمن المبارکفوری ، عارضۃالأحوذی لابن العربی المالکی،جامع الترمذی بتحقیق وتعلیق احمد شاکر، مقدمہ تحفۃ الأحوذی ، اور علل الترمذی وغیرہ کا مطالعہ کریں ۔ اور دکتورنور الدین عتر وغیرہ نے جو امام ترمذیؒ اور ان کے جامع کے بارے میں لکھا ہے ان سے بھی استفادہ کریں ۔
سنن ابی داؤدکی تدریس کامنہج
(۱)بطور تمہید امام ابو داود رحمہ الله کا تعارف کرائیں،جس میں ان کے نام ونسب ،تاریخ پیدائش، مشہور اساتذہ وتلامذہ، تالیفات، مذہب ،عقیدہ ،علمی خدمات ومقام اور تاریخ وفات وغیرہ پر روشنی ڈالیں۔
(۲) کتاب کا تعارف کرائیں, جس میں سنن کی تعریف، کتاب کی و جہ تا لیف، مدت تالیف ، کتب ستہ میں اس کا مقام ، اس کی حدیثوں کا حکم ، اس کے رواۃ کا درجہ ،اس کی خصوصیات ، سکوت ابی داودومنذری کاحکم وغیرہ بیان کریں ۔
(۳) اس کے علاوہ جامع الترمذی کے طریقۂ تدریس کے سلسلہ میں جو باتیں ذکر کی گئی ہیں ان تمام چیزوں کویہاں بھی ملحوظ رکھیں ۔
مراجع ومصادر: معالم السنن للخطابی ،مختصر ابی داود للمنذری ، تہذیب ابی داود وایضاح مشکلاتہ لابن القیم، عون المعبود للعلامۃ محمد شمس الحق العظیم آبادی، بذل المجہودللشیخ خلیل احمد السھا رنفوری، اور رسالۃ أبی دا ودالیٰ اھل مکۃکا مطالعہ کریں، اگر ممکن ہو تویہ رسالہ طلبہ کو بھی پڑھادیں ، اس کا مختصر، سنن ابی داؤدطبعہ ہندیہ کے شروع میں موجود ہے ۔حاشیہ کتاب بھی مفید ہے ۔ عون المعبود کا خاتمہ اور مختصر المنذری کا مقدمہ قابل توجہ ہے ۔ کتاب ا لسنۃ پڑھاتے وقت شرح العقیدۃالطحاویہ سے بھی مدد لیں ۔ اور احادیث کی تصحیح وتضعیف كے لئے علامہ البانی  رحمہ الله کے صحیح ابی داود، ضعیف ابی داود اور عزت عبید الدعاس وعادل السید کی تعلیقات سے استفادہ کریں۔
سنن النسائی کی تدریس کا منہج
(۱) مؤلف کا تعارف کرائیں، جس میں ان کے نام و نسب ، تاریخ ولادت ، تعلیم و تربیت ، اسا تذہ و تلامذہ،رحلات علمیہ ، علمی مقام ، ثناء العلماء ، زہدو ورع ، عقیدہ و مذہب ، فقہ و اجتہاد، تصنیفات وعلمی خدمات، ابتلاء و آزمائش،اور سبب و تاریخ وفات وغیرہ پر روشنی ڈالیں۔
(۲) کتاب کا تعارف کرائیں جس میں اس کا نام ، السنن الکبری و الصغری کا فرق ، صغری کی وجہ تالیف ، اس کا کتب ستہ میں مقام و خصوصیات ، اور مصنف کا منہج وغیرہ بتائیں۔
(۳) اس کی تدریس کا منہج بھی وہی ہے جو سنن ابی داؤد اور جامع الترمذی کا ہے۔
مراجع ومصادر:التعلیقات السلفیۃ للشیخ محمد عطاء اللہ الفوجیانی ، زھر الربیٰ علی المجتنیٰ للسیوطی ،اورحاشیۃ السندی وغیرہ کا مطالعہ کریں،حاشیۃ الکتاب المطبوع بالھند اور اردو شروح سے بھی استفادہ کرسکتے ہیں،السنن الکبری للنسائی کا مقدمہ ۔جو الدار القیّمہ بھیونڈی سے مطبوع ہے ۔اور شیخ وصی اللہ محمد عباس کے ماجستیر کی بحث بھی اگر دستیاب ہو تو زیرمطالعہ رکھیں ۔
موطا امام مالک کی تدریس کا منہج
(۱) مولف کا تعارف کرائیں جس میں نام و نسب ، اساتذہ و تلامذہ، تصنیفات و علمی خدمات، فقہ اور حدیث میں ان کا مقام ، ابتلاء و آزمائش، مناقب و قبولیت ، تاریخ ولادت و وفات وغیرہ بیان کریں۔
(۲) کتاب کا تعارف: جس میں نام ، وجہ تسمیہ، قبولیت و خصوصیات، اور کتب حدیث میں اس کا درجہ، بلاغات مالک اور اجماع اہل مدینہ کا حکم، موطا امام مالک اور سنن ابن ماجہ میں سے کون کتب ستہ میں سے ہے؟ موطا امام مالک اور موطا امام محمد میں کیا فرق ہے ؟ وغیرہ نکات کو ذکر کریں۔
(۳) اس کی تدریس کا طریقہ بھی تقریباً جامع الترمذی اور سنن ابی ابوداود کی طرح ہے ۔
مراجع ومصادر:شرح الزرقانی،المنتقی للباجی، تنویر الحوالک علی مؤطا مالک للسیوطی ،المسوّیٰ،والمصفّیٰ للشاہ ولی اللّٰہ الد ھلوی، أوجزالمسالک للشیخ زکریا الکاندھلوی وغیرہ کا مطالعہ کریں۔ موطا امام محمد رحمہ الله کی شرح التعلیق الممجد للکنوی ،التمھید لإ بن عبد البر اگر دستیاب ہو ں تو ان کو بھی مطا لعہ میں رکھیں، طبعہ ھندیہ کا حاشیہ اور محمد فواد عبد الباقی کا محقق نسخہ بھی مفید ہے ، مترجم سے بھی استفادہ کرسکتے ہیں۔
صحیح البخاری کی تدریس کا منہج
(۱) بطور تمہیدتاریخ تدوین حدیث ، اقسام کتب حدیث اور محدثین کی خدمات کو بیان کر یں ۔
(۲) مؤلف کا تفصیلی تعارف کرائیں، جس میں ان کے نام و نسب، تعلیم و تربیت،رحلات علمیۃ ، اساتذہ و تلامذہ، تصنیفات و تالیفات، عقیدہ و مذہب، ذہانت و فطانت، مختلف علوم و فنون میں مہارت و کمال، شہرت و قبولیت، اجتہاد و فقہ میں مقام،ابتلاء و آزمائش،اور تاریخ وفات وغیرہ امور پر روشنی ڈالیں ۔
(۳) کتاب کا تفصیلی تعا رف کرائیں،جس میں کتاب کا مکمل نام ،وجہ تالیف ،کتب حدیث میں اس کا مقام، اس کی مقبولیت وغیرہ پر روشنی ڈالیں، اورصحیح بخاری و صحیح مسلم میں موازنہ کریں۔
(۴)تعلیقات بخاری کا حکم اوران کے تعلیقاً روایت کرنے کے اسباب کا ذکر کریں۔
(۵)رواۃ بخاری کے مقام اورشروط بخاری کو تفصیلاًبیان کریں۔
(۶) مدلسین کا تعارف کرائیں، اور صحیح بخاری وغیرہ میں ان کی روایتوں کے حکم اور اسباب پر روشنی ڈالیں۔
(۷)متکلم فیہ رواۃا وراحادیث پر وارد ہونے والے اعتراضات کا مختصرجواب بتائیں ۔
(۸) ترجمۃالباب کی تشریح کرتے ہوئے اس سے احادیث کی مناسبت و مطابقت بتائیں۔
(۹)مشکل احادیث کا ترجمہ وتشریح کریں ۔
(۱۰)احادیث سے مسائل کا استنباط کریں۔
نوٹ :پہلی جلد میں کتاب الإیمان ،کتاب العلم اور کتاب الحج پر خصوصی توجہ دیں۔ اور دوسری جلد میں کتاب المغازی ،کتاب فضائل القرآن ،کتاب النکاح ،کتاب الطلاق اور کتاب التوحید پر خصوصی توجہ دیں۔
مراجع ومصادر:فتح الباری للحافظ ابن حجرالعسقلانی مع مقدمتہ ہدی الساری ،عمدۃ القاری للعلامۃ العینی ، اورعون الباری للنواب صدیق حسن کامطالعہ کریں، طبعہ ہندیہ کا حاشیہ بھی کا فی مفید ہے ، اور مولانا داود راز رحمہ الله کی شرح بخاری ، اور مولانا وحید الزماں رحمہ الله کی تیسیر الباری سے بھی بوقت ضرورت استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
مؤلف اورکتاب کے تعارف میں مقدمہ فتح الباری کا مطالعہ بے حد مفید ہے۔اس سلسلہ میں عشرون حدیثا من صحیح البخاری للشیخ عبد المحسن العبادسے بھی۔ اگر مل سکے تو۔ استفادہ کریں۔بخاری پڑھانے والے استاذ كے لئے سیرۃ البخاری للشیخ عبد السلام المبارکفوری کا مطا لعہ کرنابہت اہم ہے ، نیز الحطۃ فی ذکر صحاح الستہ للنواب صدیق حسن خان ، اور صحاح ستہ اور ان کے مولفین جو محمد عبدہ کی زیر ادارت تیار کی گئی ہے سے بھی استفادہ کریں۔
کتاب التوحید کی تدریس میں شیخ عبد اللہ الغنیمان کی شرح اورشرح العقیدۃ الطحاويۃ لابن ابی العز سے بھی مدد لی جا سکتی ہے ۔
صحیح بخاری کے ابواب و تراجم پر تحریر کردہ کتابوں، مثلاً المتواری فی تراجم البخاری لإ بن المنیر، شرح تراجم البخاری للشاہ ولی اللّٰہ الدہلوی ۔جوکہ طبعہ ہندیہ کے شروع میں مطبوع ہے ۔ الابوا ب والتراجم لصحیح البخای للشیخ محمد زکریا الکاندھلوی ۔ میں سے کم از کم ایک کتاب کو ضرور سامنے رکھیں ۔
صحیح مسلم کی تدریس کا منہج
(۱) مؤلف کتاب امام مسلم رحمہ الله کا تعارف اسی نہج پر جیسے دیگر محدثین کے بارے میں گذر چکا ہے کرائیں۔
(۲) صحیح مسلم کاتعارف: جس میں اس کا نام ،خصوصیات ،کتب حدیث میں اس کا مقام ، صحیح بخاری و مسلم کے منہج میں فرق وغیرہ کی وضاحت کریں اورنا قدین کے اعتراضات کا جواب دیں۔
(۳)مقدمہ الکتاب کی تدریس پر خصوصی توجہ دیں اور اس میں ذکر کردہ مسائل کی تشریح وتوضیح اس طرح کریں کہ طلبہ ساری باتیں اچھی طرح سمجھ جائیں اور ان کے ذہنوں میں کوئی اشکال باقی نہ رہے۔
(۴)مشکل احادیث کا ترجمہ وتشریح کریں۔
(۵)مسائل کا استنباط اورمشکل اسناد کی تشریح کریں۔
(۶) صحیح بخاری وغیرہ کی تدریس کے سلسلہ میں جو باتیں گزرچکی ہیں انھیں یہاں بھی ملحوظ رکھیں۔
نوٹ:جلد اول میں مقدمہ اور کتاب الإیمان پر خصوصی توجہ دیں ۔اور عقائد میں صحیح قول کی تعیین با لدلیل کریں۔
جلد دوم میں کتاب البیوع ،کتاب الحدوداورکتاب الزھد پر خصوصی توجہ دیں۔
مراجع ومصادر:المنھاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج‘‘للعلامہ النووی رحمہ الله ، السراج الوھا ج شرح لمختصر صحیح مسلم للمنذری مؤلفہ نواب صدیق حسن خان رحمہ الله ، فتح الملھم للشیخ شبیر احمد عثمانی رحمہ الله وغیرہ کتب کا مطالعہ کریں۔
تعارف کتاب كے لئے امام نووی رحمہ الله کا مقدمہ اور طبعہ ہندیہ کا مقدمہ ضرورسامنے رکھیں۔ اسی طرح علامہ ابن الصلاح کی کتابصیا نۃ صحیح مسلماورشیخ عبد المحسن العبادکی کتاب ’’عشرون حدیثا من صحیح مسلم‘‘ اور دکتور ربیع بن ہادی عمیر المدخلی کی کتاب ’’بین الامامین مسلم والدار قطنی‘‘ سے بھی استفادہ کریں۔الإلزامات والتتبع للدار قطنی بھی دستیاب ہوسکے تو ضرور دیکھ لیں، علا مہ وحید الزماں کے اردو ترجمہ سے بھی بوقت ضرو ر ت مد د لے سکتے ہیں۔
کتب مصطلح کی تدریس کا منہج
مصطلح کی کتابوں کو پڑھاتے وقت درج ذیل امور کا لحاظ رکھیں۔
(۱)علم مصطلح کی اہمیت وضرورت پر مختصر روشنی ڈالیں۔
(۲)مصنف کتاب کا مختصر تعارف کرائیں۔
(۳)کتاب کا تعارف کرائیں۔
(۴)عبارت خوانی ہو اور غلطیوں کی اصلاح کریں۔
(۵) مصطلحات اور قواعدو اصول کی مثالیں دے کر اچھی طرح تشریح کریں۔
(۶)عبارت کتاب کی تشریح وتوضیح کریں۔
مراجع ومصادر:فتح المغیث للسخاوی،فتح الباقی للعراقی،قواعد التحدیث للشیخ جمال الدین القاسمی،شرح قصب السکر فی نظم نخبۃ الفکر،الباعث الحثیث لإبن کثیرمع تعلیق احمد شاکر،توضیح الأ فکار للصنعانی،نزھۃ النظر للحافظ ابن حجر المطبوعۃ بالجامعۃ السلفےۃ.وغیرہ کا مطالعہ کریں۔
کتب تخریج و جرح و تعدیل کی تدریس کا منہج
(۱) علم جرح وتعدیل اور فن تخریج کی اہمیت پر روشنی ڈالیں۔
(۲) کتاب و مصنف کتاب کا تعارف کرائیں۔
(۳) کتاب کی عبارت خوانی کرائیں، اور غلطیوں کی اصلاح کریں۔
(۴) عبارت کا ترجمہ وتشریح کریں۔
(۵) مسائل کو اچھی طرح سمجھائیں اور یاد کرائیں۔
(۶) جرح و تعدیل ، تراجم اور حدیث کی کتابوں کا تعارف کراتے وقت طلبہ کو مکتبہ لے جا کر یہ کتابیں دکھائیں ۔
(۷) عملی طور سے رواۃ کے تراجم کا استخراج اور حدیثوں کی تخریج کرائیں۔
مصادر و مراجع : مقرر کردہ کتابوں میں بہت سے مصادر و مراجع کا تذکرہ ہے ، ان سے اور ان کے علاوہ دوسری قدیم وجدید کتابوں سے استفادہ کریں۔
الحد یث والمحدثون کی تدریس کا منہج
(۱) کتاب اور مؤلف کا مختصر تعارف کرائیں۔
(۲) علم تاریخ حدیث کی اہمیت پر روشنی ڈالیں۔
(۳) طلبہ سے عبارت خوانی کرائیں۔
(۴) غریب الفاظ اور عبارت کا ترجمہ اور تشریح کریں۔
(۵) درس کا خلاصہ زبانی اپنے الفاظ میں بیان کریں۔
(۶) درس سے متعلق طلبہ وطالبات سے سوالات کریں۔
(۷) مقررہ وقت سے کچھ پہلے ہی کورس مکمل کرنے کی کوشش کریں۔
(۸)طلبہ کو سوالات کا موقع دیں اور ان کے سوالات کا تسلی بخش جواب دیں۔
کتب فقہ کی تدریس کا منہج
الروضۃ الندیۃ للنواب صدیق حسن خان کی تدریس کا منہج
(۱)سب سے پہلے طلبہ کے سامنے فقہ کی تعریف،فضیلت ،اور اہمیت وضرورت پر روشنی ڈالیں، تاکہ طلبہ انشراح صدر اور شوق سے اس فن کوپڑھیں۔اور ضرورت محسوس کرتے ہو ئے اس میں مہارت حاصل کرنے كے لئے بھر پور محنت کریں۔
(۲)متن اور شرح دونوں کے مصنفین کا تفصیلی تعارف کرایا جائے۔
(۳)کتاب کا تعارف اور اس کے منہج کا بیان ہو۔
(۴) کتاب کو پڑھاتے وقت پہلے صحیح عبارت خوانی ہو، اس کے بعد استاذ پہلے زبانی مسئلہ کو اپنے الفاظ میں طلبہ کو سمجھا ئے اور پھر عبارت کی تشریح کرے۔
(۵) اختلافی مسائل میں راجح کی تعیین دلیلوں کے ساتھ کریں۔
(۶) جن احادیث کی تخریج کتاب میں نہ ہو ان کی مختصر تخریج کریں اور ان کی صحت اور ضعف کے بارے میں طلبہ کی رہنمائی کریں۔
(۷)جن مشہور فقہائے کرام کا نام کتاب میں آیا ہے ہو سکے تو ان کا مختصر تعارف بھی کرائیں۔
مراجع ومصادر:المغنی لإبن قدامۃ ،المجموع للنووی ،المحلی لإبن حزم، فتح القدیر لإبن الھمام ،بداےۃ المجتھد لإبن رشد ،نیل الأ وطار للشوکانی، سبل السلا م للصنعانی ،تلخیص الحبیر لإ بن حجر، ارواء الغلیل للأ لبانی وغیرہ کتب فقہ وفتاوی، اورشروح الحدیث وکتب التخریج سے استفادہ کریں۔
نوٹ:اس کتاب کی جگہ اگر ’’الوجیز فی فقہ السنۃ والکتاب العزیز‘‘ للشیخ عبد العظیم بن بدوی نصاب میں داخل کرلیں تو میرے خیال میں زیادہ بہتر ہوگا۔
بدايۃ المجتہد کی تدریس کا منہج
(۱) فقہ کی فضیلت اور اہمیت پر مفصل روشنی ڈالی جائے اور طلبہ کو اس کی ضرورت کا بھر پور احساس دلا یا جائے ۔
(۲)فقہ مقارن کی تعریف وتشریح کی جائے اور فقہ مقارن اور کسی خاص مسلک کے فقہ کا فرق بتایا جائے ۔اور کسی ایک مذہب کے تنگ دائرہ میں محدود و محبوس رہنے کے بجائے فقہ مقارن کے دراسہ کی افادیت وضرورت اور تمام ائمہ کی مجہودات اور ان کی گرا نقدر فقہی خدمات پر ردشنی ڈالی جائے اوران سے وسعت قلبی کے ساتھ استفادہ کرنے اور ادلۂ شرعیہ کی روشنی میں راجح کو معلوم کر کے اس پر عمل کرنے اور عصرحاضر کے جدید مسائل ومشاکل کو حل کر نے کی تر غیب د ی جا ئے ۔
(۳)فقہ مقارن کی مشہور مشہور کتابوں کا طلبہ کے سامنے تعارف کرایا جائے۔
(۴) مصنف اور کتاب کا تفصیلی تعارف ہواور مؤلف کے نام و نسب ، تعلیم و تربیت، اساتذہ و تلامذہ، علمی مقام،تعلمی وتصنیفی خدمات اور عقیدہ و مسلک وغیرہ پر روشنی ڈالی جائے اور کتاب کے منہج وخصوصیت اور افادیت وغیرہ کو بیان کیا جائے۔
(۵) کتاب کے مقدمہ کی تدریس لا زمی طور سے ہو اور اس میں جو اصولی مباحث ومصطلحات ہیں ان کی اچھی طرح مثالوں کے ساتھ تشریح وتوضیح کی جائے۔
(۶)کتاب پڑھاتے وقت صحیح عبارت خوانی اور زبانی مسئلہ کی توضیح کے بعد عبارت کی تشریح بھی ہو اور ذکراقوال ائمہ کے ساتھ راجح قول کی مع ادلہ وضاحت کی جائے۔
(۷)کتاب میں وارداحادیث کی مختصر تخریج کی جائے اور ان کی صحت وضعف پرروشنی ڈالی جائے ۔
(۸) جہاں مصنف نے ’’قال قوم‘‘ کہا ہے اگر ممکن ہو تو اس قول کے قائلین ائمہ کی وضاحت وتعیین کی جائے۔
(۹)اگر نسبت اقوال میں مصنف سے کہیں چوک ہوگئی ہو تو اس کی توضیح وتصحیح کی جائے۔
(۱۰) اسی طرح اگر ترجیح یا تخریج احادیث میں غلطی ہو تو اس کی بھی توضیح وتصحیح کی جائے۔
مراجع ومصادر:الروضۃ الندےۃ کے مراجع میں ذکر کردہ کتا بوں کے علاوہ المدونۃ الکبریٰ للامام مالک ،المنتقی شرح المؤطا للباجی، حاشیۃ الدسوقی، حاشےۃ ابن عابدین،بدائع الصنائع للکاسانی،الأم للشافعی، مغنی المحتاج للشربینی،اِعلام الموقعین،وزاد المعاد لابن القیم،أحکام القرآن للشافعی،وللجصاص،ولابن العربی، مجموع فتاوی ابن تیمےۃ،طریق الرشد للشیخ عبد اللطیف،نصب الرأےۃ للزیلعی، تلخیص الحبیر للحافظ ابن حجر العسقلانی، اور ارواء الغلیل للشیخ الألبانیکا مطالعہ کریں اور امام مالک ؒ کے ترجمہ کے لئے المدارک للقاضی عیاض، الدیباج لابن فرحون،شجرۃ النور الزکےۃ لمحمد بن محمد مخلوف وغیرہ کتب سے استفادہ کریں۔
کتب أصول فقہ وتاریخ التشریع کی تد ریس کا منہج
اصول فقہ میں فی الحال تسھیل الاصول للشیخ عطیہ محمد سالم وزملاء ہ اور اصول الفقہ للخلاف اور تاریخ فقہ میں تاریخ التشریع الاسلامی للشیخ محمد خضری بک مقرر ہے۔ان کی تدریس میں درج ذیل منہج اختیار کیا جائے۔
تسہیل الوصول کی تدریس کا منھج
(۱) بطور تمہیدفن اصول فقہ کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالی جائے۔
(۲) کتاب کا مختصر تعارف کرایا جائے۔
(۳)اس کے مصنفین کا مختصر تعار ف کرایا جائے۔
(۴)کتاب کو پڑھاتے وقت پہلے صحیح عبارت خوانی ہو، پھر مسائل کی زبانی تشریح وتفہیم اور پھر عبارت کی اچھی طرح توضیح کی جائے۔
(۵)کتاب میں وارد آیات کی تخریج کی جا ئے ،اور پوری آیت کو ذکر کر کے اس کی روشنی میں مسئلہ کو واضح کیا جائے۔
(۶)کتاب میں ذکر کردہ احادیث کی مختصر تخریج ہو اور حسب ضرورت ان کی عبارتوں کو ذکر کر کے مسئلہ کو واضح کیا جائے ۔
(۷) اگر کہیں مثالوں کی کمی محسوس ہو تو اور مثا لوں کا اضافہ کیا جا ئے اور اگرکہیں مثال نہ ہو تو وہاں مثالیں ضرور ذکر کی جائیں۔
مراجع ومصادر:الرسالۃ للامام الشافعی، الاحکام فی اصول الاحکام لابن حزم،المستصفی للغزالی، المنخول من تعلیقات الاصول للغزالی، الاحکام فی أصول الأحکام للآمدی،روضۃ الناظر لا بن قدامۃ ، المسودۃ فی اصول الفقہ لمجدالدین عبد السلام بن تیمےۃ وابنہ عبد الحلیم وشیخ الاسلام احمد بن عبدالحلیم،اصول الفقہ لشیخ الاسلام احمدبن تیمےۃ،اعلام الموقعین لابن القیم ، مسلم الثبوت لمحب اللہ بن عبد الشکور البھا ری ،ارشاد الفحول لمحمد بن علی الشوکانی،مذکرۃ اصول الفقہ للعلامۃ الشنقیطیوغیرہ کتب سے استفادہ کر یں ۔
اصول الفقہ للخلاف کی تدریس کا منہج
(۱)اصول فقہ کی افادیت و ضرورت اور اس کی تاریخ پر روشنی ڈالی جائے۔
(۲)کتاب اور مصنف کا تعارف کرایا جائے۔
(۳)اصول فقہ کی چند مشہور کتابوں اور ان کے مصنفین کا اجمالی تعارف کرایا جائے۔
(۴)مقدمہ کی تدریس لازمی طور پر ہو۔
(۵)صحیح عبارت خوانی ہو اور طبا عت کی غلطیوں کی اصلاح کی جائے۔
(۶)مسائل کی اچھی طرح تفہیم اور عبارت کی خوب تشریح وتوضیح ہو۔
(۷)کو شش یہ کی جائے کہ نصاب مکمل ہو جائے۔
مراجع ومصادر: سابقہ کتاب کے مراجع میں ذکر کردہ کتب کے علاوہ کتاب: المنھاج للبیضاوی مع شرح الأ سنوی،المنار للنسفی ،التحریر للکمال ابن الھمام اور جمع الجوامع للسبکی وغیرہ سے استفادہ کیا جائے۔
تاریخ التشریع الإسلامی کی تدریس کا منہج
(۱)بطور تمہید قانون وتشریع کی اہمیت وضرورت پر روشنی ڈالی جائے اوراسلامی قوانین اوروضعی قوانین( انسانوں کے وضع کردہ قوانین) میں اجمالی مقارنہ کرکے اسلامی قوانین کی افضلیت اور بر تری کو ثابت کیا جائے ۔
(۲)کتاب اور مصنف کا تعارف کرایا جائے۔
(۳) پہلے صحیح عبارت خوانی ہو پھر مدرس اسکے مضمون کو زبانی اپنے انداز میں بیان کرے ، پھر عبارت کی تشریح وتوضیح کرے۔
(۴)مسئلہ نسخ اور منہج اہل الحدیث وغیرہ کے بیان میں جہاں مصنف سے سہو ہوا ہے وہاں اس کی توضیح وتصحیح کی جا ئے۔
(۵)مقدمہ کے ساتھ مباحث مقرر ہ کی تدریس ہواور حسب ضرورت اختصار یا تفصیل سے کام لیا جائے مگر نصاب ختم کیا جائے۔
مراجع ومصادر: مقدمہ ابن خلدون ،اعلام الموقعین لابن القیم، مفتاح السعادۃ لطاش کبری زادہ ،أ بجد العلوم للنواب صدیق حسن خان ،حجۃ اللہ البالغۃ ، الإنصاف و عقد الجید للشاہ ولی اللہ الدھلوی ،تاریخ التشریع الاسلامی للاساتذہ عبد اللطیف السبکی ومحمد علی السایس ،ومحمد یوسف البربری، ومحاضرات فی تاریخ الفقہ الاسلامی للدکتور محمد یوسف موسی،اور اس فن کی دیگر جدید و قدیم کتب سے استفادہ کریں۔
کتب عقیدہ کی تدریس کا منہج
جامعہ محمدیہ کے نصاب میں عقیدہ کی بنیادی کتابیں درج ذیل ہیں:
۱- تقویۃ الایمان.
۲-کتاب التوحید.
۳-مذکرۃ فی العقیدۃ.
۴-شرح العقیدۃ الواسطیۃ.
۵-مہذب شرح العقیدۃ الطحاویۃ.
تقویۃ الایمان کی تدریس کا منہج
تقویۃ الایمان شاہ اسماعیل شہید ؒ کی وہ بابرکت کتاب ہے جس کے ذریعہ اللہ نے لاکھوں انسانوں کو شرک وبدعت سے توبہ کر کے توحید واتباع کتاب و سنت کی توفیق عطافرمائی ۔ اس کتاب کی تدریس کے وقت درج ذیل طریقہ اختیار کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔
(۱) بچوں کی عمر اور ان کی علمی و ذہنی صلاحیت کا لحاظ رکھتے ہوئے کتاب اور مؤلف کتاب کا مختصر تعارف کرائیں۔
(۲) صحیح صحیح عبارت خوانی کرائیں ۔
(۳) اس میں مذکور عقائد و مسائل کی اس طرح تشریح کریں کہ وہ بچوں کے دلوں میں اتر جائیں۔
(۴) کتاب میں وارد آیات و احادیث کی مختصر تخریج کے ساتھ آسان عبارت میں ان کی اس طرح تفسیر و توضیح کریں کہ مسائل کا ان سے ربط اور ان کی حجیت اجاگر ہوجائے ۔
(۵) کتاب میں ذیلی عنوان کی جہاں کمی محسوس کریں وہاں عناوین قائم کریں اور ایک ایک مسئلہ کو الگ الگ کر کے سمجھائیں ۔
(۶) جہاں ضرورت ہو کچھ دلائل یا مثالیں باہر سے لاکر سمجھائیں ۔
(۷) اس میں مشقی سوالات نہیں ہیں کیونکہ اصلا یہ کتاب نصاب کے لئے نہیں لکھی گئی ہے اس واسطے اساتذہ خود سے سوالات بنائیں اور ان کے جوابات طلبہ کو گھر سے لکھ کر لانے کے لئے کہیں۔ اور پھر جانچ کر کے اس کی اصلاح کریں ۔
(۸) طلبہ کو اہم اہم نصوص مع ترجمہ حفظ کرائیں ۔
(۹) ہفتہ پندرہ روز میں آموختہ سنیں، اور سوالات کے جوابات پوچھیں ۔
کتاب التوحید کی تدریس کا منہج
(۱)عقیدۂ توحید کی اہمیت و فضیلت پر روشنی ڈالی جائے۔
(۲) کتاب اور مؤلف کا تعارف کرایا جائے ۔
(۳) صحیح عبارت خوانی ہو ۔
(۴) آیات واحادیث اور مسائل کی اچھی طرح تشریح و تفہیم ہو ۔
(۵) مسائل طلبہ کو زبانی یاد کرائے جائیں اور اگر نصوص بھی یاد کرائیں تو بہت اچھی بات ہوگی۔
(۶) مشقی سوالات دئے جائیں اور ان کے جوابات طلبہ سے لکھوائے جائیں پھر جانچ کر کے غلطیوں کی اصلاح کی جائے ۔
مراجع و مصادر : فتح المجید ، تیسیر العزیز الحمید اور قرۃعیون الموحدین وغیرہ شرحوں اور توحید کی معتبر کتابوں سے استفادہ کیا جائے ، مولانا محمد بن یوسف السورتی  رحمہ الله کے ترجمہ سے بھی بوقت ضرورت استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
مذکرۃ فی العقیدہ کی تدریس کا منہج
(۱) عقیدہ کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالی جائے ۔
(۲) کتاب اور مؤلف کا مختصر تعارف کرایا جائے۔
(۳) کتاب کی عبارت خوانی کرائی جائے اور غلطیوں کی اصلاح کی جائے ۔
(۴) عبارت کی تشریح اور مسائل کی تفہیم آسان اسلوب میں کی جائے ۔
(۵) طلبہ کو مشقی سوالات لکھائے جائیں اور انھیں جوابات لکھنے كے لئے مکلف کیا جائے ، پھر استاذ جانچ کر کے غلطیوں کی اصلاح کرے۔
(۶) کبھی کبھی آموختہ سنا جائے اور سوالات کے جوابات طلب کئے جائیں ۔
شرح العقیدۃ الواسطیۃ کی تدریس کا منہج
(۱)عقیدہ کی اہمیت و فضیلت اور ارکان اسلام میں اسکی بنیادی حیثیت پر روشنی ڈالی جا ئے ۔
(۲) مولف متن اور شارح کی حیات و خدمات کا مختصر تعارف کرایا جائے ۔
(۳)طلبہ سے عبارت خوانی کرائی جائے۔
(۴) عبارت اور آیات و احادیث کی مناسب تشریح کی جائے ۔
(۵) شرح میں مذکور مسائل کو زبانی اپنے الفاظ میں بیان کیا جائے۔
(۶) عقائد سلف کی ترجیح دلائل کی روشنی میں ہو۔
(۷) کتاب میں مذکور فرق ضالہ کا تعارف اور ان کے مذاہب کی تردید کتاب و سنت کی روشی میں کی جائے ۔
(۸) سوالات دے کر طلبہ سے ان کے جوابات لکھائے جائیں ۔
مصادر و مراجع :تدمریہ، مجموع فتاوی ابن تیمیہ میں مذکور عقائد کے متعلق رسالوں اوردیگر کتب توحید سے استفادہ کیا جائے۔
مہذب شرح العقیدۃ الطحاویۃ کی تدریس کا منہج
(۱)صاحب مہذب کے علاوہ العقیدہ الطحاویۃ کے مولف اورشارح کا بھی تعارف کرایا جائے ۔
(۲) کتاب اور موضوع کتاب کی اہمیت اور عقیدہ کے باب میں پائی جانے والی جدیدو قدیم گمراہیوں پر روشنی ڈالی جائے ۔
(۳) طلبہ سے عبارت خوانی کرائیں اور غلطیوں کی اصلاح کریں۔
(۴) حسب ضرورت ترجمہ وتشریح کی جائے۔
(۵) مشکل مقامات کی تفہیم و توضیح کے لئے خارجی مثالوں اور بوقت ضروت بلیک بورڈ کی بھی مدد لی جائے۔
(۶) مختلف فیہ مسائل میں اگر شارح کاموقف کمزور ہو ( جو بہت کم ہے ) تو دلائل کی روشنی میں راجح مسلک کی وضاحت کی جائے۔
(۷) بعض مباحث کے ضمن میں طلبہ کو سوالات دے کر تحقیق اور صحیح جواب کی تلاش کا مکلف بنایا جائے۔
(۸) گاہے بگاہے مباحث کتاب کی روشنی میں روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے مسائل اور عصر حاضر کے مشہور عقائدو نظریات کے بارے میں طلبہ سے سوالات کئے جائیں اور مناقشہ و مباحثہ کے ذریعہ صحیح موقف کی وضاحت کریں ۔
مصادر ومراجع:مکمل شرح العقیدۃ الطحاویۃ بتحقیق علامہ ناصر الدین البانیؒ ،وبتحقیق الدکتور عبد اللہ الترکی ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ الله اور علامہ ابن القیم رحمہ الله کی وہ کتابیں جن سے شارح طحاویۃ علامہ ابن ابی العز رحمہ الله نے استفادہ کیا ہے۔اور جن کا تذکرہ شرح العقیدہ الطحاویۃ بتحقیق الالبانی صفحہ ۵۸-۶۲ میں ہے ، اور توحید کی دوسری معتمد کتابوں کا مطالعہ کریں۔
کتب ادب وقواعدکی تدریس کا منہج
منھاج العربيۃ کی تدریس کا منہج
(۱) طلبہ سے الفاظ کی صحیح ادائیگی کرائیں۔
(۲)الفاظ کے معانی ،واحد ،جمع ،تثنیہ، ابواب اور صیغے بتائیں ۔
(۳)ابتدائی نحو ی تراکیب مثلاً موصوف صفت کی ترکیب ،مبتدا وخبر ، مضاف مضاف الیہ ، جملہ فعلیہ وجملہ اسمیہ وغیر ہ کتاب کی روشنی میں بتائیں۔
(۴)پہلے ان اصطلاحات کو اچھی طرح سمجھادیں ،پھر اسباق میں وارد تراکیب کی نشاندہی کریں۔
(۵)عربی سے اردو اور اردو سے عربی بنا نے اور تمرینات کے حل پر خاص توجہ دیں۔
(۶) الفاظ و معانی وغیرہ کوخوب یاد کرائیں اور سنیں ، اور اس میں ذرا بھی رعایت نہ کر یں ۔
(۷) کتاب کے مقدمہ میں مصنف کے بیان کردہ ہدایات کو بھی مد نظر رکھیں۔
قصص النبیین کی تدریس کا منہج
(۱) کتاب اور مصنف کا تعارف کرائیں۔
(۲) قرآنی قصوں کی صداقت اور ان کی افادیت پر روشنی ڈالیں۔
(۳)طلبہ سے صحیح عبارت پڑھانے پر توجہ دیں ۔
(۴) مفردات کے معانی ، واحد، جمع ،باب اور صیغے بتائیں، اور صرف ونحو کے جن قواعد کا استعمال اس میں بکثرت ہے انھیں آسان الفاظ و اسلوب میں بتائیں اور کتاب کی عبارتوں میں ان کی تطبیق کرائیں،مگر طلبہ کوپیچید گیوں میں نہ ڈالیں بلکہ ان کے معیار کے مطابق مشق کرائیں۔
(۵)آگے چل کر مرفوعات ،منصوبات ،مجرورات اور ثلاثی مجرد ومزید فیہ کے ابواب کی بھی نشان دہی کریں۔
(۶)طلبہ کے ذہنوں کوانبیاء علیہم السلام کے قصوں اور ان کی سیرتوں سے عبرت ونصیحت حاصل کرنے کی طرف مبذول کریں۔ تاکہ طلبہ کے اخلاق وکردار پر انکا اچھا اثر پڑے۔
(۷) ہر سبق کے اہم اہم مضامین سوالات کی شکل میں پوچھیں۔
نوٹ:۱- درسی کتابوں میں تمرینات اور سوالات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، افسوس کہ اسے مصنف نے نصابی کتاب کی حیثیت سے لکھنے کے باوجود اس پر توجہ نہیں دی ہے، دار العلوم ندوۃ العلماء کے ذمہ داران اس کمی کو پوری کردیں تو بہتر ہو گا ،اور جب تک یہ کام ندوۃ العلماء سے نہیں ہوتا اساتذہ کرام تدریس کے وقت اپنی جانب سے اس کمی کو پوری کریں۔
۲- اگر ذمہ داران مدارس اس کتاب کے بجائے دکتور ف۔ عبد الرحیم کی کتاب’’ دروس اللغۃ العربیۃ لغیر الناطقین بہا‘‘نصاب میں داخل کرلیں تو میرے خیال میں زیادہ مناسب ہو گا ۔
مراجع ومصادر: لغت ، تفسیر اور نحو صرف وغیرہ کی کتابوں سے استفادہ کریں۔
القرأۃ الراشدۃ کی تدریس کا منہج
(۱)طلبہ سے صحیح صحیح عبارت خوانی کرائی جائے ۔
(۲)الفاظ کے معانی ،واحد، جمع ،ابواب، صیغے اور مشتقات بتائے جائیں۔
(۳) عبارت کا سلیس ترجمہ کیا جائے۔
(۴) صرف ونحو کے قواعد کی تطبیق کرائی جائے ۔
(۵) اچھے اچھے جملے اور تعبیرات یاد کرائی جائیں۔
(۶) اسباق میں عبرت وموعظت کی چیزوں کی جانب طلبہ کی توجہ مبذول کرائی جائے۔
(۷) اس میں بھی سوالات اور تمرینات پر توجہ دی جائے۔
کلیلۃ ودمنۃ کی تدریس کا منہج
(۱) عربی زبان و ادب کی اہمیت اور اس کے سیکھنے اور جاننے کی ضرورت پر روشنی ڈالیں۔
(۲) مصنف ، مترجم اور کتاب کاتعارف کرائیں ۔
(۳) صحیح عبارت خوانی کی طرف توجہ دیں۔اور نحو وصرف کے قواعد کی تطبیق کرائیں۔
(۴)مفردات کی تشریح کریں،اورواحد،تثنیہ،جمع ،ابواب،صیغے اورمشتقات وغیرہ بتائیں ۔
(۵) عبارتوں کا سلیس اور با محاورہ ترجمہ کرائیں۔
(۶)عربی تعبیرات ومحاورات کا ترجمہ اردو محاوروں میں کرائیں۔اورعربی محاورات و تعبیرات کو زبانی یاد کرائیں۔
(۷)واقعات میں جو درس اور عبرت کی باتیں ہوں طلبہ کی توجہ انکی جانب مبذول کرا ئیں ۔
مختارات کی تدریس کا منہج
(۱) عربی زبان کے فضائل و خصوصیات اور ہندو ستان میں اس کی خدمات پر روشنی ڈالیں ۔
(۲) مصنف اور کتاب کا تعارف کرائیں ۔
(۳) مقدمہ ضرور پڑھائیں۔
(۴) صحیح طریقہ سے اور عربی لہجہ و انداز میں عبارت خوانی کرائیں،اور اس کا خیا ل رکھیں کہ باری باری تمام طلبہ عبارت پڑھیں ۔
(۵)مفردات کی تشریح کریں۔اور واحد، جمع،ابواب، صیغے اور مشتقات وغیرہ بتائیں۔
(۶)نحوی وصرفی تراکیب کی طرف توجہ دیں۔
(۷) مقالہ نگار علماء کی حیات پر مختصر روشنی ڈالیں۔
(۸) عبارتوں کا سلیس اور با محاور ہ ترجمہ کرائیں۔
(۹)اچھے جملوں ومحاوروں کی نشاندہی کرکے یاد کرائیں اور ان کا با محاورہ اردو میں ترجمہ کریں ۔
(۱۰) مقالوں پر طلبہ سے عربی میں مختصر نوٹ لکھوائیں۔
(۱۱) کچھ اہم پیرا گراف کا عربی میں خلاصہ کرائیں۔
(۱۲) مرکزی مضمون اورواقعات سے حاصل ہو نے والی عبرت و موعظت کی باتیں بھی بیان کریں۔
(۱۳) کتاب میں تمارین اور سوالات کی جو کمی ہے اس کو پورا کریں۔
(۱۴)عربی لغات سے استفادہ کا طریقہ بتائیں اور عملی طور سے مشق کرائیں ۔
ازھار العرب کی تدریس کا منہج
(۱) تعبیر و بیان کے دونوں طریقوں نظم و نثر کو ذکر کرتے ہوئے نظم کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالیں۔
(۲) کتاب و مصنف کتاب کا تعارف کرائیں۔
(۳)اشعار کو اشعار کی طرح اور عربی اسلوب اور لہجہ میں پڑھنا سکھائیں۔
(۴) شعراء کے متعلق مختصر روشنی ڈالیں۔
(۵)الفاظ کی تشریح کریں، اورواحد، جمع، اصل مادہ ، ابوا ب اور صیغے وغیرہ بتائیں ۔
(۶) شعر کو نثر کی شکل میں بنا کر اسکا پہلے لفظی اور پھر سلیس و بامحاورہ ترجمہ کریں ۔اور مطلب بتائیں۔
(۷) کسی شعر کا کوئی پس منظر ہو تو اسے بھی بیان کریں۔
(۸) اشعار میں عبرت و موعظت کی جوباتیں ہیں ان کی جانب توجہ مبذول کرائیں۔
(۹)پچاس اشعار زبانی حفظ کرائیں۔
مراجع ومصادر: عربی لغات،تاریخ الادب العربی کی کتابوں،شعراء کے دواد ین اور شروح ازھار العرب سے استفادہ کریں۔
مجموعۃ النظم والنثر اور دیوان حماسۃ کی تدریس کا منہج
(۱) دیوان اور نظم کے لغوی و ا صطلاحی معنی بتائیں اور دونوں کتابوں کے مولفین کا تعارف کراتے ہوئے اشعار کی اہمیت اور حکم پر روشنی ڈالیں۔
(۲) اشعار کو عربی لب و لہجہ اور اشعار کے انداز میں پڑھائیں ۔
(۳) شعراء کا مختصر تعارف کرائیں۔
(۴)مفردات کی تشریح کریں۔
(۵)نحوی و صرفی تراکیب کی طرف خصوصی توجہ دیں۔
(۶)اشعار کا ترجمہ کریں اور ان کا پس منظر بیان کرکے تشریح کریں۔
(۷)اشعار میں عبرت ونصیحت کے پہلوکو واضح کریں۔
(۸) دونوں کتابوں میں سے کم از کم پچاس پچاس اشعار زبانی یاد کرائیں۔
معلم الإنشاء کی تدریس کا منہج
(۱) انشاء ، مضمون نگاری اور ترجمہ کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالیں۔
(۲) کتاب اور اس کے مصنف کا تعارف کرائیں۔
(۳) تمرین کے تحت آنے والے قواعد کو پہلے اچھی طرح سمجھائیں ۔
(۴)پھر اس تمرین میں جو الفاظ آئیں ان کے معانی، واحد ،جمع اور مشتقات بورڈ پر لکھ کرسمجھائیں ۔
(۵) ہر طالب علم سے مفردات اور جملوں کا ترجمہ کرائیں اور اس بات کا خیال رکھیں کہ ہر طالب علم جملوں کو پڑھے اور حل کرے اور اگر اردو سے عربی بنانا ہو تو بھی ایسا ہی کریں۔
(۶) ہر تمرین کو طلبہ کا پی پر لکھ کر لائیں ۔پھر استاد ان کو چیک کرے، چیک کرنے کے بعد استاد کا کاپی پردستخط کرنا ضروری ہے۔
(۷) ترجمہ با محاورہ کرائیں ۔نیز املاء کی غلطیوں کی نشاندہی بھی کریں۔
امین النحو کی تدریس کا منہج
(۱) علم نحو کے فوائد و اہمیت پر روشنی ڈالی جائے۔
(۲) مولف اور کتاب کا تعارف کرایا جایئے۔
(۳)قواعد کووضاحت کے ساتھ آسان اسلوب میں سمجھایا جائے، اور طلبہ کے سامنے زیادہ سے زیادہ مثالیں پیش کی جائیں ۔
(۴)تمرین النحو ،ہداےۃ النحو ،اور نحو کی دوسری کتابیں بھی مطالعہ میں رکھیں۔اور ان کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ مثالیں دیں اور یاد کرائیں ۔
(۵)اس جماعت میں اگر ادب کی کوئی کتاب پڑھاتے ہوں تو اس میں نحو کے قواعد کی تطبیق کرائیں۔
نوٹ:قواعد کے یاد کرانے اور سننے پر پوری توجہ دی جائے۔
کتاب النحو کی تدریس کا منہج
(۱)علم نحو کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کریں تاکہ اس فن کو طلبہ انشراح صدر کے ساتھ پڑھیں ۔
(۲)مولف اور کتاب کا تعارف کرائیں ۔
(۳) قواعد کی اچھی طرح مثالوں کے ساتھ تشریح کریں اور طلبہ کو خوب یاد کرائیں اور سنیں، جہاں مثالیں نہ ہو وہاں دوسری کتابوں سے مثالیں لاکر طلبہ کو سمجھائیں ۔
(۴) اگر اس جماعت میں عربی ادب کی کوئی کتاب پڑھاتے ہوں تو اس کی عبارت خوانی کے وقت ان قواعد کی تطبیق کراتے رہیں ۔
مصادر و مراجع :ہدایۃ النحو، قطر الندیٰ اور شرح ابن عقیل وغیرہ اس فن کی کتابیں زیر مطالعہ رکھیں۔ تاکہ معلومات میں اضافہ ہو اور قواعد کے سمجھنے اور سمجھانے میں سہولت ہو۔
ہداىۃ النحو کی تدریس کا منہج
(۱) طلبہ کے سامنے علم نحو کی اہمیت و ضرو رت کے بیان کا اعادہ کریں۔
(۲) مصنف اور کتاب کا تعارف کرائیں۔
(۳) صحیح عبارت خوانی کرائیں اور مسائل کو اچھی طرح آسان اسلوب میں سمجھائیں۔ اور جہاں ضرورت ہو باہر سے مثالیں پیش کرکے توضیح کریں۔
(۴)ہر مسئلہ کو طلبہ سے یاد کرائیں اور سنیں۔
(۵) نحو کے ضروری مسائل ( خواہ کسی بھی قاعدہ سے متعلق ہوں)جو اس کتاب میں نہیں ہیں دوسری کتابوں کا مطالعہ کر کے طلبہ کو بتائیں۔
(۶) اگر ادب کی کوئی کتاب پڑھاتے ہوں تو اس میں اس کے قواعد کی تطبیق کرائیں۔
تمرین الصرف کی تدریس کا منہج
(۱) علم صرف کی ضرورت و افادیت پر روشنی ڈالیں۔
(۲) کتاب میں مذکور مسائل کی اچھی طرح مثالوں کے ساتھ توضیح کریں۔
(۳) تمرینات کو اچھی طرح حل کرائیں۔
(۴) قواعد کو یاد کرانے اور سننے پر خصوصی توجہ دیں۔
امین الصیغہ کی تدریس کا منہج
(۱)یہاں بھی علم صرف کی ضرورت و افادیت پر روشنی ڈالیں۔
(۲) کتاب اور اس کے مصنف کا تعارف کرائیں۔
(۳) مسائل کو اچھی طرح سمجھائیں۔
(۴) ہر مسئلہ کو یاد کرائیں اور سارے طلبہ سے فرداً فرداً سنیں۔
(۵)کتاب کے علاوہ باہر سے بھی مثالیں لا کرمسائل کی خوب توضیح کریں۔
(۶) جب تک ہر طالب علم سبق نہ سنادے اگلا سبق نہ پڑھائیں۔
علم التصریف کی تدریس کا منہج
(۱)زیر درس مسائل کو تفصیل سے سمجھایا جائے ۔
(۲) اس بات پر زور دیا جائے کہ ہرطالب علم ہرمسئلہ کو سمجھ لے اور اپنی زبان سے ادا کرسکے ۔
(۳)ابواب کے خصائص پر خصوصیت کے ساتھ توجہ دی جائے۔
(۴)سبق سنے بغیر اگلا سبق نہ پڑھا یا جائے۔
دروس البلاغۃ کی تدریس کا منہج
(۱) علم بلاغت کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالیں۔
(۲) کتاب اور مصنف کا تعارف کرائیں۔
(۳) صحیح عبارت خوانی کرائیں۔
(۴) عبارتوں کا با محاورہ ترجمہ اورتشریح کریں۔
(۵)اصطلاحات کی اچھی طرح مثالوں کے ساتھ وضاحت کریں ۔ اور اشعار میں محل استشہا د بتائیں۔
(۶)اصطلاحات کو یاد کرانے اور سننے پر توجہ دیں۔
مرقات کی تدریس کا منہج
(۱) منطق کی تعریف اور اس کے فوائد اور ضرورت پر روشنی ڈالیں۔
(۲) کتاب اور مصنف کے بارے میں بتائیں۔
(۳)اصطلاحات کو اچھی طرح سمجھا ئیں اور یاد کرائیں۔
قرآن کریم کے حفظ کرانے کا منہج
(۱)طلبہ کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت و حفظ کے فضائل وفوائد بیان کریں، تاکہ ان کے دل میں حفظ قرآن کا شوق پیدا ہو۔
(۲)طلبہ کو تاکید کی جائے کہ وہ ایک ہی مصحف استعمال کریں کیونکہ حافظ کے ذہن میں صفحہ کا پورا نقشہ محفوظ ہوجاتا ہے ، اور مختلف قسم کے مصحف استعمال کرنے سے حفظ میں پریشانی ہوتی ہے ۔
(۳)انھیں حتی الامکان گناہ و معصیت کے کاموں سے اجتناب کرائیں ،اس سے اللہ تعالیٰ کی مدد ان کے شامل حال ہوجاتی ہے ، اور حفظ کرنا آسان ہوجاتا ہے ۔
(۴) طلبہ کو بے دردی سے مارنے کے بجائے ترغیب دے کر اور مسابقہ کے جذبات ابھار کر حفظ پرمائل کریں ، اس کے لئے مستقل نگرانی و رہنمائی اور بار بار توجہ دلانا بھی ضروری ہے ۔
(۵) طلبہ اور ان کے والدین کو شرع ہی سے اس بات کا احساس دلائیں کہ قرآن کو حفظ کرنے کے بعد اسے یاد رکھنا واجب ہوجاتا ہے اس واسطے اس کے لئے مسلسل محنت کرنا اور وقت نکالنا ضروری ہے اور تعطیلات میں والدین کو خود نگرانی کرنا اورقرآن سننا چاہئے ۔
 (۶)حفظ کے لئے بہترین وقت نماز فجر کے فوراً بعد ہے، اس واسطے حفظ کرنے والوں کے لئے نماز فجر سے پہلے اٹھنا اور نماز فجر باجماعت پڑھنا اور پھر قرآن یاد کر نا ضروری ہے ، نیز انھیں شام کو عشا ء کے بعد دس بجے تک لازما سوجانا چاہئے ۔
(۷)سب سے پہلے جو حصہ طالب علم کو حفظ کرانا ہے اس کا ناظرہ درست کرا یا جائے جس میں تجوید کے ضروری قواعد کے اجراء کا اہتمام کیا جائے ۔
(۸)ابتدا میں مختصر سبق دیا جائے پھر آہستہ آہستہ طالب علم کی استعداد کا لحاظ رکھتے ہو ئے اس میں اضافہ کیا جائے ، مگراتنا سبق نہ دیاجائے جس کا یاد کرنا طالب علم کی استعداد وطاقت سے باہر ہو۔
(۹)سبق پابندی کے ساتھ بلا نا غہ سنا جائے اور پھرنیا سبق دیا جائے ،اورنیا سبق دیتے ہوئے اس کا خیال رکھا جائے کہ طالب علم کا موجودہ سبق بالکل پختہ یاد ہوا ہے کہ نہیں، اگر پختہ یاد نہیں ہے تو آگے کا سبق نہ دیا جائے اسی طرح حرکات کی بکثرت غلطیاں ہونے یارواں نہ پڑھنے پر بھی آگے کا سبق نہ دیا جائے۔
(۱۰)سبق کے علاوہ موجودہ سبق سے پہلے سات دن قبل تک کا پڑھا ہوا آموختہ بھی سنا جائے جس کو عرف عام میں ’’سبق پارہ‘‘کہا جاتا ہے۔
(۱۱)جب بھی کوئی پارہ ختم ہو تو اس کو اچھی طرح سے یاد کرائیں، یہاں تک کہ بغیر غلطی کے وہ پارہ مکمل یاد ہو جائے ،اس کے بعد ہی دوسرا پارہ شروع کریں، ایک یا دو غلطیوں کوبرداشت کیا جاسکتا ہے ۔
(۱۲)روزانہ کم از کم نصف پارے کا آموختہ ضرور سنا جائے۔
(۱۳)دَور کرنے والے طلبہ سے، پہلے دورمیں کم از کم یو میہ نصف پارہ سنا جائے، پھر دوسرے دور میں کچھ اضافہ کیا جائے ،اسی طرح ہر مرتبہ اضافہ کرتے رہیں یہاں تک کہ آخری دور میں کم از کم تین پارہ یو میہ سنا جائے ،اس طرح دور کے طلبہ وطالبات پر دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ وقت صرف کیا جائے ۔
(۱۴) متوسط مدت حفظ تین سے چار سال تک ہے ،اس سے کم مدت میں ہو جا ئے تو بہتر ہے ۔ پہلے سال کم از کم ۸ ؍پارہ، دوسرے سال ۱۰؍ پارہ اور تیسرے سال ۱۲؍ پارہ حفظ کرائیں، چوتھے سال میں دور اور اگر کچھ حفظ کرنا باقی رہ گیا ہو تو پہلے اس کا درس پھر دور ہوگا۔

هناك 6 تعليقات:

  1. جزاكم الله خيرا الدكتور وأحسن إليكم على إعداد هذه المادة للناطقين باللغة الأردية فهم بأحوج إلى مثل هذه المادة ، وبرأيي ياليت كانت لفضيلتكم جولة للمدارس الشهيرة في الهند لتدريب المدرسين فيها حتى يكونوا على بصيرة من أمرهم .

    ردحذف
  2. Assalam o Alaikum wa Rahmatullah wa barakatoho,
    Muhtram Shaikh! sb I am student of islamic studies in Srgodha University.The topic of my thesis for Phd is" Uloom ul Quran wa Tafseer ul Quran pr ghair matboa urdu mwad" plez guide and send me the relavent material.I will pray that Allah Taala succeed you in this world and the world after,forgive all your mistakes.
    yours sincerely,
    Rafiuddin
    Basti dewan wali st. Zafar bloch old Chiniot road Jhang saddar
    03336750546 - 03016998303 Email address drfi@ymail.com

    ردحذف
  3. یہ کتاب میں نے کنڈل بک ریڈر میں پڑھنے کے لئے بہترین فونٹ میں پی ڈی ایف بنائی ہے-اگر کسی کو چاہیے ہوتو ایمیل پر میسج کرسکتاہے
    hafizmurtaza557@gmail.com

    ردحذف
  4. أزال المؤلف هذا التعليق.

    ردحذف
  5. أزال المؤلف هذا التعليق.

    ردحذف
  6. Abdur Raqeeb15 يناير 2022 في 5:35 م
    abdurraqeeb.faizi@gmail.com پر پی ڈی ایف ارسال کر دیں یا 8075531317 پر واٹس اپ کر دیں آپ کی مہربانی ہوگی

    ردحذف