الأربعاء، 16 فبراير 2011

سوداوراس کی مضرتیں اور نقصانات


سود کا حکم
اور
اس کی مضرتیں اور نقصانات

تالیف
ڈاکٹر فضل الرحمن المدنی
جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں


بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ
الحمد لله کفی وسلام علی عباده الذين اصطفی ، أما بعد!
سودی نظام اقتصادی ، اخلاقی ، سماجی اور دینی و اخروی ہر حیثیت سے انتہائی نقصان دہ ہے، کتاب و سنت میں اس پر سخت وعید ہے ، ماہرین اقتصادیات کی بھی رائے ہے کہ یہ عالمی اقتصاد کے لئے ناسور ہے جسے صہیونی مفکرین اور ان کے تلامذہ نے انتہائی ہوشیاری سے عالمی اقتصا دمیں داخل اور پوری دنیا میں نافذ کرادیا ہے،اور یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ انتہائی مفید نظام ہے اور اس سے مفید کوئی اقتصادی نظام چل ہی نہیں سکتا، جبکہ اس کی وجہ سے تیسری دنیا کی حکومتیں ہر روز غریب سے غریب تر ہوتی جارہی ہیں ان پر عالمی بینک اور سودی اداروں کے قرضوں اور ان کے سود کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے اس طرح یہ حکومتیں آزاد ہوتے ہوئے بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہیں اور روز بروز ان کے مسائل اور مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے،جبکہ بڑی حکومتوں کی دولت اور سرمایہ میں اسی نظام کی وجہ سے روزانہ اضافہ ہوتاجاتا ہے، اور وہ مالدار سے مالدار تر ہوتی جاتی ہیں ، یہی حال افراد کا بھی ہے ، یہی حال افراد کا بھی ہے ، غریب لوگ روز بروز غریب سے غریب تر ہوتے جارہے ہیں اور مالداروں کی دولت میں روزانہ اضافہ ہوتا جاتا ہے ، اور سودی کاروبار کے ذریعہ وہ غریبوں اور مجبوروں کی دولت لوٹ کو روزانہ مالدار سے مالدار تر بنتے جارہے ہیں۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار کی گنجائش نہیں ، مگر عالمی ، ملکی اور مقامی سطحوں پر اس نظام کو عام کرنے کے لئے ریڈیو، ٹی وی ، اخبارات اور دیگر وسائل اعلام کے ذریعہ اس قدر پروپگنڈے کئے جارہے ہیں ، اور سودی اداروں کے ایجنٹ ہر جگہ پہونچ کراس کا پرچا ر کرر ہے ہیں کہ لوگ نہایت آسانی کے ساتھ اس کے جال میں پھنستے جارہے ہیں ، اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی مضرتوں اور دینی و دنیوی نقصانات کا بیان اور اعلان بھی لوگوں کے سامنے اسی طرح کثرت سے اور مختلف وسائل اعلام کے ذریعہ ہو، مگر افسوس ایسا نہیں ہو رہا ہے۔
بہر حال اس موضوع کی حساسیت اور اہمیت کو سمجھتے ہوئے اسلامک سینٹر ممبئی.....کو مردوں کے لئے اور ......کو خوتین کے لئے ’’سود کا حکم اور اس کی مضرتیں ‘‘کے موضوع پر ناچیز کا خطاب رکھا ، جسے سامعین نے بہت پسند فرمایا ، اسی خطاب کو مزید تنقیح اور حذف و اضافہ کے بعدرسالہ کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے ، تاکہ اس کا فائدہ اور عام ہو ، اور اس کے مطالعہ سے لوگوں کو عبرت و نصیحت ہو ، اس طرح جولوگ اس کاروبار میں ملوث ہیں انہیں اللہ ہدایت اور توبہ کی توفیق عطافرمائے، اور جو لوگ ایسے کاروبار کا ارادہ کررہے ہیں وہ اس سے باز آجائیں ۔ ومابذلک علی اللہ بعزیز۔وصلی اللہ وسلم علی وعبدہ ورسولہ محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین.
د؍فضل الرحمن المدنی
 شیخ الجامعہ ، جامعہ محمدیہ
     منصورہ ,مالیگاؤں





بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للّه رب العالمين والصلاة والسلام علیٰ سيد الأنبياء والمرسلين وعلیٰ آله وآصحابه اجمعين.أما بعد!
فقد قال اللّه تعالیٰ  : الَّذِيْنَ يَأْکُلُونَ الرِّبَا لاَ يَقُومُونَ إِلاَّ کَمَا يَقُومُ الَّذِیْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِکَ بِأَنَّهُمْ قَالُواْ إِنَّمَا الْبَيْْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللّهُ الْبَيْْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَن جَاءهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَیَ فَلهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَی اللّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُوْلَئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيْهَا خَالِدُونَ (275)يَمْحَقُ اللّهُ الْرِّبَا وَيُرْبِیْ الصَّدَقَاتِ وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ أَثِيْمٍ   (البقرة: ٢٧٥ - ٢٧٦ )
وقال في موضع آخر: يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَذَرُواْ مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا إِن کُنتُم مُّؤْمِنِيْنَ (278)فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍ مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَإِن تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِکُمْ لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَ تُظْلَمُونَ (279)وَإِن کَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَی مَيْسَرَةٍ وَأَن تَصَدَّقُواْ خَيْْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ  (البقرة: ٢٧٨ - ٢٨٠ (
وعن جابر بن عبد اللّه قال: قال رسول اللّه صلى الله عليه وسلم : ’’ لَعَنَ اللَّهِ آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَقَالَ هُمْ سَوَاءٌ ‘‘.(صحيح مسلم : 5/ 50 , مسند أحمد بن حنبل: 1/ 453 , سنن أبي داود محقق وبتعليق الألباني : 3/ 249 , سنن الترمذي : 3/ 512)
معززسامعین!آج کی اس مجلس میں درس کے لئے جس موضوع کا انتخاب کیا گیا ہے وہ ہے: ’’سوداوراس کی مضرتیں اور نقصانات‘‘.
قبل اس کے کہ ہم اس کی دینی ،اخلاقی ،معاشی اور اُخروی مضرتوں پر روشنی ڈالیں بہتر معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ہم اس کی مختصر تعریف اور تشریح کردیں تاکہ آپ حضرات کو اس کی مضرتوں کے ساتھ اس کی حقیقت کو سمجھنے میں آسانی ہو ، اور کون سا معاملہ اور کاروبار سودی ہے اور کون سا نہیں ،اس میں آپ تمیز کرسکیں۔
سود کی تعریف :
سود کو عربی زبان میں ’’ربو‘‘ کہا جاتا ہے ،اور کتاب وسنت میں اس کے لئے یہی لفظ وارد ہے ،چنانچہ جو آیات اور حدیث ابھی ہم نے آپ کے سامنے پیش کی ہے ان الَّذِيْنَ يَأْکُلُونَ الرِّبَا  جو سود کھاتے ہیں يَمْحَقُ اللّهُ الْرِّبَا اللہ سود کو مٹاتا ہے وَذَرُواْ مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا  جو سود باقی ہے اس کو چھوڑ دو ، ’’ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم  آكِلَ الرِّبَا ‘‘رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  کی لعنت ہے سود خور پر۔ کے الفاظ وارد ہیں۔
اور ربٰو کے لغوی معنی ہوتے ہیں: ’’اضافہ اور زیادتی‘‘قرآن کریم میں ہے:   وَتَرَی الْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاء اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ  ( الحج: ٥ )
اور تو دیکھتا ہے زمین کو خشک وبنجر پھر جب ہم اس پر بارش برساتے ہیں تو وہ ہلتی اور بڑھتی (یعنی اوپر کی طرف ابھرتی اور پھولتی )ہے۔
اس کی اصطلاحی تعریف علماء کرام نے مختلف الفاظ میں کی ہے، چنانچہ امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ وَهُوَ فِي الشَّرْعِ : الزِّيَادَةُ فِي أَشْيَاءَ مَخْصُوصَةٍ ‘‘مخصوص اشیاء میں اضافہ کا نام سود ہے۔(المغنی :۴؍۳)
اور شاہ ولی اللہ صاحب حجۃ اللہ البالغہ (۲؍۱۶۲) میں فرماتے ہیں :
’’ وهو القرض على أن يؤدي إليه أكثر أو أفضل  مما أخذ ‘‘ ربا وہ قرض ہے جو اس شرط پر ہو کہ قرض دار قرض خواہ کو جتنا لیا ہے اس سے زیادہ اور اس سے اچھا واپس کرے گا۔
اور المعجم الوسیط میں (۱؍۳۲۶) ہے :
’’ الربا : الفضل والزيادة و( في الشرع ) فضل خال عن عوض شرط لأحد المتعاقدين ‘‘
رباکے معنی فضل اور زیادتی کے ہیں اور شرعی اصطلاح میں ایسی زیادتی کو کہتے ہیں جو عوض سے خالی ہو اور جس کی متعاقدین میں کسی کے لئے شرط رکھی گئی ہو ۔
ربا کی قسمیں:
ربا کی دو قسمیں ہیں ’’ربا الفضل ‘‘اور ’’ربا النسیئۃ ‘‘
ربا الفضل:
اس سود کو کہتے ہیں جو اموال ربویہ میں کمی بیشی کے ساتھ یا نقد اور ادھارتبادلہ کی وجہ سے ہوتا ہے، احادیث میں اموال ربویہ میں چھ چیزوں کا تذکرہ ہے ،سونا، چاندی، گیہوں ، جو،کھجور،اور نمک ۔
چنانچہ حضرت عبادہ بن صامت رضى الله عنہ کی حدیث میں ہے : ’’ الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلاً بِمِثْلٍ سَوَاءً بِسَوَاءٍ يَدًا بِيَدٍ فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الأَصْنَافُ فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ ‘‘ (رواہ مسلم :۱۱؍۱۴)
سونے کو سونے سے ،چاندی کو چاندی سے ،گیہوں کو گیہوں سے ، جو کو جو سے ،کھجور کو کھجور سے ،اور نمک کو نمک سے، برابر برابر، اور ہاتھوں ہاتھ (نقد )بیچو ،اور جب اصناف بدل جائیں تو جیسے چاہو بیچو جب نقد اور ہاتھوں ہاتھ ہو۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان چیزوں میں سے کسی چیز کو اسی کی صنف سے جیسے سونے کو سونے سے، یا چاندی کو چاندی سے، یا گیہوں کو گیہوں سے فروخت کرنا ہوتوصحت بیع کے لئے دو شرطیں ہیں ،ایک تو دونوں برابر ہوں دوسرے دونوں نقد اور ہاتھوں ہاتھ لئے اور دئے جائیں ،چنانچہ اگر مقدار یاوزن میں فرق ہواجیسے دس گرام سونے کو ۱۲؍ گرام سونے کے عوض فروخت کیا یا خریدا تو دو گرام جوزیادہ ہوگا وہ سود ہوگا اور یہ بیع حرام ہوگا۔
اسی طرح اگر ایک نے تو نقد دیامگر دوسرے نے اُدھار رکھا تو یہ بیع جائز نہیں ہوگا ، البتہ اگر صنف بدل جائے مگرجنس ایک ہی ہو جیسے سونے کو چاندی سے بیچنا یا خریدنا ہو تو کمی بیشی کے ساتھ بیع کر سکتے ہیں مگر نقد اور ہاتھوں ہاتھ بیچنا اور خریدنا ضروری ہے ،اگر کسی ایک کویا دونوں کو اُدھار رکھا گیا تو بیع نا جائز ہوگا یعنی ایسی صورت میں صحتِ بیع کے لئے صرف ایک شرط ہے کہ بیع نقد ہو ،ادھار نہ ہو ۔
اور اگر صنف اور جنس دونوں بدل جائیں جیسے سونا یا چاندی کے عوض گیہوںیا جو یا کھجور یا نمک بیع کریں تو دونوں شرطیں ختم ہوجاتی ہیں، یعنی کمی بیشی کے ساتھ اور نقد اور ادھار دونوں طرح بیچنا اور خریدنا جائز ہے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  نے ایک یہودی سے غلّہ ایک معین وقت تک کے لئے ادھار خریدا اور اپنی ذرہ رہن میں رکھی ۔  (صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 3/ 74)
یاد رہے کہ سونا چاندی ایک جنس کے ،اور گیہوں ،جو ،کھجور اور نمک ایک جنس کے مانے جاتے ہیں ،جبکہ سب کی صنف الگ الگ ہے ۔اسی طرح سونا چاندی کے حکم میں وہ تمام چیزیں ہیں جن میں ثمنیت (قیمت ہونا) پائی جاتی ہے اور گیہوں ،جو وغیرہ کے حکم میں وہ تمام چیزیں ہیں جو قوت(غذا) اور مکیل یا موزون ومدخرہوں یعنی خوراک ہوں اور ناپی یا تولی جاتی ہوں اور انہیں ذخیرہ کرکے رکھا جاسکتا ہو۔
ربا النسيئۃ:
اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو رقم وغیرہ ایک معینہ مدت کے لئے اس شرط پر قرض دے کہ وہ اسے ایک مشروط اضافے کے ساتھ واپس کرے گا۔ مثلا کسی کو دس ہزار روپے ایک سال کے لئے اس شرط پر قرض دیا کہ وہ سال مکمل ہونے پر جب قرض واپس کرے گاتو دس کے بجائے بارہ ہزار دے گا ۔تو یہ سودی قرض ہوگا اور قرض دینے والا جو دو ہزار زیادہ لے گا وہ سود ہوگا ۔ مشہور فقہی قاعدہ ہے: ’’ كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً فَهُوَ رِبا ‘‘ ہر قرض جو منفعت کھینچے وہ سود ہے ،اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے نفع بخش قرض سے منع فرمایا ہے۔ (انظر ارواء الغلیل :۵؍۲۳۴)
قرض خواہ ذاتی ضرورت کے لئے لیا جائے یا تجارت اور کاروبار کے لئے دونوں صورتوں میں سود لینا، دیناحرام ہے ،دور جاہلیت میں دونوں قسم کے سودوں کا رواج تھا،اور شریعت اسلامیہ نے بلا کسی تفریق کے سود کو مطلق حرام قرار دیا ہے، اس واسطے جو لوگ یہ کہتے ہیں استہلا کی قرض پر سود لینا حرام ہے لیکن تجارت اور کاروبار کے لئے لئے گئے قرض پر سود لینا دیناجائز ہے وہ درست نہیں ہے۔
سود کی دینی ودنیوی مضرتیں
جہاں تک سود کی مضرتوں اور نقصانات اور اس کی حرمت میں حکمتوں کی بات ہے تو ہم جب کتاب و سنت اور معاشرہ میں اس سے مترتب ہو نے والے اثرات کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سود اور سودی نظام دینی ،اخلاقی ، سماجی اور معاشی واُخروی ہر اعتبار سے مضر اور نقصان دہ ہے ۔
آئیے پہلے ہم اس کے اُخروی نقصانات ومضرتوں پر نظر ڈالتے ہیں پھراس کے دنیوی نقصانات کا جائزہ لیں گے:
۱)  سود خور اپنی قبروں سے اٹھیں گے تو مخبوط الحواس ہونگے:
سود کی اُخروی مضرتوں اور آخرت میں اس کے سنگین نتائج کے سلسلے میں جب ہم کتاب وسنت پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ محشر کے دن سود خورجب اپنی قبروں سے اٹھیں گے تو مخبوط الحواس ہوں گے اور ان کی کیفیت ایسی ہی ہوگی جیسے اس آسیب زدہ شخص کی ہوتی ہے جس کو شیطان نے لگ کر مجنون اور آشفتہ سر بنادیا ہو ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: الَّذِيْنَ يَأْکُلُونَ الرِّبَا لاَ يَقُومُونَ إِلاَّ کَمَا يَقُومُ الَّذِیْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِکَ بِأَنَّهُمْ قَالُواْ إِنَّمَا الْبَيْْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللّهُ الْبَيْْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا  (سورة البقرة :۲۷۵)
سود خور لوگ نہیں کھڑے ہونگے (اپنی قبروں سے یا میدان محشر میں) مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنادے ، یہ اس لئے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو سود کی طرح ہے ،حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے ۔
اور حضرت عوف بن مالک رضى الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ إِيَّايَ وَالذُّنُوبَ الَّتِي لا تُغْفَرُ: الْغُلُولُ، فَمَنْ غَلَّ شَيْئًا أَتَى بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَآكِلُ الرِّبَا فَمَنْ أَكَلَ الرِّبَا بُعِثَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَجْنُونًا يَتَخَبَّطُ", ثُمَّ قَرَأَ: "الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لا يَقُومُونَ إِلا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ"[البقرة آية 275] ‘‘رواہ الطبرانی وقال الألبانی:حسن لغیرہ(الترغیب : ۲ ؍ ۷ ۴ ۷ )
تم ایسے گناہوں سے بچوجن کی(قیامت کے دن) بخشش نہیں ہوگی ،(ان میں سے ایک) خیانت اور مال غنیمت میں سے چوری ہے، کیونکہ جو کوئی چیز مال غنیمت میں سے چرائے گا تو اسے وہ قیامت کے دن لے کر آئے گا ، اور (دوسرا) سود خوری ہے ،کیونکہ جو سود خوری کرے گا وہ قیامت میں مجنون بنا کر اٹھایا جائے گا۔پھر آیت کریمہ : الَّذِيْنَ يَأْکُلُونَ الرِّبَا لاَ يَقُومُونَ إِلاَّ کَمَا يَقُومُ الَّذِیْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْْطَانُ مِنَ الْمَسِّ کی تلاوت کی۔
اس حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ سود خورمحشر کے دن اپنی قبر سے پاگلوں کی طرح مخبوط الحواس ہوکر اٹھایا جائے گا ، وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سود خور نے اگر اپنے اس گناہ سے توبہ نہیں کیا اور اس سے باز نہیں آیا تو اس کی بخشش نہیں ہے۔
یہاں پر ایک اور بات قابل توجہ ہے کہ قرآن کریم نے جہاں سود خوروں کا یہ انجام بتایا ہے کہ وہ محشر کے دن اپنی قبروں سے اٹھیں گے تو پاگلوں کی طرح مخبوط الحواس ہوں گے وہیں اس کی وجہ پربھی روشنی ڈالی ہے، اور بتایاہے کہ ایسا اس لئے ہوگا کہ ایک تو یہ سود خوری کرتے تھے جو حرام ہے، دوسرے اس پر اصرار اور کٹ حجتی بھی کرتے تھے ،اور کہتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے، اور انہیں چاہئے تھا کہ اللہ کے حکم اور فیصلے کے سامنے بلا چوں و چر ا سرِ تسلیم خم کردیں ،اور جس کو اس نے حلال قرار دیاہے اس کو حلال ہے،اور جس کو اس نے حرام قرار دیا ہے اس کو حرام مانیں ،یہی ایمان اور اسلام کا تقاضا ہے ، اور یہی سچے پکے مومنوں کا شیوہ ہے، کیونکہ اللہ کے تمام احکام برحق اور مصلحتوں پر مبنی ہیں ،خواہ وہاں تک عقل انسانی کی رسائی ہو یا نا ہو۔
دوسرے یہ کہتے ہیں کہ تجارت بھی سود کی طرح ہے ،حالانکہ دونوں میں بہت فرق ہے ،کیونکہ سودی قرض دینے والے کا نفع متعین اور یقینی ہوتا ہے ، جبکہ تجارت کرنے والے کا نفع نہ یقینی ہوتا ہے اور نہ متعین۔کیونکہ اس کو اس میں نفع بھی ہوسکتا ہے اور نقصان بھی ،اور کبھی تو اس کا رأس المال بھی ڈوب سکتا ہے اور نفع ہونے کی صورت میں بھی کبھی کم نفع ہوتا ہے اور کبھی زیادہ، پھر سود اور تجارت دونوں برابر کیسے ہوئے؟
علاوہ ازیں سودی کاروبار کرنے والا قرض خواہوں کو سودی قرض دے کر آرام سے بیٹھا رہتا ہے اور وقت مقررہ پر ان سے اصل رقم مع سود وصول کرلیتا ہے ،جبکہ تجارت کرنے والے کومال کی خریداری ،حمل ونقل اور بازارمیں اس کی قیمت پر نظر ،گراہکوں سے بات چیت اور سامان و قیمت کے لین دین وغیرہ امور میں شب وروز محنت کرنی پڑتی ہے، نیز تجارت میں ایک طرف رقم اور دوسری طرف کوئی سامان رہتا ہے، جبکہ سود میں دونوں طرف رقم یا ایک ہی طرح کی چیز رہتی ہے ۔بہر حال سود اور تجارت میں مختلف ناحیوں سے بہت اہم اور بنیادی فرق ہے مگر یہ لوگ اس کو نہیں مانتے ہیں۔ اورکٹ حجتی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ : إِنَّمَا الْبَيْْعُ مِثْلُ الرِّبَا  بیع بھی سود ہی کی طرح ہے ،جس کی بنا پر انہیں یہ سزا دی جائے گی ۔
۲) سود کی حرمت معلوم ہونے کے با وجود سود خوری کو ترک نہ کرنے والوں کے لئے جہنمی ہونے کی وعید:
اسی آیت کریمہ میں آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فَمَن جَاءهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَیَ فَلهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَی اللّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُوْلَئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيْهَا خَالِدُونَ (سورۃالبقرۃ:۲۷۵)
پس جس کے پاس اس کے رب کی جانب سے نصیحت آئی تو اس سے رک گیا تو جو ماضی میں لے چکا ہے وہ اس کا ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے حوالہ ہے ۔اور جو اس کے بعد لیں گے تو وہی جہنمی ہوں گے ،اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔
اس آیت میں جہاں سود کی حرمت کو جاننے کے بعد اس سے باز آجانے والوں کے لئے یہ خوشخبری ہے کہ توبہ کرلینے اور سودی کاروبار کو ترک کردینے کے بعد ماضی میں جو انہوں نے سودی کاروبار کیا تھا اللہ نے اس کا گناہ معاف کردیا اور اس پر اب ان کی کوئی گرفت اور باز پرس نہیں ہوگی ، وہیں توبہ نہ کرنے والوں کے یہ وعید شدید بھی ہے کہ اس نصیحت کے بعدبھی اگر وہ اس سے باز نہ آئے اوراس ناجائز کاروبار میں ملوث رہے تو ان کا ٹھکانہ جہنم ہے ،اور اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔
اب ذراجہنم اور اس کی سزاؤں اور عذابوں کے بارے میں سنئے اور پھر اس میں ہمیشہ رہنے کی تکالیف اور مصائب پر غور کیجئے تو اندازہ ہوگا کہ سود خوری کتنا نقصان دہ اور عظیم گناہ ہے اور اس کی سزاقیامت میں کس قدر ہولناک ہے۔
حضرت انس رضى الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  نے فرمایا : قیامت کے دن ایک ایسے جہنمی کو لایا جائے گا جس نے دنیا میں بڑے ہی ناز ونعم کی زندگی گذار ی ہوگی،اسے ایک مرتبہ جہنم کی آگ میں ڈال کر نکالا جائے گاپھرپوچھا جائے گا:اے ابن آدم !کیا تم نے کبھی کوئی خیر(عیش وآرام) دیکھا ہے ؟ کبھی تجھے کوئی نعمت ملی ہے ؟وہ کہے گا اے رب ،اللہ کی قسم نہیں ،پھر ایک ایسے جنتی کو لایا جائے گا جس نے دنیا میں بڑی پریشانی اور فقر وفاقہ کی زندگی گذاری ہوگی اور اسے جنت میں ایک مرتبہ داخل کیا جائے گا، پھر کہا جائے گا: اے ابن آدم! کیا تم نے دنیا میں کوئی پریشانی اور مشقت دیکھی ہے ؟ کیا تجھے کبھی کوئی پریشانی اور غم لاحق ہوا ہے؟ وہ کہے گا:اے رب واللہ نہیں، مجھے کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔میں نے کبھی سختی اور غم نہیں دیکھا ۔ (صحيح مسلم : 8/ 135)
اور حضرت نعمان بن بشیر  رضى الله عنہ سے رویت ہے کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  نے فرمایا :جہنمیوں میں سب سے ہلکے عذاب والا شخص وہ ہوگا جس کو آگ کی دو جوتیاں پہنائی جائیں گی جس سے اس کا دماغ اس طرح کھولے گا جیسے آگ پر ہانڈی کھولتی ہے ،وہ سمجھے گا کہ اس سے سخت عذاب کسی کو نہیں دیا جا رہا ہے حالانکہ اس کا عذاب سب سے ہلکا ہوگا ۔اب غور فرمائیے کہ سود خورلوگ جن کے بارے میں اس آیت کریمہ میں ہے کہ  ﭽ هُمْ فِيْهَا خَالِدُونَ وہ نار جہنم ہمیں ہمیشہ رہیں گے ان کے عذاب کی شدت کا کیا عالم ہوگا اور سود خوری کتنا بڑا گنا ہ ہے ۔
۳ )  سود خورکے لئے بھی وہی آگ ہے جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے:
سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: يَا أَيّهَا الَّذِيْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافاً مُّضَاعَفَةً وَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ(130) وَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِیْ أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِيْن (آل عمران: ١٣٠ – 1١٣(
اے ایمان والو بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤاور اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ ،اور اُس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔
پہلے میں یہ وضاحت کردوں کہ اس آیت میں جو بڑھا چڑھا کر سودکھانے سے منع کیا گیا ہے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اگر بڑھا چڑھا کر سود نہ لیا جائے تو جائز ہے، کیونکہ یہاں الرِّبَا أَضْعَافاً مُّضَاعَفَةً کی قید بطور شرط نہیں ہے بلکہ بطور اظہار واقعہ اوربیان صورت حال ہے۔دور جاہلیت میں عربوں میں رواج تھا کہ جب سودی قرض کی ادائیگی کا وقت آجاتا اور قرض دار قرض ادا نہیں کرپاتا تو موجودہ رقم مع سود پرمزیدسود بڑھا کر اسے کچھ مدت کے لئے مہلت دیدی جاتی ،جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ یہ مختصر سی قرض لی گئی رقم چند سالوں میں بڑھ کر اتنی ہوجاتی کہ عام آدمی کے لئے اس کی ادائیگی مشکل اور بسا اوقات نا ممکن ہوجاتی ،یہاں اسی صورت کو ذکر کرکے بطور خاص اس سے منع کیا گیا ۔ جبکہ دوسرے مقامات پر علیٰ العموم سود کی تمام صو رتوں کو حرام قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس کی ساری صورتیں مہلک اور تباہ کن ہیں۔
بہر حال اللہ تعالیٰ نے پہلے یہاں سود خوری سے منع کیا پھر فرمایا: وَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ اور اللہ سے ڈرو تاکہ تمہیں کامیابی مل جائے ۔
معلوم ہوا کہ جو سود خوری کرتا ہے اور سودی کاروبار میں ملوث رہتا ہے اور اس کی حرمت کو جاننے کے باوجود اس کو ترک نہیں کرتا وہ در حقیقت نہ اللہ سے ڈرتا ہے اور نہ اس کے لئے نجات وفلاح ہے ۔اور جو تقویٰ اور خشیت الٰہی اور کامیابی و نجات سے محروم ہو اس سے بڑا محروم اور بد قسمت کون ہوسکتا ہے ؟
پھر آگے فرمایا: وَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِیْ أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِيْن اور اس آگ سے بچو جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔
اس میں اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ اگر تم سود خوری سے باز نہیں آئے تو تمہارا یہ سود خوری پراصرار اور حکم الٰہی کی تعمیل سے انکار تمہیں کفر تک پہنچا سکتا ہے ،اور ایسی صورت میں بلا توبہ مر جانے کی صورت میں تمہارے لئے بھی جہنم کی وہی آگ ہوگی جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔
۴ )   سود خور کو قیامت کے دن خون کی نہر میں کھڑاکیاجائے گا :
حضرت سمرہ بن جندب رضى الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  نے فرمایا :’’ رات میں نے خواب دیکھا کہ دو آدمی میرے پاس آئے اور مجھے ایک مقدس سر زمین کی طرف لے گئے ،پھر دونوں چلتے رہے یہاں تک کہ ہم لوگ خون کی ایک نہر پر پہنچے ،اس نہر میں بیچ میں ایک شخص کھڑا ہوا تھا اور بعض روایتوں میں ہے کہ وہ بیچ میں تیر رہا تھا ،اور نہر کے کنارے ایک شخص تھا جس کے سامنے پتھر تھے ،نہر میں کھڑا یا تیرتا ہوا شخص جب باہر نکلنے کے لئے کنارے کی طرف بڑھتا تو کنارے پر کھڑا ہوا شخص پتھر پھینک کر اس کے منہ پر مارتا اور اسے اسی پرانی جگہ پر واپس کردیتا جہاں پر وہ پہلے کھڑا تھا،جب جب وہ کنارے آنے کوشش کرتا کنارے پر کھڑا شخص اس کے ساتھ یہی سلوک کرتا ،رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  نے فرمایا:’’ کہ میں نے اپنے ساتھی(حضرت جبرئیل علىہ السلام ) سے پوچھا :یہ شخص کون ہے؟ انہوں نے فرمایا :یہ شخص جسے آپ نے خون میں کھڑا دیکھا ہے وہ سود خور ہے جو دنیا میں سود کھایا کرتا تھا ،آج اس کو اس کے اسی جرم کی سزا دی جارہی ہے۔(رواہ البخاری فی البیوع مختصرا، وفی الصلاۃ مطولا،انظرالترغیب والترھیب: ۲؍۳ ۴ ۷)
سود انسان کو برباد کرنے والی چیز ہے:
سود خور کے لئے آخرت میں چند سزاؤوں اور عذاب کے تذکرہ کے بعد آئیے چند دنیوی مضرتوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں، حضرت ابو ہریر ہ رضى الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  نے فرمایا:
’’ اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ قَالُوا : يَا رَسُولَ اللهِ وَمَا هُنَّ قَالَ الشِّرْكُ بِاللَّهِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَأَكْلُ الرِّبَا وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ وَالتَّوَلِّي يَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلاَتِ ‘‘  (صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري: 4/ 12 , صحيح مسلم : 1/ 64)
یعنی سات ہلاک کردینے والی چیزوں سے بچو ، لوگوں نے پوچھا یارسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  وہ کونسی چیزیں ہیں؟ آپ نے فرمایا:’’ اللہ کے ساتھ شرک کرنا ،جادو، نا حق کسی شخص کو قتل کرنا ، سود کھانا ،یتیم کا مال کھانا ، جنگ کے دن پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑا ہونا ،غافل عفیفہ مومنہ عورتوں پر الزام لگانا۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  نے سود خوری کو شرک ،جادو اور نا حق قتل وغیرہ جیسے کبیرہ گناہوں کے ساتھ شمار کرکے مہلکات (برباد کردینے والی چیزوں) میں سے بتایا ہے ، اور یہ ہلاکت وبربادی دنیا وآخرت دونوں کی بربادی کو شامل ہے،آخرت میں اس کی چند ہلاکت خیز یوں کے بارے میں ابھی آپ نے سنا،دنیا میں اس کی بربادی کا تذکرہ خود قرآن کریم میں ہے ، چنانچہ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے: يَمْحَقُ اللّهُ الْرِّبَا وَيُرْبِیْ الصَّدَقَاتِ ( البقرۃ:۲۷۶)
اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔
آج اگر معاشرہ کا جائزہ لیا جائے تو سود کی ہلاکت خیزی اور بربادی کے سچے واقعات اور مناظر ہر ہر بستی میں دیکھنے اور سننے کو ملیں گے ،شاید ہی کوئی بستی اور شہر ایسے واقعات سے خالی ملے ،چنانچہ کتنے ایسے لوگ آپ کو ملیں گے جو یہ سنائیں گے کہ فلاں اور فلاں آرام سے حلال کی روٹیاں کھاتے ،چین سے سوتے اور عزت کی زندگی گذارتے تھے ، مگر فلاں بینک کے ایجنٹوں نے انھیں سودی قرض لے کر اچھااور بڑا کاروبار کرنے یا کارخانہ لگانے وغیرہ کی ترغیب دی ،اور سمجھایا کہ اس طرح تم بھی بہت بڑے آدمی بن جاؤ گے، چنانچہ لالچ میں آکر انہوں نے بینک سے ایک موٹی رقم سود پرقرض لے کر کاروبار شروع کیا یا کارخانہ لگایا، مگر اس کی نحوست سے آج وہ قلاش اور انتہائی ذلیل و خوار ہیں ،کیونکہ اتنی بڑی رقم دیکھ کر انہوں نے اور ان کے اہل خانہ نے خوب ٹھاٹ باٹ کی اور شاہانہ زندگی گذارنا شروع کیا جس سے اخراجات میں اضافہ ہوا ،ادھر کاروبار میں نقصان ہوا اور قرض کے ساتھ سود کی رقم بھی بڑھتی گئی اور وقت پر قرض کی ادائیگی نہ ہوسکنے کی بنا پر زمین جائداد بیچنی پڑی ،کوٹھی نیلام ہوگئی ،اور آج بے گھر اورپیسے پیسے کے محتاج اور ذلیل و خوار ہیں ۔
اس طرح کی تباہی اور بربادی کے بے شمار واقعات معمولی تلاش و جستجو پر آپ کو سننے کو مل جائیں گے ،اور رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  نے تو ایک حدیث میں فرمایا:’’ اذا ظهر الزنا و الربا في قرية فقد أحلوا بأنفسهم عذاب الله  ‘‘.(رواہ الحاکم عن ابن عباس وقال: ھذا حدیث صحیح الاسنادووافقہ الذہبی،انظرالمستدرک:۲؍۳۷)
جب کسی بستی میں زنا اور سود عام ہوجائے تو اس بستی والوں نے اپنے لئے اللہ کے عذاب کو حلال کرلیا ۔
اس معنی کی حدیث مسند ابو یعلیٰ میں بھی بسند جید حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ۔(دیکھئے الترغیب والترہیب:۲؍۷۴۶)
آئے دن ہم لوگ سنتے رہتے ہیں کہ فلاں شہر یا گاؤں زبردست زلزلے سے تباہ ہوگیا، فلاں علاقہ سمندر کی تیز وتند لہروں یا زبردست آندھی وسیلاب سے برباد ہوگیا، فلاں بستی آگ سے جل کر خاکستر ہوگئی ،کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ ان بربادیوں اور تباہیوں میں دوسری معصیتوں کے ساتھ سود کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔
ہم بستیوں اور شہروں کی بات کیا کریں آپ لوگ ذرا بنظر غائر دیکھیں اور غور فرمائیں تو سودی قرضوں کی وجہ سے بہت سے ممالک تباہی و بربادی اور عذاب میں مبتلا نظر آئیں گے ۔سپر طاقتوں اور عالمی بینکوں نے غریب ممالک کو سودی قرض دے دے کرکس طرح انہیں اپنے شکنجوں میں جکڑ لیا ہے اور ان کے حکمراں اور عوام کس طرح آج غلامی ومجبوری اور ذلت و رسوائی کی زندگی گذارتے اور اس سودی قرض کی سزا اور عذاب کا مزہ چکھ رہے ہیں ،عالمی حالات واقعات پر نظر رکھنے والوں سے مخفی نہیں، آپ یہودی پروٹوکولز کا ایک اقتباس پڑھئے جس سے اس نکتہ کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ اقتباس کی عبارت یہ ہے :
’’ہم نے سرمائے کو گردش سے نکال کر غیر یہود کے لئے متعدد معاشی بحران پیدا کئے ہیں ۔ریاستوں سے زر کی واپسی کے باعث سرمایہ کے بڑے بڑے ذخیرے جامد ہوکر رہ گئے ہیں ،جس کی وجہ سے ریاستوں کو قرض کا سہارا لینا پڑا ،ان قرضوں نے حکومت کی مالیات کو سود کے بوجھ تلے دبا دیا ہے ، نتیجۃً حکومتیں ان سرمایہ کاروں کی محض غلام بن کر رہ گئی ہیں ، صنعت چھوٹے صنعت کاروں کی بجائے بڑے بڑے سر مایہ کاروں کے ہاتھ میں مرتکز ہوگئی ہے ،اس طرح عوام اور حکومت دونوں کا سرمایہ سمٹ کر ان سرمایہ داروں کی تجوریوں میں پہنچ چکا ہے ۔(یہودی پروٹوکولز:۱۸۱،زیر عنوان: غیر یہود کے لئے اقتصادی بحران)
’’اندرونی وبیرونی قرضے‘‘ کے زیر عنوان مضمون کا بھی ایک اقتباس پڑھئے جو اس طرح ہے:
’’ کسی بھی قسم کا قرض لینا حکومت کی کمزوری کا ثبوت ہوتا ہے ،اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ ریاست کے حقوق کو صحیح طور پر سمجھا نہیں گیا ۔ قرض ایک ننگی تلوار کی طرح حکمرانوں کے سروں پر لٹکتے رہتے ہیں جو کہ رعایا سے ایک عارضی ٹیکس لگا کر رقم حاصل کرنے کی بجائے ہمارے بینک کاروں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر مانگنے آجاتے ہیں ،غیر ملکی قرض ایسی جونکیں ہیں جن کو ریاست کے جسم سے الگ کرنا ممکن نہیں ، ما سوائے اس کے کہ یہی خود ہی الگ ہوجائیں یا متعلقہ ریاست انہیں اتارپھینکے ، لیکن غیر یہودی ریاستیں انہیں کسی طرح بھی پھینکنے کو تیار نہیں ہوتیں بلکہ اپنے اوپر مزید قرضوں کا بوجھ بڑھاتی رہتی ہیں تاکہ اپنے جسم کا خون نچڑ جانے سے وہ مکمل طور پر تباہ و برباد ہوجائیں ۔
قرضہ اور بالخصوص غیر ملکی قرضہ ،در اصل کسی حکومت کی طرف سے جاری شدہ ایک ہنڈی (Bill of Exchange)ہوتی ہے۔جس میں قرضے کی رقم مع سود ادا کرنے کی ذمہ داری قبول کرلی جاتی ہے۔اگر شرح سود %5  ہو تو مقروض حکومت ۲۰؍ سال کے عرصہ میں اصل زر کے برابر صرف سود ہی ادا کردیتی ہے۔۴۰؍ سال میں یہ رقم دوگنا اور ۶۰؍ سال میں تین گنا ہو جاتی ہے ،اس کے باوجود بھی اصل قرضہ سر پر ہی رہتا ہے۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ متعلقہ حکومت اپنے غریب عوام پر ٹیکس اس لئے لگاتی ہے کہ وہ ان غیر ملکی دولت مندوں سے اپنا حساب کتاب طے کر سکے جن سے اس نے قرضے لئے ہوئے ہوتے ہیں ،ان قرضوں کے لئے اپنی رعایا پر فی کس ٹیکس لگا کر ان سے آخری سکے بھی نکلوا لیتی ہے ،حالانکہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے یہی سکے اکٹھا کرکے سود سے بچا جا سکتا ہے۔
جب تک قرضے مقامی نوعیت کے ،بالفاظ دیگر ملکی رہے اس وقت تک غیر یہود نے ان قرضوں کے ذریعے صرف یہ کیا کہ روپیہ غریبوں سے لے کر امیروں کے جیب میں ڈال دیا، لیکن جب ہم نے اپنے ایجنٹوں اور کرائے کے ٹٹوؤں کے ذریعے غیر ملکی قرضوں کو رواج دیا تو ریاستوں کی تمام دولت سمٹ کر ہماری تجوریوں میں آنا شروع ہوگئی اور تمام غیر یہود ہمیں رعایا کی طرح خراج(سود) دینے لگے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ غیر یہود حکومتیں ،اپنے سطح بین بادشاہوں ،نا اہل وزیروں اور کم فہم سرکاری عہدے داروں کی وجہ سے ہماری مقروض بن گئیں اور یہ قرضے اب ادا کرنا ، ان کے بس میں نہیں رہا‘‘۔
ان دونوں اقتباس سے یہ اندازہ با آسانی لگایا جا سکتا ہے کہ سودی نظام اور سودی قرضوں کی بنا پر غیر یہودی حکومتیں اور اقوام کس طرح یہودیوں کے غلام اور خراج دہندہ بن گئی ہیں ۔
سود ی نظام کی ایک اہم خرابی یہ بھی ہے کہ اس کی بنا پر یہودی سر مایہ کار آئے دن تجارت و صنعت کے کاروبار کو برباد کرتے رہتے اور لاکھوں لوگوں کو بے کاری میں مبتلا کرکے حیران وپریشان کرتے رہتے ہیں، اس کا طریقہ یہ ہے کہ چونکہ سودی بینک اور ادارے سود کے ذریعے زیادہ سے زیادہ نفع اندوزی کرنا چاہتے ہیں، اس واسطے وہ کبھی مال منجمد کردیتے ہیں تاکہ تاجروں اور صنعت کاروں کے لئے اس کی حاجت میں اضافہ ہوجائے اور نتیجۃً شرح سود میں اضافہ کردیا جائے ،اوروہ سود کی شرح اس وقت تک بڑھاتے رہتے ہیں جب تک صنعت کاروں اور تاجروں کو احساس نہ ہوجائے کہ سودی قرض کے مال کواپنے کاروبار میں لگانے میں ان کے لئے فائدہ کے بجائے سراسر نقصان ہے ،کیونکہ اس سے انہیں اتنا بھی فائدہ نہیں کہ سود ادا کرنے کے بعد ان کے لئے کچھ بچ سکے ،جس کی بنا پر وہ یہ کاروبار (کارخانے وغیرہ) جس سے لاکھوں لوگوں کی روزی روٹی جڑی ہوتی ہے یا تو بند کردیتے ہیں یا سرمایہ کی کمی کی بنا پر اسے چھوٹے اور محدود پیمانے پر چلانے لگتے ہیں ،جس کی بنا پر مزدوروں اور اس میں کام کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد بیکار ہوجاتی ہے ، اور جب بے کاری کی وجہ سے ان (مزدوروں وغیرہ) کی قوت خرید کم ہوجاتی ہے تو مختلف اشیا کی تجارت کرنے والوں کے کاروبار پر اس کا اثر پڑتا ہے،اور جب معاملہ اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ بازار میں مال کی مانگ اور ان اداروں سے سودی قرض کی طلب میں شدید کمی آجاتی ہے تب مجبورا وہ شرح سود میں کمی کرتے ہیں جس سے صنعت کار اور تجار دوبارہ ان کی جانب متوجہ ہوتے ہیں اور سودی قرض لیکر کاروبار دوبارہ شروع کرتے اور بڑھاتے ہیں ،اس طرح ان کی سازشوں سے بار بار عالمی اقتصاد بحران کا شکار ہوتا رہتا ہے اور لوگ پریشان ہوتے اور سودی نظام کی چکی میں پستے رہتے ہیں ۔
یہ ایسی واضح چیز ہے کہ اسے مزیدبیان کرنے کی ضرورت نہیں ، عالمی حالات پر نظر رکھنے والے معمولی عقل وبصیرت کے لوگ بھی اسے محسوس کرتے اور بآسانی سمجھ سکتے ہیں ۔
کچھ لوگ شاید سوچ رہے ہونگے کہ یہ تباہی وبربادی سودی قرض لینے والوں کے لئے ہے اور سودی قرض دینے والے اور اس کاروبار سے کمائی کرنے والے لوگ اس تباہی سے محفوظ ہوں گے ،مگر حقیقت ایسی نہیں ہے، ذرا ایسے لوگوں کی حالات و کوائف کا گہرائی سے جائزہ لیں اور حقائق کا پتہ لگائیں تب معلوم ہوگا کہ بظاہر دولت وثروت کی ریل پیل اور آرام وآرائش کے تمام سامانوں کے باوجود ان کی زندگیاں کس قدر اجیرن اورسکون وآرام سے خالی ہیں ؟ کس طرح انہیں ہر وقت مختلف قسم کے ہموم و غموم اور ایسے مسائل گھیرے رہتے ہیں جن سے انہیں چند لمحوں کے لئے بھی سکون نہیں ملتا،وہ کس طرح قسم قسم کی بیماریوں اور عوارض میں مبتلا ہیں ،جس سے انہیں اپنے من پسند ماکولات ومشروبات سے لطف اندوز ہونے کی اجازت نہیں، مختلف قسم کے پرہیز اور طرح طرح کے طبی جانچ اور دن میں کئی کئی مرتبہ دواؤں کے استعمال وغیرہ کی پابندیوں سے الگ پریشان ہیں، طرح طرح کے افکار وخیالات ، درد والم اور ہم وغم کی وجہ سے بلا نیند کی گولیاں کھائے رات میں نیند نہیں آتی ۔ کتنے لوگ شراب وکباب سے دل بہلاتے اور اپنی دنیا وآخرت دونوں برباد کرتے ہیں، اور پھر ظالمانہ اور نا حق طریقوں سے غریبوں اور مجبوروں کا مال ہڑپ کرنے سے ان کی بد دعاؤں اور گالیوں وتنقیدوں کا تحفہ انہیں الگ سے ملتا ہے۔
علاوہ ازیں آئے دن کتنے سودی کاروبار کرنے والے بینکوں اور اداروں کے بارے میں سنتے ر ہتے ہیں کہ وہ دیوالیہ کا شکار ہوگئے اور کچھ شاطر قسم کے لوگوں نے انہیں زبردست نقصان پہنچایا ،یا جس کاروبار میں ان اداروں نے سرمایہ لگایا تھا وہ کاروبار تباہ ہوگیا ،  اس طرح اس میں رقمیں جمع کرکے سود حاصل کرنے اور مفت عیش کرنے والے لوگوں کا دیکھتے دیکھتے لاکھوں کروڑوں کا نقصان ہوگیا اور اس کے صدمے سے کتنوں کو ہارٹ اٹیک ہوا اور اپنے آخری انجام کو پہنچ گئے ، اور کتنے ہیرو سے زیرو ہوگئے اور سماج میں ان کی کوئی عزت نہیں رہ گئی ،غرضیکہ اگر دیدۂ بینا سے دیکھا اور قلب سلیم اور ٹھنڈے دماغ سے سوچا جائے تو فرمان الٰہی  ﭽ يَمْحَقُ اللّهُ الْرِّبَا  کے بے شمار مناظر ہر زمان ومکان میں نظر آئیں گے۔
سود لعنت کا باعث ہے:
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم  آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَقَالَ هُمْ سَوَاءٌ ‘‘.(صحيح مسلم : 5/ 50)
رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  نے لعنت بھیجی ہے سود کھانے والے پر ،اس کے کھلانے والے پر ، اس کے لکھنے والے پر ، اور اس کے دونوں گواہوں پر ،اور فرمایا:یہ سب اس میں برابر ہیں‘‘ ۔
اورحضرت عبد اللہ بن مسعود رضى الله عنہ فرماتے ہیں :
’’ آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ ، وَشَاهِدَيْهِ وَكَاتِبَهُ , إِذَا عَلِمُوا بِهِ..... مَلْعُونُونَ عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم  ‘‘. (رواه احمد و ابو يعلیٰ وابن خزيمة وابن حبان في صحيحيهما و زادا في آخره : ’’يوم القيامة‘‘وقال الباني : صحيح لغيره‘‘ الترغيب والترهيب:2/744)
یعنی سود کھانے والا اور کھلانے والا اور اس کے دونوں گواہ اور کاتب ، ان کو اس کا علم رہا ہو تو سب حضرت محمدصلى الله علیہ وسلم  کی زبان مبارک سے ملعون ہیں ۔ اور بعض روایتوں میں ’’ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ‘‘ یعنی قیامت کے دن  تك کا اضافہ ہے۔
غور کیجئے کہ سود کتنا عظیم جرم اور کبیرہ گناہ ہے کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے صرف اس کے کھانے والے اور لینے والے پر لعنت کی بد دعا نہیں فرمائی ہے، بلکہ سود دینے والے ،اس معاملہ میں گواہ بننے والے اور اس معاملے کو قلم بند کرنے والے اور ان تمام لوگوں کے لئے جنہوں نے اس میں کسی بھی طرح کا تعاون کیا ہے لعنت بھیجی ہے، اور سب کو اس گناہ عظیم اور لعنت میں شریک اور مساوی قرار دیا ہے۔
پھر بتائے کہ جس پر رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم رحمۃ للعالمین ہوکر لعنت بھیجیں اور ان کے لئے اللہ کی رحمت اور خیر سے دوری کی بد دعا کریں ان کی دنیا میں کیا حالت ہوگی اور آخرت میں ان کا ٹھکانہ کہاں ہوگا؟
سود کا ایک درہم کھانا چھتیس زنا کے گناہ سے بڑھ کر ہے:
حضرت عبد اللہ بن حنظلہ رضى الله عنہسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  نے فرمایا : دِرْهَمُ رِبًا يَأْكُلُهُ الرَّجُلُ وَهُوَ يَعْلَمُ أَشَدُّ مِنْ سِتَّةٍ وَثَلاَثِينَ زَنْيَةً ‘‘. رواہ احمد والطبرانی فی الکبیر وصححہ الألبانی. (الترغیب والترھیب:۲؍۷۴۵)
یعنی سود کا ایک درہم جو آدمی جانتے بوجھتے کھاتا ہے اس کا گناہ چھتیس زنا سے بڑھ کر ہے۔
اور حضرت انس بن مالک رضى الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  نے ہمیں خطبہ دیا توسود اور اس کے عظیم گناہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:’’ إن الدرهم يصيبه الرجل من الربا أعظم عند الله في الخطيئة من ست وثلاثين زنية يزنيها الرجل وأربى الربا عرض الرجل المسلم  ‘‘. رواہ ابن ابی الدنیا والبیہقی وقال الألبانی صحیح لغیرہ ،(الترغیب:۲؍۷۴۵)
یعنی سود کا ایک درہم جو آدمی لیتا ہے وہ اللہ کے نزدیک گناہ میں اس کے چھتیس زنا کرنے کے گناہ سے بڑھ کر ہے، اور سب سے بڑا سود مسلمان آدمی کی عزت ہے ۔
زنا کتنا بڑا جرم اور گناہ ہے اس کو تھوڑا بہت تو ہر آدمی جانتا ہے ، اس واسطے وہ ہر معاشرے میں قبیح مانا جاتا ہے ، مگر اس کا صحیح اندازہ اس کی دنیا وآخرت میں مقررہ سزاؤں سے کیا جاسکتا ہے کہ اگر زانی اور زانیہ غیر شادی شدہ ہوں تو ان کی دنیا میں سزا یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک کو مجمع عام کے سامنے سو کوڑے لگائیں جائیں اور ان پر ذرا بھی ترس نہ کھایا جائے، اور پھر ایک سال کے لئے انھیں شہر بدر کردیا جائے، اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے : الزَّانِيَةُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْکُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِیْ دِيْنِ اللَّهِ إِن کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ  (النور: ٢ )
زنا کار عورت و مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ اور ان پر یہ حد جاری کرتے ہوئے تمہیں ذرا بھی ترس نہ کھانا چاہئے ، اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو ، اور ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجودہونی چاہئے۔
اور اگر زانی اور زانیہ شادی شدہ ہوں تو ان کی سزا رجم (سنگساری) کے ذریعے مار دینا ہے ، حضرت عبادہ بن صامت رضى الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  نے فرمایا : ’’ الْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ وَنَفْىُ سَنَةٍ وَالثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ جَلْدُ مِائَةٍ وَالرَّجْمُ ‘‘ رواہ مسلم : ۳؍۱۳۱۶)
کنوارے کے کنواری کے ساتھ زنا کی صورت میں سو کوڑے اور ایک سال کے لئے جلا وطنی کی سزا ہے اور شادی شدہ مرد کے شادی شدہ عورت کے ساتھ زنا کی صورت میں سو کوڑے اور رجم کی سزا ہے۔
اور آخرت میں زناکار مردوں اور عورتوں کی مختلف سزاؤں میں سے ایک سزا یہ ہے کہ انھیں ننگا کرکے آگ کے ایسے تنور میں جلایا جائے گا جس کے او پر کا حصہ تنگ اور اندر کا حصہ کشادہ ہوگا، وہ اس میں چیخیں چلائیں گے مگر ان پر کوئی رحم نہیں کیا جائے گا،صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت سمرہ بن جندب رضى الله عنہ سے مروی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  نے فرمایا: رات میرے پاس دو آنے والے (جبریل ومیکائیل علیہما السلام) آئے، مجھے اٹھایا اور اپنے ساتھ چلنے کے لئے کہا، ہم چلتے اور کئی مناظر کو دیکھتے ہوئے ایک ایسے سوراخ کے پاس پہونچے جو تنور کی طرح تھا اور جس کے اور کا حصہ تنگ اور نیچے کاحصہ وسیع تھا۔ اس میں نیچے آگ جل رہی تھی ، اس میں ننگے مرد اور ننگی عورتیں تھیں ۔ جب آگ بھڑکتی تو اس کی لو کے ساتھ یہ اوپر آجاتے اور قریب ہوتا کہ باہر نکل جائیں اور جب آگ مدھم ہوتی تو یہ بھی اس کی لو کے ساتھ نیچے چلے جاتے ۔
یہ ہے زنا کی دنیوی اور اخروی سزا کی ایک جھلک ،اب اگر ایک درہم سود لینے کا گناہ چھتیس زنا سے بڑھ کر ہو تو سود خوری کتنا بڑا گناہ اور جرم ہے سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے ۔
سود کا ہلکا درجہ اپنی ماں سے زنا کرنے کے مثل ہے:
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلى الله علیہ وسلم  نے فرمایا :’’ الرِّبَا ثَلاَثَةٌ وَسَبْعُونَ بَابًا ، أَيْسَرُهَا مِثْلُ أَنْ يَنْكِحَ الرَّجُلُ أُمَّهُ ‘‘. رواہ الحاکم والبیہقی، وقال الألبانی: صحیح لغیرہ(الترغیب :۲؍۷۴۴)
یعنی سود کے تہتر درجے ہیں ،ان میں سب سے کم درجہ (گناہ میں ) ایسا ہے جیسے کوئی اپنی ماں سے زنا کرے ۔
اور مسند بزار میں باسناد صحیح اس طرح ہے کہ :’’
الرِّبَا بِضْعٌ وَسَبْعُونَ بَابًا وَالشِّرْكُ مِثْلُ ذَلِكَ ‘‘. (مسند البزار: 5/ 318)
سود کے ستر سے زیادہ درجے ہیں اور شرک کے بھی اسی طرح ۔
اور حضرت ابو ہریرہ رضى الله عنہ سے مروی حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں :’’ الرِّبَا سَبْعُونَ بَابًا أَدْنَاهَا كَالَّذِي يَقَعُ عَلَى أُمِّهِ ‘‘ رواہ البیہقی وقال الألبانی صحیح لغیرہ . (الترغیب:۲؍ ۷۴۴)
سود کے ستر دروازے ہیں اور اس کا ادنیٰ درجہ ایسے ہے جیسے کوئی اپنی ماں سے زنا کرے۔
غور فرمائے اور وہ بھی اپنی ماں سے کتنا قبیح ،موجب سزا اور مستحق ملامت ومذمت اور لائق تعذیر شدید وعذاب الیم ہے ،اور جب یہ سود کے سب سے ہلکے درجے کا حال ہو تو بڑے درجے کے سود کی قباحت ،گناہ اور عذاب کا کیا حال ہوگا ۔
سود خوری سے بندر اور سور کی شکل میں مسخ ہونے کا خطرہ :
حضرت عبادہ بن صامت رضى الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  نے فرمایا : ’’ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَيَبِيتَنَّ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى أَشَرٍ وَبَطَرٍ وَلَعِبٍ وَلَهْوٍ ، فَيُصْبِحُوا قِرَدَةً وَخَنَازِيرَ بِاسْتِحْلاَلِهِمُ الْمَحَارِمَ ، وَاتِّخَاذِهِمُ الْقَيْنَاتِ ، وَشُرْبِهِمُ الْخَمْرَ ، وَأَكْلِهِمُ الرِّبَا ، وَلُبْسِهِمُ الْحَرِيرَ‘‘.رواہ عبد اللّٰہ فی زوائدہ، وقال الألبانی: حسن لغیرہ. (الترغیب والترہیب:۲؍۷۴۸)
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری امت کے کچھ لوگ گھمنڈ کرتے ،اور بکثرت ناز ونعم اور اترانے کی وجہ سے حق کا انکار کرتے اور لہو و لعب میں رات گذاریں گے اور صبح کو ان کے محرمات کو حلال سمجھنے ،گانے والیوں کو رکھنے اورشراب نوشی ، سود خوری اور ریشمی لباس پہننے کی وجہ سے بندر اور سور بنا دئے جائیں گے ۔
افسوس کہ اس حدیث میں مذکوراوصاف کے لوگوں کی آج کثرت ہوگئی ہے ، سود خوری عام ہے ،اور شراب نوشی، ناچ گانے اور فحاشی وبد کاری وغیرہ کے اڈوں سے شاید ہی کوئی شہر خالی ہو ، اب تو اس قسم کی محفلوں میں شرکت اعلی سوسائیٹی کی علامت بن گئی ہے۔ اور اس طرح کے کاروبار بڑے نفع بخش کاروبار مانے جانے لگے ہیں۔ اس قسم کے کاروبار کرنے والے اور ایسی محفلوں میں شریک ہونے والے اس حدیث پر غور کریں اور اللہ سے ڈریں کہ کہیں ان کی صورتیں مسخ نہ کردی جائیں، اور انہیں اللہ تعالیٰ اس عبرت ناک عذاب میں مبتلا نہ کردے جس کا تذکرہ اس حدیث میں ہے ۔أعاذنا اللّٰہ منہ.
سود خوری سے باز نہ آنا ایمان کے منافی اور اللّٰہ اور اس رسول سے اعلان جنگ ہے:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَذَرُواْ مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا إِن کُنتُم مُّؤْمِنِيْنَ (278)فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍ مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَإِن تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِکُمْ لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَ تُظْلَمُونَ (279)وَإِن کَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَی مَيْسَرَةٍ وَأَن تَصَدَّقُواْ خَيْْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ  (البقرة: ٢٧٨ - ٢٨٠ (
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرواور تمہاراجو سود( لوگوں کے پاس ) باقی رہ گیا ہے اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو تو اسے چھوڑ دو، اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو ،اور اگر تم نے توبہ کرلی تو تمہارے لئے اصل مال ہے ، نہ تم ظلم کرو نہ ،تم پر ظلم کیا جائے اور قرض دار تنگ دست ہو تو اسے سہولت ہونے تک مہلت دو ،اور معاف کردو تو یہ تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے، اگر تم میں علم اور سمجھداری ہو۔
یہاں پہلی آیت کریمہ میں مسلمانوں کو اللہ سے ڈرنے اور اگر وہ واقعی مومن ہوں تو سود کو حتمی طور پر چھوڑ دینے کا حکم دیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے سود خوری ایمان کے منافی ہے اور سود اور حقیقی ایمان دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔
اس واسطے جو لوگ مسلمان ہوتے ہوئے سود خوری کی لعنت میں مبتلا ہیں انہیں معلوم ہوناچاہئے کہ ابھی ان کے ایمان میں کمی ہے اور ان کے مومن ہونے کا دعویٰ اللہ کے یہاں معتبر نہیں ہے۔
اور دوسری آیت میں سود خوروں کے لئے ایسی سخت وعید ہے جو کسی بھی گناہ پر نہیں ہے، اور وہ ہے ان کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے اعلان جنگ ،اور جس کی جنگ اللہ اور اس کے رسول سے ہو وہ بھلا کبھی کامیاب ہوسکتا ہے؟ اور ہلاکت وبربادی اور عذاب الٰہی سے نجات پاسکتا ہے ؟ ہرگز نہیں،غالبا اسی آیت کریمہ کی بنا پر ترجمان القرآن حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ جو شخص اسلامی مملکت میں سود چھوڑنے پر تیار نہ ہو خلیفہ وقت کی ذمہ داری ہے کہ اس سے توبہ کرائے اور پھر بھی وہ باز نہ آئے تو اس کی گردن اڑا دے۔ (تفسير ابن كثير : 1/ 716)
آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم نے توبہ کرلیا تو تم اپنا اصل مال لے سکتے ہو ، اصل مال سے زیادہ یعنی سودلے کرتم کسی پر ظلم نہ کرو، اور شریعت اسلامیہ تمہیں اپنا اصل مال لینے سے منع نہیں کرتی کہ یہ تمہارے اوپر ظلم ہوگا۔
اس سے معلوم ہوا کہ مقروض سے سود لینا ظلم ہے، جو کسی طرح جائز نہیں ۔
آگے فرمایا اگر مقروض تنگ دست ہے تو اسے سہولت ہونے تک کے لئے مہلت دینا چاہئے ،اور اگر بالکل معاف کردیں اور قرض دی ہوئی رقم اس پر صدقہ کریں تو یہ سب سے بہتر ہے ۔
دیکھئے کہاں اسلام کی یہ اعلیٰ اخلاقی تعلیم ،اور انصاف وانسانیت پر مبنی معاشی واقتصادی نظام ،اور کہاں یہود ونصاریٰ اور دشمنان اسلام کا ظالمانہ سودی نظام؟ دونوں میں کتنا بڑا فرق ہے ،اور اسلامی نظام اقتصاد کو اختیار کرنے اور یہود ونصاریٰ کے رائج کردہ سودی نظام کو ختم کرنے کی کتنی سخت ضرورت ہے۔
سود خورکی عبادتیں خطرے میں :
اس سے قبل سود کی حرمت اور مضرت کے سلسلے میں جو آیات اور احادیث گذر چکی ہیں جیسے آیت کریمہ :  وَأَحَلَّ اللّهُ الْبَيْْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  کا سود کھانے والے اور سود کھلانے والے ، اس معاملہ کو لکھنے والے اور اس میں گواہ بننے والوں پر لعنت بھیجنا،اور سود کے ایک درہم کو چھتیس زنا سے شدید قرار دینا وغیرہ ان سب سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوچکی ہے کہ سودی کاروبار ناجائز اور اس سے حاصل ہونے والی کمائی حرام ہے، اور اہل علم کو معلوم ہے کہ حرام مال سے صدقہ وخیرات کرنا ، حرام مال سے حج کرنا ،اور حرام کمائی کا کھانا کھا کر یا لباس پہن کر کوئی بھی عبادت کرنا عند اللہ مقبول نہیں ہے،اس سلسلے میں بہت صاف صاف اور صحیح صحیح حدیثیں موجود ہیں ، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی  اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  نے فرمایا:’’ مَا تَصَدَّقَ أَحَدٌ بِصَدَقَةٍ مِنْ طَيِّبٍ - وَلاَ يَقْبَلُ اللَّهُ إِلاَّ الطَّيِّبَ - إِلاَّ أَخَذَهَا الرَّحْمَنُ بِيَمِينِهِ وَإِنْ كَانَتْ تَمْرَةً فَتَرْبُو فِى كَفِّ الرَّحْمَنِ حَتَّى تَكُونَ أَعْظَمَ مِنَ الْجَبَلِ كَمَا يُرَبِّى أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ أَوْ فَصِيلَهُ ‘‘(رواہ مسلم ،  کتاب الزکاۃ ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتر بيۃ , رقم:۱۰۱۴)
 کوئی بھی شخص نہیں صدقہ کرتا ہے حلال اور پاک مال سے۔اور اللہ تعالیٰ نہیں قبول کرتا ہے مگر حلال اور پاک کو ہی ۔مگر رحمن اس کو اپنے دائیں ہاتھ میں لے لیتا ہے ،اگر وہ ایک کھجور ہو تو رحمن کی ہتھیلی میں بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ پہاڑسے بڑا ہوجاتا ہے ، جیسے تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچے کی پرورش کرتا ہے۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  کی جانب سے صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ حلال کے علاوہ یعنی حرام مال کے صدقہ کو قبول نہیں کرتا ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  نے فرمایا:’’ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لاَ يَقْبَلُ إِلاَّ طَيِّبًا وَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ فَقَالَ :يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ کُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحاً إِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيْمٌ   (المؤمنون: ٥١)  وَقَالَ :   کُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ (البقرة: ٥٧) ». ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ يَا رَبِّ يَا رَبِّ وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَغُذِىَ بِالْحَرَامِ فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ ؟‘‘(رواہ مسلم : کتاب الزکاۃ،باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب، رقم:۱۰۱۵)
اے لوگو! بے شک اللہ پاک ہے ،نہیں قبول کرتا ہے مگر پاک اور حلال کو ہی ، اور بلا ریب اللہ نے مومنوں کو اسی کا حکم دیا ہے جس کا حکم رسولوں کو دیا ہے، چنانچہ فرمایا : ’’اے رسولو! حلال اور پاکیزہ رزق میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرو، جو عمل تم کرتے ہو انہیں میں خوب اچھی طرح جانتا ہوں ،اور فرمایا: ’’ اے مومنو! تم ہماری دی گئی حلال اور پاکیزہ رزق میں سے کھاؤ ‘‘ ۔ پھر رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  نے ایک آدمی کا ذکر کیا جو طویل سفر کرتا ، پراگندہ بال اور گرد وغبار میں اٹاہوتاہے،اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتاہے اور یارب! یارب! کہہ کر دعا کرتا ہے ،حالانکہ اس کا کھانا حرام کا ہے، اس کا پینا حرام کا ہے، اس کا لباس حرام کا ہے ، حرام غذا سے اس کی پرورش ہوئی ہے ،پھر کہاں سے اس کی دعا قبول کی جائے گی!؟
اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ حرام کمائی کے کھانے پینے اور لباس کے استعمال کرنے سے کوئی عبادت اور دعا قبول نہیں ہوتی ہے۔
اس سے سود (جو بلا شبہ حرام ہے)کی ہلاکت خیزی اور خطرناکی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے اور بلاتردد کہاجاسکتا ہے کہ سودی ذرائع سے آمدنی کرکے کھانے پینے والوں کی عبادتیں اور دعائیں خطرے میں ہیں، اور قوی امکان واحتمال ہے کہ انہیں شرف قبولیت سے محروم کردیا جائے،اور ان کی ساری عبادتیں اور دینی محنتیں ضائع اور اکارت ہوجائیں۔أعاذنا اللّٰہ من ھذہ المصیبۃ.
سود کے اخلاقی نقصانات:
اخلاقی اعتبار سے اگر ہم سود کے نقصانات کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی مضرتوں سے سود لینے والے، سود دینے والے،اور جس معاشرہ میں اس کا چلن ہوتا ہے سبھی متاثر ہوتے ہیں اور کوئی بھی اس کے اخلاقی نقصانات سے بچ نہیں سکتا۔ چنانچہ اس کی وجہ سے سود لینے والوں کے اندر سے اپنے بھائیوں کے ساتھ ہمدردی ، محبت ، اور للہ فی اللہ تعاون کا جذبہ ختم ہوجاتا ہے ، چنانچہ ہر شخص جانتا ہے کہ بینکوں اور سودی اداروں کی عالیشان بلڈنگوں، بیش قیمت اور اعلیٰ قسم کے کرسیوں پر اورانتہائی قیمتی وخوبصورت فرنیچر سے مزین کمروں اور اے سی کی پرکیف اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں میں بیٹھنے والے سود خوروں کو اس سے سودی قرض لینے والے غریبوں کے دکھ درد ،اور مجبوریوں وپریشانیوں کا ذرا بھی احساس نہیں ہوتا۔ اگر کوئی غریب وقت مقررہ پر قرض مع سود کی رقم کے ادا نہیں کرسکتا تو فورا اس کے خلاف قانونی کاروائی کرتے ہیں ۔اور عدالت کے ججوں سے لیکرتھانے کی پولیس تک سب ان کی مدد کرتے ہیں اور بیچارے غریب قرضدار کی مجبوریوں ، پریشانیوں ،فقر وفاقہ،کاروبار میں نقصان اور اس کے اور اس کے بال بچوں کے آنسوؤں کو کوئی نہیں دیکھتا ،ان کی آہ وبکا کی آواز سے کسی کے دل میں جذبۂ ترحم پیدا نہیں ہوتا، بلکہ الٹے سبھی اس پر ناراض ہوتے ، ڈانٹتے اور لعنت ملامت کرتے ہیں پھر اجنبی زبان میں لکھے ہوئے شروط کے مطابق جن کو شاید اس غریب نے سمجھا بھی نہیں تھا اور ایجنٹو ں نے بھی جان بوجھ کر اس کو سمجھایا اور بتایانہیں تھا ،اس کی زمین ، جائداد نیلام کردی جاتی ہے ، اور بینک کا قرض مع سود وصول کرلیا جاتا ہے ۔
اسی طرح سودی قرض لینے والوں کے دل بھی اس کی نحوست سے ایمانداری، سچائی ، وفا داری اور احسان شناسی کے اوصاف حمیدہ سے خالی ہوجاتے ہیں۔اور ان کے اندر بے ایمانی ، کذب بیانی،بے وفائی اور احسان فراموشی جیسے اوصاف خبیثہ پیدا ہوجاتے ہیں ، چنانچہ اگر ان پر ترس کھاکر کوئی شریف آدمی قرضہ حسنہ دیدے اور ان پر اعتماد کرکے تحریری ،قانونی کاروائی نہ کرے ،اور وہ جسمانی طاقت اور افرادی قوت میں ان سے کمزور ہو تو نہ صرف وہ قرض کی واپسی میں ٹال مٹول کرتے ہیں اور طرح طرح سے پریشان کرتے ہیں بلکہ بسا اوقات اسے گالیاں دیتے،الزام تراشی کرتے ،خود مارنے یا غنڈوں سے پٹوانے کی دھمکیاں دیتے ہیں، اور بسا اوقات مار پیٹ بھی کر لیتے ہیں،اور قرض دی گئی پوری رقم ہڑپ کرلیتے ہیں۔اور ایسا صرف اس بناپر ہو تا ہے کہ سود خوری نے ان کے دلوں میں قساوت اور بے ایمانی بھر دی ہے ، جس سے وہ اس شریف آدمی کی شرافت اور کمزوری سے نا جائز فائدہ اٹھا رہے ہیں اور احسان فراموشی کرکے اس پر ظلم کررہے ہیں۔
پھر ان لوگوں کی حرکتوں سے دوسرے لوگوں کے اندر سے بھی غریبوں ، مجبوروں کے ساتھ تعاون وہمدردی کے جذبات ختم ہوجاتے ہیں ، چنانچہ کچھ لوگ تو سودی اداروں کی طرح چاہتے ہیں کہ وہ بھی ان غریبوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھائیں اور قرض دے کر سود حاصل کریں۔اور کچھ شرفاء اور نیکوکار لوگ قرض لینے والوں کے نازیبا سلوک کرنے اور ان کا مال ہڑپ کرجانے سے بددل ہوجاتے ہیں ،اور اس خوف سے کہ کہیں ان کے ساتھ بھی اسی طرح کا معاملہ اور سلوک نہ ہو ، چاہتے ہوئے بھی قرض نہیں دیتے ،اس طرح سودی نظام اور کاروبار کی وجہ سے پورا معاشرہ اخلاقی زوال کا شکار ہو جاتاہے، لوگوں کے اندر خود غرضی ،بے ایمانی،شقاوت قلبی، بے وفائی، جھوٹ ودغا بازی وغیرہ اخلاقی برائیاں اور بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔
سود ی کاروبار کے اخلاقی نقصانات میں سے یہ بھی ہے کہ اس نظام نے لوگوں کے درمیان کافی اونچ نیچ پیدا کردی ہے ،اور ان کو دو طبقات میں تقسیم کردیا ہے ،اور اس کی وجہ سے ان کے درمیان عداوت ودشمنی ،کینہ وکپٹ اور بغض وحسد عام ہو گیا ہے ۔
لوگ پہلے بڑی محبت وسکون سے رہتے تھے ،پریشانیوں اور مصیبتوں کے وقت ایک دوسرے کے ساتھ قرضہ حسنہ اور صدقہ و خیرات وغیرہ کے ذریعہ تعاون کرتے تھے ،قرض کی وصولی میں سختی کرنے کی بجائے سہولت ہونے تک مہلت دیتے تھے اور غرباء ومساکین اور پریشانیوں میں مبتلا حضرات بھی ان کے اس احسان وتعاون کا اپنے دل میں احساس رکھتے اور زبان سے تسلیم کرتے اور اس پر ان کا شکریہ اداکرتے تھے ۔اس طرح سے مسلم معاشرہ میں بڑا سکون ،محبت ،ہمدردی اور بھائی چارگی تھی،اونچ نیچ کا احساس نہیں تھا ، کیونکہ مالدار اپنے غریب بھائیوں کے ساتھ جو بھی احسان وتعاون کرتے تھے وہ اپنا دینی فریضہ اور عبادت سمجھ کر کرتے تھے ،احسان جتلانے، ان کا استغلال کرنے،ان کی دولت لوٹنے اور خون چوسنے کے لئے نہیں کرتے تھے،وہ یہ کام صرف رضا الٰہی اور آخرت میں اجر وثواب کے لئے کیا کرتے تھے۔اور جانتے تھے کہ احسان جتلانے اوراس سے کوئی مادی فائدہ اٹھانے کی صورت میں ان کی نیکیاں ضائع ہوجائیں گی، لیکن سودی نظام نے ان کے دلوں سے ان نیک جذبات کو ختم کردیا ہے ،اور لوگ دو مختلف گروپ اور متحارب طبقوں میں تقسیم ہوگئے ، اس نظام کو چلانے کے لئے ظالموں نے غریبوں، محتاجوں اور مظلوموں کی ہمدردی ودستگیری کے نام پر اشتراکیت اور کمیونزم جیسے مذہب دشمن نظریات والی پارٹیوں کو جنم دیا جنھوں نے سماجی واقتصادی مساوات، عدل وانصاف ،زر،زن اور زمین میں سب کا حصہ ،عوام کی حکومت عوام کے ذریعے وغیرہ خوش کن نعرے لگائے اور اس کے ذریعہ طبقاتی نا برابری ،غربت ومسکنت، اور ظلم وستم کے خاتمے کا پر زور بلکہ پرشور دعویٰ کیا۔لیکن عملی دنیا میں اس میں سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا ،بلکہ ظلم وجور ،فقر وفاقہ اور محرومی وبیکسی اپنی انتہا کو پہنچ گئی ۔اور روس جیسا عظیم ملک جو ان نظریات کا سب سے بڑا علمبردار تھا ،خود ان مسائل ومصائب میں مبتلا ہوکر لوگوں کے لئے عبرت کا سامان بن گیا ۔
دوسری طرف انہیں یہودیوں نے جن کے اوپر ان کے شریعت میں سود کو حرام قرار دیا گیا تھا اور اس کی مخالفت کی پاداش میں انہیں بہت سی پاکیزہ اور عمدہ چیزوں اور نعمتوں سے محروم کردیا گیا ،جیسا کہ اللہ رب العالمین نے فرمایا: فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِيْنَ هَادُواْ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَن سَبِيْلِ اللّهِ کَثِيْراً(160) وَأَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُواْ عَنْهُ  (النساء: ١٦٠ - ١٦١ )
پس یہودیوں کے ظلم کی بنا پر ہم نے بہت سی وہ پاکیزہ چیزیں ان پر حرام کردیں جو پہلے ان کے لئے حلال تھیں ،اور ان کے بکثرت اللہ کے راستے سے روکنے کی بنا پر اور ان کے سود لینے کی بنا پر جس سے انہیں منع کیا گیا تھا۔
انہیں یہودیوں نے دنیا کے اقتصاد اور حکمرانوں کو اپنے کنٹرول میں کرنے ،پوری دنیا پر اپنا دبدبہ وغلبہ قائم کرنے اور جب چاہیں دوسرے ممالک اور خاص طور سے جن سے ان کی عداوت اوردشمنی ہو کے اقتصاد کو تہ وبالا کرنے کے لئے یہ سودی نظام رائج کیا اور دنیا پر اس کو اس طرح مسلط کیا کہ لوگوں کے لئے اس سے نجات اور بلا سودلئے کوئی بڑاکاروبار کرنا مشکل ہوگیاہے،یہودی پروٹوکولز میں ہے:
’’ہماری انتظامیہ کو ماہرین معیشت کی بہت بڑی تعداد کی خدمات میسر ہونگی ،یا یہ کہہ لیجئے کہ وہ ماہرین اقتصادیات سے گھری ہوئی ہو گی،یہی وجہ ہے کہ یہودیوں کو دی جانے والی تعلیم میں اقتصادی سائنس کو ایک اہم مضمون کی حیثیت حاصل ہے، ہمارے چاروں طرف بنکاروں ، صنعت کاروں ،سرمایہ کاروں اور کروڑ پتیوں کا ایک مجمع ہوگا،ہمیں ان کی خدمات بہت سی کاموں کے لئے درکار ہونگی ، کیونکہ ہم ہر مسئلہ کا فیصلہ اعداد وشمار کی روشنی میں کرتے ہیں ۔
وہ وقت بہت قریب ہے جب ہماری مملکتوں کے کلیدی عہدوں پر ہمارے یہودی بھائی تعینات ہوں گے ،ان کی تقرریوں میں نہ کوئی رکاوٹ ہوگی اور نہ کوئی خطرہ ہوگا لیکن وہ وقت آنے تک ہم معاملات کی باگ دوڑ ایسے لوگوں کو دیں گے جن کا ماضی اور حال یہ ثابت کرسکے کہ ان کے اور عوام کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہے ۔ہماری ہدایات کی خلاف ورزی کرنے پر انہیں سخت الزامات کا سامنا کرنا پڑیگا ،یا پھر شرم وندامت کی وجہ سے خود کشی کئے بغیر کوئی چارہ نہ ہوگا ۔اس طریقہ کار سے دوسرے لوگوں کو نا فرمانی کرنے والوں کے انجام سے سبق ملا کرے گا اور وہ آخری وقت تک ہمارے مفاد کے لئے کام کرنے پر مجبور ہوں گے۔ (یہودی پروٹوکولز:ص۱۳۳)
اور یہی وجہ ہے کہ علم الاقتصاد یہودی طبقہ کا بنیادی موضوع ہے ،اور امریکہ ، بریطانیہ وغیرہ ممالک ،بڑے بڑے یہودی سرمایہ داروں ،بینک کاروں اور کروڑ پتیوں کے گھیرے اور نرغے میں ہیں،اور تمام دنیا کی دولت کے حقیقی مالک چند ہزار یہودی اور سود خور ہیں،ان کے علاوہ تمام اصحاب ثروت ،تجار اور کار خانوں اور فیکٹریوں کے مالک جو بینکوں اور سودی اداروں سے قرض لے کر کام کرتے ہیں در حقیقت یہ بندھوا مزدور کے سوا کچھ نہیں ، کیونکہ اخیر میں ان تمام کاروباروں کے اصل منافع انہیں یہودی سود خوروں کے جھولیوں میں چلے جاتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو ان کی محنت ،کارکردگی اور فرائض ومسؤلیات کے اعتبار سے صرف مزدوری مل پاتی ہے۔
یہودی پروٹوکولز کے اس اقتباس کو دوبارہ پڑھئے اور دیکھئے سودی نظام اور قرضوں وغیرہ کے ذریعہ کس طرح یہودیوں اور صلیبیوں نے مسلم ممالک پر خصوصا اور تیسری دنیا کے ممالک پر عموما ایسے حکمرانوں کو مسلط کردیا ہے جن کو اپنے عوام سے نہ کوئی ہمدردی ہے اور نہ ان سے کوئی تعلق اور ربط ہے ،جو واضح طور پر ان کے پروردہ ایجنٹ ہیں ،اور انہیں کے ہدایات واحکامات پر عمل کرتے اور اپنے اپنے ملک اور عوام کو معاشی ، اخلاقی ،دینی ،اور عسکری ہر اعتبار سے تباہ کر رہے ہیں،اور جس روز ان کے ذریعہ وہ مطلوبہ کام کرلیتے ہیں اور ان کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے ،یا جس دن انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہمارے حکم سے سرتابی کررہے ہیں ان کے خلاف سنگین قسم کے الزامات لگا دیتے ہیں اور میڈیا جو ان کا غلام اور کارندہ ہے ان حکمرانوں کے خلاف شب وروز الزامات کی بوچھار کرتا اور ان کے مظالم اور کالے کرتوں کی داستانیں سناتاہے اور پھر مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کرکے یا تو انہیں پھانسی دلادی جاتی ہے یا کسی ذریعہ سے قتل کرادیا جاتا ہے ،یا خود کشی پر مجبور کردیا جاتا ہے، بہر حال انہیں ذلیل وخوار کرکے اس طرح منظر سے غائب کردیا جاتا ہے کہ کہیں ان کا پتہ بھی نہیں لگتا اور ایسا اس لئے کیا جاتا ہے کہ دوسروں کے لئے عبرت ہو۔
سود کے اخلاقی نقصانات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جو لوگ سودی قرض لیتے ہیں انہیں مقررہ مدت پر اسے سود کی ایک بڑی رقم کے ساتھ واپس کرنا رہتا ہے ،اس واسطے وہ ایسے پروجیکٹوں میں جو انسانی ضروریات ومصالح کے مطابق اور ملک وملت کے حق میں مفید ہوں پیسے لگانے کے بجائے ایسے کاروبار میں لگاتے ہیں جن سے زیادہ سے زیادہ نفع کما سکیں ،بھلے ہی وہ مخرب اخلاق اور تہذیب وشرافت ،حیا وغیرت اور ایمانداری وہمدردی اور حق وصداقت کا جنازہ نکالنے والے ہوں۔چنانچہ آج ہر شخص اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے کہ لوگ کس طرح گندی فلموں ،فحش رسالوں،رقص گاہوں، شراب خانوں ،تھیٹروں ،بیوٹی پارلروں اور گندے گانوں اور فلموں کے آڈیو ، ویڈیو کیسٹوں اور سیڈیز بنانے کے کارخانوں میں سرمایہ لگا کر زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے لگے ہیں تاکہ یقینی طور سے اور زیادہ سے زیادہ نفع کمائیں اور سودی قرض ادا کرنے کے بعد ایک اچھی بڑی رقم پس انداز کرلیں۔بلا سے اس کی وجہ سے معاشرے میں فحاشی وعیاشی کا سیلاب آجائے ،نوجوانوں کے اخلاق بگڑ جائیں، قتل وخونریزی کے بازار گرم ہوں اور شراب نوشی اورسٹہ بازی کی وجہ سے گھر ،خاندان اور پورا معاشرہ تباہ وبرباد ہوجائے۔
یہ سودی قرضوں کی ہی دین ہے کہ مسلم حکمراں اپنے آقاوں کے حکم پر دینی تحریکوں کو کچلتے ،علما ء ودعاۃ کو قتل کرتے ،دینی واخلاقی لٹریچر پر پابندی لگاتے اور فحش لٹریچرکی اشاعت کرتے اور اجازت دیتے ہیں ۔
یہ اسی سود کی برکت ہے کہ دینی اداروں اور مساجد ومدارس کے نشاطات پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں ،مجاہدین کو دہشت گرد قرار دے کر انہیں اعدائے اسلام کے حوالے کیا جارہا ہے ،وہ فوج جسے قوم وملت کی حفاظت اور ملک کے دفاع کے لئے تیار کیا گیا تھا اس کے ذریعہ بے گناہ مسلم مجاہدین اور علماء وطلبہ کو قتل کرایا جارہا ہے، دینی مدارس پر بم باری کی جارہی ہے ،انہیں دہشت گردی کا اڈہ کہا جارہا ہے، ان کے نصاب میں یہود ونصاریٰ کی خواہشوں اور سازشوں کے مطابق تبدیلیاں کی جارہی ہیں ،ان میں مخلوط تعلیم اور ساتویں اور آٹھویں جماعت کے طلبہ وطالبات کے لئے جنسی تعلیم کولازم قرار دیا جارہا ہے ،جس سے اخلاق وحیا اور عفت وپاکدامنی کا جنازہ نکل رہا ہے اور پوری قوم ناکارہ، بے غیرت اور بے دین ہورہی ہے۔غرض یہ کہ امت مسلمہ کے لئے خصوصا اور پوری انسانیت کے لئے عموما سود کے بے شمار دینی واخلاقی نقصانات ہیں جن کا اس مختصر درس میں بیان کرنا مشکل ہے ۔
سود اور خواتین:
ہمارے اس خطاب کے سننے والوں میں چونکہ خواتین بھی ہیں جیسا کہ اس کے شروع کرنے سے پہلے مجھے بتایا گیا اس واسطے مناسب ، معلوم ہوتا ہے کہ اس موضوع سے خواتین کے تعلق اور ان سے خطاب کے اسباب پر بھی کچھ روشنی ڈال دی جائے تاکہ ہماری مائیں بہنیں یہ نہ سوچیں کہ سودی کاروبار اور اس کے لینے دینے کا تعلق مردوں سے ہے پھر ہم لوگوں کے لئے یہ موضوع کیوں رکھا گیا؟ ا س میں کیا حکمت اور فائدہ ہے ؟اگر غور کیا جائے تو خواتین اسلام کاا س موضوع سے بڑا گہرا تعلق ہے اور ان کے لئے اس عنوان کے انتخاب کے کئی اسباب وفوائد ہیں ۔مثلا:
1- شریعت اسلامیہ نے مردوں کی طرح عورتوں کوبھی حق ملکیت عطا کیا ہے، اور بہت سی خواتین کے پاس مختلف ذرائع سے کافی دولت اور سرمایہ بھی جمع ہوتا ہے ،مثلا انہیں مختلف تہواروں اور تقریبات کے مواقع پر ہدیے اور تحفے ملتے ہیں ،شادی کے بعد شوہر کی جانب سے مہر کی رقم ملتی ہے ،کئی لوگوں کی میراث سے انہیں حصہ ملتا ہے ،بہت سی خواتین نوکریاں ،یا سلائی کڑھائی وغیرہ مختلف کام کرکے اچھی خاصی آمدنی کرتی ہیں ،اور پھر مردوں کی طرح کچھ خواتین بھی سود کی حرمت اور نقصانات سے لا علمی کی بنا پر اپنی رقمیں اور پیسے مزید اضافی وآمدنی کے لئے بینکوں اور سودی اداروں میں جمع کردیتی اور سود لیتی ہیں اور ہوسکتا ہے کہ جب انہیں اس کی حرمت اور اس سلسلے میں وارد ہونے والی وعیدوں ،گناہوں اور دینی ودنیوی نقصانات کے بارے میں علم ہوجائے تو اس سے باز آجائیں ،اس سے توبہ کر لیں اور اس کے گناہ عظیم سے بچ جائیں ، اس واسطے ان کے لئے بھی ایسا درس ہونا چاہئے۔
2- بچوں اور بچیوں کی خوب دھوم دھام سے شادی کرنے اور اپنے رشتہ داروں، سہیلیوں اور پڑوسیوں وغیرہ سے اس معاملے میں سبقت لے جانے کی خواہش میں بہت سی خواتین اس کی حیثیت اور استطاعت نہ رکھنے کی صورت میں مردوں کو سودی قرض لینے کے لئے مجبور کرتی ہیں،اور جب تک وہ اس پر راضی نہیں ہوتے روتی ،دھوتی،اور ہنگامہ کرتی ہیں ، دوسروں کا حوالہ دیتی ہیں ، عزت اور ناک کا مسئلہ بتاتی ہیں ،آخر روز روز کے جھگڑے ،لڑائی اور رونے دھونے سے عاجز آکر اور اس ڈر سے کہ بچے یا بچی کے شادی کا پروگرام خوشیوں اور مسرتوں کی تقریب کی بجائے ہنگامے ،اور نالہ وشیون کی مجلس میں نہ تبدیل ہوجائے بہت سے مرد سودی قرض لے کر خوب ٹھاٹ باٹ اور دھوم دھام سے بچوں کی شادی کردیتے ہیں ، لیکن یہی قرض ان کے لئے بعد میں وبال جان بن جاتا ہے۔ اس واسطے خواتین کو سود کے گناہ اور اس کے نقصانات کے بارے میں علم ہونا چاہئے اور انہیں یہ بتایاجانا چاہئے کہ سب سے با برکت شادی وہ ہے جو سنت کے مطابق سادگی سے ہو اور جس میں کم سے کم اخراجات ہوں اور جانبین زیر بار نہ ہوں اور سودی قرض لے کر ٹھاٹ باٹ سے شادی کرنا درست نہیں ،اور یہ عزت نہیں ہلاکت وبربادی کا موجب ہے ۔
3-  غیر مسلموں کی طرح آج بہت سے مسلمانوں میں بھی یہ رواج چل پڑا ہے کہ بچیوں کی ولادت کے بعد ہی ان کے جہیز اور شادی کے اخراجات کے لئے ایک رقم ان کے نام سے کسی بینک میں فیکس ڈپاژٹ کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جیسے جیسے لڑکی بڑی ہوتی جائے گی اس کے نام سے جمع کردہ رقم بھی بڑھتی جائے گی ،اس طرح جب وہ شادی کے لائق ہوگی تو اس کے نام پر لاکھوں کی رقم ہوگی جس سے آسانی سے اس کی شادی اور جہیز کا انتظام ہو جائے گا۔
اس معاملہ میں عورتوں کا رول مردوں سے کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے ، یعنی اس کے لئے وہ زیادہ کوشش اور اصرار کرتی ہیں ،مختلف طریقے سے اس کے فوائد بتاتی ہیں اور شوہروں کو اس کے لئے آمادہ کرتی ہیں ،حالانکہ یہ بھی سود خوری کی ایک شکل ہے ،اور اپنی ہی بچی اور داماد کو حرام کھلانا ہے ،جو کسی طرح جائز نہیں اور ’’ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم  آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ ‘‘ وغیرہ کی وعیدیں اس صورت میں بھی ہیں۔
اس واسطے اگر خواتین اس نکتہ کو سمجھ جائیں اور اس سلسلے کو بند کرانے کے لئے وہ کوشش اور تعاون کریں تو مسلم سماج سے سود خوری اور جہیز دونوں لعنتیں ختم ہوسکتی ہیں ۔ ایک حرام (لمبے لمبے جہیز کا مطالبہ اور اس کے لئے انتظام واہتمام) کے لئے دوسرے حرام کام (سودلے کر اس سے جہیز کے لئے قیمتی سامان خریدنے اور شادی کا انتظام کرنے) کو جائز اور درست نہیں کہا جاسکتا ،بلکہ پوری توجہ اس پر ہونی چاہئے کہ جہیز کی لعنت کو ختم کیا جائے ،تاکہ اس کے لئے سود لینے کا سلسلہ بھی بند ہو ۔
4-  بہت سی خواتین آئے دن اپنے شوہروں سے قیمتی زیورات ، نئے نئے انداز کے کپڑوں کے درجنوں قیمتی سوٹس ،قسم قسم کے فرنیچر اور گھروں کو سجانے کے سامان ، اے سی، ٹی وی ،نئی نئی گاڑیاں اور کھانے پینے وغیرہ کے وی آئی پی معیار کا اس قدر مطالبہ کرتی ہیں اور ان کے پورا نہ ہونے پر آئے دن جھگڑے ،لڑائی ،ناراضگی سے ان کے چین وسکون کو اس طرح غارت کردیتی ہیں کہ بہت سے مرد ان کے سامنے سپر ڈال دیتے اور سودی کاروبار ، رشوت خوری، چوری، خیانت اور اس طرح کے دوسرے نا جائز طریقوں سے زائد آمدنی کرنے لگتے اور غیر شرعی طریقوں سے پیسے کمانے لگتے ہیں ، اس واسطے خواتین کو یہ بتانا ضروری ہے اپنے اس قسم کے عمل سے وہ کس طرح خود کو اور اپنے گھر والوں کو گناہ اور تباہی وبربادی کے عمیق غار میں ڈھکیل رہی ہیں ،اور ان کا قیمتی زیورات، کپڑوں اور نئے ماڈل کی گاڑیوں وغیرہ کا شوق اور شوہروں سے ان کی عدم استطاعت کے باوجود ان کا مطالبہ اور اس پر اصرار کس قدر خطرناک اور مہلک ہے۔
5-  اس وقت خواتین میں ایک اور بیماری بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے اور وہ ہے آئے دن زیورات کے بدلنے کا فیشن ، اور اس کے بارے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش ،چنانچہ جیسے ہی ٹی وی وغیرہ کے ذریعے انہیں معلوم ہوتا ہے کہ فلاں زیور کا نیا ماڈل آیا ہے فوراً پرانے زیورات لے کر بدلنے کے لئے سنار کے یہاں پہونچ جاتی ہیں ، جس سے ایک تو کافی رقم کا خسارہ اٹھاتی ہیں مَیل،ٹانکا،اور بنوائی وغیرہ کے نام پر تقریبا تیس پرسنٹ سنار کاٹ لیتا ہے ،اس طرح تین مرتبہ بدلنے پر پرانا زیور تقریبا پورا کا پورا سنار کا ہوجاتا ہے اور زیور جو نئے ماڈل کی شکل میں خاتون کے پاس رہتا ہے وہ از سر نو خرید کردہ ہوتا ہے۔
دوسرے جیسا کہ شروع میں حدیث کی روشنی میں ہم نے بتایا کہ سونے کو سونے سے اور چاندی کو چاندی سے بدلنے اور خرید وفروخت کرنے کے لئے یہ شرط ہے کہ برابر برابر اور نقد ہو اور اس میں ادھار اور نئے پرانے ہونے کی وجہ سے کمی بیشی جائز نہیں ،مگر عموما عورتیں پرانے زیور کو نقد فروخت کرنے اور پھر حاصل ہونے والی رقم سے جو نیا زیور پسند ہو بھاؤ تاؤ کرکے نقد خریدنے کے بجائے کبھی تو کمی بیشی کے ساتھ ویسے ہی بدل لیتی ہیں ،اور کبھی اپنا پرانا زیور نقد دے کر سنار سے اس کے عوض نیا زیور کچھ دنوں کے بعد لیتی ہیں ،اس طرح سودی کاروبار کے گناہ میں پڑ جاتی ہیں ۔ بہر حال خواتین کے لئے بھی اس موضوع کی بڑی اہمیت وضرورت ہے اور امید ہے کہ وہ اس درس سے ضرور استفادہ کریں گی۔
یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس شیطانی نظام اور کینسر سے بھی زیادہ مضر کاروبار کو عام کرنے اور لوگوں میں پھیلانے کے لئے یہ سودی ادارے ،ریڈیو، ٹی وی، اخبارات وجرائد ،کتابوں ہزاروں ایجنٹ ،نام نہاد ماہرین اقتصادیات ، مفکرین ،اور بکاؤ مولویوں اور مفتیوں وغیرہ کا سہارا لیتے ہیں ۔ اور سودی کاروبار کی آئے دن ایسی نئی نئی شکلیں نکالتے ہیں جن کا سودی ہونا لوگوں کے لئے سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے ، خوشنما منافع کی لالچ دلاتے اور زور دار پروپیگنڈوں اور اشتہارات کے ذریعہ کاروباری دنیا میں ایسے دھماکے کرتے ہیں کہ لوگ بہکنے ، پھسلنے اور اس کی طرف مائل ہونے لگتے ہیں اس طرح لوگوں کو اپنے دام ہم رنگ زمیں میں پھنسانے کے لئے بے شمار اور متنوع قسم کی تدبیریں کرتے ہیں ،اس واسطے ان سے بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
معزز خواتین! آپ اگر چاہیں تو اپنے اہل خانہ کی اصلاح وہدایت میں بہت موثر کردار ادا کر سکتی ہیں ،ماں کی حیثیت سے اپنے بیٹیوں ،بیٹوں ، بہن کی حیثیت سے اپنے بھائیوں، بہنوں اور بیٹی کی حیثیت سے اپنے والدین اور بیوی کی حیثیت سے اپنے شوہر کی اصلاح وتربیت آپ کی ذمہ داری ہے ،اگر آپ کے گھر میں کوئی بے نمازی ہے تو آپ کی کوشش سے وہ نمازی بن سکتا ہے ،اگر کسی کوشراب وغیرہ نشہ آور چیز کے استعمال کی عادت ہے تو آپ کی محنت سے وہ اس سے توبہ کرسکتا ہے ۔اگر کوئی غلط لوگوں کی صحبت میں پڑگیا ہے تو آپ اپنی محنت اور توجہ سے اسے ان غلط لوگوں کی ہم نشینی سے نجات دلاکر نیک لوگوں کی صحبت اور دینی مجلسوں میں لا سکتی ہیں ۔اگر کوئی فحش مجلات وجرائد یا غلط افکار وخیالات پر مشتمل لٹریچر کے پڑھنے کا شائق وعادی ہے تو آپ اپنی کوشش اور حکمت سے اسے بہترین دینی واصلاحی مجلات وجرائداور تفسیر ،حدیث، اسلامی عقیدہ،سیرت،تاریخ ، اسلامی آداب اور دعوت واصلاح وغیرہ موضوعات پر موقع بموقع اچھے لٹریچر فراہم کرکے اور سنجیدہ گفتگو کے ذریعہ اس کے ذوق مطالعہ اور افکار ونظریات کا رخ موڑ سکتی ہیں ، اسی طرح اگر آپ کے گھر میں کسی کی کمائی سودی کاروبار یا اور کسی نا جائز ذریعہ سے ہے تو اس کے اس ناجائز ذریعہ آمدنی کو چھوڑ کر کسی حلال ذریعہ کو اختیار کرنے کے سلسلے میں آپ بہت اہم رول ادا کرسکتی ہیں ۔ہماری اسلاف خواتین کے بارے میں یہ روایتیں موجود ہیں کہ جب ان کے شوہر وغیرہ گھر کے مرد کمانے کے لئے گھر سے نکلنے اور باہر جانے لگتے تھے تو وہ بصدِ ادب عرض کرتی تھیں کہ ’’اللہ کے لئے ہمارے واسطے حلال روزی کما کر لانا خواہ تھوڑا ہی ہو ،ہم دنیا کی پریشانی اور فقر وفاقہ پر صبر کرسکتی ہیں،مگر آخرت میں جہنم کا عذاب برداشت نہیں کرسکتیں ‘‘۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ مسلم معاشرہ غلط اور ناجائز قسم کے کاروبار سے پاک تھا ۔لوگ حلال روزی جتنا بھی ان کو میسر ہوتا کھا کر اطمینان وسکون سے رہتے تھے،ان کی عبادتوں اور نیکیوں میں برکت اور آپس میں ہمدردی ، بھائی چارگی اورمحبت واخوت تھی۔
ہم آج کی مسلم خواتین سے بھی امید رکھتے ہیں کہ اپنے اسلاف کی طرح وہ معاشرہ کی اصلاح اور اسے ہر قسم کی معصیتوں اور نافرنامیوں سے اور خصوصا حرام خوری اور سود خوری سے پاک کرنے میں اپنا مطلوبہ کردار ادا کریں گی ،اس سے اللہ ان سے راضی ہوگا ، انہیں اجر جزیل سے نوازے گا ، اس سے انہیں دنیا میں بھی مسرت ،عزت اور قلبی راحت حاصل ہوگی اور آخرت میں بھی جنت اور اس کی لازوال نعمتیں اور ان کی لذت آفرینیاں میسر ہونگی جن کے بارے میں رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  نے فرمایا:’’ مَا لاَ عَيْنَ رَأَتْ ، وَلاَ أُذُنَ سَمِعَتْ ، وَلاَ خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ ‘‘.
یعنی جن کو دنیا میں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے ،نہ کسی کان نے سنا ہے،نہ کسی انسان کے قلب میں اس کا تصور آیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو سود کی لعنت سے محفوظ رکھے ،اور اپنے گھروں اور معاشرے کو اس سے پاک کرنے کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، اور دنیا وآخرت کی کامرانیوں اور نعمتوں سے نوازے ۔آمین
ربنا آتنا في الدنيا حسنة و في الآخرة حسنة وقنا عذاب النار, ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم وتب علينا انك انت التواب الرحيم. وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين ، وصل اللهم وسلم علی عبده ورسوله محمد وعلی آله واصحابه اجمعين ،  ومن تبعهم باحسان الیٰ يوم الدين.
فتاوى
سودی کاروبار سے توبہ کرنے والے سے چندہ لینے کا حکم
سوال:ایک شخص پہلے سودی کاروبار کرتا تھا مگر اب اسے نے توبہ کرلیا اور سودی کاروبار ترک کردیاہے ، ہم مسجد کے لئے چندہ جمع کر رہے ہیں اور یہ شخص بھی مسجد کے لئے چندہ دینا چاہتا ہے تو کیا ہم اس سے چندہ لے سکتے ہیں یا نہیں ؟
جواب: اگر اس شخص نے واقعی سودی کاروبار سے توبہ کرلیا ہے اور اسے بالکل چھوڑدیا ہے اورجو رقم وہ مسجد کے لئے دینا چاہتا ہے وہ سودی رقم نہیں ہے بلکہ اس کی حلال کمائی کی ہے تو اسے مسجد کے لئے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے ، لیکن اگر وہ سودی رقم میں سے چندہ دے رہا ہے تو پھر اس کا لینا جائز نہیں ہے کیونکہ مسجد میں صرف حلال اور جائز پیسے ہی لگ سکتے ہیں ، حرام کے نہیں ۔
نا جائز کاروبار کرنے والے سے چندہ لینے کا حکم
سوال: ایک شخص کے کاروبار میں کچھ جائز کاروبار ہیں اور کچھ نا جائز، اس نے ابھی ناجائز کاروبار کو ترک نہیں کیا ہے ، مگر اپنے جائز کاروبار سے کمائی ہوئی رقم میں سے مسجد میں چندہ دینا چاہتا ہے تو اسے لیا جائے یا نہ لیا جائے؟
جواب:اگر وہ کھلم کھلا کوئی ناجائز کاروبار کررہا ہے تو اگر وہ بقول خود جائز کمائی سے مسجد کے لئے چندہ دینا چاہتا ہے تو بھی اس سے بچنا چاہئے ، کیونکہ ایک تو اس کا معاملہ مشکوک ہے اور احتمال اور شبہ ہے کہ کہیں وہ کذب بیانی نہ کر رہا ہو ، دوسرے بہت سے لوگ اس طرح چندہ دے کر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا گناہ معاف اور حرام مال پاک وصاف ہوجائے گا ، جبکہ یہ درست نہیں ہے کیونکہ ایسے گناہ کبیرہ کی معافی کے لئے سچے دل سے توبہ اور اس ناجائزفعل کا ترک اور آئندہ اس کے نہ کرنے کا عزم مصمم ضروری ہے، تیسرے دوسرے بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی کمائی میں کوئی حرج نہیں تبھی تو اہل مدارس اور ذمہ داران مساجد ان سے چندہ لیتے ہیں ، اس طرح اس سے لوگوں میں اس ناجائز کاروبار کے سلسلہ میں غلط پیغام جاتا ہے۔
سود کی رقم کا مصرف
سوال:میرے والد سرکاری ملازم تھے فی الحال اپنی ملازمت سے سبکدوش ہو چکے ہیں، ریٹائر منٹ کے وقت انہیں پراویڈنٹ فنڈ(P.F)کی جو رقم ملی ہے اس میں کچھ رقم سود کی بھی ہے ،اس سود کی رقم کو میں کہاں خرچ کروں ، اس لئے کہ جہاں تک میری معلومات کا معاملہ ہے مال کو ضائع کرنے سے روکا گیا ہے ، ایک عالم سے میں نے اس سلسلہ میں سوال کیا تو اس نے جواب دیا تھا کہ تم ان پیسوں کو اپنے ایسے مسلم بھائی پر خرچ کرسکتے ہو جوشدید بیمار ہو اور اس کے پاس علاج کرانے کے لئے بھی پیسے نہ ہوں۔
براہ کرم بتائیں کہ کیاواقعی اس رقم کو میں مذکورہ مد میں خرچ کرسکتا ہوں ؟ کیونکہ میں نے ایک ایسا شخص تلاش کرلیا ہے جس کے دونوں گردے ناکارہ ہوگئے ہیں اور اس کے پاس علاج کے لئے تو در کنار نان شبینہ کے لئے بھی پیسے نہیں ، کیا ان پیسوں سے میں اس شخص کی مدد کروں؟اللہ آپ کو جزائے خیر دے ، مجھے قرآن و حدیث کی روشنی میں متذکرہ مسئلہ کا حل بتائیں۔
جواب: واقعی اگر آپ کا کوئی مسلمان بھائی اس طرح ہے کہ اس کے دونوں گردے ناکارہ ہو چکے ہیں اور علاج کے لئے تو درکنار نان شبینہ کے لئے بھی اس کے پاس پیسے نہیں ہیں اور حلال پیسوں سے لوگ اس کا بقدر ضرورت تعاون نہیں کر رہے ہیں اور اس کی حالت اس مجبور شخص کی طرح ہے جس کے لئے میتہ حلال ہے تو آپ اس پر اپنے پاس موجود سود کی رقم خرچ کرسکتے ہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَيْْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيْمٌ  (المائدة: ٣)
پس جو شخص شدت کی بھوک میں بے قرار ہوجائے بشرطیکہ کسی گناہ کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقینااللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور بہت بڑا مہربان ہے۔
سوال: مسجد کی ایک بڑی رقم بینک میں جمع ہے اس کا سودتقریبا بیس ہزار روپے ملا ہے ، سود کی اس رقم کو کس کام میں استعمال کرنا جائز ہے ؟ کیا یہ روپے کسی ضرورت مند یا قرض دار کو دیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
جواب:سود کھانا اور کھلانا دونوں ناجائز اورحرا م ہے ، حضرت جابر رضى الله عنہ سے روایت ہے کہ : ’’ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم  آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَقَالَ هُمْ سَوَاءٌ ‘‘ ( رواہ مسلم :۱۱؍۲۶)
رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  نے لعنت بھیجی سود کھانے والے پر، اس کے کھلانے والے پر، اس کے لکھنے والے پر اور اس کے دونوں گواہوں پر، اور فرمایا: یہ سب ( لعنت و معصیت میں) برابر ہیں۔
اس واسطے مسجد کی جمع شدہ رقم کا سود نہ تو مسجد میں استعمال کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی مسلمان کو دیا جاسکتا ہے ، اگر مسجد والے کسی ضرورت مند اور مقروض مسلمان کا تعاون ہی کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے الگ سے چندہ اور انتظام کریں۔
رہا اس رقم کا مسئلہ تو:
 اولاً ہم مسجد کے ذمہ داروں سے یہ عرض کریں گے کہ مسجد کی رقم جہاں تک ہو سکے سودی بینکوں میں نہ رکھیں اور اس کی حفاظت کا انتظام مضبوط آ ہنی تجوری وغیرہ کے ذریعہ اس طرح کریں کہ سود لینا دینا نہ پڑے ۔
ثانیاً ابھی جو بیس ہزار کے لگ بھگ سود کی رقم ہے وہ کسی ایسے غریب اور مجبور مسلمان پر خرچ کریں جس کے لئے زندگی بچانے کے لئے میتہ (مردار) تک کے استعمال کرنے کی گنجائش اور جواز ہو ،جیسے کینسر یا ہارٹ وغیرہ کا ایسا غریب مریض جس کی زندگی بچانے کے لئے معتمد ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق آپریشن ضروری ہو ، اور اس بیچارے کے پاس اپنی حلال کمائی سے اس آپریشن کے اخراجات کے لئے کافی رقم نہ ہو، اور اس قدر تعاون اور چندہ دینے والے بھی اسے نہ ملیں تو ایسے مجبور شخص کو آپریشن کرانے کے لئے اس رقم میں سے تعاون کر سکتے ہیں ، غرضیکہ ہر ضرورت مند اور قرض دار مسلمان کو سود کی رقم نہیں دی جاسکتی ، بلکہ یہ صرف ایسے مجبور مسلمان کودے سکتے ہیں جس کی مجبوری اس حد تک ہو کہ اس کے لئے اپنی جان بچانے کے لئے میتہ تک کے استعمال کی اجازت ہے،اس کی دلیل ہے آیت کریمہ :فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَيْْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيْمٌ   (المائدة: ٣)
جو شخص شدت کی بھوک میں بے قرار ہوجائے بشرطیکہ کسی گناہ کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقیناًاللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور بہت بڑا مہربان ہے ، اور ارشاد باری : فَاتَّقُوا اللّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ  (التغابن: ١٦ ) اور اللہ سے ڈرو جتنی تمہاری استطاعت ہو۔
اگر ایسے مجبور مسلمان نہ ملیں اور اس رقم کو اپنے پاس رکھنا بھی مشکل ہو توکسی ایسے غریب غیر مسلم پر خرچ کرسکتے ہیں جو مسلمانوں کا دشمن نہ ہو ، شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ صاحبِ مرعاۃ المفاتیح فرماتے ہیں :
’’ کسی غریب غیر مسلم پر صرف کردی جائے یا کسی ایسے کالج اور اسکول میں دیدی جائے جس میں پڑھنے والے صرف غیر مسلم ہوں (اور اس میں اسلام کے خلاف تعلیم نہ دی جاتی ہو ) یا ایسے سرکاری ٹیکسوں میں خرچ کردی جائے جو شرعا محض جبر وظلم اور ناحق ہیں،مثلاً بِکری ٹیکس(سیلس ٹیکس) یا انکم ٹیکس، یا ہاؤس ٹیکس وغیرہ، کسی بھی سودی رقم کا کسی مسلمان کی ضروریات میں خرچ کرنا خواہ کتنا ہی غریب ہوجائز نہیں ہے، یہ مال خبیث ہر مسلمان کے حق میں بہر حال خبیث ہی ہے‘‘ ( دیکھئے مجلہ الفلاح ,بھیکم پور ص:۱۰۳، جلد ۳،۴ شمارہ ۱۱،۱۲،۱،۲ ، بابت جون ؍جولائی ؍ اگست۱۹۹۴ء ؁ علامہ عبید اللہ رحمانی نمبر ، اور سود کے احکام و مسائل)
سودی پیسوں سے کاروبار کرنے والے سے اخراجات کے لئے پیسے لینے کا حکم
سوال:میرا نام حاجی نذیر محمد شیخ اور عمر ۶۵؍سال ہے،میرے پانچ فرزند ہیں اور ان تمام کے کاروبار الگ ہیں، جن میں چار فرزند بینک سے قرض لے کر کاروبار کو فروغ دیتے ہیں ، اور میں جس فرزند کے پاس سکونت اختیار کیا ہوں وہاں بینک کا لین دین نہیں ہے یعنی سود کا، اور ہماری بقیہ ضروریات اس گھر سے پوری نہیں ہوتی ہے ، اور اب بقیہ ضرورت کو پوری کرنے کے لئے مذکورہ چاروں فرزند کے پاس سے مدد لینی پڑتی ہے ، جبکہ ان کا کاروبار سود کے پیسوں سے ہے ، کیا اس طرح پیسوں کا لینا جائز ہے یا نہیں ؟
جواب: شریعت اسلامیہ نے سود سے سختی سے منع کیا ہے ، چنانچہ اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَذَرُواْ مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا إِن کُنتُم مُّؤْمِنِيْنَ (278)فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍ مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَإِن تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِکُمْ لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَ تُظْلَمُونَ (البقرة: ٢٧٨ - ٢79 (
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی بچا ہے اسے چھوڑدو اگر تم مومن ہو، اگر تم ایسا نہیں کرتے ( نہیں چھوڑتے ) تو آگاہ ہوجاؤ ،اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے ، اور اگر تم توبہ کرتے ہو تو تمہارے لئے اصل مال ہے نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔
اور صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضى الله عنہ کی حدیث ہے کہ نبی کریم صلى الله علیہ وسلم  نے فرمایا:’’سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو ! صحابہ کرام نے کہا : وہ کیا ہیں اے اللہ کے رسول ؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا ، جادو کرنا ، اور ناحق کسی حرام نفس کو قتل کرنا ، اور سود کھانا ، اور یتیم کا مال کھانا، اور کافروں سے لڑائی کے وقت پیٹھ پھر کر بھاگنا ، اور پاکدامن بھولی بھالی مومنہ عورتوں پر تہمت لگانا۔
اس حدیث میں جن سات ہلاک کرنے والی چیزوں کا تذکرہ ہے ان میں سے ایک ’’ سود کھانا‘‘ بھی ہے ۔
اور بخاری ، مسلم ، احمد ، ابوداود اور ترمذی میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے : ’’ قال رسول اللّه صلى الله علیہ وسلم : ’’ لَعَنَ اللَّهِ آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَقَالَ هُمْ سَوَاءٌ ‘‘
یعنی رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  نے فرمایا:اللہ کی لعنت ہو سود کھانے والے پر ، اس کے کھلانے والے پر اس کے دونوں گواہوں پر اور اس کے لکھنے والے پر۔
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ سود بہت قبیح امر ہے ،اس کا لینا ، دینا ،اس پر گواہ بننا اور اس معاملہ کو لکھنا سب ممنوع اور حرام ہے ، اس واسطے آپ کے چاروں بیٹوں کا بینک سے سودی قرض لے کر اپنے کاروبار کو فروغ دینا درست نہیں ،اور اس سے حاصل ہونے والی کمائی بھی حلال نہیں ۔
لہٰذا آپ اپنے چاروں بیٹوں کو نصیحت کریں کہ وہ بینک سے لیا گیا سود ی قرض جلد از جلد واپس کر کے اس عمل سے توبہ کریں ، پھر اگر وہ ایسا کرلیتے ہیں تو آپ ان کی حلال ذرائع سے کمائی ہوئی رقم کو استعمال کر سکتے ہیں ، لیکن اگر وہ اپنے اس عمل سے باز نہیں آتے اور برابر سودی قرض سے اپنے کاروبار کرتے رہتے ہیں تو ان کا پیسہ استعمال کرنا آپ کے لئے درست نہیں ہے۔
سوال:میرا بڑا فرزند جس کا کاروبار بندیا ( جو ہندو عورتیں سر پر لگاتی ہیں) کاہے اس کے علاوہ جویلری کی بھی دکان ہے یہ دکان سود کے پیسوں سے خریدی گئی ہے کیا اس جگہ پر بیٹھنا مناسب ہے یا نہیں ؟اور اگروہ پیسے بھی دیتا ہے تو ایسی حالت میں وہ پیسے لے سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب:آپ کے لئے ایسی جگہ پر بیٹھنا درست نہیں ہے جس کے بارے میں آپ کو معلوم ہے کہ یہ سود کے پیسوں سے خریدی گئی ہے ،کیونکہ اس سے بظاہر ان کے اس عمل کی تائید اور موافقت ہوتی ہے جبکہ اللہ رب العالمین کا حکم ہے :   وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ  (المائدة: ٢)
یعنی نیکی اور تقوی کے کاموں میں تعاون کرو اور گناہ اور سرکشی کے کاموں میں تعاون مت کرو، اور اگر آپ کا بڑا فرزند توبہ سے قبل آپ کو پیسے بھی دیتا ہے تو اس کے پیسے نہ لیں کیونکہ اس کے یہ پیسے سودی ذرائع سے حاصل کردہ ہیں۔
بیعانہ لینے کے باوجود سامان بیچ دینے کی صورت میں بیعانہ کی رقم سے زیادہ لینے کا حکم
سوال:زید نے بکر سے ایک سامان کی قیمت طے کی اور بطور ایثار (بیعانہ) زید نے بکر کو پندرہ ہزار (۱۵۰۰۰)روپئے دئے اور قیمت کی بقیہ رقم ایک ہفتے بعد دینا طے ہوا ، لیکن بکر نے مذکورہ سامان کو ایک ہفتے قبل کسی دوسرے شخص کے ہاتھوں زیادہ رقم میں فروخت کردی اور مقررہ تاریخ پر زید سے اس بات کا اقرار کرنے کے بعد کہ اس نے ( بکر نے) وہ سامان زیادہ قیمت میں کسی دوسرے شخص کے ہاتھوں فروخت کردیاہے کہا کہ وہ اس کی وجہ سے اپنی مرضی سے زید کا دیا ہوا پندرہ ہزار (۱۵۰۰۰) ایثار اور چار ہزار(۴۰۰۰)زیادہ ملا کر انیس ہزار (۱۹۰۰۰) لوٹا رہا ہے ،مگر زید کے اصرار پر بکر نے سات ہزار زائد یعنی کل ملا کر بائیس ہزار (۲۲۰۰۰) کی رقم لوٹائی ، تو کیا ایسی صورت میں زید کا ایثار سے زیادہ رقم لینا جائز ہے ؟ ( جبکہ زید مالیگاؤں میں رہائش پذیر ہے ، اور بکر بمبئی میں، اس لئے آنے جانے کی وجہ سے زید کا دوہزار روپیہ بھی خرچ ہوا ہے) کیا زید اس رقم کوبغیر ثواب کی نیت کے کسی غریب اور یتیم لڑکی کے نکاح میں استعمال کر سکتا ہے ؟قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دے کر ممنون و مشکور ہوں ۔
جواب: اگر کوئی شخص ایک سامان خریدتا ہے اور بطور ایثار (بیعانہ) بیچنے والے کو کچھ رقم دیتا ہے اور دونوں کے درمیان یہ بات طے پاتی ہے کہ اگر اس نے سامان کو خریدا تو بیعانہ کی یہ رقم اصل قیمت میں شامل کر لی جائے گی اور اگر اس نے اس بیع کو منسوخ کردیا اور یہ سامان نہیں خریدا تو بیعانہ کی رقم بائع لےلے گا ، اور واپس نہیں کرے گا ، اس کو عربی میں ’’بیع العربون‘‘ ، ’’بیع العربان‘‘ اور ’’بیع الاربان‘‘ کہتے ہیں، اور جمہور ائمہ کرام (امام مالک ، شافعی ، اور ابوحنیفہ رحمہم اللہ وغیرہ ) کے نزدیک یہ بیع جائزنہیں ہے ، اور بیع کے منسوخ ہونے کی صورت میں بائع کے لئے بیعانہ کی رقم کو لینا جائز نہیں ، کیونکہ وہ یہ رقم بلا کسی بدل اور عوض کے لے رہا ہے ۔ اور اسے اس مدت کا عوض بھی قرار نہیں دے سکتے ،کیونکہ اگر ایسا مانیں تو بیع تمام ہونے کی صورت میں بھی بیعانہ کی رقم کا مستحق بائع ہی قرار پاتا ہے ، جبکہ بیع مکمل ہونے کی صورت میں اس کو اصل قیمت میں شامل کیا جاتا ہے اور اس مدت کا عوض بائع كو نهىن دىا جاتا , نىز اس سلسلہ میں ایک حدیث بھی وارد ہے کہ : ’’ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم  عَنْ بَيْعِ الْعُرْبَانِ ‘‘ (الموطأ - رواية يحيى الليثي : 2/ 609 , سنن أبي داود محقق وبتعليق الألباني : 3/ 302 , سنن ابن ماجة : 3/ 311)
رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  نے بیع العربو ن سے منع فرمایاہے۔
البتہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک یہ بیع درست ہے ، کیونکہ نافع بن عبد الحارث سے ایک اثر اس طرح وارد ہے کہ انھوں نے صفوان بن امیہ سے حضرت عمر رضى الله عنہ کے لئے ایک گھر جیل کے لئے چار ہزار درہم میں اس شرط پر خریدا کہ اگر حضرت عمر رضى الله عنہ  کو وہ گھر پسند آگیا تو ٹھیک ( یعنی لے لوں گا) ورنہ ان کو چار سو درہم دوں گااورپھر حضرت عمر رضى الله عنہ کو گھر پسند آگیا اور مقررہ رقم پر خریدلیا ۔
امام احمد رحمہ اللہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر اس طرح کا بیع حرام ہوتا تو حضرت عمر رضى الله عنہ اس پر ضرور نکیر فرماتے، اس واسطے آپ کی خاموشی جواز کی دلیل ہے ، نیز انھوں نے بیع العربون سے ممانعت والی حدیث کو ضعیف قرار دیاہے ، مگر ابن قدامہ رحمہ اللہ نے دونوں میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ حضرت عمر رضى الله عنہ نے وہ گھر خریدلیا اور قیمت میں مقررہ رقم ( چار ہزار ) ہی دیا جو سب کے نزدیک جائز ہے ، اختلاف بیع کے فسخ کرنے کی صورت میں ہے اور اس کے لئے حضرت عمر رضى الله عنہ کے عمل میں کوئی دلیل نہیں ہے ، کیونکہ وہ صورت وہاں پیش ہی نہیں آئی۔
میں کہتا ہوں کہ حدیث:’’ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم  عَنْ بَيْعِ الْعُرْبَانِ ‘‘ کو اگرچہ امام احمد اور علامہ البانی رحمہما اللہ وغیرہ نے ضعیف کہا ہے ،مگر کچھ علماء کرام نے تعدد طرق کی بنا پر اس کو قوی بھی کہا ہے ، نیز قاعدہ ہے کہ اگر حظر(ممانعت) اور اباحت میں تعارض ہو تو احتیاطا حظر کو ترجیح دیاجائے گا۔( دیکھئے المغنی: ۴؍۱۶۰۔۱۶۱ ،مسئلہ نمبر: ۳۱۲۸، عون المعبود: ۹؍۴۰۱، فقہ السنہ : ۳؍۱۶۱)
اس واسطے بکر نے معاہدۂ بیع کرنے اور ایثار ( بیعانہ ) لینے کے باوجود زیادہ رقم پاکر جو اس سامان کو فروخت کردیا وہ یقیناًغلط ہے ،کیونکہ اس میں وعدہ خلافی اور طمع جیسا مذموم عمل پایا جاتا ہے، مگر زید کے لئے احتیاط اسی میں ہے کہ اس کا بمبئی سے آنے جانے پرجو دوہزار روپئے خرچ ہوئے ہیں صرف اتنا ہی لے اور باقی کو نہ لے اور اگر باقی رقم زید اور بکر دونوں کی رضامندی سے کسی غریب یا یتیم بچی کی شادی پر خرچ کردیں تو بہت اچھا ہوگا ، ہوسکتا ہے کہ اس طرح بکر کے گناہ کے لئے یہ کفارہ ہوجائے اور زید بھی مشکوک رقم لینے سے محفوظ ہوجائے۔ ’’ فمن اتقى الشبهات استبرأ لدِيْنِه و عِرْضِه ‘‘.
بیمہ کمپنی سے ملنے والی رقم
سوال:آج سے پندرہ سال قبل زید کے والد کا ایک ٹرک حادثہ میں انتقال ہوگیا ، ٹرک کے مالک سے زید نے اپنے والد کے خون بہا کا مطالبہ کیا تو اس نے خوں بہا کے طور پر دس ہزار روپئے زید کو ادا کردئے ، لیکن بعد میں زید کو اطلاع ملی کہ ٹرک کے مالک نے اپنی ٹرک کا بیمہ کرا رکھا تھا، یہ جان کر زید نے عدالت میں مقدمہ دائر کیا اور مقدمہ جیت گیا ، اس کے بعد بیمہ ایجنسی کی جانب سے بھی زید کو مزیدبیس ہزار ملے ، اس نے اس بیمہ ایجنسی سے حاصل شدہ رقم سے ایک پلاٹ خریدا جس کی موجودہ قیمت ڈھائی لاکھ ہے ۔ اب زید کو کسی نے یہ اطلاع دی ہے کہ بیمہ ایجنسی کے ذریعہ حاصل شدہ رقم کا استعمال ناجائز تھااس لئے اس کے ذریعہ خریدا گیا پلاٹ بھی ناجائز ہے ۔اب زید اس پلاٹ کو بیچ کر حاجت مندوں، غریبوں ، یتیموں اور بیواؤں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے ، تو کیا زید کا یہ اقدام شرعی نقطہ نظر سے درست ہے ؟
جواب:زید بیمہ ایجنسی سے ملنے والی رقم کا مستحق نہیں ہے، اس لئے اس نے جو اس رقم کے ذریعہ ایک پلاٹ خریدا ہے اس کو بیچ کر اس کی رقم سے ایسے لوگوں کا تعاون کردینا چاہئے جو مضطر کے حکم میں ہوں ، یا پھر کسی بے ضرر غیر مسلم جس کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں معاندانہ رجحان نہیں رکھتا اور نہ اسلام مخالف تنظیموں سے اس کا تعلق ہے اس کو دیدیں ، اسی طرح اگر کینسر یا دل کا کوئی ایسا مریض ہو جس کا آخری علاج ماہر اور قابل اعتبار اطباء کی رپورٹ کے مطابق آپریشن ہو، اور آپریشن نہ کرانے کی صورت میں اس کی جان جانے کا خطرہ ہو اور اس کے پاس ضرورت بھر کے لئے روپئے نہ ہوں تو ایسے مریض پر بھی اس طرح کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے ۔
گاڑی قسط پر خریدنا
سوال:میں ایک گاڑی خریدنا پاہتا ہوں، میرے سامنے دشواری یہ ہے کہ اگر پوری رقم کیش (نقد) دیکر خریدتا ہوں تو گورنمنٹ کی طرف سے مجھے کئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا ، اس لئے مجبورا مجھے گاڑی قسط پر لینا پڑے گا ، نقد خریدنے پر کمپنی میں اس کی قیمت دس لاکھ ہے جبکہ قسط پر خریدنے کی صورت میں اس کی قیمت لگ بھگ گیارہ لاکھ سترہ ہزارہوجائے گی ، اور اس صورت میں بھی مقررہ تاریخ پر روپئے جمع نہیں کئے تو اس پر مزید بیاج کا اضافہ ہوجائے گا۔
کیا ایسی صورت میں قسط پر گاڑی خریدنا جائز ہے یا نہیں ؟ برائے مہربانی کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
جواب: پوری رقم ایک ساتھ دیکرنقد خریدنے کی صورت میں جو پریشانی آپ کو لاحق ہونے کا خطرہ ہے بظاہر وہ انکم ٹیکس کا مسئلہ ہوگا ، اس کا حل یہ ہے کہ اگر آپ کا انکم ٹیکس ظالمانہ نہ ہو تو انکم ٹیکس ادا کر کے نقد خرید لیجئے ،اس طرح آپ سود دینے سے بچ جائیں گے اور اگر یہ انکم ٹیکس ظالمانہ ہو اور آپ کے پاس کچھ سودی رقم ہو تو اسی رقم سے وہ ظالمانہ ٹیکس ادا کردیں، ایسی صورت میں اس کی گنجائش ہے ۔ اور اگر ٹیکس ادا کرنے کی صورت میں بھی پریشانیوں اور مسائل کا خطرہ ہو تو قسط پر خرید لیجئے اور ایسی صورت میں جو دس لاکھ کے بجائے گیارہ لاکھ سترہ ہزار دینا پڑتا ہے اس کو قیمت سمجھ کر اور اسی کی نیت سے دیجئے اور قسطوں کو مقررہ وقت پر ادا کرنے کی کوشش کیجئے تاکہ تاخیر کی بنا پر سود نہ دینا پڑے ، بہر حال جہاں تک ممکن ہو سود لینے دینے سے بچئے اور جہاں بالکل مجبوری ہو وہاں دل کی کراہت کے ساتھ اور امکان ہو تو جائز امر کی نیت سے دیجئے اور پھر اللہ سے توبہ و استغفار اور یہ دعا کرتے رہئے کہ وہ عفو ودرگزر سے کام لے اور اس طرح کے نظام سے جلد از جلد نجات دے جس میں لوگ سود لینے اور دینے پر مجبور ہیں، اور اسلام اور اسلامی نظام ۔جو دینا کا سب سے اعلیٰ و ارفع اور عدل و انصاف پر مبنی نظام ہے۔ کو غلبہ عطا کرے۔
سودی لین دین اور ناجائز چیزوں کی تجارت اور ایسے لوگوں کی دعوت کا حکم
سوال: کیا سودی لین دین کرنے والوں ، جھوٹ بول کر کمانے والوں ، اور تمباکو سے بنی اشیاء مثلا سگریٹ وغیرہ فروخت کرنے والوں کی تجارت صحیح ہے ؟ کیا ان لوگوں کے یہاں کھانا پینا ہمارے لئے جائز ہے ؟
جواب:سودی لین دین کرنا ،جھوٹ بول کر کمائی کرنا ، اور تمباکو سے بنی اشیاء مثلا سگریٹ وغیرہ کا بیچنا شرعا درست نہیں ہے، اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں انھیں پہلے سمجھانا چاہئے اور ان کی اصلاح کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ، اگر اس کے باوجود بھی وہ اس سے باز نہیں آتے تو ان کی دعوت اور کھانا کھانے سے احتراز کرنا چاہئے ، کیونکہ ان کی کمائی حلال نہیں ہے، نیز ان کی دعوت کھانے سے ایک طرح سے ان کی تائید ہوگی جو درست نہیں۔
کسی کو قرض دے کر اس کی دکان یا مکان سے استفادہ کا حکم
سوال: اڈوانس کی شکل میں رقم دے کر بغیر کرائے کے دکان یا مکان حاصل کئے جاسکتے ہیں یا کم کرایہ دیکر اس کو جائز کیا جاسکتاہے ؟
جواب:اگراڈوانس سے مراد یہاں پر قرض ہے یعنی ایک شخص کسی دوکان یا مکان کے مالک کو کچھ رقم بطور قرض دیتا ہے اور اس کے عوض وہ اس کی دوکان یا مکان سے استفادہ کرتا ہے اور کہتاہے کہ جس طرح آپ ہمارے روپئے سے استفادہ کریں گے اسی طرح ہم آپ کے مکان یا دکان سے استفادہ کریں گے تو شرعی نقطہ نظر سے یہ ایسا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس میں قرض دے کر اس سے فائدہ اٹھانا پایا جاتا ہے جو سود ہے ، شرعی قاعدہ ہے :’’ كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً فَهُوَ رِبا ‘‘ہر منفعت بخش قرض سود ہے ۔
رہایہ سوال کہ کیا کم کرایہ دے کر اس کو حلال کیا جاسکتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حیلہ سازی کے ذریعہ حرام کو حلال کرنا ہے جو درست نہیں ، یہودیوں پر جب اللہ نے مردہ جانوروں کی چربی حرام قراردی تو انھوں نے اس کو پگھلا کر فروخت کردیا اور اس کی قیمت استعمال کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم نے چربی استعمال نہیں کیا ہے، اللہ نے ان کے اس عمل کی تردید کی اور اسے ناجائز بتایا ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضى الله عنہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ :’’ قَاتَلَ اللَّهُ فُلاَنًا أَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم  قَالَ : قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ حُرِّمَتْ عَلَيْهِمُ الشُّحُومُ فَجَمَلُوهَا فَبَاعُوهَا ‘‘تَابَعَهُ جَابِرٌ ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم .( انظر صحیح البخاری مع الفتح،کتاب احادیث الأنبیا، باب ما ذکر عن بنی اسرائیل ، ۶؍۴۹۶، صحیح مسلم کتاب المساقاۃ ، باب تحریم بیع الخمر والمیتۃ والخنزیر والأصنام :۲؍۱۲۰۷، رقم:۷۱)
اللہ تعالی فلاں کو برباد کرے، کیا اسے معلوم نہیں کہ نبی کریم صلى الله علیہ وسلم  نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی یہود پر لعنت ہو ان پر (مردہ جانوروں کی ) چربی حرام کی گئی توا نھوں نے اس کو پگھلا یا اور بیچ دیا ۔
کم کرایہ دیکر قرض لینے والے کی دوکان یا مکان کو جائز قرار دینا بھی اسی طرح کا عمل ہے ،اس واسطے جائزنہیں ، اور علی الاقل احتیاط اسی میں ہے کہ اس قسم کے مکان یا دوکان کا اس شہر میں جو کرایہ ہو جس کو فقہاء کی اصطلاح میں ’’اجرۃ المثل‘‘ کہا جاتا ہے وہ کرایہ دیا جائے ، اگر اس قرض کی رعایت کر کے نہیں بلکہ جیسے کبھی بعض لوگ اپنا کوئی سامان بعض ضرورتوں یا لاعلمی کی بنا پر کم قیمت پر بیچ دیتے ہیں، یا گھر یا دکان کم رقم پر کرایہ پر دیدیتے ہیں اسی طرح اس نے دے دیا تو بظاہر اس کے لینے کی گنجائش ہے ،مگر یہ اندیشہ ہونے کی بنا پر کہیں قرض لینے والا قرض کی بنا پر کرایہ کم نہ لے رہا ہو اور اس طرح قرض سے فائدہ اٹھانے کی بنا پر سود لینا لازم آئے گا اس سے بھی احتراز کرنا چاہئے ، بہر حال احتیاط اسی میں ہے کہ کم از کم اجرۃ المثل دیا جائے ۔
مخصوص شرطوں کے ساتھ امریکی کمپنی کا ممبر بننے اور بنانے کا حکم
سوال:ایک دواساز امریکی کمپنی ہے جو میڈیکل اسٹور والوں سے اپنی دوا بیچنے کے لئے معاہدہ کرتی ہے اور یہ شرط لگاتی ہے کہ زید خود مذکورہ کمپنی کا ممبر بنے اور چارلوگوں کو ممبر بنائے زید کے ممبر بننے پر اسے کمیشن ملتا ہی ہے ،مزید چار ممبران بنانے پر کمپنی اسے مزید کمیشن دیتی ہے اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ۔
کیا زید کے لئے جائز ہے کہ وہ اس کمپنی کا ممبر بنے اور اپنی ممبری نیز چاروں ممبروں کے بنانے پر حاصل شدہ کمیشن کو وہ لے سکتا ہے یا نہیں ؟
جواب: میرے خیال میں سوال میں امریکی کمپنی کے تمام شرائط اور اس سے ملنے والی رعایتوں اور دیگر متعلق چیزوں کا تذکرہ نہیں ہے، کیونکہ دوسرے لوگ اس سلسلے میں اس کے علاوہ اور بہت سے امور کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں ، مثلا:
أ- اس کا ممبر بننے کے لئے ایک مخصوص رقم ادا کرنی پڑتی ہے تب ہی رعایتیں ملتی ہیں اور کمپنی کی جانب سے اس کے نام کا کارڈ ایشو ہوتا ہے ۔
ب -  ممبر بننے کے بعد کمپنی اس پر یہ شرط عائد کرتی ہے کہ وہ اپنے ساتھ کم از کم اور چار لوگوں کو اس کا ممبر بنائے تب ہی اس کو کمیشن ملے گا ۔
ج- پھر ان چاروں کے لئے چارچار ممبر بنانا ضروری ہوتاہے اور یہ سلسلہ درجہ بدرجہ چلتا رہتا ہے اور جیسے جیسے ممبران بڑھتے رہتے ہیں پہلے ممبر کے کمیشن میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ، اگر کوئی ممبر اپنے ساتھ اور چار لوگوں کو ممبر نہیں بناتا تو اس کو دوا میں کمیشن کے علاوہ کوئی الگ سے کمیشن نہیں ملتا ہے۔
اس پر غور کرنے سے چند باتیں قابل ملاحظہ معلوم ہوتی ہیں :
1-  رقم دے کر جو ممبر شپ لی جاتی ہے اگر اس کو بیع و شرا ء مانا جائے تو دو ناحیے سے اس کی حلت مشکوک معلوم ہوتی ہے ، ایک تو یہ ہے کہ اس میں غرر اور دھوکہ ہے کیونکہ ممبری کی رقم تو معلوم ہے لیکن ممبری کی مدت ، کمیشن اور رعایتوں کی مقدار معلوم نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ چار ممبر بناپائے گا اور رعایتیں حاصل کرپائے گا یا نہیں ، اور اللہ کے رسول صلى الله علیہ وسلم  نے بیع غرر سے منع فرمایا ہے ، چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضى الله عنہ سے روایت ہے : ’’ أَنّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم "نَهَى عَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ ‘‘ (صحيح مسلم کتاب البيوع، باب بُطْلاَنِ بَيْعِ الْحَصَاةِ وَالْبَيْعِ الَّذِى فِيهِ غَرَرٌ: ۳؍ ۱۱۵۳، رقم :۱۵۱۳۴)
نبی کریم صلى الله علیہ وسلم  نے بیع غرر سے منع فرمایا ہے ۔
2- اس میں شرط فاسد پائی جاتی ہے کیونکہ اس میں چار ممبر بنانے کی شرط فاسد ہے اور اللہ کے رسول صلى الله علیہ وسلم  نے اس قسم کے بیع سے منع فرمایا ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:’’ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم  نَهَى عَنْ شَرْطَيْنِ فِي البَيْع  ‘‘ (رواہ ابوداود والترمذی وصححہ ، وحسنہ الالبانی ، انظر الارواء : ۵؍۱۴۶، رقم ۱۳۰۵)
نبی صلى الله علیہ وسلم  نے بیع میں دو شرطوں سے منع کیا ہے۔
اور علامہ سید سابق رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ لقسم الثاني من الشروط: الشرط الفاسد، وهو أنواع:
ما يبطل العقد من أصله، كأن يشترط على صاحبه عقدا آخر، مثل قول البائع للمشتري: أبيعك هذا على أن تبيعني كذا أو تقرضني.
ودليل ذلك قول الرسول صلى الله عليه وسلم : " لاَ يَحِلُّ سَلَفٌ وَبَيْعٌ وَلاَ شَرْطَانِ فِى بَيْعٍ ". رواه الترمذي وصححه ( فقہ السنہ:۳؍۲۶۰)
(بیع میں) شروط کی دو سری قسم : شرط فاسد ہے، اور اس کی چند قسمیں ہیں ، ایک جو سرے سے عقد کو باطل کردیتی ہے، جیسے بائع مشتری پر کسی دوسرے عقد کی شرط لگائے ، مثلا بائع مشتری سے کہے :میں تم سے یہ سامان اس شرط پر بیچ رہا ہوں کہ تم بھی مجھ سے اسی طرح کا بیع کروگے یا مجھے قرض دو گے ،اور اس کی دلیل اللہ کے رسول صلى الله علیہ وسلم  کا یہ فرمان ہے: ’’ سلف اور بیع حلال نہیں ہے، اور نہ ہی بیع میں دو شرطیں حلال ہیں ‘‘
اورامام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ اگر بائع مشتری سے بیع کے لئے یہ شرط لگاتا ہے کہ وہ مبیع کو نہ بیچ سکتا ہے، نہ ہبہ کرسکتا ہے، نہ آزاد کرسکتا ہے ،نہ لونڈی ہو تو اس سے وطی کرسکتا ہے، یا یہ شرط لگاتا ہے کہ وہ اس کو بیچ دے ،یا وقف کردے ،یا سامان خرچ کرڈالے، ورنہ واپس کردے ،یااگر کسی نے سامان کو غصب کرلیا تو وہ اس کی قیمت لوٹا دے، اور اگر اس کو آزاد کرتا ہے تو حق ولاء بائع کو ملے گا ،تو یہ اور اس کے مشابہ تمام شروط فاسد ہیں، اور کیا ان شروط کے ہوتے ہوئے بیع فاسد ہوگا ؟
اس سلسلہ میں امام احمد رحمہ اللہ سے دو روایتیں ہیں :
1- بیع صحیح ہوگا اور یہاں پر یہ خرقی کے کلام کے مطابق ہے ، اور حسن بصری ، امام شعبی ، حکم ، ابن ابی لیلیٰ اور ابو ثور کا یہی قول ہے۔
2- دوسری روایت یہ ہے کہ بیع بھی فاسد ہوگا ، امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمہما اللہ کا یہی مذہب ہے ، کیونکہ اللہ کے نبی صلى الله علیہ وسلم  نے بیع اور شرط سے منع فرمایا ہے اور اس وجہ سے بھی کہ یہ ایک شرط فاسد ہے تو اس نے بیع کو بھی فاسد کردیا جیسا کہ اگر اس میں کسی دوسرے عقد کی شرط لگائی جائے‘‘ ۔(المغنی لابن قدامہ ، کتاب البیوع، باب المصراۃ وغیرذلک ، فصول الشروط التی تشترط فی البیع والصحیح والفاسد منھا، ۴؍۱۵۷ مسئلہ : ۳۱۱۸)
اور اگر اس کو اجارہ مانا جائے تو اس صورت میں پہلے ممبر نے جو دوسرے چار ممبر بنائے ہیں اس کی اجرت کا جوازتو سمجھ میں آتا ہے لیکن ان چاروں ممبران کے ممبر بنانے کی اجرت اسی طرح اور بعد والوں کے ممبر بنانے کی صورت میں اس کی اجرت اور کمیشن میں سے پہلے ممبر کو لینے کی وجہ اور اس کا جواز سمجھ میں نہیں آتا ہے ، اور خدشہ ہے کہیں یہ دوسروں کی حق تلفی اور ’’اکل اموال الناس بالباطل‘‘نہ ہو۔
3-  یہ کمپنیاں یہودیوں اور عیسائیوں کی ہیں جو اسلام کے کٹر دشمن ہیں اور ان کے بارے میں یہ بات معروف ہے کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مختلف قسم کی سازشیں کرتے رہتے ہیں، جن کا علم مسلمانوں کو بہت بعد میں ہوتا ہے، اس واسطے اس پر اس ناحیہ سے بھی غور کرنا چاہئے کہ کہیں ان کا ممبر بننے سے ’’تعاون علی الاثم والعدوان ‘‘ کے مرتکب تو نہیں ہوں گے ۔
4- امریکی دواؤں کے بارے میں یہ بات سننے میں آئی ہے کہ جب ان دواؤں کے استعمال کی مدت ختم(Date Expire )ہوجاتی ہے یا تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نقصانات(Side efects) فائدے سے زیادہ ہیں تو وہ یہ دوائیں تیسری دنیا کے ممالک میں بھیج دیتے ہیں تاکہ ان دواؤں کے بنانے میں ان کا جو پیسہ خرچ ہوا ہے وہ نکل آئے خواہ استعمال کرنے والوں کا کچھ بھی ہو۔
5- ان دواؤں میں مختلف قسم کی ممنوع اور حرام اشیاء کی آمیزش ہوتی ہے۔
6- یہ کمپنیاں سودی کاروبار بھی کرتی ہیں اور اس کی رقم سے کمیشن دیتی ہیں ، اس طرح حدیث:’’ لَعَنَ اللَّهِ آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ ‘‘کے ضمن میں آنے کا بھی قوی امکان ہے ۔
ان وجوہات کی بنا پر ان کمپنیوں کا ممبربننے اور اس پر کمیشن لینے کے جواز پر اطمینان نہیں ہے ۔ اور حدیث: ’’ فمن اتقى الشبهات استبرأ لدِيْنِه و عِرْضِه ‘‘کی بنا پر اس سے احتراز کرنا چاہئے۔
خریدی ہوئی اینٹ کو اپنے قبضہ میں لئے بغیر بھٹے سے ہی بیچ دینا
سوال:ہمارے یہاں کچھ لوگ اینٹ کی تجارت اس طرح کرتے ہیں کہ پہلے بھٹے پر جاکر ضرورت نہ ہونے کے باوجود بھی اینٹ کا پیسہ جمع کردیتے ہیں اور تین چار مہینے کے بعد بھٹا والا انہیں اینٹ دینے کا وعدہ کرتا ہے ، بھٹے والوں کے یہاں عموما یہ نظام ہوتا ہے کہ جب بھٹے سے اینٹ نکلنے لگتی ہے اگر اس وقت آپ پیسہ جمع کرکے فوراً اینٹ لینا چاہیں تو آپ کو ۱۵۰۰؍ روپئے میں ایک ہزار اینٹ دے گا، لیکن اگر یہی رقم آپ چار پانچ ماہ پہلے جمع کردیں تو وہ ایک ہزار روپیہ فی ہزار اینٹ کے حساب سے جمع کرے گا۔ اس کے بعد یہ لوگ سیزن میں جب کوئی اینٹ کا حاجت مند ان سے اینٹ لیتا ہے تو وہ یہی اینٹ کبھی اپنے گھر منگوانے کے بعد اس سے نفع لے کر بیچ دیتے ہیں اور کبھی بھٹے پر سے ہی اس طرح بیچ دیتے ہیں کہ اسے اپنے نام کی رسید دیدیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ میری پرچی ہے اس کو دکھا کر بھٹے سے اینٹ منگوا لو،یا ساتھ میں جاکر بھٹے والے سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ میرا آدمی ہے اسے آپ اینٹ دیدیں اور پھر وہ انہیں اینٹیں دے دیتا ہے، تو اس سلسلہ میں شرعی احکام کیاہیں ؟کیا اینٹ کی اس طرح خرید وفروخت جائز ہے؟
جواب:صورت مسؤلہ میں اگر یہ لوگ اینٹ کو اپنے قبضہ میں لینے اور بھٹے سے منتقل کرنے کے بعد بیچتے ہیں تو درست ہے ورنہ نہیں ، کیونکہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  نے کسی بھی چیز کو اس پر قبضہ کرنے اور اپنی جگہ پر منتقل کرنے سے پہلے بیچنے سے منع فرمایا ہے، حضرت حکیم بن حزام رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! میں کچھ سامان خریدتا ہوں تو اس میں میرے لئے کیا حلال ہے اور کیا حرام ہے ؟ آپ نے فرمایا:’’ إِذَا اشْتَرَيْتَ بَيْعًا فَلاَ تَبِعْهُ حَتَّى تَقْبِضَهُ ‘‘( رواہ احمد والبیھقی وابن حبان باسناد حسن)
جب تم کوئی چیز خریدو تو اس کو نہ بیچو یہاں تک کہ اس پر قبضہ کر لو۔
اور صحیحین میں ہے کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  کے زمانے میں لوگوں کی اگر وہ غلہ اٹکل سے خریدتے اور اسے منتقل کرنے سے پہلے اسی جگہ بیچ دیتے تو پٹائی ہوتی تھی۔
اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ’’ وَكُنَّا نَشْتَرِى الطَّعَامَ مِنَ الرُّكْبَانِ جِزَافًا فَنَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم  أَنْ نَبِيعَهُ حَتَّى نَنْقُلَهُ مِنْ مَكَانِهِ ‘‘ (صحيح البخاري : ا 2/ 747 , صحيح مسلم : 3/ 1160 )
اورہم تاجروں سے غلے کو اٹکل سے خریدتے تھے تو رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  نے ہمیں اس کو بیچنے سے منع فرمایایہاں تک کہ ہم اسے اس کی جگہ سے منتقل کردیں ۔
اور علامہ سید سابق رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ وليس هذا خاصا بالطعام بل يشتمل الطعام وغيره‘‘ (فقہ السنہ :۳؍۲۴۰)
یہ صرف غلے کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ یہ غلہ اور اس کے علاوہ دوسری چیزوں کو بھی شامل ہے ۔
معلوم ہوا کہ کسی بھی سامان کو اپنے قبضہ میں لینے اور اس کو اپنے گھر یا دوکان میں منتقل کرنے سے پہلے بیچنا درست نہیں ہے ، اس واسطے اینٹ کی تجارت کے لئے لوگوں کو درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے :
(۱) اس کو اپنے قبضہ میں کر لیں۔
(۲) اس کے بعد اس کو دوسری جگہ منتقل کرلیں ، پھر کسی سے اسے فروخت کریں اور جو لوگ اینٹ کے خریداروں سے پیسے لے کر صرف چٹھی دیدیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ بھٹے پر جاؤاور میرے نام سے اتنی اینٹ لے لو ان کا یہ طریقۂ تجارت شرعا درست نہیں ہے۔
ادھار فروخت کردہ انیٹ کی قیمت نہ لوٹاسکنے کی صورت میں مہلت دیکر اگلے سال کی قیمت لینا
سوال:میں نے اس طرح کا معاملہ ایک شخص سے طے کیا اور اسے اینٹ منگوا کر دیدیا لیکن اس نے مجھے پیسے نہیں دیئے اور میرے مطالبہ پر اس نے کہا کہ آئندہ میں آپ کو اینٹ جس قیمت پر بھی ملے گا خرید کر دے دوں گا یا اس وقت کے حساب سے اس کی قیمت دے دوں گا، تو کیا ان کا ایسا کرنا درست ہے؟ حالانکہ میں نے پیسے سے بیچا تھا اینٹ سے نہیں ، اور آئندہ جب اینٹ کی قیمت بڑھ جائے گی تو کیا اس وقت اس اینٹ کا دینا یا اینٹ کی قیمت دینا درست ہے؟
جواب:آپ سے اینٹ خریدنے والا اگر آپ کو وقت مقررہ پر پیسے کے بجائے اینٹ دے، یا یہ کہے کہ آئندہ سال ہم اینٹ کا ریٹ جو بھی ہو گا اس کے حساب سے پیسے دیدیں گے یا آپ چاہیں گے تو اینٹ ہی دیدیں گے تو آپ کا اس کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کرنا جائز نہیں ، کیونکہ آپ نے اسے اینٹ روپئے کے عوض بیچا تھا اب جب اس کو ایک سال کی مہلت دے کر اس کے عوض زیادہ روپئے ( آئندہ سال اینٹ کی قیمت کے حساب سے) لیں گے تو یہ قرض سے استفادہ کرنا ہوگا ، جو’’ كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً فَهُوَ رِبا ‘‘کے قاعدہ سے حرام اور سود ہے ، اور اگر اینٹ کے بدلے میں اینٹ لیں تو ایک چیز کو اسی کے جنس سے فروخت کرنے میں ’’ يدا بيد‘‘ کی جو شرط ہے وہ شرط مفقود ہو رہی ہے ، یعنی پیسے دینے کی صورت میں اینٹ کو پیسے کے بدلے بیچنا نہیں ہوا بلکہ پیسے کو پیسے کے بدلے زیادتی کے ساتھ اور ادھار بیچنا ہوا جو جائز نہیں، جیسے کوئی سو روپئے کو ایک سو پچاس روپئے میں ادھار بیچے تو جائز نہیں ہے اور اس اضافی رقم کو سود کہیں گے ۔
اور اینٹ کے بدلے اینٹ لینے کی صورت میں بھی جائز نہیں ، کیونکہ ایک تو آپ نے اینٹ کو اینٹ کے بدلے نہیں بلکہ روپئے کے بدلے بیچا تھا ، اور اب اس کی خلاف ورزی ہو رہی ہے ، دوسرے اس کو عقد جدید مانیں تو ایک چیز کو اسی کے ہم جنس سے فروخت کرنے میں دست بدست بیچنے کی جو شرط ہے وہ مفقود ہو رہی ہے ، اس واسطے یہ صورت بھی جائز نہیں ہے ۔
سوسائٹی بنا کر رقم جمع کرنا اور ممبروں کا اس سے مختلف طریقوں سے استفادہ کرنا
سوال:ہمارے یہاں کچھ لوگ ایک سوسائٹی بنا کر ہر ممبر سے ہفتہ میں ایک معین رقم وصول کرتے ہیں اور ۔/۵۰۰۰؍پانچ ہزار ہوجانے پر ایک ممبر کو قرعہ اندازی کے ذریعہ یا اس کے نمبر کی وجہ سے دے دیتے ہیں تو کیا ایسا کرنا شرعا درست ہے؟
جواب:سوسائٹی بنا کر جو لوگ روپئے ایک جگہ جمع کرتے ہیں اور ایک مخصوص رقم جمع ہو جا نے کے بعد ممبروں میں سے کسی کو قرعہ اندازی یا اولیت وغیرہ کا لحاظ کر کے دے دیتے ہیں اس صورت میں جائز ہو گا جب اس میں کوئی اور شرعی قباحت اور بے ایمانی نہ ہو، بلکہ مقصد خیر خواہی اور تعاون ہو ، لیکن ایسی سوسائٹیاں کم ہوتی ہیں ، عام طور پر اب ایسا ہونے لگا ہے کہ جب مقررہ رقم جمع ہوجاتی ہے تو سب ممبران جمع ہوتے ہیں اور پھر اس پر بولی بولی جاتی ہے اور زیادہ رقم کے عوض اسے ادھار فروخت کردیا جاتا ہے ، مثلا کہا جاتا ہے کہ کون ہے جو اس دس ہزار کو ۱۵۰۰۰؍ہزار میں ادھا رخریدے ، یا انہیں میں سے ایک شخص کہتا ہے کہ میں اس دس ہزار کو ۱۵۰۰۰؍ ہزار میں ادھار خریدتاہوں پھر دوسرے لوگ اس پر اضافہ کرتے رہتے ہیں اور بالآخر جو سب سے زیادہ رقم دینے کے لئے کہتا ہے اسے دے دیا جاتا ہے ، حالانکہ یہ جائز نہیں ہے کیونکہ زائد رقم سود ہوتی ہے۔
اسی طرح کبھی اس رقم کو کسی سودی بینک میں جمع کردیا جاتا ہے اور جو سود ملتا ہے اسے وصولی اور نگرانی کرنے والے لے لیتے ہیں جو سراسر سود خوری ہے ، اس طرح اور کئی خرابیاں ان سوسائٹیوں کے اعمال میں پائی جاتی ہیں ، اس واسطے ان کی تفصیلات بتا کر شرعی حکم معلوم کئے بغیر ان میں شریک نہیں ہونا چاہئے۔
قسط پر سونے کے زیورات کی خرید و فروخت
سوال:عرب بازاروں میں ایک چیزیہ عام ہوگئی ہے کہ سونے کے زیورات قسط پر دستیاب ہیں اوراس پر لوگ عمل کر رہے ہیں، ایسا کرنے کی وجہ معاشی بدحالی ، اقتصادی کمزوری اور شادی کا بے پناہ بوجھ ہے ،ایسے حالات میں آدمی مجبور ہوجاتا ہے کہ تقسیط پر زیورات خریدے ، تقسیط کا مطلب پیسے کی ادائیگی قسط وار کرنا ، اسلامی شریعت میں یہ بات متعین اور طے شدہ ہے کہ سونے ، چاندی کی بیع نقداً ہوگی ، مشتری پیسہ دے کر اسی مجلس میں اسے اپنے قبضہ میں کرے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سونے کے زیورات میں تقسیط جائز ہوگی یا نہیں ؟جبکہ اس میں لوگوں کے لئے بڑی آسانی ہے اور شریعت کے اصول تیسیر کے مطابق ہے ، کیا اسلام اس کی اجازت دے گا یا نہیں؟
اس بابت فقہا ء کی دو رائیں ہیں :
1- جمہور فقہاء کا ماننا ہے کہ چند اسباب کی بنا پر یہ سودا جائز نہیں ، حدیث سے ثابت ہے اور فقہاء سے منقول ہے کہ سونا نقداً ہی لیا اور دیا جاسکتا ہے ، اس میں ادھار جائز نہیں ، ڈاکٹر احمد حجی کردی کا کہنا ہے کہ یہ صرف ( مبادلہ ) ہے، اس کے لئے اسی مجلس میں تقابض ( سامان اپنے قبضے میں کرنا ) شرط ہے ، مشہور فقیہ قرہ داغی کا بھی یہی موقف ہے ، وہ کہتے ہیں کہ اس بابت صحیح اور صریح حدیث میں ممانعت آئی ہے اور کہا گیا ہے کہ سونا سونے کے بدلے اور چاندی چاندی کے بدلے نقد اور برابر بیچو، اور اسی مجلس میں اسے اپنے قبضے میں لے لو۔اگر جنس بدل جائے تو جیسے چاہو ( کمی بیشی کے ساتھ ) بیچو لیکن اس شرط کے ساتھ کہ سامان پر قبضہ مجلس میں ہی کر لیا جائے۔( جنس بدلنے کا مطلب یہ ہے کہ سونا چاندے سے ، گیہوں جو سے بیچا جائے ،اس میں کم دے کر زیادہ لے سکتے ہیں )
2- دوسری رائے یہ ہے کہ سونے کے زیورات میں تقسیط جائز ہے ۔ شام کے مشہور فقیہ محمودعکام کا ماننا ہے کہ سونے کے زیورات کو قسط وار پیسے کی ادائیگی پر بیچا جا سکتا ہے ، کیونکہ یہ سامان کی طرح ہے ، بہت سے دوسرے فقہاء کی بھی یہی رائے ہے ، ابن رشد نے بدایۃ المجتہدمیں ان کا تذکرہ کیاہے ، اس رائے کی بنیاد اس بات پر ہے کہ سونا اور چاندی جب زیور کی شکل میں ہوں تو ثمنیت کے دائرے سے نکل کر سامان کے خانہ میں آجاتے ہیں ، مصر کے مفتی ڈاکٹر علی جمعہ بھی اسی بات کو مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ زیورات میں بدلنے کے بعد ان کی ثمنیت معدوم ہوجاتی ہے جس کا تقاضا تھا کہ سامان پر مجلس میں ہی قبضہ کر لیا جائے اور ادھارنہ دیا جائے ، اس طرح زیور ایک سامان کی شکل اختیار کرگیا ، اور معلوم ہے کہ سامان کی تجارت نقد اور ادھار دونوں جائز ہے۔
اصول فقہ کا قاعدہ معروف ہے کہ حکم علت کے پائے جانے یا نہ پائے جانے پر موقوف ہوتا ہے۔
ابن تیمیہ ، ابن قیم رحمہما اللہ کی بھی یہی رائے ہے ، البتہ انھوں نے یہ شرط ضرور لگائی ہے کہ سونے کا زیور ایسا نہ ہو کہ اسے صرف مرد استعمال کرتے ہوں ، کیونکہ ان کے لئے سونے کا استعمال جائز نہیں۔(المجتمع ،عدد:۱۷۱۷، شعبان ۱۴۲۷ھ)
جواب:سعود صبری صاحب کے ذکر کردہ فقہاء کی دونوں رائیں اور ان کے دلائل کو میں نے دیکھا میرے نزدیک جمہور کا قول راجح ہے، کیونکہ سونے کو سونے سے یا چاندی سے بیع کرنے میں ’’يدا بيد ‘‘ یعنی نقد ہونا شرط ہے اور ادھار جائز نہیں ہے ، حضرت عبادہ بن صامت رضى الله عنہسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’ الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلاً بِمِثْلٍ سَوَاءً بِسَوَاءٍ يَدًا بِيَدٍ فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الأَصْنَافُ فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ ‘‘ (رواہ مسلم مع النوی کتاب البیوع، باب الربا :۱۱؍۱۴)
سونا سونے کے بدلے ،چاندی چاندی کے بدلے، گیہوں گیہوں کے بدلے ،جو جو کے بدلے ، نمک نمک کے بدلے ، برابر برابر اور نقد بیچو، اور جب اجناس بدل جائیں تو جیسا چاہوبیچو ۔( یعنی سونے کو چاندی سے یا گیہوں کو جو سے یا نمک کو کھجور سے ) اگر بیع نقداور ہاتھوں ہاتھ ہو ۔ اور آج کے سکے ( ریال ، روپیہ ،درہم وغیرہ ) عموماً چاندی کے بدل مانے جاتے ہیں ، اور بعض اسے سونے کا بدل مانتے ہیں اور دونوں صورتوں میں اس سے سونے کے زیورات خریدنا ،چاندی سے سونا یا سونے سے سونا خریدنا ہوگا جس میں نقد کی شرط ہے اور ادھار جائز نہیں، جبکہ قسط پر خرید و فروخت میں ادھار بیچنا اور خریدنا پایا جاتا ہے ، اس واسطے جائز نہیں ۔
اور فریق ثانی کا یہ کہنا کہ ’’ سونا اور چاندی جب زیور کی شکل میں ہوں تو ثمنیت کے دائرے سے نکل کر سامان کے خانہ میں آجاتے ہیں اور انہیں قسط پر بیچنااور خریدنا جائز ہوگا‘‘ صحیح نہیں ہے ،کیونکہ سونا اور چاندی خواہ سکوں کی شکل میں ہوں یا بسکٹ کی شکل میں یا زیورات کی شکل میں یا کسی اور شکل میں ہوں ان کے خرید و فروخت میں ’’یدا بید‘‘ اور اسی کے جنس سے خرید و فروخت کرنے کی صورت میں ’’سواء بسواء‘‘ کی شرط کا لحاظ کرنا ضروری ہے کیونکہ ’’ الذھب بالذھب ‘‘ الخ میں عموم ہے اور ان دونوں میں ان کے اصل کے اعتبار سے ثمنیت کا وصف بہر صورت برقرار رہتا ہے ، اس کی وضاحت حضرت فضالہ بن ابی عبید رضى الله عنہ کی حدیث سے ہوتی ہے وہ فرماتے ہیں کہ خیبر کے روز میں نے بارہ دینار میں ایک ہارخریدا جس میں سونے کے ساتھ پتھر کے نگ لگے ہوئے تھے ،میں نے انہیں علاحدہ کیا تو اس میں بارہ دینار سے زیادہ ( سونا ) نکلا پھر میں نے نبی صلى الله علیہ وسلم  سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا:’’لا تباع حتی تفصل‘‘ اس قسم کے زیورات کو جب تک اس میں موجود سونے اور چاندی کو پتھر کے نگ وغیرہ سے الگ نہ کرلیا جائے فروخت نہ کیا جائے ۔ ( المصدر السابق)
اور سنن ابی داود میں حضرت فضالہ رضى الله عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی صلى الله علیہ وسلم  کے پاس ایک ہار لایا گیا جس میں سونے کے ساتھ پتھر کے نگ لگے ہوئے تھے اس کو ایک آدمی نے نو دینار یا سات دینار میں خریدا تھا ، نبی صلى الله علیہ وسلم  نے فرمایا : جب تک سونے اور پتھر کو الگ نہ کر لیا جائے اس وقت تک نہ خریدا جائے چنانچہ اس آدمی نے اسے واپس کردیا ،یہاں تک کہ سونے اور پتھر کو الگ کیا گیا ۔ (سنن ابی داود کتاب البیوع والاجارات، باب فی حلیۃ السیف تباع بالدراھم: ۳؍۶۴۷)
ان دونوں حدیثوں سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ سونا اور چاندی زیورات کی شکل میں ہوں تو بھی ان میں ہم جنس ہونے کی صورت میں برابر برابر اور نقد ہونے کی شرط کا اعتبار ہوگا ۔ اور دوسرے سامان کے حکم میں نہیں ہوں گے، کیونکہ اگر وہ زیور ہونے کی صورت میں سامان کے حکم میں ہوجاتے تو فضالہ ص کا بارہ دینار میں قلادہ خریدنا اور دوسری روایت میں مذکورہ شخص کا نو یا سات دینار میں سونے کا خریدنادرست ہوتا اور رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  : ’’لاتباع حتی تفصل‘‘ نہ فرماتے ، اور دوسری روایت کے بموجب قلادہ کو واپس کر کے سونے اور نگ کو الگ نہ کیا جاتا۔کیونکہ جس سونے کا یہاں تذکرہ ہے وہ زیور (ہار) کی شکل میں تھا ، اس واسطے سونے اور چاندی کے زیورات کو ادھار یا قسط پر خریدنا اور فروخت کرنا جائز نہیں معلوم ہوتا۔
سوال:میں ایک تعلیم یافتہ نوجوان ہوں ، مگر کئی مہینوں سے بیکار ہوں جس کی وجہ سے مالی پریشانیوں کا شکار ہوں، بینک سے جو لوگ مکان کی تعمیر یا کاروبار کے لئے سودی قرض لیتے ہیں ان میں سے بہت سے لوگ وقت مقررہ پر قرض کی ادائیگی نہیں کرتے ، چنانچہ ان سے قرضوں کی وصولی کے لئے بینک معقول کمیشن پر تعلیم یافتہ توجوان کو نوکری دیتی ہے ، کیرے کئی ساتھی یہ کام کر رہے ہیں ، اور اس سے ان کی ماہانہ اچھی آمدنی ہورہی ہے ، مجھے بھی یہ لوگ اس کام کے لئے مشورہ دے رہے ہیں تاکہ مجھے بیکاری اور معاشی پریشانیوں سے نجات مل سکے ، اس بارے میں آپ کا مشورہ چاہتا ہوں ، کیا شرعی نقطہ نظر سے یہ نوکری جائز ہے؟
جواب: حدیث نبوی ہے:حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :’’ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم  آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَقَالَ هُمْ سَوَاءٌ ‘‘.(رواہ مسلم)
رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم  نے لعنت بھیجی ہے سود کھانے والے پر ،اس کے کھلانے والے پر ، اس کے لکھنے والے پر ، اور اس کے دونوں گواہوں پر ،اور فرمایا:یہ سب اس لعنت و معصیت میں برابر ہیں ۔
اس حدیث پر غور فرمائیے تو واضح طور سے معلوم ہوتا ہے کہ سودی کاروبار کے سلسلہ میں کسی طرح کا تعاون کرنا جائز نہیں ہے،ورنہ اس کے معاملات کے لکھنے والے منشی اور گواہوں پر اللہ کی لعنت نہیں ہوتی ، کیونکہ ان کا اس معاملہ میں معاون کے علاوہ اور کوئی رول نہیں ہے ، وہ نہ وہ نہ سود لیتے ہیں اور نہ دیتے ہیں ۔
اور کمیشن یا تنخوہ لے کر سودی قرضوں کی وصولی کا کام کرنا بلا شبہ سودی کاروبار میں تعاون ہے ، اس واسطے یہ شرعا ناجائزہے ، ویسے بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:   وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ  (المائدة: ٢)
یعنی نیکی اور تقوی کے کام میں تعاون کرو اور گناہ اور عدوان کے کام میں تعاون نہ کرو،اور آپ کے اس عمل سے گناہ کے کام ( سودی کاروبار) میں تعاون ہوگا،اس واسطے شرعا یہ ممنوع ہوا ، اس لئے میرا مشورہ ہے کہ آپ اس کام کو نہ کریں ، کوئی کوئی جائز کاروبار خواہ معمولی تجارت کیوں کہ ہو فی الحال شروع کردیں،ان شاء اللہ اس میں برکت ہوگی اور آپ کے حق میں یہ کام اس بہ نسبت بہت بہتر ہوگا، نیز اس کام کے ساتھ آپ کسی معقول اور جائز نوکری کے لئے بھی کوشش کرتے رہیں ،اور جب آپ کے شایان شان کوئی نوکری یا کام مل جائے تو اسے اختیار کرلیں، اللہ آپ کا حامی اور مدد گار ہوگا اور آپ کے جائز طریقے سے روزی کمانے کی سبیل پیدا کرے۔
سوال:میں پونہ میں ایک کمپنی میں نوکری کرتا ہوں ، میرے پاس ذاتی مکان یا فلیٹ نہیں ہے ، اس واسطے فیملی کے ساتھ رہنے کے لئے تقریبا سات ہزار روپئے ماہانہ کرایہ پر مکان لے کر رہتا ہوں میرے تنخوہ سے انکم ٹیکس بھی کٹ رہا ہے ، نیز ہر گیارہ مہینے پر مکان تبدیل کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے مناسب نئے مکان کی تلاشی ، پھر سارے سامان کے ڈھونے کے اخراجات اور نئے گھر میں سیٹنگ وغیرہ کی پریشانیاں الگ ہیں ، جس کمپنی میں کام کرتا ہوں وہاں سے جس کے پاس گھر نہیں ہے، انہیں ذاتی مکان کی تعمیر اور خریدی کے لئے لون ( قرض) ملتا ہے ، اس پر معمولی سود دینا پڑتا ہے ،مگر اس کی وجہ سے انکم ٹیکس معاف ہوجاتا ہے اور اپنا ذاتی مکان ہوجانے کی صورت میں میرے سات ہزار کرایہ بچ جائے گا اور ہر گیارہ مہینے پر نقل مکانی کے سلسلہ میں جو پریشانی ہورہی ہے ان سے بھی نجات مل جائے گی،قرض کی رقم تھوڑا تھوڑا کر کے ہر ماہ تنخواہ سے وضع ہوتی رہے گی اور مجھے کوئی ھاس پریشانی نہیں ہوگی، ایسی صورت میں کیا کمپنی سے قرض لینے کی میرے لئے گنجائش ہے؟
جواب:بلا شبہ جیسے سود لینا حرام ہے اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے ، اس واسطے جہاں تک ہو سکے سودی قرض لینے سے بچنا چاہئے، البتہ اگر آپ کی سخت مجبوری ہے اور آپ یہ محسوس کر رہے ہیں کہ کمپنی کی جانب سے جو قرض کی سہولت آپ کو مل رہی ہے اس سے استفادہ کئے بغیر ان پریشانیوں اور حیرانیوں سے نجات بظاہر ممکن نہیں ہے ،اور ان شاء اللہ اسے اس کی ادائیگی بھی آسانی سے ہوجائے گی تو دل کی راہت کے ساتھ یہ قرض لے سکتے ہیں ، مگر برابر اللہ سے توبہ و استغفار کے ساتھ یہ دعا بھی کرتے رہئے کہ اللہ جلد از جلد اس سے نجات دلائے۔

هناك 6 تعليقات:

  1. میں AETNA Insurance company کے لیے ترجمہ کا کام کرتا ہوں۔ کیا یہ جائز ہے؟

    ردحذف
  2. کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا گردے بیچنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ مالی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے اپنے گردے کو پیسے میں بیچنے کا موقع ڈھونڈ رہے ہیں اور آپ نہیں جانتے کہ کیا کرنا ہے ، پھر آج ہم سے رابطہ کریں اور ہم آپ کو اپنے گردے کے ل good اچھی رقم good 500،000 ڈالر پیش کریں گے۔ میرا نام ڈاکٹر میکس ویل ہے ، بل روتھ ہسپتال میں ایک نیورولوجسٹ ہوں۔ ہمارا ہسپتال کڈنی سرجری میں مہارت رکھتا ہے اور ہم اسی طرح کے ڈونر کے ساتھ گردوں کی خریداری اور ٹرانسپلانٹیشن کا بھی معاملہ کرتے ہیں۔ ہم
    ہندوستان ، ریاستہائے متحدہ امریکہ ، ملائشیا ، سنگاپور میں واقع ہے

    اگر آپ گردوں کے بیچنے یا خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو برائے مہربانی ہچکچاہٹ نہ کریں
    ہم سے اور ای میل کے ذریعے رابطہ کرنے کے لئے.
    ای میل: birothhहास@gmail.com
    واٹس ایپ نمبر: +33751490980

    نیک تمنائیں
    میڈیکل ڈائریکٹر
    DR MAXWELL

    ردحذف
  3. کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا گردے بیچنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ مالی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے اپنے گردے کو پیسے میں بیچنے کا موقع ڈھونڈ رہے ہیں اور آپ نہیں جانتے کہ کیا کرنا ہے ، تو آج ہم سے رابطہ کریں اور ہم آپ کو اپنے گردے کے ل good اچھی رقم $ 500،000 ڈالر پیش کریں گے۔ میرا نام ڈاکٹر میکس ویل ہے ، بل روتھ ہسپتال میں ایک نیورولوجسٹ ہوں۔ ہمارا ہسپتال گردے کی سرجری میں مہارت رکھتا ہے اور ہم اسی طرح کے ڈونر کے ساتھ گردوں کی خریداری اور ٹرانسپلانٹیشن کا بھی معاملہ کرتے ہیں۔ ہم
    ہندوستان ، ریاستہائے متحدہ امریکہ ، ملائشیا ، سنگاپور۔ جپان میں واقع ہے

    اگر آپ گردوں کے بیچنے یا خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو برائے مہربانی ہچکچاہٹ نہ کریں
    ہم سے اور ای میل کے ذریعے رابطہ کرنے کے لئے.
    ای میل: birothhहास@gmail.com
    واٹس ایپ نمبر: +33751490980

    نیک تمنائیں
    میڈیکل ڈائریکٹر
    DR MAXWELL

    ردحذف

  4. گردہ؟ تم ہو
    اپنے گردے کو پیسے کے عوض بیچنے کا موقع ڈھونڈنا
    مالی خرابی کی وجہ سے اور آپ نہیں جانتے کہ کیا کرنا ہے
    کیا ، پھر آج ہم سے رابطہ کریں اور ہم آپ کو اچھا پیش کریں گے
    آپ کے گردے کے ل money ،000 400،000 ڈالر کی رقم۔ میرا نام ڈاکٹر مارٹن ہے
    مارٹن ہاسپٹل میں نیفروولوجسٹ ہوں۔ ہمارا ہسپتال ہے
    گردے کی سرجری میں مہارت حاصل ہے اور ہم بھی اس سے نمٹتے ہیں
    ایک زندہ کے ساتھ گردوں کی خریداری اور پیوندکاری
    اسی ڈونر
    ہم ہندوستان ، ترکی ، امریکہ ، ملائشیا ، دبئی میں واقع ہیں
    اگر آپ گردے بیچنے یا خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو براہ کرم نہ کریں
    ای میل کے ذریعے ہم سے رابطہ کرنے میں سنکوچ کریں.
    ای میل: martenhospital@gmail.com

    نیک تمنائیں

    DR MARTEN

    ردحذف

  5. گردہ؟ تم ہو
    اپنے گردے کو پیسے کے عوض بیچنے کا موقع ڈھونڈنا
    مالی خرابی کی وجہ سے اور آپ نہیں جانتے کہ کیا کرنا ہے
    کیا ، پھر آج ہم سے رابطہ کریں اور ہم آپ کو اچھا پیش کریں گے
    آپ کے گردے کے ل money ،000 400،000 ڈالر کی رقم۔ میرا نام ڈاکٹر مارٹن ہے
    مارٹن ہاسپٹل میں نیفروولوجسٹ ہوں۔ ہمارا ہسپتال ہے
    گردے کی سرجری میں مہارت حاصل ہے اور ہم بھی اس سے نمٹتے ہیں
    ایک زندہ کے ساتھ گردوں کی خریداری اور پیوندکاری
    اسی ڈونر
    ہم ہندوستان ، ترکی ، امریکہ ، ملائشیا ، دبئی میں واقع ہیں
    اگر آپ گردے بیچنے یا خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو براہ کرم نہ کریں
    ای میل کے ذریعے ہم سے رابطہ کرنے میں سنکوچ کریں.
    ای میل: martenhospital@gmail.com

    نیک تمنائیں

    DR MARTEN

    ردحذف
  6. کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا اپنا گردہ بیچنا چاہتے ہیں؟
    کیا آپ مالی خرابی کی وجہ سے پیسے کے عوض اپنا گردہ بیچنے کا موقع تلاش کر رہے ہیں اور آپ نہیں جانتے کہ کیا کرنا ہے ، تو آج ہی ہم سے رابطہ کریں اور ہم آپ کو اپنے گردے کے لیے 400،000 ڈالر کی اچھی رقم کی پیشکش کریں گے۔
    میرا نام ڈاکٹر جارج ہے اور میں سٹی ہاسپٹل میں نیفروالوجسٹ ہوں۔ ہمارا ہسپتال گردوں کی سرجری میں مہارت رکھتا ہے اور ہم ایک زندہ اور متعلقہ ڈونر کے ساتھ گردوں کی خرید اور پیوند کاری کا معاملہ بھی کرتے ہیں۔

    ہم ہندوستان ، ترکی ، امریکہ ، ملائیشیا ، دبئی میں واقع ہیں۔
    اگر آپ گردے بیچنے یا خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو براہ کرم ای میل اور واٹس ایپ کے ذریعے ہم سے رابطہ کرنے میں ہچکچاہٹ نہ کریں۔

    ای میل: cityhospital7557@gmail.com۔
    واٹس ایپ نمبر: +16236665343۔

    نیک تمنائیں
    چیف میڈیکل ڈائریکٹر
    DR. GEORGE

    ردحذف