الثلاثاء، 8 فبراير 2011

خطبۂ عید الفطر


                                                        
                                            خطبۂ عید الفطر                                                                    


                                     ڈاکٹر فضل الرحمن المدنی
                                  جامعہ محمدیہ منصورہ ، مالیگاؤں


خطبہ مسنونہ کے بعد: برادران اسلام! اللہ جل شانہ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس نے ہمیں یہ توفیق اورقوت عطا فرمائی کہ رمضان المبارک کے پورے روزے رکھیں، چنانچہ اسی کے فضل کرم سے ہم نے ایک ماہ کے مکمل روزے رکھے، تراویح کی نماز ادا کی، قرآن پاک کی تلاوت کی اور صدقہ و خیرات کر کے اپنی جھولیوں کو نیکیوں سے بھر لیا۔ درحقیقت رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت اور ان کی ادائیگی جہاں ایک بہت بڑی عبادت ، اور اجر و ثواب کا باعث ہے وہیں یہ ہمارے لئے ایک امتحان اور آزمائش کی حیثیت بھی رکھتی ہے، ہم لوگوں نے جب بفضل الٰہی ماہ رمضان کے پورے روزے رکھ لئے تو ایک ہم فریضہ کی ادائیگی سے سبکدوش ہوگئے اور ایک بہت بڑے امتحان میں کامیاب ہوگئے۔
 آپ حضرات کو معلوم ہے کہ کسی بھی امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد انسان کو بڑی خوشی اور مسرت حاصل ہوتی ہے اور عموماً امتحان ختم ہونے کے بعد ایک اجتماع اور پروگرام ہوتا ہے جس میں کامیاب ہونے والوں کو انعامات اور مبارکبادیوں سے نوازا جاتا ہے، آج کی عید کا یہ اجتماع بھی تقریباً اسی نوعیت کا ہے ایک ماہ کے روزے رکھ کر اور دیگر عبادتیں کر کے ہم ایک بڑے امتحان میں کامیاب ہوئے ہیں اس بنا ء پر ہم سب کو بے حدمسرت اور بے پناہ خوشی ہے اور ہم اپنے پروردگار سے بخشش و انعام حاصل کرنے اور عید منانے کے لئے اس میدان میں اکٹھا ہوئے ہیں۔
برادران اسلام! اس ناحیہ سے آپ غور فرمائیں تو عید درحقیقت ان لوگوں کی ہے جنھوں نے رمضان المبارک کے روزے رکھے ہیں اور اس ماہ مبارک کی تمام عبادتیں ادا کرکے اپنے دامن مراد کو نیکیوں سے بھر لیا ہے اور امتحان میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ یہ عید ان لوگوں کی نہیں ہے جنھوں نے اس ماہ کو غفلت اور لا پرواہی میں ضائع کر دیا۔ اور امتحان میں ناکام ہوگئے، کسی نے سچ کہا ہے ؂؂ليس العيد لمن لبس الجديد انما العيد لمن خاف الوعيد عید اس کی نہیں جس نے نئے اور زرق برق لباس پہن لئے، عید اس کی ہے جو اللہ کی وعید سے ڈر گیا۔  یعنی رمضان المبارک کے روزے رکھ کر متقی اور پرہیزگار بن گیا اور ایفاء عہد و ذمہ داری کے امتحان میں کامیاب ہوگیا۔
معزز حاضرین! آج ہم روزہ داروں کے انعام کا دن ہے، جب روزہ دار عید گاہ میں پہونچ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے کہ ان مزدوروں کا کیا بدلہ ہونا چاہئے جنھوں نے اپنے کام پورے کر لئے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں اے ہمارے معبود، اے ہمارے آقا! ان کا بدلہ یہی ہو نا چاہئے کہ انھیں ان کی پوری پوری مزدوری دیدی جائے۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے اے میرے فرشتو! تم گواہ رہو کہ ان کے رمضان کے روزے اور تراویح کی وجہ سے میں ان سے خوش ہو گیا اور ان کو بخش دیا پھر بندوں سے خطاب کر کے فرماتا ہے: اے میرے بندو! تم مجھ سے مانگو میں اپنی عزت و جلال کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس اجتماع میں دنیا وآخرت کی جو کچھ بھی بھلائی تم مجھ سے مانگوگے میں دوں گا اور تمہارا خصوصی خیال رکھوں گا۔ اور جب تک تم مجھ سے خوف کھاتے رہوگے میں تمہاری خطاؤں اور لغزشوں سے در گذر کرتا رہوں گا۔ مجھے اپنی عزت و بزرگی کی قسم ہے کہ نہ تمہیں ذلیل اور رسوا کروں گا، نہ مجرمین کے درمیان تمہیں فضیحت کروں گا، تم سب کو میں نے معاف کر دیا، تم نے مجھے راضی کرنا چاہا تو میں تم سے راضی ہوگیا۔ اس امت کے لئے انعام و بخشش کا یہ اعلان سن کر فرشتے بھی جھوم اٹھتے ہیں اور خوشیاں منانے لگتے ہیں۔(منذری)
برادران اسلام! ہمارا دین،دین فطرت ہے، اس کے تمام احکام واعمال فطرت کے موافق ہیں، ہر قوم و ملت کے لوگوں کا یہ طریقہ ہے کہ سال کے بعض دنوں میں وہ خوشیاں مناتے ہیں،ان دنوں میں وہ اپنے تمام کاروبار اور روز مرہ کے اشغال واعمال چھوڑ کر، اچھے اچھے لباس پہن کر خوشیوں کے گیت گاتے ہوئے کسی میدان میں جمع ہوتے ہیں، وہاں میلہ لگاتے ،ایک دوسرے سے ملاقاتیں کرتے ہیں، کھیلتے کودتے اور خوشیاں مناتے ہیں ، جس سے دلوں میں تازگی پیدا ہوتی ہے اور سال بھر کام کرنے سے جوطبیعت میں افسردگی ،سستی اور اکتاہٹ پیدا ہو جاتی ہے وہ دور ہوتی ہے، مسرت و حرکت سے خون میں گرمی اور طبیعت میں جوش اور چستی پیدا ہوتی ہے، ایسا رواج تمام قوموں میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے: ‘‘إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا ، وَهَذَا عِيدُنَا ’’  (صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري: 2/ 21)  بیشک ہر قوم کے لئے عید اور تہوار ہے اور یہ ہمارے عید ہے ، تو جیسے دوسری قوموں کی عیدیں اور تہواریں ہیں ہماری دین میں بھی دوعیدیں ہیں ،البتہ ہماری عیدوں اور دوسری قوموں کی عیدوں میں فرق یہ ہے ہماری عیدیں محض کھیل تماشا اور لہو ولعب کا نام نہیں ہیں ، بلکہ ان میں مباح لہوولعب، سیر و تفریح اور خوشی و مسرت کے ساتھ مختلف قسم کی عبادتیں بھی ہیں، غریبوں کے ساتھ تعاون و ہمدردی ہے، مسلمانوں کی سیرت سازی اور روحانی تربیت ہے، جبکہ غیر مسلموں کے تہواروں میں شراب وکباب ہے، ناچ گانے ہیں، مردوزن کا بیہودہ اور نا شائستہ اختلاط ہے،بے حیائیاں اور فحش کاریاں ہیں ، گندگیاں، گالیاں اور شورو ہنگامے ہیں ،ہماری عیدوں میں تکبیرات اور دعائیں ہیں، دوگانہ نماز ہے، وعظ ونصیحت ہے، صدقہ و خیرات ہے، ایک دوسرے سے ملاقاتیں اور مبارکبادیاں ہیں، دعوتیں اور خوش گپیاں ہیں، غرضیکہ ہماری یہ عیدیں خوشیوں، مسرتوں اور روحانی تربیت اور عبادت کا بڑا حسین مرقع ہیں ۔
              اس واسطے آپ حضرات آج عید کے دن کو صرف لہو لعب میں نہ صرف کردیں ،بلکہ اپنے اہل خانہ، دوست واحباب اور اعزاء واقارب کے ساتھ مل کر خوب خوشیاں بھی منائیں۔ اور غریبوں، مسکینوں، یتیموں اور بیواؤں کا بھی خیال رکھیں۔ آپ جائز سیر وتفریح اور کھیل کود سے لطف اندوز ہوں اور فرحت ومسرت سے اپنے دلوں میں گرمی اور خوشی پیدا کریں ،مگر سنیما بازی اور بلیو فلمیں دیکھنے دکھانے اور اس قسم کے مخرب اخلاق اور ناجائز اعمال کا ارتکاب کرنے سے اجتناب کریں۔
برادران اسلام! غالباًآپ حضرات کو معلوم ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں کے مسلمان دو دنوں میں کھیل کود کرتے اور خوشیاں مناتے تھے اس پر آپ نے ان سے پوچھا: مَا هَذَانِ الْيَوْمَانِ ؟ یہ دونوں دن کیسے ہیں؟یعنی تم ان میں کیوں خوشیاں مناتے ہو؟ انھوں نے عرض کیا : ‘‘كُنَّا نَلْعَبُ فِيهِمَا فِى الْجَاهِلِيَّةِ ’’ ہم زمانۂجاہلیت میں یعنی اسلام قبول کرنے سے قبل ان دونوں دنوں میں کھیل کود کیا کرتے تھے۔ (بس اسی طریقہ پراب بھی ہم لوگ ان میں خوشیاں مناتے اور کھیل کود کرتے ہیں)۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ‘‘إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا يَوْمَ الأَضْحَى وَيَوْمَ الْفِطْرِ ’’ (سنن أبي داود محقق وبتعليق الألباني: 1/ 441)  اللہ تعالیٰ نے تم کو ان کے بدلے ان سے بہتر دو دن عطا کئے ہیں:قربانی کا دن اور یوم الفطر۔
              برادران اسلام! اس حدیث پر غور کرنے سے ایک تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہماری عیدیں دوسروں کی عیدوں اور تہواروں سے بہت بہتر ہیں، ان کے تہواروں میں صرف لہو ولعب اور کھیل کود ہوتا ہے جبکہ ہماری عیدوں میں خوشی ومسرت کے باوقاراور پاکیزہ پروگراموں کے ساتھ عبادت اور تعاون بھی ہے، اس میں جسم و روح دونوں کی خوشیوں اور سکون کا سامان ہے ،ان کے تہوار عموماً کسی بڑے شخص کی ولادت یا جنگ میں فتح، یا موسمی تبدیلی کی مناسبتوں سے ہیں جبکہ ہماری ایک عید رمضان المبارک کے روزے بخیروعافیت گزرجانے اور اس میں مختلف عبادات کے ذریعہ اپنے دامن مراد کونیکیوں سے بھر لینے اور اللہ کی رضا مندی و مغفرت کے حاصل کرنے کی خوشی میں ہے اور دوسری عید حج کے اکثر و بیشتر ارکان کے مکمل ہونے اور ابوناحضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کا حکم دیکر اللہ تعالیٰ نے جو امتحان کیا تھا اس میں ان کے کامیاب ہونے اور پھر وفدیناہ بذبح عظیم کا جوانعام انھیں ملاتھا اس کی یادگار اور خوشی میں ہے۔
              دوسری بات اس حدیث سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہمارے لئے دوسری قوموں کے تہواروں میں شریک ہونا اور ان کے تہواروں کو اپنا تہوار بنانا جائز نہیں ہے۔
           تیسری بات اس سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہماری شرعی عیدیں صرف دوہی ہیں عید الفطر اور عید الاضحی،اور دوسری قوموں کی نقالی میں عید میلاد النبی  صلی اللہ علیہ وسلم وغیرہ کا تہوار منانا درست نہیں ہے۔
معزز سامعین! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مردوں کے ساتھ عورتیں اور بچے بھی عید منانے کے لئے عید گاہ جایا کرتے تھے، عورتوں کو عید گاہ لے جانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی طور سے حکم دیا تھا اور تاکید کی تھی، حضرت ام عطیہ رضى الله عنہا  فرماتی ہیں : ‘‘أُمِرْنَا أَنْ نُخْرِجَ الْحُيَّضَ يَوْمَ الْعِيدَيْنِ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ فَيَشْهَدْنَ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَدَعْوَتَهُمْ وَيَعْتَزِلُ الْحُيَّضُ عَنْ مُصَلاَّهُنَّ ’’ (صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري 1/ 99)  ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم عورتوں اور نوجوان پردہ نشین لڑکیوں حتی کہ حائضہ عورتوں کو بھی عیدین میں عید گاہ لے جائیں، یہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کی دعاؤں میں شریک ہوں گی اور جو خواتین حیض و ماہواری کی حالت میں ہوں گی وہ نماز کی جگہ سے الگ رہیں گی (یعنی نماز نہیں ادا کریں گی صرف خطبہ سنیں گی اور دعاؤں میں شریک رہیں گی) ایک عورت نے کہا : ‘‘يَا رَسُولَ اللهِ إِحْدَانَا لَيْسَ لَهَا جِلْبَابٌ ’’ اے اللہ کے رسول! ہم میں سے کسی کے پاس جلباب اورنقاب نہ ہو تو کیا کرے؟ آپ نے فرمایا: ‘‘لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا ’’ اس کی سہیلی اور ساتھی اسے اپنا زائد جلباب اورنقاب دیدے یا اپنی چادر میں شریک کر لے۔ حضرت ابن عباس رضى الله عنہما  سے پوچھا گیاکہ آپ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید میں شریک تھے؟ انھوں نے کہا ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ گئے، آپ نے پہلے نماز پڑھائی،پھر خطبہ دیا، پھر عورتوں کے پاس آئے ان میں وعظ کہا اور انھیں نصیحت کی، اور صدقہ و خیرات کا حکم دیا تو میں نے دیکھا وہ اپنے کانوں اور گلے سے زیورات نکال نکال کر حضرت بلال رضى الله عنہ  کی جھولی میں ڈال رہی تھیں اس کے بعد آپ اور حضرت بلال رضى الله عنہ  گھر واپس آگئے۔ (صحيح البخارى حسب ترقيم فتح البارى : 2/ 23, صحيح مسلم : 3/ 18)
بعض روایتوں میں ہے کہ میں اس وقت نا بالغ بچہ تھا اسی واسطے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم جب خواتین کے پاس نصیحت کرنے اور خطبہ دینے کے لئے تشریف لے گئے تو میں بھی وہاں گیا اور ساری باتیں دیکھیں اور سنیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے عہد مبارک میں عورتیں اور بچے بھی عید گاہ جاتے تھے ۔
اس پر غور کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے عورتوں کوان کے حقوق عطا کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے، انھیں عیدین میں شرکت کی اجازت دی ہے، اس سلسلہ میں اگر کسی کی کوتاہی ہے تو تنگ نظر اور جامد علماء کی ہے۔ انھوں نے اپنی تنگ نظری اور جمود سے نہ صرف خواتین کی حق تلفی کی ہے بلکہ اسلام کو بھی بدنام کیا ہے۔
معزز خواتین! آپ کو شریعت اسلامیہ نے عیدین اور نماز جمعہ وغیرہ میں شرکت کی اجازت دی ہے، آپ کے حقوق اور جائز جذبات و خواہشات کا بھر پور لحاظ کیا ہے، مگر اسلامی اخلاق و تہذیب کے دائرہ میں رہنے کا حکم دیا ہے۔ یہیں پر دیکھئے کہ عورتوں کو عید گاہ جانے کی تاکید کی ہے مگر پردہ کرنے اور برقع اور جلباب میں آنے کا حکم دیا ہے ،مسجدوں میں نماز کے لئے آنے کی اجازت دی ہے مگر حکم دیا ہے کہ وہ خوشبو لگا کر، زیب و زینت کر کے، اور ایسے زیورات پہن کر کے نہ جائیں جن سے آواز پیدا ہوتی ہے اور اجنبی مردوں کی نگاہیں ان کی جانب اٹھتی ہیں ۔
معزز خواتین! آپ مسجد اور عید گاہ عبادت کے لئے جاتی ہیں، اپنے حسن و جمال، زیب و زینت اور زیورات وکپڑوں کی نمائش کرنے کے لئے نہیں۔ ان سب چیزوں کی جگہ آپ کا گھر ہے، آپ اپنے شوہروں کے سامنے ہر طرح کی زیب و زینت کر سکتی ہیں، خوشبو استعمال کر سکتی ہیں، مگر جب باہر نکلنا ہو تو سادگی ہونا چاہئے خوشبو، زیب و زینت اورکوئی ایسی چیز نہیں ہونی چاہئے جس سے فتنہ پیدا ہو، برائیاں جنم لیں، اسلامی احکام اور اخلاق و آداب کے خلاف باتیں ہوں۔
معزز خواتین! ابھی آپ سن چکی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید میں عورتوں کو نصیحت کی، انہیں آخرت کی یاد دلائی، صدقہ و خیرات پر ابھارا اور خواتین نے دل کھولکر صدقہ و خیرات کیا یہاں تک کہ انھوں نے اپنے گلے اور کانوں کے زیورات بھی نکال کر کے دیدئے۔ آج بھی آپ کو اپنی آخرت کے سنوارنے، عذاب الہی سے بچنے اور غریبوں اور مسکینوں کے تعاون اور دینی ورفاہی اداروں کے قیام و بقاء کے لئے آپ کے صدقہ و خیرات کی ضرورت ہے اور یہ موقع صدقہ و خیرات کر نے کا ہے آپ اپنے اسلاف خواتین کے نقش قدم پر چلئے اور صدقہ و خیرات کیجئے، یہ صدقات آخر ت میں آپ کے کام آئیں گے اور آپ کو جہنم کی آگ سے بچائیں گے۔
معزز سامعین! آج خواتین اسلام کے مسائل الجھائے جا رہے ہیں۔ اسلام مخالف میڈیا ان کو خوب اچھال رہا ہے، حالانکہ میں پورے وثوق اور دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ دنیا کا کوئی دین ،دھرم، قانون اور دستور ایسا نہیں ہے جس نے عورتوں کو وہ حقوق اور مقام دیا ہو جو اسلام نے انھیں عطا کیا ہے، مگر کچھ ہماری کوتا ہیاں ہیں، کچھ خواتین میں علم کی کمی اور نادانیاں ہیں اور زیادہ اعدائے اسلام کے غلط پروپگنڈے اور سازشیں ہیں جو اسلام کو بد نام کر رہے ہیں۔
برادران اسلام و خواتین ملت !ہم سب کومل کر ان سازشوں کا مقابلہ کرنا ہے، مردوں کو چاہئے کہ ان کی جانب سے خواتین کے حقوق کی ادائیگی میں جو کوتاہیاں ہوں ان کو دور کریں۔ اور تعلیم و تربیت ، نماز ، روزہ، زکاۃ، حج، شادی بیاہ ،میراث اور ازدواجی زندگی اور خانگی ومعاشرتی امور میں ان کے جو حقوق ہیں ان کو صحیح طریقے سے انھیں دیں۔ بچیوں اور خواتین کی تعلیم میں آج کمی ہے، شادی، طلاق اور میراث کے مسائل میں بھی کوتاہیاں ہیں۔ آئیے ہم سب مل کر عہد کریں کہ ہم ان کوتاہیوں کودور کریں گے، خواتین کے اندر بھی کچھ خامیاں ہیں وہ پردہ کا خاطر خواہ اہتمام نہیں کرتیں اور دشمنوں کے پروپگنڈے سے متاثر ہو کر برقع کو کالی مصیبت اور گھر میں عزت کے ساتھ بیٹھنے کو جیل خانہ میں رہناسمجھتی ہیں، حالانکہ ان میں ان کی عزت و آبرو کی حفاظت ہے، ان کے لئے امن و سکون ہے ۔ آفسوں، کارخانوں اور کھیتوں وغیرہ میں کام کرنے والی خواتین سے پوچھئے کہ انھیں کس طرح مردوں کی نظر بد ، ناشائستہ باتوں اور چھیڑخانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ کس طرح وہ صبح سے لے کر شام بستر پر جانے تک گھر اور باہر کے کاموں میں مشغول رہ کر پریشان اور تھکن سے چور چور ہوتی ہیں؟
برادران اسلام! آج ہمارہ عقیدہ، ہمارا دین، ہماری تہذیب، ہمارے مساجد و مدارس، ہماری جان و مال اور عزت وآبرو سب خطرے میں ہیں ،اسلام دشمن طاقتیں ہر سطح پر مسلمانوں کو ختم کرنے کے درپے ہیں، چیچنیا میں کسی طرح اقوام متحدہ، ناٹو اور امریکہ، برطانیہ ،فرانس بلکہ پوری دنیا کے سامنے بر بر یت اور ظلم وستم کا ننگا ناچ ناچا جا رہا ہے اور الکفر ملۃ واحدۃ کے تحت یہ سارے ادارے، ساری قومیں اور سارے ممالک آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں۔ بلکہ مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کی سازش میں برابر کے شریک ہیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ افغانستان کے مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے ، فلسطین میں کیا ہو رہا ہے؟ کوسوغو اور البانیہ میں کیا ہوا اور سوڈان میں کیا ہو رہا ہے۔ اگر انڈونیشیاء کے ایک جزیرہ میں مٹھی بھر عیسائی بغاوت کریں اور الگ ریاست بنانے کے لئے مظاہرہ اور مطالبہ کریں تو اسے حق آزادی اور حق خود ارادی کا نام دیاجائے اور اقوام متحدہ سمیت ساری عیسائی و یہودی دنیا ان کی مدد کے لئے پہونچ جائے، اس کے لئے ظلم و ستم کی کہانیاں وضع کی جائیں۔ ملک میں مظاہرے اورہنگامے کراکے حکام بدلے جائیں اور خائن اور قوم فروش لیڈروں کو آگے لایا جائے اور حقوق انسانی کے نام پر اس جزیرہ کو زبردستی آزادی دلائی جائے مگر کوسوغو، فلسطین، چیچنیا وغیرہ ممالک میں پوری دنیا کی آنکھوں کے سامنے مسلمانوں کا قتل عام کیا جائے ان کے حق خود ارادی وآزادی کو سلب جائے۔ تین تین چار چار ماہ شب وروز بمباری کی جائے، شہروں کو کھنڈر بنادیا جائے۔بچوں کو ذبح کیا جائے عورتوں کی بے عزتی کی جائے۔ ان کے پیٹ چاک کر کے حمل کو ضائع کیا جائے اور ان کی بے حرمتی کر کے تڑپنے کے لئے چھوڑ دیا جائے، لاشوں پر جشن منایا جائے اور ٹی وی ،ریڈیو اور اخبارات و جرائدوغیرہ سے ساری چیزیں دنیا کے سامنے آئیں لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگے اور الٹے یہ مسلمان غدار اور باغی قرار پائیں اور ظالموں وقاتلوں کی تائید کی جائے۔
برادران اسلام! آئیے غور کریں کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس واسطے ہے کہ مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد نہیں ہے خلافت عثمانیہ کے ختم ہوجانے کے بعد مسلمانوں کا کوئی متحدہ پلیٹ فارم نہیں، آج ان کی کوئی اجتماعی فوج اور طاقت نہیں، ان میں کوئی رابطہ اور تعاون نہیں۔ سب ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہیں اور ریوڑ سے الگ ہو جانے والی بکری کی طرح باری باری انسان نما بھیڑیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
دوستو! آج ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام عالم اسلام،بلکہ تمام مسلمانوں کا ایک متحدہ پلیٹ فارم ہو، ان کی ایک متحدہ فوج اور ایک متحدہ قوت بنائی جائے تاکہ اس کے ذریعہ ان پر ہونے والے عالمی ظلم وستم کے سیل رواں کو روکا جاسکے۔
 ہندی مسلمانوں! تمہارے آباء واجداد نے اس سے پہلے خلافت عثمانیہ کے لئے تحریک چلائی تھی ،انھوں نے تمام دنیا کے مسلمانوں کو متحدکرکے اور انصاف پسند غیر مسلموں کو بھی ساتھ لے کر کے خلافت عثمانیہ کی حفاظت و احیاء کے لئے بڑی کوشش کی تھی، آج یہ تحریک نسیاً منسیا ہوچکی ہے۔ حالانکہ آج اس کی سخت ضرورت ہے، کیا ہے تم میں کوئی جو اس تحریک کودوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کرے۔ اور عالم اسلام کو اس کابھولا ہوا سبق یاددلائے، ان کو متحد و متفق کر کے ایک پلیٹ فارم پر لے آئے اور ایک عالمی قوت بنادے۔
برادران اسلام! آج چیچنیا میں روس اور فلسطین میں اسرائیل اور عراق وافغانستان میں امریکہ جس طرح مسلمانوں پر ظلم وستم کر رہے ہیں اور پوری مسلم قوم کو نیچا دکھانے اور رسواوذلیل وخوار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس کے لئے ہم کو کچھ کر نے کی ضرورت ہے۔ تمام مسلمانوں کی جانب سے یہ معاملہ پوری قوت کے ساتھ اقوام متحد ہ میں پیش کرنا چاہئے،دنیا کے امن پند ملکوں اور قوموں سے رابطہ قائم کرکے انھیں ساتھ لینا چاہئے اور پوری دنیا کے سامنے ان کے مظالم کو اجاگر کرنا اور اس کے خلاف آواز اٹھانا چاہئے،سب کو قنوت نازلہ پڑھنا چاہئے اور اپنے مسلمان بھائیوں کی فتح اور کامیابی اور دشمنوں کے مظالم سے نجات کے لئے خلوص دل سے دعا کرنی چاہئے ۔
آج ہم نے قنوت نازلہ کی اہمیت کو فراموش کردیا ہے حالانکہ مظلوم اورکمزور مسلمانوں کے لئے یہ ایک زبردست ہتھیار ہے ،اس سے اللہ کی نصرت ومدد کا نزول ہوتا ہے اور دشمنوں کو شکست وناکامی ہوتی ہے ۔
برادران اسلام !آج اپنے ملک کے حالات سے آپ ہم سے زیادہ واقف ہیں، آپ کے دین و عقیدہ، تہذیب و تمدن ،زبان وادب، دینی مدارس وجامعات، دینی جماعتوں اور تحریکوں اور مساجدو مقدس مقامات کو جو خطرات لاحق ہیں ان کے بارے میں کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ،ان کی حفاظت کے لئے آپ کو ہروقت بیدار رہنے اور فرقہ پرستوں کی سازشوں کو مل کر ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔
آج آپ کی وفاداری پر شک کیا جا رہا ہے۔ فرقہ پرست طاقتیں آپ کو بد نام اور متہم کرنے کےلئے شب وروز کوششیں کر رہی ہیں،میڈیا ان کے ساتھ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندی ،انگریزی، مراٹھی اردو وغیرہ زبانوں میں مسلمانوں کے ایسے اخبارات وجرائد اور ٹی وی ہوں جو ان الزام تراشیوں کا بر وقت جواب دیں، مسلمانوں کا دفاع کریں اور انھیں جوش و ہمت عطا کریں۔
برادران اسلام !علم ایک بہت بڑی دولت ،عظیم قوت اور زبردست ہتھیار ہے، اس کے بغیر کوئی بھی قوم پستی وذلت سے نکل کر بام عروج وعزت تک نہیں پہنچ سکتی، ہم کو اس جانب بھی بھر پو ر توجہ دینے کی ضرورت ہے، ہمیں بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تعلیمی میدان میں ہم بہت پیچھے ہیں، دینی تعلیم میں بھی اور عصری تعلیم میں بھی، قوم کے خیر خواہوں اور باشعور لوگوں کوخصوصا اور سارے ہی مسلمانوں کو عموما اس پربھرپور توجہ دینا چاہئے، آپ حضرات قوم میں تعلیمی بیداری پیدا کریں، غریب طلبہ وطالبات کے تعاون کا نظم کریں،اپنے مدارس و کالجز کے معیار کو بلند کریں،ان کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کریں اور مزید معیاری مدارس وجامعات قائم کریں۔ اچھے طلبہ اور اساتذہ کی ہمت افزائی کریں اورطلبہ وطالبات کی رہنمائی ومدد کریں تا کہ وہ اچھے سے اچھے نمبرات سے کا میاب ہوسکیں، اور اعلیٰ تعلیم کے مختلف شعبوں تک پہونچ سکیں۔ ہر شخص اپنے بچوں کو پڑھانے کی کوشش کرے، اس کے لئے محنت اور پیسے خرچ کرے۔ خاص طور سے خواتین بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں اپنی ذمہ دار یوں کو اچھی طرح سمجھیں اور صحیح طریقے سے ادا کریں۔
برادران اسلام! عید کا یہ اجتماع ، اجتماعی نمازیں، اجتماعی زکاۃ، اجتماعی روزہ ،اور اجتماعی حج آپ کو اجتماعیت اور اتفاق واتحاد کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ ایک ساتھ تمام مردوں اور بچوں کا  ‘‘اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ , اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ و لِلَّهِ الْحَمْدُ ’’کی صدائے دلنواز بلند کرتے ہوئے عید گاہ آنا،سب کا ایک امام کے پیچھے جماعت سے نماز پڑھنا اور پھربیٹھ کر ایک ساتھ خطبہ سننااسی لئے تو ہے کہ ہم میں اجتماعیت اور اتحاد پیدا ہو، ہماری قوت وشوکت میں اضافہ اور اس کا مظاہرہ ہو۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عید کے خطبہ میں جہاں مسلمانوں کو مختلف قسم کی نصیحتیں کرتے تھے، وہیں دعا بھی مانگتے تھے جیسا کہ حضرت ام عطیہ رضى الله عنہا کی حدیث میں وارد‘‘فَيَشْهَدْنَ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَدَعْوَتَهُمْ ’’ سے معلوم ہوتا ہے ۔اس واسطے آئیے اپنے پروردگار کے سامنے ہاتھ پھیلائیں ،روئیں گڑگڑائیں اور اپنی اور امت اسلامیہ کی کامیابی و بھلائی کے لئے دعائیں مانگیں۔  رَبَّنَا آتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِیْ الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ، رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ ، رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِیْنَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلاَ تَحْمِلْ عَلَیْْنَا إِصْراً کَمَا حَمَلْتَہُ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَۃَ لَنَا بِہِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنتَ مَوْلاَنَا فَانصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ .
اللَّهُمَّ انْصُرْ الإِسْلاَمَ وَ الْمُسْلِمِينَ , وَ ألّفْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ , وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَيْنِهِمْ ، وَانْصُرْهُمْ عَلَى عَدُوِّكَ وَعَدُوِّهِمْ ، اللَّهُمَّ اخْذلْ الكَفَرَةَ وَ الْمُشْرِكِينَ وشتت شملهم و فرق جمعهم , و دمر ديارهم وَزَلْزِلْ أَقْدَامَهُمْ ، وَأَنْزِلْ بِهِمْ بَأْسَكَ الَّذِى لاَ تَرُدُّهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ . اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِى نُحُورِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ , اللهم انصر من نصر دين محمد صلى الله عليه وسلم واجعلنا منهم، واخذل من خذل دين محمد صلى الله عليه وسلم ولا تجعلنا منهم.
            اے اللہ اے ہمارے خالق و مالک! ہمارے روزوں، ہماری نماز تراویح ،قرآن کی تلاوت، آخری عشرہ کی شب بیداری، صدقہ وخیرات اور دیگر تمام عبادتوں کو قبول فرما۔ الہٰ العالمین!ہمارے گناہوں کو بخش دے، ہمیں اپنی رحمت کے سایہ میں ڈھانپ لے ، ہمیں ہر قسم کی برائیوں سے بچا اور زیادہ سے زیادہ نیکیوں کی توفیق عطا فرما۔ الہٰ العالمین! ہمارے آباء واجداد، ماؤں بہنوں، اعزاء و اقارب اور علماء کرام میں سے جو انتقال فرما گئے ہیں ان کی مغفرت فرما ،ان کی قبروں کو نور سے بھر دے، ان کی قبروں میں جنت کی کھڑکیاں کھول دے، انھیں عذاب قبر سے محفوظ رکھ، ان کے درجات کو بلند فرما، ان کی نیکیوں کو قبول کراور گناہوں سے درگذر سے کام لے۔ الہٰ العالمین تمام مسلمانوں کی جان ومال کی حفاظت فرما، ان پر ہونے والے ظلم و ستم کا ازالہ فرما، دشمنان اسلام کو شکست فاش دے، ان کی سازشوں کو ناکام بنا، رب العالمین! تمام مظلوم مسلمانوں پر اپنی نصرت و رحمت کی بارش ناز ل فرما، الہٰ العالمین تمام اعدائے اسلام کو تباہ وبرباد کر ،ان کے فوجوں کے قدم اکھاڑ دے، ان کے اسلحوں کو ناکارہ بنادے ان پر ایسی ہیبت اور خوف طاری فرما کہ میدان کارزار سے ان کے قدم اکھڑ جائیں، الہٰ العالمین امریکہ اور برطانیہ اور وہ ممالک جو مسلمانوں کی دشمنی میں پیش پیش ہیں انھیں ذلیل وخوار کر۔ ان کی طاقت کو تباہ و برباد کر ان کی فوج اور ان کے اسلحوں کو انھیں کے لئے وبال جان بنا۔
الہٰ العالمین تمام دنیا کے مسلمانوں میں اتحاد واتفاق پیدا کر، انھیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دے، ان کے امراء و حکام کو راہ حق ہدایت عطا فرما، ان کو ہمت، شجاعت اور غیرت عطا کر، انھیں اسلام اور ایمان کی راہ پر چلا الہٰ العالمین روئے زمین پر خلافت اسلامیہ کو قائم کر اور مسلمانوں کی ذلت و ادبارکے دور کو ختم فرما۔
الہی! ہمارے مدارس و مساجد کی حفاظت فرما، ہمارے دین، عقیدہ، تہذیب وثقافت اور زبان کی حفاظت فرما ،ہمارے دینی ودنیاوی دونوں قسم کے قائدوں کو متفق و متحد کر دے، ان کو اخلاص ، ہمت وجرات اور اسلام ومسلمانوں کی خدمت کا جذبہ عطا فرما۔الہ العالمین ہماری قوم کو علمی وسائنسی ترقی ،فوجی واقتصادی قوت عطا فرما۔
الہٰ العالمین! ہم میں جو بیمارہیں انھیں شفائے کامل وعاجل عطا فرما، جو پریشان حال ہیں ان کی پریشانیوں کو دور فرما، جومقروض ہیں ان کے قرضوں کی ادائیگی آسان کر ،ہمارے جو نوجوان دشمنوں کی جیلوں اور قید خانوں میں ہیں انھیں اپنے فضل خاص سے رہائی وچھٹکارہ عطا فرما،الہ العالمین ہمیں صراط مستقیم پر چلا، ہمیں عمل صالح کی توفیق عطا فرما، ہم میں جو بے نمازی ہیں انھیں نمازی بنا دے، جو شرک و بدعت میں مبتلا ہیں انھیں ان سے نجات دے اورموحد بنا دے۔ الہ العالمین تو ہمارے نوجوانوں کونیک صالح بنا، انھیں حضرت خالد و طارق کی طرح غیرت وحمیت اور جوش و ہمت عطا فرما، انھیں عفت و پاکدامنی اور تقوی و طہارت کی زندگی گذارنے کی توفیق دے، الہی ہماری ماؤں و بہنوں کو نیک بنا انھیں حضرت خدیجہ، عائشہ اور فاطمہ رضى الله عنہم کا نمونہ بنا ،الہ العالمین ہمارے بزرگوں کو اپنے گھر، خاندان اور قوم و ملت کی صحیح رہنمائی اور خدمت کی توفیق عطا فرما۔ رب العالمین جب تک ہم سب کو زندہ رکھ ایمان وعمل صالح کے ساتھ زندہ رکھ، اور جب اس دنیا سے لے جا تو ایمان کے ساتھ لے جا۔ ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم وتب علينا انك انت التواب الرحيم۔ وصل اللهم وسلم علی عبدك ورسولك محمد وعلی آله واصحابه اجمعين برحمتك يا ارحم الراحمين۔
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق