الثلاثاء، 8 فبراير 2011

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت

عید میلاد النبیﷺ کی شرعی حیثیت

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدة:٣) آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کردیا او رتم پر اپنی نعمتوں کو تمام کردیا اور رتمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کرلیا ہے۔
            اور ایک دوسری جگہ فرمایا:﴿ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ(الانعام:38) ہم نے قرآن میں کسی چیز کو چھوڑا نہیں ہے۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ دین اسلام رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ میں مکمل ہوچکا ہے اور اب اس میں کسی قسم کے اضافہ کی گنجائش نہیں ہے اور اگر کوئی اضافہ کرتا ہے تو اللہ کے کلام کی تکذیب کرتا ہے، کیونکہ اس کے اضافہ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اسلام کو ناقص سمجھتا ہے جبکہ اللہ نے اس کی تکمیل کا اعلان کیا ہے، اللہ کے کلام کی تکذیب یقیناًبہت بڑا جرم ہے، اسی واسطے ایسے شخص کو رسول اللہﷺ نے بدعتی اور اس کے کلام کو مردود قرار دیا ہے چنانچہ ایسے شخص کو بدعتی مانا جائے گا اور اس کا اضافہ مردود ہوگا ۔ ”عَنْ عَائِشَةَ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم : مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ“ (صحيح البخار ی: 3/ 241,صحيح مسلم : 5/ 132)  حضرت عائشہ ﷞ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی نئی چیز نکالی تو اس کی یہ نئی نکالی ہوئی چیز مردود اور ناقابل قبول ہوگی۔
اور صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے: ”مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ (صحيح مسلم : 5/ 132)   جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر اور سکہ نہیں وہ عمل مردود اور نا قابل قبول ہے۔ ایک حدیث میں بدعت کو شرالامور یعنی بدترین کام اور ضلالت کہا گیا ہے، حضرت جابر ﷜ سے روایت ہے ،وہ فرماتے ہیں: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ @ إِذَا خَطَبَ احْمَرَّتْ عَيْنَاهُ وَعَلاَ صَوْتُهُ وَاشْتَدَّ غَضَبُهُ حَتَّى كَأَنَّهُ مُنْذِرُ جَيْشٍ يَقُولُ :”صَبَّحَكُمْ وَمَسَّاكُمْ “. وَيَقُولُ :” بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْنِ“، وَيَقْرُنُ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى وَيَقُولُ :”أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ وَخَيْرُ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ “الحدیث (صحيح مسلم : 3/ 11)
یعنی رسول اللہ ﷺ جب خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ کی آنکھیں سرخ ہوجاتیں اور آواز بلند ہوجاتی۔ اور آپ کا غضب شدید ہوجاتا، حتی کہ ایسامعلوم ہوتا کہ گویا آپ دشمن کے کسی لشکر سے ڈرانے والے ہیں، آپ فرماتے: وہ تم پر صبح کو یا شام کو حملہ کرنے والا ہے، اور فرماتے کہ میں اور قیامت ایسے بھیجے گئے ہیں جیسے یہ دو انگلیاں ہیں اور آپ اپنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی دونوں کو ملا لیتے(یعنی جس طرح یہ دونوں انگلیاں ایک دوسرے سے متصل ہیں اور درمیان میں کوئی فاصلہ نہیں، اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان کسی نبی کا فاصلہ نہیں، اور فرماتے: امابعد: یقیناًبہترین بات اللہ کی کتاب ہے، اور بہترین راستہ محمد ﷺ کا راستہ ہے، اور بدترین کام دین میں نئے پیدا کردہ کام ہیں، اور دین میں نیا نکالا گیا ہر کام ضلالت ہے۔
غور فرمائیے اس حدیث میں کس طرح آپ ﷺ نے دین میں نکا لے گئے ہر نئے کام کو بدعت اور ہر بدعت کو ضلالت و گمراہی قرار دیا ہے۔
ایک دوسری حدیث میں بھی آپ نے سنتوں کو مضبوطی سے پکڑنے اور بدعات سے اجتناب کرنے کا حکم دیا اور ہر بدعت کو گمراہی بتایا ہے،عرباض بن ساریہ ﷜ فرماتے ہیں:”وَعَظَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَوْعِظَةً بَلِيغَةً وَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ وَذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ فَقَالَ رجل : يَا رَسُولَ اللَّهِ كَأَنَّهَا مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا فَقَالَ: ” أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِى فَسَيَرَى اخْتِلاَفًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ (سنن أبو داود : 4/ 329 ,سنن الترمذ ی : 5 /44 وقال: حديث حسن صحيح)
یعنی رسول اللہ ﷺ نے ہمیں (ایک مرتبہ) بڑا موثر وعظ ارشاد فرمایا، جس سے دل ڈر گئے اور آنکھیں اشکبار ہوگئیں، ہم نے کہا : یا رسول اللہ یہ تو گویا آخری الوداع کہنے والے کا وعظ ہے، پس آپ ہمیں وصیت فرمادیجئے، آپ نے فرمایا: میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی اور سمع وطاعت (امیر کی بات سننے اور اطاعت کرنے) کی وصیت کرتا ہوں اگرچہ تم پر کوئی حبشی غلام امیر مقرر ہوجائے، (یاد رکھو) تم میں جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت اختلاف دیکھے گاپس تم میری سنت کو اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقے کو لازم پکڑنا، ان کو دانتوں ہے مضبوط پکڑ لینا، اور دین میں نئے نئے کام (بدعت) ایجاد کرنے سے بچنا، اس لئے کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔
غور فرمائیے کہ صحابہ کرام کی درخواست پر رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث کے بموجب کس طرح تقوی اور اطاعت امیر کو اختیار کرنے کے علاوہ سنت نبوی اور سنت خلفاء راشدین کے اتباع کی وصیت فرمائی اور بتاکید بدعت سے بچنے کا حکم دیا اور ہر بدعت کوضلالت قرار دیا۔
ساتھ ہی آپ نے اس کی بھی خبر دی کہ یہ امت بہت اختلافات کا شکار ہوجائے گی اور ایسی صورت میں امت کو کیا کرنا چاہئے اس کی بھی نشاندہی فرمائی اور وہ یہ کہ نبی ﷺ کی سنت اور خلفاء راشدین مہدیین کے طریقے کو لازم پکڑا جائے اور اس سے سرمو تجاوز نہ کیا جائے۔ آج بھی اگر مسلمان اپنے اختلافات میں حق کو پہچاننے  کےلئے  رسول اللہ ﷺ کے بتائے اس معیار اور کسوٹی کو تسلیم کرلیں تو وہ کامیاب ہوجائیں اور ان کے اختلافات خود سے ختم ہوجائیں۔
ایک حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا : كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ“ (رواہ الموطأ مرسلا: (روايۃ يحیىٰ بن يحيى الليثي الأندلسي ) 2/ 480، وقال الألبانی فی حاشيۃ المشکاة (1/66):”لکن لہ شاهد من حديث ابن عباس بسند حسن أخرجہ الحاکم“) میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، جب تک تم ان دونوں کو لازم پکڑے رہوگے ہرگز گمراہ نہیں ہوگے, کتاب اللہ اور میری سنت ۔
اس سے معلوم ہوا کہ گمراہی سے بچنے کے لئے تمسک بالکتاب والسنۃ لازم ہے۔
بعض اسلاف سے مروی ہے کہ بدعتوں کی وجہ سے سنتیں اٹھالی جاتی ہیں ،مشہور تابعی حسان بن عطیہ ﷫فرماتے ہیں: ”مَا ابْتَدَعَ قَوْمٌ بِدْعَةً فِي دِينِهِمْ إِلاَّ نَزَعَ اللَّهُ مِنْ سُنَّتِهِمْ مِثْلَهَا ، ثُمَّ لاَ يُعِيدُهَا إِلَيْهِمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ (رواہ الدارمی : 1/ 230, وقال الألبانی: سنده صحيح، وقد روی من قول ابی ہريرة أخرجہ ابو العباس الاصم فی حديثہ“کوئی قوم جب اپنے دین میں ایک بدعت نکالتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی سنتوں میں سے اسی کے مثل اٹھا لیتا ہے، پھر قیامت تک اسے ان کی طرف واپس نہیں بھیجتا۔
سنت کی اتباع جنت میں دخول کا موجب اور سنت سے اعراض جہنم میں دخول کا سبب ہے، حضرت ابوہریرہ ﷜ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”كُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ إِلاَّ مَنْ أَبَى قَالُوا : يَا رَسُولَ اللهِ ، وَمَنْ يَأْبَى قَالَ مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبَى“ (صحيح البخاری : 9/ 114)
میری تمام امت جنت میں داخل ہوگی سوائے اس کے جس نے انکار کیا، کہا گیا کہ کون انکاری ہے؟ آپ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی جنت میں داخل ہوا اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے انکار کیا۔
ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ نے اپنی سنت اور طریقے سے اعراض کرنے والے کو اپنی جماعت سے خارج قرار دیا ہے ، حضرت انس ﷜  سے روایت ہے کہ تین آدمی رسول اللہ ﷺ کی ازاوج مطہرات کے پاس رسول اللہﷺ کی عبادت کے بارے میں سوال کرنے کےلئے آئے، جب انھیں آپ کی عبادت کے بارے میں بتایا گیا تو اس کو انھوں کم سمجھا اور کہنے لگے کہ ہمارا رسول اللہ ﷺ سے کیا مقابلہ؟ اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہوں کو معاف کردیا ہے، پھر اس میں سے ایک نے کہا: میں ہمیشہ ر ات بھر نمازیں پڑھا کروں گا، دوسرے نے کہا: میں ہمیشہ دن میں روزے رکھوں گا اور کبھی روزہ نہیں چھوڑوں گا، اور تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے علحٰدگی اختیار کرلوں گا اور کبھی شادی نہیں کروں گا۔ رسول اللہ ﷺ کو معلوم ہوا تو آپ ان کے پاس آئے اور فرمایا کہ تمہیں لوگوں نے ایسا ایسا کہا ہے؟ سنو میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور متقی ہوں، لیکن میں روزے بھی رکھتا ہوں اور روزے نہیں بھی رکھتا ہوں، (رات کو) نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں، پس جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔ (صحيح البخاری: 7/ 2 , صحيح مسلم : 4/ 129)
یہاں دیکھئے کہ تینوں صحابہ کرام ﷢ نے رات میں چوری ڈکیتی اور کسی ناجائز کام کا ارادہ نہیں کیا تھا، ایک نے رات بھر نماز پڑھنے کا ارادہ کیا تھا، دوسرے نے ہمیشہ دن میں روزہ رکھنے کا ارادہ کیا تھا، اور تیسرے نے عبادت کی اور سنت طرح شادی نہ کرنے اور عورتوں سے ہمیشہ علاحدگی اختیار کرنے کا ارادہ کیا تھا، مگر آپ نے اس کو بھی گوارہ نہیں کیا، کیونکہ یہ آپ ﷺ کے منہج اور سنت کا خلاف تھا۔
اتباع کتاب وسنت کی اہمیت اور بدعت کی خطرناکیوں کے بارے میں مختصراً جاننے کے بعد آئیے دیکھیں کہ عید میلاد النبیﷺ کی شرعی حیثیت کیا ہے۔
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی پوری زندگی میں کبھی عید میلاد النبی کے نام سے کوئی عید نہیں منائی ،اور نہ صحابہ کرام اور اپنی امت کو اس کا حکم دیا۔ آپ کے زمانے میں صرف دو عیدیں تھیں۔ عید الفطر اور عید الاضحیٰ ان کے علاوہ اور کوئی عید نہیں تھی، نیز اس کا ثبوت نہ تابعین وتبع تابعین ﷭ سے ہے ،نہ ائمہ اربعہ سے، یہ بھی معلوم ہے کہ اس کو مصر میں سب سے پہلے فاطمیوں نے اور بلاد الشام میں ملک المظفر نے ایجاد کیا، اس واسطے یہ دین اسلام میں اضافہ کردہ اور بدعت ہے۔ اور ہر بدعت ضلالت ہے ،اس واسطے اس سے احتراز لازم ہے۔
بہت سے لوگ اس کے جواز کے لئے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ آج دنیا کے اکثر بیشتر مسلمان اس کو مانتے ہیں اور بڑے شوق سے اس کا اہتمام اور انعقاد کرتے ہیں، مگر اہل علم کو معلوم ہے کہ شرعی امور کے ثبوت کے لئے اکثریت کوئی دلیل نہیں ہے ، بلکہ دلیل قرآن کریم اور احادیث نبویہ ہیں، اکثریت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ﴾ (الانعام :116)
اگر آپ اہل ارض کی اکثریت کی اتباع کریں گے تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے بھٹکادیں گے۔ گمراہ کردیں گے۔
اورحضرت عبد الله بن عمر ﷠ فرماتے ہیں: ”كل بِدْعَة ضَلالَة ؛ وإِنْ رآها الناس حَسَنَة“ (اعتقاد أہل السنۃ للالكائی: 1/ 92)  ہر بدعت ضلالت ہے اگرچہ لوگ اس کو اچھا سمجھیں۔ اور حسن بصری ﷫ فرماتے ہیں: اہل سنت ماضی میں بھی اقلیت میں تھے اور اب بھی اقلیت ہیں انھوں نے نہ عیش پرستوں کا ان کی عیش ہرستی میں ساتھ دیا، نہ اہل بدعت کا ان کی بدعتوں میں، انھوں نے سنتوں پر صبر کیا یہاں تک کہ اپنے رب سے جاملے( وفات پاگئے) لہذا تم لوگ اسی طرح رہو۔
بعض لوگ بدعت کی دو قسمیں کرتے ہیں، بدعت حسنہ اور بدعت سیۂ اور عید میلاد کو بدعت حسنہ قرار دیتے ہیں مگر یہ تقسیم صحیح نہیں ہے ، ابھی آپ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد پڑھ چکے ہیں: ”وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ “ (رواہ مسلم)  ہر بدعت ضلالت ہے۔
میلاد کی مجلسوں میں عموما شرکیہ اشعار پڑھے جاتے ہیں مثلاً وہ کہتے ہیں:
يا رسول اللّه غوثا و مدد
يارسول اللّه عليک المعتمد
يارسول اللّه فرج کربنا
مارأک الکرب إلّاوشرد
اے اللہ کے رسول مدد فرمائیے، آپ ہی پر ہمارا بھروسہ اور اعتماد ہے۔
یارسول اللہ ہماری مصیبتوں اور پریشانیوں کو دور فرمائیے، پریشانی آپ کو دیکھ کر ہی بھاگ جاتی ہے۔
حالانکہ اگر رسول اللہ ﷺ ایسے کلام کو سنتے تو یقیناًاس پر شرک اکبر کا حکم لگا تے۔ کیونکہ مدد صرف اللہ سے مانگی جاتی ہے، ہم سورہ فاتحہ میں ہر نماز میں کہتے ہیں :﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ(الفاتحہ :5) (اے اللہ) ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔
ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿ أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ(النمل:۶۲) مجبور جب پکارتا ہے تو اس کی پکار اور دعا کو کون قبول کرتا اور مصیبت کو دور کرتا ہے ؟
رسول اللہ ﷺ کو اللہ نے لوگوں سے یہ کہنے کا حکم دیا:﴿قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ (الاعراف:۱۸۸) آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ میں اپنے نفس کے لئے نہ نفع کا مالک ہوں اور نہ نقصان کا ، مگر جو اللہ چاہے۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وَإِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ , وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ“(مسند أحمد بن حنبل: 1/ 307 , المعجم الكبير للطبرانی : 10/ 380)  جب تم مانگو تو اللہ سے مانگو، اور جب مدد طلب کرو تو اللہ سے مدد طلب کرو۔
اکثر میلاد کی مجلسوں میں رسول اللہ ﷺ کی شان میں غلو اور تعریف میں مبالغہ آرائی سے کام لیاجاتا ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے، آپ کا ارشاد ہے: ”لاَ تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ فَقُولُوا عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُه“ (صحيح البخاری: 4/ 204)  میرے بارے میں مبالغہ آرائی نہ کرنا جیسے نصاری نے حضرت عیسی بن مریم  کے بارے میں مبالغہ آرائی کی۔ میں صرف ایک بندہ ہوں اس واسطے تم مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہنا۔
ایک حدیث میں آپ نے فرمایا: إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ ، فَإِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ الْغُلُوُّ فِي الدِّينِ“(رواه احمد:1/ 215 ، 347 ، وابن خزيمۃ: 4 /2867،2868، والنسائی: 5 /268، وابن ماجہ حديث رقم: ۳۰۲۹، والحاکم: ۱ /466 وصححہ علی شرط الشيخين ووافقہ الذہبی)  تم لوگ دین میں غلو سے بچو، کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں غلو نے ہلاک و برباد کیا۔
بعض لوگ آپ کے سلسلہ میں مبالغہ آرائی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ کو اللہ نے اپنے نور سے پیدا کیا اور پھر آپ کے نور سے ساری چیزوں کو پیدا کیا۔ جبکہ قرآن کریم سے ان کی تکذیب ہوتی ہے، سورہ کہف میں ہے: ﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ(الکہف:۱۱۰) اے نبی کہدیجئے کہ میں تو تمہارے مثل ایک بشر ہوں، میرے پاس وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک معبود (اللہ)ہے۔
یہ سب کو معلوم ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت حضرت آمنہ کے بطن سے ہوئی اور آپ کے والد عبد اللہ تھے، نیز جیسے تمام انسانوں کی ولادت ماں باپ کے ذریعہ ہوتی ہے اسی طرح آپ کی بھی ولادت ہوئی، آپ کھاتے پیتے، پیشاب پاخانہ کرتے،سوتے جاگتے، بیمار ہوتے، زخمی ہوتے، غرضیکہ انسانوں کے تمام اعمال کرتے تھے، آپ کی بیویاں بھی تھیں ، اولاد تھی، قبیلہ اور خاندان تھا ،ہاں اللہ نے آپ کو یہ شرف عطا فرمایا تھا کہ آپ نبوت و رسالت سے سرفراز تھے، بلکہ سید الانبیاء والمرسلین اور خاتم النبین وسید ولد آدم تھے، آپ کے پاس حضرت جبریل  تشریف لاتے تھے، وحی کا نزول ہوتا تھا۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پورے عالم کو محمد ﷺ کے واسطے پیدا کیا اور محمدﷺ نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ اس بارے میں ایک حدیث بیان کرتے ہیں: ”لَوْلاكَ لمَاَ خَلَقْتُ الأَفْلاكَ (سلسلۃ الأحاديث الضعيفۃ والموضوعۃ :1/ 450) جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ( الذاريات: ٥٦ ) ہم نے انسانوں اور جنات کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔
عید میلاد النبی میں عیسائیوں کی مشابہت اور نقالی ہے کیونکہ وہ حضرت عیسی  کے یوم پیدائش کو عید میلاد مناتے اور اس مناسبت سے جشن کرتے ہیں اور انھیں سے مسلمانوں نے اس بدعت کو لیا ہے۔ جبکہ یہود ونصاری اور دوسرے اقوام کی مشابہت اختیار کرنے سے رسول اللہ ﷺ منع کرتے ہوئے فرمایا:”مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ (سنن أبی داود: 4/ 78) جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انھیں میں سے ہے۔
عید میلاد النبی کے موقع پر عام طور پر مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہوتا ہے، جو حرام ہے اور اس کے کبھی کبھی بہت برے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
عید میلاد النبی کی تیاری اور سجاوٹ پر ہزاروں بلکہ لاکھوں روپئے بلا فائدہ خرچ ہوتے ہیں جو یقیناًاسراف وفضول خرچی میں داخل ہے اور حرام ہے ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ (الإسراء: ٢٧) فضول خرچی کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں۔
اسی طرح اس میں مال کی تضییع ہے جو ممنوع ہے، اور یہ رقمیں عموما کفار و مشرکین کے جیبوں میں جاتی ہیں کیونکہ تزیین و سجاوٹ کی اکثر و بیشتر چیزیں کفار و مشرکین تیار کرتے ہیں اور وہی بیچتے ہیں اور اس کا اصل فائدہ انھیں کو ملتا ہے۔
اسی طرح اس کی تیاری میں لوگوں کے قیمتی اوقات ضائع ہوتے ہیں اور کئی لوگ تو اس کی وجہ سے فرض نماز تک ضائع کردیتے ہیں۔
عیدمیلاد النبی ﷺ کے پروگرام میں آخر میں لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہوئے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لاتے ہیں قیام تعظیمی کرتے ہیں حالانکہ یہ عقیدہ سراسر باطل ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ(المؤمنون: ١٠٠) ان کے پیچھے برزخ (رکاوٹ) ہے قیامت کے دن تک ۔
اور حضرت انس ﷜ فرماتے ہیں: ”مَا كَانَ شَخْصٌ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ رُؤْيَةً مِنَ النَّبِيِّ @ ، وَكَانُوا إِذَا رَأَوْهُ لَمْ يَقُومُوا إِلَيْهِ ، لِمَا يَعْلَمُونَ مِنْ كَرَاهِيَتِهِ لِذَلِكَ“(سنن الترمذی: 5/ 90 , وقال الشيخ الألبانی : صحيح  , مسند أحمد بن حنبل: 3/ 132, و قال الشيخ شعيب الأرنؤوط : إسناده صحيح على شرط مسلم)  صحابہ کرام کے نزدیک رسول اللہ ﷺ سے زیادہ محبوب شخص کوئی نہیں تھا، مگر جب وہ آپ کو تشریف لاتے ہوئے دیکھتے تو آپ کے لئے (تعظیم میں) کھڑے نہیں ہوتے تھے، کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ رسول اللہ ﷺاس کو ناپسند فرماتے ہیں۔ اور بعض روایتوں ہیں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ: لاَ تَقُومُوا كَمَا تَقُومُ الأَعَاجِمُ يُعَظِّمُ بَعْضُهَا بَعْضًا‘‘ (انظر مسند احمد:۵؍۲۵۳،وابوداود:۵؍۳۹۸]۵۲۳۰]) جیسے عجمی لوگ ایک دوسرے کی تعظیم میں کھڑے ہوتے ہیں اس طرح تم لوگ کھڑے نہ ہوا کرو ۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم محبت رسول میں یہ عید مناتے ہیں اور آپ کی سیرت مبارکہ کو پڑھتے اور سنتے ہیں۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ کی اصل محبت آپ کی اتباع میں ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ (آل عمران: ٣١ ) اے نبی آپ لوگوں سے کہدیجئے کہ اگر تمہیں اللہ سے محبت ہے تو میری اتباع کرو، اللہ تم کو اپنا محبوب بنالے گا۔
نیز رسول سے محبت کا یہ طریقہ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام ﷢ و اسلاف سے ثابت نہیں، اس واسطے غلط ہے۔ پھر آپ ﷺ کی محبت تو ہر مومن کے دل میں ہمیشہ رہنی چاہئے اور ہمیشہ آپ کی سیرت کا مطالعہ اور سننے کا اہتمام کرنا چاہئے ۔ آپ کی محبت موسمی نہیں کہ صرف ۱۲؍ربیع الاول میں اس کا اظہار عید میلاد النبی مناکر کیا جائے۔ اور بس!
پھربعض روایتوں کے مطابق آپ کی ولادت ۹ ؍ ربیع الاول کو ہوئی، جبکہ لوگ عید میلاد النبی ۱۲؍ربیع الاول کو مناتے ہیں، اب غور کیجئے کہ جس دن آپ کی ولادت ہوئی ہے اس دن خوشی نہ منانا بلکہ جس دن آپ کی وفات ہوئی ہو اس دن خوشی منانا کس قدر غلط ہے، کیا دنیا کا کوئی عقلمند اپنی کسی محبوب و محترم شخصیت کی وفات کے دن خوشیاں مناتا ہے؟ اس کو عید کا دن قرار دیتا اور جشن کا اہتمام کرتا ہے؟ اور اگر کوئی ایسا کرے تو کیا اسے محبت کی دلیل مانا جاتا ہے یا عداوت یا نفرت کی؟
دوسری روایت کے بموجب آپ کی ولادت ۱۲؍ ربیع الاول کو ہوئی، مگر اسی دن آپ کا انتقال بھی ہوا ہے، اس واسطے اس دن حزن و ملال اور غمی کے بجائے خوشی منانے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے، کیونکہ دونوں چیزیں برابر اور ایک ساتھ ہیں اور بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی واسطے آپ کی ولادت اور موت کو ایک ہی دن رکھا ہے تا کہ لوگ اس دن نہ عید میلاد النبی منائیں اور نہ اسے غمی اور سوگ کا دن قرار دیں اور ماتمی پروگرام کریں۔
علاوہ ازیں اس موقع پر سیرت کے بیان کے نام پر بہت سی موضوع و من گھڑت روایتیں اور بے سروپا واقعات پیش کئے جاتے ہیں جو یقیناًغلط اور باعث گناہ ہے، ارشادنبوی ہے: ”كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ “ (صحيح مسلم : 1 /8)  آدمی کے جھوٹ کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات کو بیان کرے، اور رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:  ”مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ (صحيح البخاری : 2/ 102) جس نے میرے سلسلہ میں عمدا کذب بیانی کی اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔
عید میلاد النبیﷺ کا یہ پروگرام عموما رات میں کافی دیر تک چلتا ہے جس کی وجہ سے اکثر شرکاء کی نماز فجر چھوٹ جاتی ہے، جو یقیناًغلط اور بہت بڑا گناہ ہے۔ کتاب وسنت اور عقل ونقل کی روشنی میں عید میلاد النبی کی یہ حیثیت ہے، اس کی یہ حقیقت اور اس کے یہ نقصانات ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی روشنی میں ہمیں حق سمجھنے کی توفیق عطا فرماتے، اور شاہراہ کتاب وسنت اور سلف صالحین کے طریقے پر چلائے اور بدعات ومحدثات سے محفوظ رکھے۔ آمین

هناك تعليق واحد:

  1. بارك الله في علمك وعملك وعمرك. كتبت مدللا ومحققا. حفظنا الله جميعا من البدعات والخرافات.

    ردحذف