الثلاثاء، 8 فبراير 2011

رؤیت ہلال واختلاف مطالع اور پورے عالم اسلام کی رویت میں وحدت ویگانگت کے شرعی امکانات


رؤیت ہلال واختلاف مطالع
 اور
 پورے عالم اسلام کی رویت میں وحدت ویگانگت
 کے
 شرعی امکانات


 تالىف

ڈاکٹر فضل الرحمن المدنی
جامعہ محمدیہ منصورہ، مالیگاؤں





الحمد لله رب العالمين , والصلاة والسلام علی سيد المرسلين ، نبينا محمد وعلیٰ اٰله واصحابه أجمعين , امابعد!
عالی جناب صدرمجلس ،معزز علماء کرام وعمائدین ملت اوردیگر حاضرین!پاکوڑ ، صوبہ جھارکھنڈ کے اس آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس میں خطباء و مقررین حضرات کے گرا نقدر موضوعات پر خطابات اور تقریروں کے ساتھ متعدد اہم موضوعات (جیسے رویت ہلال و اختلاف مطالع اور پورے عالم اسلام کی رویت میں وحدت و یگانگت کے شرعی امکانات ، شےئر وبیمہ انشورنس :مسائل اور شرعی حیثیت، جدید طبی ایجادات اور اسلامی احکام ، دارالقضاء کا قیام اہمیت وامکانات ،امن عالم اور اسلام ) پر علماء وباحثىن کو مقالات پیش کر نے کا مکلف کیا گیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ذمہ داران جماعت اور کانفرنس کا اہتمام کرنے والے حضرات کو ان سلگتے ہوئے موضوعات کی اہمیت اور علمائے کرام کے تحقیقات اور علمی آراء کی روشنی میں ان کے حل کرنے کی ضرورت کا احساس ہے،اور اس کے لئے وہ بڑے اخلاص کے ساتھ کوشاں ہیں، اللہ تعالیٰ انھیں اجر جزیل سے نوازے، ان کی پر خلوص کوششوں کو کامیابیوں سے ہمکنار کرے اور ان مسائل میں حق کو واضح کر کے امت اسلامیہ کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے،آمین ۔
ناچیز کو مقالہ کے لئے جو عنوان دیا گیا ہے وہ ہے: “ رؤیت ہلال واختلاف مطالع اور پورے عالم اسلام کی رویت میں وحدت ویگانگت کے شرعی امکانات
اختلاف مطالع اور ایک جگہ کی رویت کو پوری دنیا کے لئے معتبر ماننے کا مسئلہ یوں توبہت قدیم اختلافی مسئلہ ہے ،مگر ایک عرصہ سے تقریبا دور دراز کے ممالک میں اختلاف مطالع اور ایک بلد کی رویت کو بلاد بعیدہ کے لئے غیر معتبر ماننے پر شبہ اتفاق ہوگیا تھا۔لیکن افسوس کہ کچھ سالوں سے پھر رہ رہ کر یہ مسئلہ ابھر نے اور علماء و عوام کے درمیان بحث ومباحثہ کا موضوع بننے لگا ہے، حتی کہ سال گذشتہ بعض مقامات پر سوڈان وغیرہ بعض ممالک میں رویت کی خبر پر کچھ لوگوں نے پہاں پر رویت ہلال کے ثبوت کے بغیر عام لوگوں سے ایک روز قبل نماز عید اداکی ۔جس سے یہ مسئلہ از سر نو اہمیت کا حامل، قابل توجہ اور لائق بحث وتحقیق ہوگیا۔
سطور ذیل میں ہم نے اس کے چند نکات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔
اسلام ایک عالم گیر دین ہے : اہل علم سے مخفی نہیں کہ اسلام ایک عالمگیر دین ہے اور ہماے رسول حضرت محمد  صلى الله عليه وسلم کی بعثت پوری دنیا والوں کے لئے تھی، ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا کَافَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْراً وَنَذِیْرا   (سبأ: ٢٨) ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے بشیر ونذیر بنا کر مبعوث کیا ہے، دوسری جگہ ارشاد ہے : قُلْ یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّیْ رَسُولُ اللّہِ إِلَیْکُمْ جَمِیْعا (الأعراف: ١٥٨) آپ کہہ دیجئے :اے لوگو میں تم سب کی جانب اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ، ایک جگہ فرمایا : وَأَرْسَلْنَاکَ لِلنَّاسِ رَسُولاً وَکَفَی بِاللّہِ شَہِیْدا (النساء :۷۹) اور ہم نے آپ کو (تمام ) لوگوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا اور اللہ کی گواہی کافی ہے ،ایک اور جگہ فرمایا:وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ (الأنبياء: ١٠٧) ہم نے آپ کو تمام کائنات والوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث کیا ، اور ایک طویل حدیث میں رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: “ وَكَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً (صحيح البخاري : 1/ 91 , صحيح مسلم : 2/ 63)  پہلے نبی کی بعثت خاص اس کی قوم کی جانب ہوتی تھی ، اور مجھے عام لوگوں کی جانب مبعوث کیا گیا ہے ۔
اس واسطے اسلامی احکام کے مخاطبین میں شہروں ، دیہاتوں، پہاڑوں کی چوٹیوں اور جنگلی علاقوں میں رہنے والے ہر قسم کے لوگ ہیں ، اس کے مخاطب وہ لوگ بھی ہیں جن کے پاس اخبارات ،ریڈیو ، ٹی وی، اور انٹرنیٹ وغیرہ ذرائع ابلاغ کی سہولتیں ہیں اور وہ لوگ بھی ہیں جو ان سہولتوں سے محروم ہیں اور اپنی تاریخو ں ، اوقات صلاۃ، صوم رمضان اور عیدوں وغیرہ کے سلسلہ میں شمس و قمر کے طلوع ، غروب ، زوال اورصبح صادق وغیرہ کے بالکل فطری طریقوں پر اعتماد کرتے ہیں ، اور وہ لوگ بھی ہیں جو علم نجوم اور سائنس و فلکیات کے ماہر ہیں ۔ اس واسطے اسلام نے اپنے احکام وفرامین میں سب کی رعایت کی ہے ۔
اسلامی احکام آسان اور سب کے لئے قابل عمل ہیں:اسلام نے ایک عالم گیر دین ہونے کی حیثیت سے اپنے احکام کی بنیاد ایسے امور پر رکھی ہے جو سب کے لئے آسان ہیں، اور جن پر عمل کرنا سب کے لئے ممکن ہے ، اور ایسی چیزوں پر کسی حکم کو موقوف نہیں کیا ہے جن کے لئے ایسے آلات ومشینوں کی ضرورت ہو جو عام لوگوں کے دسترس سے باہر ہوں یا جنہیں عام لوگ استعمال نہ کرسکتے ہوں, چنانچہ اوقات صلاۃ کے لئے طلوع فجر ،زوال آفتاب ،سایہ کا ایک مثل ہونا،غروب شمس اور غروب شفق وغیرہ مقرر کیا ہے۔ جن کا ادراک وعلم عام لوگوں کے لئے بھی آسان ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے : أَقِمِ الصَّلاَۃَ لِدُلُوکِ الشَّمْسِ إِلَی غَسَقِ اللَّیْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہُودا ( الإسراء: ٧٨ ) نماز قائم کرو آفتاب کے ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک ، اور فجر کے وقت قرآن پڑھنا ، یقیناًفجر کے وقت کا قرآن پڑھنا فرشتوں کے حاضر ہونے کا وقت ہے ۔
اس آیت کریمہ میں آفتاب کے ڈھلنے کے بعد سے ظہر اور عصر کی نمازیں اور رات کی تاریکی تک سے مغرب اور عشاء کی نمازیں مراد ہیں ،اور“ قرآن الفجر” سے مراد فجر کی نماز ہے، قرآن نماز کے معنی میں ہے، اس کو قرآن سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ فجر میں قرأت لمبی ہوتی ہے، اس طرح اس آیت میں پانچوں فرض نمازوں کا اجمالی ذکر آگیا ہے۔
اور رسو ل اللہ  صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے :“ وَقْتُ الظُّهْرِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ وَكَانَ ظِلُّ الرَّجُلِ كَطُولِهِ مَا لَمْ يَحْضُرِ الْعَصْرُ وَوَقْتُ الْعَصْرِ مَا لَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ وَوَقْتُ صَلاَةِ الْمَغْرِبِ مَا لَمْ يَغِبِ الشَّفَقُ وَوَقْتُ صَلاَةِ الْعِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ الأَوْسَطِ وَوَقْتُ صَلاَةِ الصُّبْحِ مِنْ طُلُوعِ الْفَجْرِ مَا لَمْ تَطْلُعِ الشَّمْسُ فَإِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ فَأَمْسِكْ عَنِ الصَّلاَةِ فَإِنَّهَا تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَىْ شَيْطَانٍ (صحيح مسلم : 2/ 105)
یعنی ظہر کا وقت زوال شمس سے شروع ہوتا ہے اور اس وقت تک رہتا ہے جب تک کہ آدمی کا سایہ اس کی لمبائی کے برابر نہ ہوجائے اور عصر کا وقت نہ آجائے اور عصر کا وقت اس وقت تک رہتا ہے جب تک کہ سورج زرد نہ ہوجائے ، اور مغرب کی نماز کا وقت اس وقت تک رہتا ہے جب تک کہ شفق غائب نہ ہوجائے اور عشاء کی نماز کا وقت آدھی رات تک رہتا ہے اورصبح کی نماز طلوع فجر سے شروع ہوتا ہے اور اس وقت تک رہتا ہے جب تک کہ سورج نہ نکل آئے ، اور جب سورج طلوع ہو رہا ہو تو اس وقت نماز پڑھنے سے رکے رہو کیونکہ وہ  (سورج) شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان نکلتا ہے ۔
اور حضرت بریدہ   رضى الله عنهسے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم سے نماز کے اوقات کے بارے میں پوچھا تو آپ نے اس سے فرمایا : تم ان دودنوں میں ہمارے ساتھ نمازیں پڑھو ( تاکہ ہمارے عمل سے تمہیں اوقات نماز کا علم ہوجائے ) اور پھر    ( پہلے دن ) سورج کے ڈھلتے ہی آپ نے حضرت بلال  رضى الله عنه کو (اذان دینے کا) حکم دیا اور انھوں نے اذان دی ۔ پھر ان کو اقامت کہنے کا حکم دیا ، اور انھوں نے نماز ظہر کی اقامت کہی ، پھر انہیں حکم دیا اور انہوں نے ( پہلے اذان دی اور پھر اقامت کہہ کر ) عصر کی نماز کھڑی کی ، اس وقت سورج بلند ، صاف ،چمکدار تھا  ( زرد نہیں ہوا تھا ) پھر جوں ہی سورج غروب ہوا آپ نے انہیں حکم دیا اور انھوں نے (اذان اور تکبیر کے بعد) مغرب کی نماز کھڑی کی ، پھر اس وقت جب کہ شفق غائب ہوگئی آپ نے ان کو حکم دیا اور (اذان اور اقامت کے بعد) انھوں نے عشاء کی نماز کھڑی کی ، اور پھر اس وقت جبکہ فجر طلوع ہوئی آپ نے انھیں حکم دیا اور انھوں نے ( اذان اور تکبیر کہہ کر ) فجر کی نماز کھڑی کی ۔ الخ (صحيح مسلم : 2/ 105)
اس طرح زوال آفتاب ، سایہ ایک مثل ،غروب آفتاب ،غیبوبت شفق،اورطلوع فجر وغیرہ کے ذریعے اوقات نماز کی ابتدا و انتہا کی تعیین فرمائی ، جو پوری دنیا کے مسلمان خواہ کہیں بھی رہتے ہوں ، اور ان کے پاس ریڈیو ، ٹی وی، ٹیلی فون اور انٹرنیٹ وغیرہ وسائل ابلاغ موجود ہوں یا نہ ہوں ، اور وہ پڑھے لکھے اور علم نجوم سے واقف ہوں یا نہ ہوں سب آسانی کے ساتھ معلوم کر سکتے ہیں ، کیونکہ سورج پوری دنیا میں چمکتا ہے، اور ہر آدمی اس کے زوال وغروب وغیرہ کے ذریعہ بآسانی ان اوقات کو معلوم کرسکتا ہے ۔ نیز غروب شفق اور طلوع فجر کا معلوم کرنا بھی مشکل نہیں ۔
برسوں کی گنتی،اورحج کے لئے شمس وقمراور رویت ہلال کافطری نظام : اسی طرح برسوں کی گنتی، حج کے ایام اور ماہ رمضان کے ثبوت اور اس کے روزہ کی ابتداء اور پھر ماہ شوال کی ابتداء اورعید کے لئے شمس و قمر کا نظام، رؤیت ہلال کا فطری اور سیدھا سادہ اصول بتایا  ، جس کا جاننا اور اس کے مطابق عمل کرنا تمام مسلمانوں کے لئے آسان ہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَاء وَالْقَمَرَ نُوراً وَقَدَّرَہُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُواْ عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللّہُ ذَلِکَ إِلاَّ بِالْحَقِّ (يونس:5)
وہ اللہ ہی ہے جس نے سورج کو ضیاء ،اور چاند کو نور بنایا اور اس کے لئے منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرلیا کرو، اللہ نے یہ چیزیں بے فائدہ نہیں پیدا کیں ۔
نیزفرمایا :   یَسْأَلُونَکَ عَنِ الأہِلَّۃِ قُلْ ہِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ (البقرة :۱۸۹) لوگ آپ سے چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں ، کہہ دیجئے کہ یہ لوگوں کے لئے وقت جاننے اور حج کے ایام معلوم کرنے کا ذریعہ ہے۔
صوم رمضان اور عید کے لئے رؤیت ہلال یا تیس دن کی تکمیل کا اعتبار: رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے صوم رمضان کی ابتداء اور انتہاء کے سلسلہ میں فرمایا : صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلاَثِينَ (صحيح البخاري: 3/ 34 , صحيح مسلم : 3/ 124 ، من حديث ابي هريرة)  یعنی چاند دیکھ کر روزہ رکھناشروع کرو اور چاند دیکھ کر ہی افطار یعنی روزہ رکھنا بند کرو اور اگر تمہارے اوپر بدلی ہوجائے (اورچاند نظر نہ آئے ) تو شعبان کے مہینہ کوتیس دن کا قرار دو ۔
اور ایک دوسری حدیث میں فرمایا: “لاََ تَصُومُوا حَتَّى تَرَوُا الْهِلاَلَ ، وَلاَ تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ (صحيح البخاري: 3/ 34) رمضان کے روزے نہ رکھو یہاں تک کہ تم چاند دیکھ لو ،  اور روزے رکھنا بند نہ کرو یہاں تک کہ اسے دیکھ لو، پھر اگر ابر یا گرد غبار وغیرہ کے سبب سے چاند نظر نہ آئے تو ( اس مہینے کو تیس دن کا مانو)
اور ایک روایت میں ہے : “الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَيْلَةً فَلاَ تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْهُ فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا الْعِدَّةَ ثَلاَثِينَ (صحيح البخاري : 3/ 34, صحيح مسلم : 3/ 122, من حديث ابن عمر)  یعنی مہینہ کبھی انتیس رات کا ہوتا ہے اس لئے جب تک چاند نہ دیکھ لو رمضان کے روزے نہ رکھو، پھر اگر انتیس تاریخ کو ابر وغیرہ ہو اور چاند نظر نہ آئے تو تیس دن پورے کرو یعنی شعبان کو تیس دن کا سمجھو۔
ان حدیثوں سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ صوم رمضان اور عید میں اصلاً یا تو ا نتیس تاریخ کو رؤیت ہلال کا اعتبار ہوگا یا پھر تیس دن مکمل کرنے کے بعد روزہ رکھنا شروع کریں گے,یا عید منائیں گے۔
اسی واسطے رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم اور صحابہ کرام چاند دیکھنے کا بڑا اہتمام کرتے تھے ، اور مذکورہ بالا اصول کے مطابق ہی روزے رکھتے تھے ، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : يَتَحَفَّظُ مِنْ شَعْبَانَ مَا لاَ يَتَحَفَّظُ مِنْ غَيْرِهِ ثُمَّ يَصُومُ لِرُؤْيَةِ رَمَضَانَ فَإِنْ غُمَّ عَلَيْهِ عَدَّ ثَلاَثِينَ يَوْمًا ثُمَّ صَامَ (سنن أبي داود محقق وبتعليق الألباني: 2/ 269، وقال الألباني : اسناده صحيح )  یعنی رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم شعبان کے دنوں کو جس قدر احتیاط اور توجہ سے شمار کرتے اور یاد رکھتے تھے اس قدر توجہ کسی اور مہینے پر مبذول نہیں فرماتے تھے ، پھر آپ رمضان کا چاند دیکھ کر روزہ رکھتے تھے ، اوراگر انتیس کو مطلع ابر آلود ہوتا  ( اور چاند کی رؤیت ثابت نہیں ہوتی ) تو تیس دن پورے کرنے کے بعد روزہ رکھنا شروع کرتے تھے۔
اور حضرت ابن عمر رضى الله عنہما سے مروی ہے : “ تَرَاءَى النَّاسُ الْهِلاَلَ فَأَخْبَرْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنِّى رَأَيْتُهُ فَصَامَهُ وَأَمَرَ النَّاسَ بِصِيَامِهِ (سنن أبي داود محقق وبتعليق الألباني:2/ 274, سنن الدارمي: 2/9) لوگ چاند دیکھنے کے لئے جمع ہوئے پھر میں نے رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم کو خبر دی کہ میں نے چاند دیکھا ہے تو آپ نے روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
اور حضرت ابوالبختری رحمہ الله فرماتے ہیں کہ( ایک مرتبہ)ہم لوگ عمرہ کرنے کی غرض سے نکلے, جب ہم بطن نخلہ میں پہونچے تو چاند دیکھنے کے لئے ایک جگہ اترے ( چاند نظر آنے کے بعد ) بعض لوگوں نے کہا کہ یہ تیسری شب کا چاندہے اور بعض نے کہا :یہ دوسری شب کا ہے ،پھر ہماری ملاقات حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہوئی تو ہم نے ان سے کہا کہ ہم نے چاند دیکھا تو بعض لوگوں نے کہا کہ یہ تیسری شب کا ہے اور بعض نے کہا کہ یہ دوسری شب کا ہے ، انہوں نے فرمایا :تم لوگوں نے اسے کس رات کو دیکھا ہے ؟ ہم نے کہا: اس اس طرح کی رات کو ، پھر انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے رمضان کی مدت کو چاندکے دیکھنے پر موقوف کیا ہے ، لہٰذا چاند اسی رات کا ہے جس رات کو تم لوگوں نے اسے دیکھا ہے، اور ایک روایت میں ہے کہ ہم نے ذات عرق میں رمضان کا چاند دیکھا ، پھر ایک آدمی کو حضرت ابن عباس رضى الله عنہما کی خدمت میں ان سے یہ پوچھنے کے لئے بھیجا کہ یہ چاند کس رات کا ہے ؟ تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے : اللہ تعالیٰ نے اسے دیکھنے تک دراز کیا ہے لہٰذا اگر (انتیس تاریخ کو ) مطلع ابر آلود ہو تو گنتی پوری کرو ( یعنی شعبان کے تیس دن پورے کرو اور اس کے بعد رمضان کے روزے رکھو ) (صحيح مسلم : 3/ 127)
اور جامع ترمذی میں مذکور ایک حدیث میں ہے : “ لاَ تَصُومُوا قَبْلَ رَمَضَانَ ، صُومُوا للِرُؤْيَة ، وَأَفْطِرُوا للِرُؤْيَة ، فَإِنْ حَالَتْ دُونَهُ غَيَايَةٌ فَأَكْمِلُوا ثَلاَثِينَ يَوْمًا (سنن الترمذي  : 3/ 72)  رمضان سے قبل روزہ نہ رکھو، چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر ہی روزہ رکھنا بند کرو اور اگر اس کی رؤیت میں بدلی وغیرہ حائل ہوجائے تو تیس دن مکمل کرو۔
اور حضرت طلق بن علی  رضى الله عنه سے روایت ہے کہ نبی  صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : “ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَ هَذِهِ الأَهِلَّةَ مَوَاقِيتَ لِلنَّاسِ ، صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ ، وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَتِمُّوا الْعِدَّةَ ( مجمع الزوائد:3/145) یعنی اللہ تعالیٰ نے چاند کو اوقات معلوم کرنے کا ذریعہ بنایاہے، اس کو دیکھ کر روزہ رکھناشروع کرو، اور اس کو دیکھ کر روزہ رکھنا بند کرو ،اور اگر تمہارے اور چاند کے درمیان ابر حائل ہوجائے تو تیس دن کی مدت پوری کرو۔
ان تمام آیات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صوم رمضان اور عید کا دار ومدار چاند کے نظر آنے پر ہے اور اس کے چھوٹا بڑا ہونے کا اعتبار نہیں ، اور اگر انتیس کو ابر وغیرہ کی بنا پر چاند نظر نہ آئے تو تیس دن مکمل کرنے کے بعد روزہ رکھیں گے یا عید منائیں گے ۔
کیا جنتری کے نیو مون کا اعتبار ہوگا؟:مذکورہ بالا حدیثوں میں عید اور صوم رمضان کو رؤیت ہلال پر موقوف کیا گیا ہے، آسمان میں نئے چاند کی ولادت یا چاند کے نئے چکر کے آغاز پر نہیں،مگر آج بعض علماء کا یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ ماہ نو کے آغاز اور صوم رمضان وعید کے لئے رویت ہلال کا نہیں بلکہ چاند کے نئے چکر کے آغاز جسے اصطلاح میں نیو مون (New moon)یا ولادۃ الہلال کہا جاتا ہے کا اعتبار کیا جائے گا,لیکن قرآن کریم اور احادیث نبویہ کی روشنی میں یہ رجحان صحیح نہیں معلوم ہوتا ، قرآن کریم میں ہے :   یَسْأَلُونَکَ عَنِ الأہِلَّۃِ قُلْ ہِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ (البقرة:۱۸۹) لوگ آپ سے ہلال کے بارے میں پوچھتے ہیں ،کہو یہ لوگوں کے لئے اوقات اور حج کی تعیین کا ذریعہ ہے۔
اور ہلال چاند کی اس ابتدائی شکل کو کہتے ہیں جو آسمان پر دکھائی دیتی ہے ، فلکی چاند(New Moon) جو دکھائی نہیں دیتا اس کو ہلال نہیں کہتے ہیں اور احادیث میں بھی صوم رمضان وعیدکو رویت ہلال پر موقوف کیا گیا ہے ، ہلال کی ولادت یاچاند کے نئے چکر کے اغاز پر نہیں ، چنانچہ “ صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ ، وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ  وغیرہ کہا ہے “ صوموا لولادة الهلال في السماء  وغیرہ نہیں ، اور نیو مون اس قابل نہیں ہوتا کہ کوئی اسے دیکھ سکے ۔ مولانا شمس پیر زادہ فرماتے ہیں :
“چاند اپنی گردش ۲۹ دن ۱۲ گھنٹے ۴۴ منٹ اور ۳ سکنڈ میں پوری کر کے سورج سے جاملتا ہے ۔چاند اور سورج کا یہ اجتماع قران (Conjunction)کہلاتا ہے ۔اس وقت چونکہ چاند کے اس رخ پر جس کو ہم دیکھتے ہیں سورج کی روشنی نہیں پڑتی اس لئے وہ بالکل تاریک ہوتاہے اور اس قابل نہیں ہوتا کہ کوئی اسے دیکھ سکے ،یہ قران ایک لحظہ کے لئے ہوتا ہے اور پوری دنیا کے لئے اس کا وقت ایک ہی ہوتا ہے البتہ ہر ملک کے لئے وہاں کے وقت کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے ، مثال کے طور پر اگر ممبئی میں شام کے سات بجے قران ہورہا ہو تو اس وقت سعودی عرب میں شام کے ساڑھے چار بج رہے ہوں گے ، مصر میں دوپہر کے ساڑھے تین ، لندن میں دوپہر کے ڈیڑھ ، واشنگٹن میں صبح کے ساڑھے آٹھ ، انڈونیشیا میں رات کے نو اور جاپان میں رات کے ساڑھے دس بج رہے ہوں گے۔قران کے بعد چاند سورج کے مغربی جانب سے مشرقی جانب گردش کرنے لگتاہے اور جیسے ہی اس کی نئی گردش کا آغاز ہوتاہے سورج کی شعائیں اس پر پڑنے لگتی ہیں ، فلکی( (Astronomical اصطلاح میں اسے نیو مون( New Moon) ىعنی نئے چاند سے تعبیر کیا جاتا ہے ،نیو مون ا س قابل نہیں ہوتا کہ اسے کوئی دیکھ سکے ,البتہ سورج سے اس کا فاصلہ بڑھ جاتا ہے تو وہ دیکھنے کے قابل ہوجاتا ہے بالعموم وہ ہلال کی صورت میں دوسرے دن ہی دکھائی دیتا ہے ,لیکن اگر صبح کو نیو مون ہواتو کم از کم آٹھ گھنٹے گذر جانے پر شام کے وقت بعض ممالک میں اس کے دکھائی دینے کا کسی قدر امکان ہوتا ہے، چاند ایک دن میں سورج سے ۱۲ڈگری فاصلہ طے کرتا ہے یعنی ایک گھنٹہ میں نصف ڈگری اور چاند سورج سے ۴ ڈگری یعنی ۸ گھنٹے کے فاصلے سے کم ہوتو اس کا دکھائی دینا نا ممکن ہے ،کیونکہ سورج سے قریب ہونے کی وجہ سے اس کی تیز شعائیں نگاہ کو متاثر کر دیتی ہیں اور جیسے جیسے یہ فاصلہ بڑھتا جاتا ہے رویت کا امکان بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ جب فاصلہ ۱۰ ڈگری سے زیادہ ہو جاتا ہے یعنی ۲۰ گھنٹے گزر چکے ہوتے ہیں تو اس کے دکھائی دینے کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں”۔ (رویت ہلال کا مسئلہ اور اس کا حل:۲۴۔۲۵)
بلکہ دقت نظر سے کام لیا جائے تو احادیث کے الفاظ “ا غمى عليکم ” “غمي عليکم ” “غم عليکم” سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ممکن ہے کہ چاند افق پر موجود ہو لیکن ابر وغیرہ کی وجہ سے نظر نہیں آیا تو بھی رمضان کا ثبوت نہیں ہوگا ، اور تیس کی گنتی پوری کی جائے گی،الایہ کہ دوسرے قریبی شہر سے رویت کی قابل اعتماد خبر ملے۔جیسا کہ ابو عمیر بن انس نے اپنے بعض چچاؤں سے جو صحابہ کرام میں سے ہیں روایت کیا ہے کہ سواروں کی ایک جماعت نے نبی  صلى الله عليه وسلم کے پاس آکر گواہی دی کہ انھوں نے کل چاند دیکھا ہے تو رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ روزہ افطار کردیں اور کل صبح نماز عید کے لئے عید گاہ جائیں ۔(رواہ ابودواد والنسائی وقال الالبانی : سندہ صحیح ، مشکاۃ :۱؍۴۵۵،رقم الحدیث :۱۴۵۰)
بہر حال آیات و احادیث سے رؤیت ہلال کی اہمیت روز روشن کی طرح عیاں ہے، اور ان سے صاف طور سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف آلات و مشینوں پر اعتماد کرکے یا حسابی قواعد اور علم نجوم وہيئت کے اصولوں سے ہلال کا اثبات اور کیلنڈر وجنتری پر بھروسہ کرنا درست نہیں ،بلکہ حساب اور علم نجوم کے قواعد کو اثبات ہلا ل اور صوم عید کی مشروعیت کے لئے حدیث میں غیر معتبر قرار دیا گیا ہے ۔ چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : “ إِنَّا أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ لاَ نَكْتُبُ وَلاَ نَحْسُبُ الشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا - وَعَقَدَ الإِبْهَامَ فِى الثَّالِثَةِ - وَالشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا ». يَعْنِى تَمَامَ ثَلاَثِينَ (صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 3/ 35 ,صحيح مسلم : 3/ 123) ہم امی قوم ہیں ،حساب کتاب نہیں جانتے ،کبھی مہینہ اتنا اور اتنا اور اتنا ہوتا ہے اورتیسری مرتبہ ایک انگوٹھے کو بند کر لیا ، پھر فرمایا :(کبھی) مہینہ اتنا اور اتنا اور اتنا ہوتا ہے ، یعنی پورے تیس دن کا ، آپ کا مطلب یہ تھا کہ کبھی مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے اور کبھی تیس دن کا ہوتا ہے۔
اس کی شرح میں حافظ ابن حجر رحمہ الله فرماتے ہیں : “ وإنما بالغ في البيان بما ذكر مع الإشارة المذكورة ليبطل الرجوع إلى ما عليه الحساب والمنجمون (مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح : 6/ 436)  اشارہ مذکورہ کے ساتھ جو ذکر کیا ہے اس سے بیان میں مبالغہ کیاہے تاکہ حساب اور نجومیوں کے قواعد کا ابطال فرمائیں ۔
اور ملا علی قاری رحمہ الله فرماتے ہیں : “ان العمل علی ما يعتاده المنجمون ليس من هدينا وسنتنابل علمها يتعلق برؤية الهلال ، فانا نراه مرة تسعا وعشرين ومرة ثلاثين” اہل نجوم کے طریقہ پر عمل کرنا ہم مسلمانوں کا طریقہ اور سنت نہیں ۔ بلکہ اس کا علم رؤیت ہلال سے متعلق ہے ، چنانچہ ہمیں کبھی وہ انتیس کو نظر آتا ہے اور کبھی تیس کو ۔ اور رابطہ علم اسلامی مکہ مکرمہ کی مجلس المجمع الفقہی الاسلامی نے بھی اپنی قراداد میں اثبات ہلال کے لئے رویت ہی کو معتبر قرار دیا ہے اور فلکی حساب کو غیر معتبر (ملاحظہ ہو: قرارت مجلس المجمع الفقہی الاسلامی : ۶۶ )
نیز فضیلۃ الشیخ عزت مآب جناب عبد اللہ بن حمید سابق رئیس المجلس العالی للقضاء نے بھی فلکی چاند کے اعتبار کے سختی کے ساتھ تردید کی اور اس سلسلہ میں ایک رسالہ بنام : “ تبيان الادلة في اثبات الاهلة لکھ کر شائع فرمایا۔
رؤیت ہلال سے مراد اور اختلاف مطالع:ان احادیث سے یہ بات تو قطعی طورپر متحقق ہوگئی کہ صوم رمضان اور عید کے لئے رؤیت ہلال کا اعتبار کیا جائے گا اور اگر انتیس تاریخ کو رؤیت نہیں ہوئی تو پھر تیس دن مکمل کرنے کے بعد روزہ رکھنا شروع کریں یا عید منائیں گے ۔لیکن رؤیت ہلال سے کیا مراد ہے؟بعض احادیث جیسے “ لاََ تَصُومُوا حَتَّى تَرَوُا الْهِلاَلَ  اور “ صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ ” وغیرہ کے ظاہر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمام مخاطبین کی رؤیت شرط ہے، لیکن دوسرے دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ صوم رمضان کے لئے ایک عادل مسلمان کی رؤیت اور شہادت اور عید کے لئے کم از کم دو عادل اور ثقہ مسلمانوں کی شہادت کافی ہے۔ اور بالاجماع تمام مخاطبین کی رؤیت شرط نہیں ہے۔(مرعاۃ المفاتیح :۶؍۴۲۴) میں حدیث ابن عمر: “ لاََ تَصُومُوا حَتَّى تَرَوُا الْهِلاَلَ ” کی شرح میں ہے : “ان ظاهره اشتراط رؤية الجميع من المخاطبين لکن قام الاجماع علی عدم وجوب ذلك ، بل المراد رؤية بعضهم
اسی طرح بظاہر ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رؤیت ہلال کے وقت سے ہی روزہ رکھیں گے اور عید کا چاند نظر آتے ہی روزہ افطار کردیں گے مگر یہ بھی مراد نہیں ہے ، بلکہ اگلے دن صبح صادق سے روزہ رکھنا، اور ہلال عید ہو تو سورج غروب ہونے کے بعد افطار کرنا مراد ہے ، قال الحافظ ابن حجر: ظاهر الحديث ايجاب الصوم حين الرؤية متی وجدت ليلا او نهارا لکنه محمول علیٰ صوم اليوم المستقبل
اسی طرح بہت سے اہل علم نے ان احادیث سے یہ سمجھا ہے کہ جب کسی بھی جگہ کے مسلمان چاند دیکھ لیں اور وہاں رؤیت ثابت ہوجائے تو ایک جگہ رؤیت کے ثابت ہونے سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے روزہ رکھنا یا عید منانا واجب ہوجاتا ہے ،اس لئے کہ جیسے اس جگہ یا شہر کے تمام مسلمانوں کا دیکھنا شرط نہیں ہے اور بعض عادل مسلمانوں کے دیکھنے سے ہی پورے شہر کے لوگوں کے لئے رؤیت ثابت ہوجاتی ہے اسی طرح ایک جگہ رؤیت ثابت ہونے سے تمام بلاد کے لئے رؤیت مانی جائے گی ، اور سب مسلمانوں پر روزہ رکھنا یا عید کرنا واجب ہوجائے گا ،اور ہر جگہ رؤیت کا ہونا شرط نہیں۔
یہ حنفیہ، مالکیہ اور حنابلہ کا مشہور مذہب ہے، اور شافعیہ کے یہاں بھی ایک قول ہے، اور ان کی دلیل حدیث : صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ ، وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ وغیرہ ہے ،  یہ حضرات اس کا معنی یہ بتاتے ہیں کہ نہ روزہ رکھو یہاں تک کہ تمہارے درمیان رؤیت ثابت اور متحقق ہوجائے اور جب ایک شہر میں رؤیت متحقق ہوگئی تو تمام شہروں کے مسلمانوں کے لئے رؤیت متحقق ہوگئی اس واسطے سب پر روزہ رکھنا واجب ہوگا۔
مگر محققین علماء نے اس معنی کو تسلیم نہیں کیا ، اور کہا کہ اس میں خطاب مخصوص لوگوں کے لئے ہے ، اس واسطے ان کے علاوہ لوگوں کے لئے یہ حکم لازم نہیں ہوگا ۔اور انھوں نے قریب اور بعید کے شہروں میں فرق کیا ، بلکہ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے تو اس پر اجماع نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں : “ واجمعوا علی انه لا تراعیٰ الرؤية فيما بعد من البلاد کخراسان والاندلس (فتح الباري:4/123) لوگوں کا اجماع ہے کہ دور دراز ملکوں جیسے خراسان اوراندلس کی رؤیت کا اعتبار نہیں ہو گا ۔
اسی طرح علامہ ابن رشد رحمہ الله نے بھی اس پر اجماع نقل کیا ہے ، چنانچہ وہ فرماتے ہیں : واجمعوا انه لا يراعي ذلك في البلدان النائية کالاندلس والحجاز(بداية المجتهد:۱؍۲۸۸) اور اس پر اجماع ہے کہ اس کی رعایت دور دراز کے شہروں جیسے اندلس اور حجاز میں نہیں کی جائے گی ۔
بظاہر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علماء میں یہ اختلاف کہ ایک شہر کی رؤیت دوسرے شہر والوں کے لئے معتبر ہوگی یا نہیں قریبی شہروں کے سلسلہ میں ہے ، اور دور دراز کے شہروں میں اختلاف مطالع کے اعتبار پر اتفاق ہے کیونکہ اس سے قبل انہوں نے اس مسئلہ میں کہ اگر ایک شہر کے لوگ چاند نہ دیکھیں تو وہ دوسرے شہر والوں کی رویت کا اعتبار کریں گے یا ہر شہر کی رؤیت اسی شہر والوں کے لئے ہوگی ،اس میں امام مالک سے دوروایتیں نقل کی ہیں۔
ایک یہ کہ جب کسی شہر کے لوگوں کے نزدیک ثابت ہوجائے کہ دوسرے شہر کے لوگوں نے چاند دیکھا ہے تو جس دن کا روزہ انہوں نے نہیں رکھا ہے اس کا روزہ قضاء کرنا پڑے گا ،اس کی روایت ان سے ابن القاسم اور مصریوں نے کی ہے ، اور اسی کے قائل امام شافعی رحمہ الله و احمد رحمہ الله بھی ہیں ۔اور دوسری روایت یہ ہے کہ جس شہر میں رویت واقع ہوئی ہے اس کے علاوہ دوسرے شہروں کے لئے خبر سے رویت ثابت اور لازم نہیں ہوگی ،ا لاّ یہ کہ امام لوگوں کو اس پر مجبور کرے اس کی ر وایت امام مالک سے ان کے مدنی تلامذہ نے کی ہے، اور اس کے قائل ابن الماجشون اور اصحاب مالک میں سے مغیرہ ہیں ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اختلاف قریبی شہروں کے بارے میں ہے ، دور کے شہروں کے بارے میں نہیں ۔ بلکہ دور کے شہروں میں اختلاف مطالع کا اعتبار کرنا متفق علیہ ہے۔
اس کی تائید ووضاحت امام ابن تیمیہ رحمہ الله کے اس قول سے بھی ہوتی ہے : “ مسألة رؤية بعض البلاد رؤية لجميعها فيها اضطراب ، فانه قد حکی ابن عبد البر الاجماع علی ان الاختلاف فيما يمکن اتفاق المطالع فيه ، فاما ما کان مثل الاندلس وخراسان فلا خلاف انه لا يعتبر (مجموع فتاوی ابن تيمية :25/ 103) یعنی بعض بلاد کی رویت کا تمام بلاد کے لئے رویت ہونے کے مسئلہ میں اضطراب اور اختلاف ہے اور ابن عبد البر رحمہ الله نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ یہ اختلاف ان بلاد کے بارے میں ہے جن میں اتفاق مطالع ممکن ہے ، رہے وہ بلاد کہ جن میں یہ ممکن ہی نہیں جیسے اندلس اورخراسان تو ان کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس کا اعتبار نہیں ہو گا۔
پھر اس کا تذکرہ کیا جو امام احمدرحمہ الله نے ایک شہر کی رؤیت کو دوسرے شہر کے لئے معتبر قرار دینے کے لئے اس اعرابی کی حدیث پر اعتماد کیا جس نے گواہی دی کہ اس نے کل رات چاند دیکھا ہے اور پھر آپ نے اس رؤیت کی بنا پر لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا ، حالانکہ وہ رؤیت دوسری جگہ کی تھی اور امکان ہے کہ وہ مسافت قصر سے زیادہ دوری پرنہ رہی ہو مگر آپ نے تفصیل نہیں پوچھی ، پھرفرمایا کہ یہ استدلال ابن عبد البر رحمہ الله کی ذکر کردہ بات کے منافی نہیں ہے ۔ (کیونکہ یہ اس صورت میں تھا جس میں اتفاق مطالع ممکن ہے)
اسی طرح الاختیارات الفقہیۃ (ص۱۰۶) میں فرماتے ہیں : “ تختلف المطالع باتفاق اهل المعرفة بهذا ، فان اتفقت لزمه الصوم والا فلا ، وهو الأصح للشافعية ، وقول في مذهب احمد
باتفاق اہل معرفت مطالع کا اختلاف ہے، چنانچہ اگر مطلع ایک ہی ہے توروزہ لازم ہوگا ، ورنہ نہیں ،یہی شافعیہ کا اصح اور مذہب احمد میں بھی ایک قول ہے ۔
امام ابن تیمیہ کی عبارت سمجھنے میں غلطی: علامہ ابن تیمیہ رحمہ الله کی مذکورہ بالا باتوں سے معلوم ہوا کہ بعض لوگوں نے جو ان کے اس قول سے کہ : “ فالضابط ان مدار هذا الأمر علی البلوغ لقوله : صوموا لرؤيته , فمن بلغه انه رؤی ثبت في حقه من غير تحديد بمسافة اصلا (مجموع فتاوی :25 /107) یہ سمجھا ہے کہ مطلق ضابطہ یہ ہے کہ ایک شہر کی رویت دوسرے شہر کے لئے معتبر ہوگی جب اس رویت کی خبر دوسرے شہر تک ایسے وقت میں پہونچ جائے، جس میں روزہ، یا عید کی ادائیگی ہو سکے اور اگر اس کے بعد پہونچے تو اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ اور آج چونکہ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور انٹر نیٹ وغیرہ کے ذریعہ ہر جگہ اتنے وقت میں رؤیت کی خبر پہنچ سکتی ہے کہ ہر جگہ کے لوگ اپنے یہاں وقت پر روزہ رکھ سکتے ہیں اور عیدکر سکتے ہیں ، اس واسطے اب ایک جگہ کی رؤیت کو پوری دنیا کے لئے رؤیت مان کر سب کو ایک ہی دن روزہ رکھنا اور ایک ہی دن عید منانا چاہئے۔ ان کا یہ فہم بالکل غلط ہے ،اور علامہ ابن تیمیہ  رحمہ الله کا مقصد یہ ہر گز یہ نہیں ہے ،بلکہ صرف یہ اس صورت کے لئے ہے جب ان شہروں کا مطلع ایک ہو اور آسانی سے پیدل یا ان کے دور کی سواریوں سے کسی جانے والے کے ذریعہ ایسے وقت میں رؤیت کی خبر اور اطلاع پہنچ جائے جس میں روزہ یا عید کی ادائیگی ہوسکے، اور یہ واضح طور پران کی عبارت : “ وهذا يطابق ما ذکره ابن عبد البر في ان طرفی المعمورة لا تبلغ الخبر فيهما الا بعد شهر فلا فائده فيه الخ (25/107) اور “ الأشبه انه ان رؤي بمکان قريب ، وهو مايمکن ان يبلغهم خبره في اليوم الاول فهو کما لو رؤي في بلدهم ولم يبلغهم ، واما اذا روی بمکان لا يمکن وصول خبره اليهم الا بعد مضی الاول فلاقضاء عليهم ، لأن صوم الناس هو اليوم الذي يصومونه ، ولا يمکن ان يصوموا الااليوم الذی يمکنهم فيه رؤية الهلال الخ (25/106) سے معلوم ہوتا ہے ۔
اور مولانا شبیر احمد عثمانی نے فتح الملہم شرح صحیح مسلم (۳؍۱۳) میں اور مولانا برہان الدین سنبھلی نے اپنے رسالہ ’’رویت ہلال کا مسئلہ‘‘میں ابن رشد رحمہ الله کے نقل اجماع کو صرف مالکی فقہا ء کے اجماع پر محمول کیا ہے ، اور علامہ شوکانی رحمہ الله نے جو ابن رشد رحمہ الله کے نقل اجماع کو چیلنج کیا ہے اور کہاہے کہ اجماع کی یہ حکایت درست نہیں اس کی تردید کی اور کہا کہ علامہ ابن رشد رحمہ الله کے کلام کو سیاق وسباق سے ملا کر غور سے پڑھا جائے تو واضح ہوجائے گا کہ انھوں نے وہ اجماع امت نہیں بلکہ صرف مالکی فقہاء کا اجماع نقل کیا ہے۔
بہر حال چاہے امام ابن عبد البررحمہ الله اور علامہ ابن رشد رحمہ الله کے نقل اجماع کو بلاد بعیدہ کی رؤیت پر محمول کریں یا فقہاء مالکیہ کے اجماع پرمحمول کریں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بلاد بعید ہ کے مطالع ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ، آج لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ سورج کے طلوع و غروب ، زوال سایہ ایک مثل ، اسی طرح طلوع صبح صادق ،وغیرہ میں مختلف شہروں میں دوری اور قربت کے اعتبار سے کم و بیش فرق ہوتا ہے، اسی طرح چاند کے نکلنے اور نظر آنے میں بھی فرق ہوتا ہے ۔
مذاہب اربعہ کے محققین علماء قریب و بعید شہروں کی رویت میں فرق کے قائل: محققین علماء مالکیہ وحنابلہ کی طرح محققین علماء حنفیہ وشافعیہ بھی قریب و بعید شہروں میں فرق تسلیم کر تے ہیں، چنانچہ علامہ نووی رحمہ الله  اسی کو شوافع کا صحیح قول بتاتے ہوئے فرماتے ہیں : “اذا رأوا الهلال في رمضان في بلد ولم يروه في غيره فان تقارب البلدان فحکمهما حکم بلد واحد، ويلزم اهل البلد الآخر الصوم بلا خلاف ، وان تباعدا فوجهان مشهوران في الطريقتين ،’’اصحهما ‘‘لا يجب الصوم علی أهل البلد الآخر ، وبهذا قطع المصنف والشيخ ابو حامد والبندنيجي وآخرون ، وصححه العبدري والرافعي والاکثرون ( والثاني ) يجب ، وبه قال الصيمري وصححه القاضي ابوطيب والدارمي وابوعلي السنجي وغيرهم.  واجاب هولاء عن حديث کريب عن ابن عباس انه لم يثبت عنده رؤية الهلال في بلد آخر بشهادة عدلين ، والصحيح الاول (المجموع:6/226)
جب ایک شہر میں لوگ رمضان کا چاند دیکھیں اور دوسرے میں نہ دیکھیں تو اگر یہ شہر قریب قریب ہوں تو ان کا حکم ایک شہر کا حکم ہوگا ، اور بلا خلاف دوسرے شہر کے لوگوں پرروزہ رکھنا لازم ہوگا ،اور دونوں شہر دوری پر ہوں تو دو مشہور صورتیں ہیں ، ان میں اصح یہ ہے کہ دوسرے شہر والوں پر روزہ رکھنا واجب نہیں ہوگا ، اسی کوقطعیت کے ساتھ مصنف ( علامہ شیرازی)،شیخ ابو حامد ،بندنیجی اور دوسروں نے کہا ہے ، اور اسی کو عبدری ، رافعی اور اکثر لوگوں نے صحیح قرار دیا ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ دوسرے شہر والوں پر روزہ رکھنا واجب ہوگا۔ اس کے قائل صیمری ہیں اور اسے قاضی ابو طیب ،دارمی اور ابو علی السنجی وغیرہ نے صحیح قرار دیا ہے اور ان لوگوں نے کریب عن ابن عباس کی حدیث کا جواب یہ دیا ہے کہ ان کے نزدیک دو عادل گواہوں کی شہادت سے دوسرے شہر میں رویت ہلال ثابت نہیں ہوئی۔ اور صحیح پہلی صورت ہے۔
اور صحیح مسلم کی شرح میں فرمایا:“ وَالصَّحِيح عِنْد أَصْحَابنَا أَنَّ الرُّؤْيَة لَا تَعُمّ النَّاس ، بَلْ تَخْتَصُّ بِمَنْ قَرُبَ (شرح النووي على مسلم : 4/ 60) اور ہمارے اصحاب کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ ایک جگہ کی رویت تمام لوگوں کے لئے نہیں ہوگی ، بلکہ یہ د وقریب کے شہروں کے ساتھ خاص ہے ۔
محققین حنفیہ میں فخرالدین عثمان بن علی الزیلعی شرح کنز الدقائق میں فرماتے ہیں : “ واکثر المشايخ علی انه لا يعتبر باختلاف المطالع ، والأشبه ان يعتبر ، لأن کل قوم مخاطبون بما عندهم ، وانفصال الهلال عن شعاع الشمس يختلف باختلاف الاقطار، کما أن دخول الوقت وخروجه يختلف باختلاف الاقطار ، حتی اذا زالت الشمس في المشرق لا يلزم فيه ان تزول في المغرب ، وکذا طلوع الفجر وغروب الشمس ، بل کلما تحرکت الشمس درجة فتلك طلوع فجر لقوم، وطلوع شمس لآخرين ، وغروب لبعض، ونصف ليل لغيرهم.......والدليل علی اختلاف المطالع ما روی عن کريب ( تبین الحقائق شرح کنزالدقائق:۱؍۳۲۱،بحوالہ رویت ہلال کا مسئلہ :ص۸۶۔۸۸)
اکثر مشایخ کا مسلک ہے کہ اختلاف مطالع کا اعتبار نہ کیا جائے ، اور اشبہ (اقرب الی الحق )یہ ہے کہ اس کا اعتبار کیا جائے کیونکہ ہر قوم اسی حکم کی مخاطب ہوتی ہے جس کا سبب اس کے یہاں متحقق ہو، اور سورج کی شعاع سے ہلال کا انفصال مختلف مقامات پر بدلتا رہتا ہے ( ہر جگہ یکساں نہیں رہتا )جس طرح (نماز کے ) وقت کا معاملہ ہے کہ مختلف جگہ مختلف ساعات میں آتاہے ، حتی کی اگر مشرق میں سورج ڈھل جائے تومغرب میں اسی وقت ڈھلنالازم نہیں ہوتا، اسی طرح طلوع فجر اور غروب شمس کا معاملہ ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب سورج ایک درجہ حرکت کرتا ہے تو وہ کسی خطہ کے لوگوں کے لئے طلوع فجراور کسی قوم کے لئے طلوع شمس کی نوید ہوتی ہے اور اسی ساعت میں دوسری جگہ سورج غروب ہورہا ہوتا ہے ، اور کہیں آدھی رات کا سماں ہوتاہے........ اس کے علاوہ اختلاف مطالع کی اصل دلیل حضرت کریب رحمہ الله والی حدیث ہے۔
اور علامہ علاؤ الدین کاسانی رحمہ الله فرماتے ہیں : “ وَلَوْ صَامَ أَهْلُ بَلَدٍ ثَلَاثِينَ يَوْمًا وَصَامَ أَهْلُ بَلَدٍ آخَرَ تِسْعَةً وَعِشْرِينَ يَوْمًا فَإِنْ كَانَ صَوْمُ أَهْلِ ذَلِكَ الْبَلَدِ بِرُؤْيَةِ الْهِلَالِ وَثَبَتَ ذَلِكَ عِنْدَ قَاضِيهمْ ، أَوْ عَدُّوا شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ يَوْمًا ثُمَّ صَامُوا رَمَضَانَ فَعَلَى أَهْلِ الْبَلَدِ الْآخَرِ قَضَاءُ يَوْمٍ لِأَنَّهُمْ أَفْطَرُوا يَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ لِثُبُوتِ الرَّمَضَانِيَّةِ بِرُؤْيَةِ أَهْلِ ذَلِكَ الْبَلَدِ ، وَعَدَمُ رُؤْيَةِ أَهْلِ الْبَلَدِ لَا يَقْدَحُ فِي رُؤْيَةِ أُولَئِكَ ، إذْ الْعَدَمُ لَا يُعَارِضُ الْوُجُودَ ، وَإِنْ كَانَ صَوْمُ أَهْلِ ذَلِكَ الْبَلَدِ بِغَيْرِ رُؤْيَةِ هِلَالِ رَمَضَانَ أَوْ لَمْ تَثْبُتْ الرُّؤْيَةُ عِنْدَ قَاضِيهمْ وَلَا عَدُّوا شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ يَوْمًا فَقَدْ أَسَاءُوا حَيْثُ تَقَدَّمُوا رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ .
وَلَيْسَ عَلَى أَهْلِ الْبَلَدِ الْآخَرِ قَضَاؤُهُ لِمَا ذَكَرْنَا أَنَّ الشَّهْرَ قَدْ يَكُونُ ثَلَاثِينَ وَقَدْ يَكُونُ تِسْعَةً وَعِشْرِينَ ، هَذَا إذَا كَانَتْ الْمَسَافَةُ بَيْنَ الْبَلَدَيْنِ قَرِيبَةً لَا تَخْتَلِفُ فِيهَا الْمَطَالِعُ ، فَأَمَّا إذَا كَانَتْ بَعِيدَةً فَلَا يَلْزَمُ أَحَدَ الْبَلَدَيْنِ حُكْمُ الْآخَرِ لِأَنَّ مَطَالِعَ الْبِلَادِ عِنْدَ الْمَسَافَةِ الْفَاحِشَةِ تَخْتَلِفُ فَيُعْتَبَرُ فِي أَهْلِ كُلِّ بَلَدٍ مَطَالِعُ بَلَدِهِمْ دُونَ الْبَلَدِ الْآخَرِ(البدائع والصنائع :۲؍ ۸۳)
یعنی اگر کسی شہر کے لوگوں نے تیس روزے رکھے اور دوسرے شہر کے لوگوں نے انتیس روزے رکھے تو اگر پہلے شہر کے لوگوں نے چاند دیکھنے کی وجہ سے روزہ رکھے اور وہ رؤیت ان کے قاضی کے نزدیک ثابت ہوئی ،یاانھوں نے تیس شعبان مکمل کرکے روزے رکھے تو دوسرے شہر کے لوگوں کوایک دن کا روزہ قضاء کرنا پڑے گا ، اس لئے کہ انھوں نے رمضان کے ایک دن کا روزہ نہیں رکھا ، کیونکہ رمضان کا وجود اس شہر والوں کی رؤیت سے ثابت ہوگیا ، اور اس شہر کے لوگوں کا چاند نہ دیکھنا ان لوگوں کی رؤیت میں قادح نہیں، اس لئے کہ عدم، وجود کا معارض نہیں ہوسکتا، یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ دونوں شہروں کے درمیان کی مسافت اتنی قریب ہو کہ اس میں مطلع نہ بدلتا ہو، اور اگر دونوں شہروں میں فاصلہ زیادہ ہو تو ایک شہر کا حکم دوسرے میں نافذ ہونا لازم نہیں ، اس واسطے کہ طویل مسافت پر شہروں کے مطالع بدل جاتے ہیں، چنانچہ ہر شہر والوں کے لئے ان کے شہرکے مطلع کا اعتبار ہوگا دوسری جگہ کا نہیں ۔
اسی طرح فقہ حنفی کی مشہور کتاب مراقی الفلاح میں اختلاف مطالع کا اعتبار کرنے کے بارے میں لکھا ہے : “ واختاره صاحب التجريد وغيره كما إذا زالت الشمس عند قوم وغربت عند غيرهم فالظهر على الأولين لا المغرب لعدم انعقاد السبب في حقهم (مراقي الفلاح بإمداد الفتاح شرح نور الإيضاح ونجاة الأرواح : 244)  صاحب تجرید نے اسی کو پسند کیا ہے ، جیسے کسی جگہ سورج ڈھل گیا اور دوسری جگہ سورج غروب ہوا تو پہلے مقام کے لوگوں کے لئے نمازظہر فرض ہوگی نہ کہ مغرب ، کیونکہ مغرب کا سبب ان کے حق میں پایا ہی نہیں گیا۔
اور شمس الائمہ حلوانی فرماتے ہیں: “ انه الصحيح من مذهب اصحابنا” یہی ہمارے اصحاب کا صحیح مذہب ہے۔ اسی طرح اختلاف مطالع کے اعتبار کے قائل علماء احناف میں سے مفتی ابوالسعود الطحطاوی شارح مراقی الفلاح ، النہر الفائق ،الجواہر ، تاتارخانیہ ،مختارات النوازل ، قدوری ، اور متاخرین میں سے مولانا عبد الحئی ،مولانا شبیر احمد عثمانی ،انور شاہ کشمیری ،مفتی محمد شفیع ،مفتی عتیق الرحمن ، مجلس تحقیقات شرعیہ ندوۃ العلماء لکھنوکے اراکین وغیرہ بہت سے علماء احناف ہیں ۔
ایک شہر کی رویت کو پوری دنیا کے لئے معتبر قرار دینے والوں کے دلائل:
 (۱) اس سے پہلے گزر چکا ہے کہ جو لوگ اس کے قائل ہیں کہ ایک شہر میں رؤیت ہلال ثابت ہوجائے تو اس کا اعتبار دنیا کے تمام شہروں میں کیا جائے گا ,ان کی دلیل حدیث  : “لاََ تَصُومُوا حَتَّى تَرَوُا الْهِلاَلَ ، وَلاَ تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ  فَأَكْمِلُوا الْعِدَّةَ ثَلاَثِينَ(رواہ  الموطأ - رواية يحيى الليثي : 1/ 287و الشيخان وغيرهما)  ہے ان حضرات کا کہنا ہے کہ اس میں خطاب کسی خاص جگہ والوں کے لئے نہیں ہے بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے ہے اس واسطے ایک شہر والوں کی رؤیت تمام شہروالوں کے لئے رؤیت ہوگی ۔
(۲)بعض لوگوں نے اس کی دلیل یہ پیش کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :   فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ
(البقرة: ١٨٥)  تم میں سے جو رمضان میں حاضر رہے وہ اس کے روزہ رکھے، اور ثقہ لوگوں کی شہادت سے اس دن کا رمضان میں سے ہونا ثابت ہوگیا اس واسطے تمام مسلمانوں پر اس کا روزہ رکھنا واجب ہوگا ،کیونکہ دونوں ہلال کے درمیان کے ایام کو ماہ رمضان کہا جاتاہے ۔(المغنی :۳؍۸۹)
(۳)بعض حضرات اس کے لئے یہ د لیل پیش کرتے ہیں کہ اس سے عالم اسلام میں اتفاق و اتحاد پیدا ہوگا اور مسلمانوں کے اختلافات ختم ہوجائیں گے اور اتفاق واتحاد شرعاً مطلوب ہے۔
ان دلائل کا مختصر جائزہ:
پہلی دلیل: لاََ تَصُومُوا حَتَّى تَرَوُا الْهِلاَلَ ” کے بارے میں دوسرے قول کے قائلین نے (جیساکہاپہلے گذ ر چکا ہے)یہ کہا کہ اس میں خطاب تمام مسلمانوں سے اس معنی میں نہیں کہ دنیا میں کہیں بھی ایک جگہ چاند کی رؤیت ثابت ہوجائے تو یہ پورے عالم کے تمام مسلمانوں کے لئے رؤیت مانی جائے خواہ وہاں چاند نکلنے کا امکان ہی نہ ہو ، اس لئے کہ اگر ایسا مانیں گے تو یہ لازم آئے گا کہ دنیا میں کہیں بھی سورج غروب ہوجائے تو ساری دنیا کے مسلمان افطار کر سکتے ہیں ، خواہ ان کے یہاں ابھی سورج نکلا ہوا ہو۔اسی طرح اگر ایک جگہ صبح صادق ہوجائے تو ساری دنیا کے مسلمان کے لئے روزہ کا وقت شروع اور کھانا پینا حرام ہوجائے گا ۔ اسی طرح اگر ایک جگہ زوا ل آفتاب ہوگیا تو ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے ظہر کی نماز کا وقت مان لیا جائے گا چاہے کہیں صبح صادق یا طلوع آفتاب کا وقت ہی کیوں نہ ہو ، اسی طرح کہیں بھی سورج غروب ہوجائے تو ساری دنیا کے مسلمان مغرب کی نماز پڑھ سکتے ہیں خواہ کہیں دن ہو اور کہیں آدھی رات، کیونکہ ان سب کے دلائل میں خطاب عام مسلمانوں سے ہے جیسے : وَکُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّواْ الصِّیَامَ إِلَی الَّلیْلِ (البقرة: ١٨٧)  اورحدیث  :“ إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ مِنْ هَاهُنَا وَأَدْبَرَ النَّهَارُ مِنْ هَاهُنَا وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ (صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 3/ 46 , صحيح مسلم : 3/ 132)
نیز رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : “ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر روزہ رکھنا بند کرو”  اورجہاں کسی نے چاند ہی نہیں دیکھا  اور اختلاف مطالع کی وجہ سے وہاں دیکھا بھی نہیں جا سکتا ان کوکسی طرح یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے چاند دیکھا ہے ،نہ حقیقۃً اور حکماً ۔
اسی طرح    فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ (البقرة: ١٨٥) سے استدلال بھی محل نظر ہے ، اس واسطے کہ جہاں کے لوگوں نے نہ چاندکا مشاہدہ کیا اور نہ دیکھنے والوں کے مطلع میں ہی موافق ہیں ان کو کسی طر ح یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس دن وہ رمضان میں حاضر اور ا س کا مشاہدہ کرنے والے تھے ۔نیز حدیث : “ لاََ تَصُومُوا حَتَّى تَرَوُا الْهِلاَلَ ” اور آیت کریمہ:    فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ  کا مفہوم حضرت کریب کی حدیث اور حضرت ابن عباس رضى الله عنہما وغیرہ کے عمل کی رو شنی میں سمجھنا چاہئے۔ مطلقا نہیں ۔
جہاں تک اس سے اتحاد و اتفاق کے پیدا ہونے کی بات ہے تو ظاہر ہے کہ اگر عید کرنے اور روزہ رکھنے کے دن میں اتفاق ہو بھی گیا تو وقت میں تو اتفاق نہیں ہو سکتا ، کیونکہ جس وقت مشرق میں عید کی نماز ہوگی اس وقت مغرب میں نہیں ہوسکتی ، اورجس وقت سے اہل مشرق روزہ رکھنا شروع کریں گے یا افطار کریں گے اس وقت مغرب والے نہ روزہ رکھ سکیں گے اور نہ افطار کر سکیں گے ، تو صرف دن میں اتفاق سے کیا فائدہ ؟ اس سے اگر مسلمانوں میں اتفاق واتحاد پیدا ہونے لگتا اور ان کے اختلافات ختم ہوجاتے تو پنجوقتہ اور نماز جمعہ میں دن کے اتفاق سے سارے اختلافات ختم ہوجاتے اور سارے مسلمان سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہوتے ۔
علاوہ ازیں جب تک علماء کرام اور مسلم حکام اس مسئلہ پر متفق نہیں ہونگے مسلمانوں میں اس سے اتفاق کے بجائے اور اختلاف ہوگا۔
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ جس طرح چھوٹی عید یعنی جمعہ کا دن ساری دنیا میں ایک دن ہوتا ہے اسی طرح بڑی عید (عید الفطر اور عید الاضحی) بھی ایک ہی دن ہونا چاہئے ،مگر یہ حضرات بھول جاتے ہیں کہ بڑی عید رویت ہلال پر موقوف ہے ،جو پوری دنیا میں ایک ساتھ نہیں ہوتی ہے ، اور چھوٹی عید رؤیت ہلال پر موقوف نہیں ہے بلکہ اس کی آمد سورج کے غروب سے ہوتی ہے جو پوری دنیا میں ہر روز ہوتا ہے ،اگر چہ آگے پیچھے ہو۔
علاوہ ازیں یہ ضروری نہیں کہ پوری دنیا میں جمعہ کی نماز ایک ہی دن پڑھی جاتی ہو ،کیونکہ مشرق ومغرب کے بعض علاقوں میں اوقات میں لگ بھگ بارہ گھنٹوں کا فرق ہوتا ہے ، چنانچہ مغرب میں جب بعض مقامات پر جمعہ کی نماز ہورہی ہوتی ہے تو مشرق میں اس وقت بعض علاقوں میں سورج غروب ہوچکا ہوتا اور دوسری تاریخ اور نیا دن شروع ہوچکا ہوتاہے ، اس واسطے یہ کہنا محل نظر ہے کہ ساری دنیا میں جمعہ کی نماز ایک ہی دن ہوتی ہے،ورنہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ساری دنیا میں عید کی نماز بھی ایک ہی دن اور تاریخ میں ہوتی ہے، یعنی عید کے دن اور پہلی شوال کو۔
مکہ کی رویت کے اعتبار کے قائلین اور ان کے دلائل کا جائزہ :کچھ دنوں سے بعض حضرات دنیا میں کہیں بھی چاند نظر آنے سے ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے روزہ رکھنا یا عید منانا واجب قرار دینے کے بجائے صرف مکہ مکرمہ کی رویت کا اعتبار کرنے کی دعوت دینے لگے ہیں ،اور کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ  رضى الله عنه کی ایک صحیح حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے (اہل مکہ کو خطاب کرتے ہوئے ) فرمایا : “ الصَّوْمُ يَوْمَ تَصُومُونَ وَالْفِطْرُ يَوْمَ تُفْطِرُونَ وَالأَضْحَى يَوْمَ تُضَحُّونَ (سنن الترمذي :کتاب الصوم ، ماجاء في الصوم يوم تصومون ،  3/80 , حديث رقم:697 )  روزہ (تمام عالم اسلام میں بشرطیکہ وہاں رؤیت ہلال کی خبر یا بادل چھا جانے کی صورت میں شعبان کے تیس روز پورے ہوجانے کی خبر وجوب امساک کے وقت سے پہلے پہونچ جائے)اس دن سے ہوگا جس دن تم لوگ ( اہل مکہ ) روزہ رکھنا شروع کرو گے اور (اسی طرح تمام عالم اسلام میں) اس دن سلسلہ روزہ توڑا جائے گا جس دن تم لوگ روزہ توڑو گے ، نیز (تمام عالم اسلام میں )قربانی اس دن کی جائے گی جس دن (دسویں ذی الحجہ تا آخری ایام تشریق) تم لوگ قربانی کرو گے۔
مگرجب ہم سنن ترمذی کی محولہ بالا حدیث کودیکھتے ہیں تو اس میں اہل مکہ کو خطاب کر کے کہنے اور تمام عالم اسلام میں ایک ہی دن روزہ رکھنے اورافطارو قربانی کرنے کی بات کہیں نہیں ملتی ، بلکہ اس میں اس کے برخلاف امام ترمذی رحمہ الله کا قول اس حدیث کی تشریح میں اس طرح ہے: “ وَفَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ هَذَا الْحَدِيثَ فَقَالَ إِنَّمَا مَعْنَى هَذَا أَنَّ الصَّوْمَ وَالْفِطْرَ مَعَ الْجَمَاعَةِ وَعُظْمِ النَّاسِ یعنی بعض اہل علم نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے کہا ہے کہ روزہ اور افطار جماعت اور لوگوں کی اکثریت کے ساتھ ہوگا۔ اور “ الجماعۃ ” “وعظم الناس” عام ہے جو ہر جگہ کی جماعت اور اکثریت کو شامل ہے، صر ف مکہ مکرمہ کی جماعت اور اکثریت کے لئے خاص نہیں ہے ۔ اورسنن ترمذی کی مشہور شرح تحفۃ الاحوذی (۲؍۳۷) میں اس حدیث کے معنی کے سلسلہ میں خطابی کا قول نقل کیا ہے اور اسے معالم السنن میں بھی دیکھا جاسکتا ہے،کہ اس حدیث کا معنی یہ ہے اجتہادی امور میں لوگوں سے غلطی ہوجائے تو معاف ہے ، چنانچہ اگرکسی گروہ نے کوشش کی مگر انہیں انتیس کا چاند نظر نہیں آیا اس واسطے انہوں نے روزہ رکھنا بند نہیں کیا یہاں تک کہ تیس کی عددمکمل کرلی ، پھر ثابت ہوا کہ مہینہ در اصل انتیس کا ہی تھا تو ان کا روزہ اور افطار دونوں صحیح ہیں ، ان پر کوئی گناہ یاملامت نہیں، اسی طرح حج کے بارے میں بھی ہوگا جب یوم عرفہ کے پانے میں ان سے غلطی ہوجائے ، تو ان کے اوپر دوبارہ حج کرنا واجب نہیں ہوگا ۔
اور منذری نے تلخیص السنن میں فرمایا:’’ کہ اس کے معنی کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس میں اس بات کی جانب اشارہ ہے کی جانب کہ شک کے دن احتیاطا روزہ نہیں رکھا جائے گا ، بلکہ جس دن عام مسلمان روزہ رکھیں گے اسی دن روزہ رکھا جائے گا، اور ایک قول یہ ہے کہ اس میں ان کی تردید ہے جو کہتے ہیں کہ جو شخص منازل قمر کا حساب لگا کر چاند کا نکلنا جان جائے اس کے لئے اس کی وجہ سے روزہ رکھنا یا افطار کرنا جائز ہے اور جو نہ جانے اس کے لئے جائز نہیں ۔ اور ایک قول یہ ہے کہ جب ایک شخص نے چاند دیکھا مگر اس کی شہادت کو قاضی نے ردکردیا تو جیسے دوسرے لوگ روزہ نہیں رکھیں گے اسی طرح یہ بھی نہیں رکھے گا ، اور امام شوکانى رحمہ الله نے نیل الاوطار میں اس کو نقل کرنے کے بعد فرمایا : کہ آخری قول کی جانب محمد بن حسن شیبانی گئے ہیں چنانچہ انھوں نے کہا کہ چاند کی رؤیت میں منفرد شخص کے حق میں روزہ اور حج کے بارے میں دوسرے لوگوں کاحکم متعین ہوگا اور اسی کے مثل عطا اور حسن بصری سے بھی مروی ہے ، اور اس بارے میں جمہور کا اختلاف ہے ، ان کا کہنا ہے کہ اگر اسے اس پر اگر یقین ہوتو اس کے لئے اپنی رویت کا حکم متعین ہوگا،اور حدیث کی تشریح انھوں نے خطابی کی طرح کی ہے ۔اور حدیث کے معنی کے سلسلے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ ا س میں اس بات کی خبر دی گئی ہے کہ لوگ کئی پارٹیوں میں بٹ جائیں گے ،اور نبوی طریقہ کی مخالفت کریں گے ،چنانچہ ایک گروہ حساب پر عمل کرے گااور ایسے لوگوں کی ایک جماعت موجودہے ، اور ایک گروہ روزہ اور وقوف عرفہ لوگوں سے پہلے کرے گا ، اور یہ لوگ اسی کو اپنا شعار بنا لیں گے ،اور یہ باطنیہ ہیں، اور نبوی طریقہ پر وہ جماعت ہو گی جو ہمیشہ حق پر قائم رہے گی ، حدیث میں لفظ “ الناس” سے یہی جماعت مراد ہے ، اور یہی سواد اعظم ہے اگر چہ اس کی تعداد کم ہو۔
دیکھئے کہ ا ن ائمہ کرام میں سے کسی نے بھی اس حدیث میں مخاطب صرف اہل مکہ کو نہیں بتا یاہے ؟ پھر ہم کس دلیل کی بنا پر اس کے مخاطب صرف اہل مکہ کو مان کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ روزہ اورعید بلکہ ہر قمری ماہ کی ابتدء کے لئے اہل مکہ کی رویت معتبر ہوگی ۔ کیا رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں کبھی خاص مکہ مکرمہ کی رویت معلوم کرنے کا اہتمام اور اس کا اعتبار کیاہے؟ کیا خلفائے راشدین کے عہد مبارک اور صحابہ کرام وتابعین عظام کے خیر القرون میں اس کا اعتبار کیا جاتا تھا؟ اگر نہیں تو پھر کس بنیاد پر پوری دنیا کے لئے اس کی رویت کو معتبر قرار دیا جاسکتا ہے؟
یہاں یہ بات بھی ذکر کر دینا مناسب معلوم ہوتا کہ حضرت ابن عباس رضى اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ حضرت جبریل          نے میری امامت دومرتبہ بیت اللہ کے پاس کی چنانچہ انھوں نے پہلے دن مجھے ظہر کی نماز اس وقت پڑھائی جب آفتاب ڈھل گیا اور ( سایہ اصلی ) جوتا کے فیتے کے برابر ہوگیا ،اور عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ہوگیا اور مغرب کی نماز اس وقت پڑھائی جب روزہ دار نے افطار کیا اور عشاء کی نماز اس وقت پڑھائی جب شفق غائب ہوگیا اور فجر کی نماز اس وقت پڑھائی جب روزہ دار کے لئے کھانا پینا حرام ہوگیا ،پھر دوسرے دن ظہر کی نماز اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ہوگیا اور عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب سایہ دو مثل ہوگیا اور مغرب کی نماز اس وقت پڑھائی جب روزہ دار نے افطار کیا اورعشاء کی نماز اس وقت پڑھائی  جب 1/3 رات ہوگئی اور فجر کی نماز پڑھائی تو اسفارکیا۔پھر میری جانب ملتفت ہوئے اور فرمایا:اے محمد! یہ آپ سے پہلے کے انبیاء  (علیہم السلام) کا وقت ہے اور (ہر نماز کا )وقت انھیں دونوں وقتوں کے درمیان ہے ۔ (رواہ ابوداود والترمذی وقال حدیث حسن صحیح ،وصححہ الحاکم والذھبی وغیرھم وقال الالبانی: اسنادہ حسن لذاتہ و صحیح لغیرہ (مشکاۃ ۱؍۱۸۵)
غور فر مائیے کہ حضرت جبریل         نے بیت اللہ کے پاس دو دن رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم کی نماز میں امامت ان کی اول وآخر وقتوں میں کی اور پھر فرمایا کہ یہ آپ کے پہلے انبیاء کا وقت ہے اور ہر نماز کا وقت انھیں دونوں وقتوں کے درمیان ہے ۔مگر آج کوئی اس کا قائل نہیں کہ پورے عالم اسلام کے لئے اوقات صلاۃ میں مکہ مکرمہ کے اوقات صلاۃ کا اعتبار کیا جائے گا کیونکہ اگر ایساکرنے لگیں تو دوسرے مقامات کے مسلمانوں کی ایک نماز بھی حدیث میں بتائے گئے وقت پر نہیں ہوگی ۔پھر ہر مہینہ کی ابتداء و انتہا کے لئے مکہ مکرمہ کی رویت کے اعتبار کا کیا تُک ہے جبکہ اس کے بارے میں کوئی حدیث بھی نہیں ہے ۔اور حضرت ابوہریرہ  رضى الله عنه  کی جو حدیث پیش کی گئی ہے اس میں لوگوں کو عید ،روزہ اور قربانی مسلمانوں کی جماعت اور اکثریت کے ساتھ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور شذوذ اور علیحدگی سے منع کیا گیا ہے ،جبکہ اس قول پر عمل کرنے سے اس حدیث کی مخالفت اور جماعت المسلمین سے علیحدگی ہورہی ہے ۔
دوسرے قول کے دلائل:
پہلی دلیل: عَنْ كُرَيْبٍ أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ قَالَ فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا وَاسْتُهِلَّ عَلَىَّ رَمَضَانُ وَأَنَا بِالشَّامِ فَرَأَيْتُ الْهِلاَلَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِى آخِرِ الشَّهْرِ فَسَأَلَنِى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ - رضى الله عنهما - ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلاَلَ فَقَالَ مَتَى رَأَيْتُمُ الْهِلاَلَ فَقُلْتُ رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ. فَقَالَ أَنْتَ رَأَيْتَهُ فَقُلْتُ نَعَمْ وَرَآهُ النَّاسُ وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ. فَقَالَ لَكِنَّا رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ فَلاَ نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلاَثِينَ أَوْ نَرَاهُ. فَقُلْتُ أَوَلاَ تَكْتَفِى بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ فَقَالَ لاَ هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. (صحيح مسلم: 3/ 126 ,سنن أبي داود محقق وبتعليق الألباني : 2/ 271 , سنن الترمذي : 3/ 76 , سنن النسائي  بأحكام الألباني : 4/ 131 , مسند أحمد بن حنبل 1/ 306)
حضرت کریب رحمہ الله فرماتے ہیں کہ مجھے ام الفضل بنت الحارث نے حضرت معاویہ  رضى الله عنهکے پاس شام بھیجا ،میں وہاں گیا اور ان کا کام پورا کیا ، اور وہیں رمضان کا چاند نظر آگیا ،میں نے جمعہ کی رات میں چاند دیکھا ، جب مہینہ کے آخر میں مدینہ آیا تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے پوچھا : تم لوگوں نے کب چانددیکھا ؟ میں نے کہا جمعہ کی رات کو ، انہوں نے کہا : تم نے خود دیکھا تھا ؟  میں نے کہا : ہاں ، اور بہت سے لوگوں نے دیکھا اور اسی کے مطابق انھوں نے روزہ رکھااور حضرت معاویہ  رضى الله عنه نے بھی روزہ رکھا ، حضرت ابن عباس رضى اللہ عنہما نے فرمایا :ہم لوگوں نے تو سنیچر کی رات کو چاند دیکھا ہے اس لئے ہم برابر روزہ رکھتے رہیں گے یہاں تک کہ تیس دن مکمل کریں گے یا انتیس کو چاند دیکھ لیں گے ، میں نے کہا : کیا آپ حضرت معاویہ  رضى الله عنه کی رؤیت اور ان کے روزے کا اعتبار نہیں کریں گے ؟ انہوں نے فرمایا: نہیں ، ہمیں یہی رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے حکم دیا ہے ۔
یہ حدیث اس مسئلہ میں صریح ہے کہ ایک شہر کی رؤیت دور دراز کے شہروں کے لئے معتبر نہیں ہوگی ، بلکہ ایک شہر کی رؤیت اس کے لئے یا زیادہ سے زیادہ ان شہروں کے لئے معتبر ہوگی جن کامطلع اس کے مطلع کے مو افق ہے اگر چہ وہاں چاند نظر نہیں آیاکیونکہ اس کی وجہ دیکھنے والوں کی کوتا ہی یا ابر وغیرہ ہوگی ورنہ حقیقۃً وہاں چاند موجود تھا اور وہاں کے لوگ بھی چاند دیکھنے والوں کے حکم میں ہوں گے۔
حضرت کریب کی حدیث پر ایک اشکال اور اس کے جوابات :بعض حضرات کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضى الله عنہما  نے کریب کی خبر کو اس لئے ر د کردیا کہ یہ خبر واحد تھی ، مگر یہ بات درست نہیں ، کیونکہ :
اولا:  حضرت کریب رحمہ اللہ نے صرف خبر نہیں بلکہ شہادت دی کہ میں نے چاند دیکھا ہے،اور ہلال رمضان کے ثبوت کے لئے ایک عادل مسلمان کی شہادت کافی ہے، جیسا کہ حضرت ابن عمر رضى اللہ عنہما کی حدیث : “ تَرَاءَى النَّاسُ الْهِلاَلَ فَأَخْبَرْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنِّى رَأَيْتُهُ فَصَامَهُ وَأَمَرَ النَّاسَ بِصِيَامِهِ (سنن أبي داود محقق وبتعليق الألباني : 2/ 274 , وصححه الالباني في الإرواء)  اور ابن عباس رضى الله عنہما کی حدیث: “ جَاءَ أَعْرَابِىٌّ إِلَى النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ إِنِّى رَأَيْتُ الْهِلاَلَ فَقَالَ : أَتَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ ؟. قَالَ نَعَمْ. قَالَ : أَتَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ؟. قَالَ : نَعَمْ. قَالَ:يَا بِلاَلُ أَذِّنْ فِى النَّاسِ فَلْيَصُومُوا غَدًا (سنن أبي داود محقق وبتعليق الألباني : 2/ 274 , سنن الترمذي : 3/ 74 , سنن النسائي بأحكام الألباني : 4/ 132 وصححه ابن خزيمه وابن حبان والحاکم )  سے معلوم ہوتا ہے۔
ثانیاً: اگر یہ وجہ ہوتی تو حضرت ابن عباس رضى اللہ عنہما حضرت معاویہ  رضى الله عنه کے پاس خط لکھ کر یا کسی اور کے ذریعہ سے اس کی تصدیق کر سکتے تھے ، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو معلوم ہواکہ یہ وجہ نہیں تھی۔
ثالثاً:  اس کی وجہ خبرواحد نہیں ہوسکتی کیونکہ خبر واحد کے معتبر ہونے کے دسیوں دلائل موجود ہیں۔ جیسے رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم کا حضرت علی  رضى الله عنه کو اکیلے سنہ ۹ ہجرى میں براء ۃ کا اعلان کرنے کے لئے بھیجنا اور لوگوں کا ان کی خبر کو قبول کرنا ۔ شراب کی حرمت کے بعد ایک شخص کی خبر پر حضرت ابو طلحہ  رضى الله عنه اور حضرت انس  رضى الله عنه  وغیرہ کا نہ صرف شراب ترک کردینا بلکہ جام وسبو توڑ دینا اور شراب پھینک دینا ،تحویل قبلہ کی خبر مسجد قبلتین میں ایک شخص کے دینے پر لوگوں کااسے تسلیم کر لینا وغیرہ۔
رابعاً: حضرت ابن عباس رضى اللہ عنہما نے اس کی وجہ حضرت کریب کی خبرکا خبرواحد ہونا نہیں بتائی، بلکہ حدیث : “ صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلاَثِينَ  کی طرف اشارہ کرتے ہوئے : “ فَلاَ نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلاَثِينَ أَوْ نَرَاهُ ” اور پھر “ هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ” فرمایا، اسی لئے علامہ نووی رحمہ اللہ نے فرمایا :“ هذا الحديث ظاهر الدلالة على أنهم إذا رأوا ، الهلال ببلد لا يثبت حكمه لما بعد عنهم. قال : وقال بعض أصحابنا تعم الرؤية في موضع جميع أهل الأرض ، وعلى هذا إنما لم يعمل ابن عباس بخبر كريب لأنه شهادة فلا تثبت بواحد لكن ظاهر حديثه إنه لم يرده لهذا أو إنما رده ، لأن الرؤية لا يثبت حكمها في حق البعيد (شرح النووي لمسلم :۷/۱۹۷) یعنی رد کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے ایسے شہر میں چاند دیکھا تھا جس کی رؤیت اہل مدینہ کے لئے معتبر نہیں۔کیونکہ ایک مقام کی رؤیت کے حکم کا بعید والوں کے حق میں اعتبار نہیں۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ مدینہ سے شام اتنا دور نہیں ہے کہ ان کے مطالع میں اختلاف ہو۔ لیکن شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ مبارک پوری رحمہ اللہ نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ شام مدینہ منورہ سے شمال مشرق کی جانب ہے اور دونوں کے درمیان تقریبا سات سو میل کا فاصلہ ہے اس وا سطے بظاہر ابن عباس نے اہل شام کی رؤیت کا اعتبار نہیں کیا،بلکہ اس’’ بُعد شاسع ‘‘کی وجہ سے اختلاف مطالع کا اعتبار کیا ۔  (مرعاۃ : ۶ ؍ ۸ ۲ ۴ )
اور یہی بات اکثر وبیشتر محدثین نے سمجھا ہے اسی واسطے امام نووی رحمہ الله نے صحیح مسلم میں اس پر “ باب بَيَانِ أَنَّ لِكُلِّ بَلَدٍ رُؤْيَتَهُمْ وَأَنَّهُمْ إِذَا رَأَوُا الْهِلاَلَ بِبَلَدٍ لاَ يَثْبُتُ حُكْمُهُ لِمَا بَعُدَ عَنْهُمْ ”اور ترمذی نے “ باب مَا جَاءَ لِكُلِّ أَهْلِ بَلَدٍ رُؤْيَتُهُمْ ” اور نسائی نے “ باب اخْتِلاَفِ أَهْلِ الآفَاقِ فِى الرُّؤْيَةِ ” اور مجدالدین ابن تیمیہ نے منتقی الاخبار میں “ باب الهلال إذا رآه أهل بلدة هل يلزم بقية البلاد الصوم قائم کیا ہے ۔
خامساً:  اختلاف مطالع کے باوجود اگر ایک شہر کی رویت دوسرے شہر کے لئے معتبر ہوتی تو حضرت معاویہ  رضى الله عنه خود اہل مدینہ کو چاند کی اطلاع لکھ کر بھیج دیتے ،اور صحابہ کرام بھی دوسرے شہروں کی رؤیت معلوم کر نے کا اہتمام کرتے ، مگرنہ حضرت معاویہ رضى الله عنه نے اس کی اطلاع بھیجی اورنہ دوسرے صحابہ کرام میں اس کا اہتمام تھا ۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :“ أَنَّا نَعْلَمُ بِيَقِينٍ أَنَّهُ مَا زَالَ فِي عَهْدِ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ يُرَى الْهِلَالُ فِي بَعْضِ أَمْصَارِ الْمُسْلِمِينَ بَعْدَ بَعْضٍ فَإِنَّ هَذَا مِنْ الْأُمُورِ الْمُعْتَادَةِ الَّتِي لَا تَبْدِيلَ لَهَا وَلَا بُدَّ أَنْ يَبْلُغَهُمْ الْخَبَرُ فِي أَثْنَاءِ الشَّهْرِ فَلَوْ كَانُوا يَجِبُ عَلَيْهِمْ الْقَضَاءُ لَكَانَتْ هِمَمُهُمْ تَتَوَفَّرُ عَلَى الْبَحْثِ عَنْ رُؤْيَتِهِ فِي سَائِرِ بُلْدَانِ الْإِسْلَامِ كَتَوَفُّرِهَا عَلَى الْبَحْثِ عَنْ رُؤْيَتِهِ فِي بَلَدِهِ وَلَكَانَ الْقَضَاءُ يَكْثُرُ فِي أَكْثَرِ الرمضانات وَمِثْلُ هَذَا لَوْ كَانَ لَنُقِلَ وَلَمَّا لَمْ يُنْقَلْ دَلَّ عَلَى أَنَّهُ لَا أَصْلَ لَهُ وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ يَدُلُّ عَلَى هَذَا (مجموع الفتاوی:25/108)
ہم یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ عہد صحابہ وتابعین میں برابرچاند بعض مسلم شہروں میں بعض کے بعد دیکھا جاتا رہا ہے ، کیونکہ یہ ایسے امور معتادہ میں سے ہیں جن میں کوئی تبدیلی نہیں ، اور لازمی طور سے انہیں دوران رمضان اس کی خبر بھی ملتی رہی ہوگی ،تو اگر ان پر قضاء واجب ہوتی تو وہ تمام بلدان اسلام میں اس کی رؤیت کی تحقیق میں اپنی کوششیں صرف کرتے جیسے اپنے شہر میں اس کی رؤیت کی تحقیق میں صرف کرتے تھے ،اور اکثر رمضانوں میں بکثرت قضاء ہوتا،اور اگر اس طرح ہوتا تویہ منقول بھی ہوتا ، مگر جب یہ منقول نہیں ہوا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بالکل بے اصل ہے اور حضرت ابن عباس کی حدیث اسی پر دلالت کرتی ہے ۔
دوسری دلیل: حدیث“ لاََ تَصُومُوا حَتَّى تَرَوُا الْهِلاَلَ ، وَلاَ تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ (صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 3/ 34 )  یعنی تم روزہ نہ رکھو یہاں تک کہ چاند دیکھ لو اور روزہ رکھنے کا سلسلہ بند نہ کرو یہاں تک کہ چاند دیکھ لو اور اور اگر بدلی وغیر کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے تو تیس کی گنتی پوری کر و ۔
وجہ استدلال یہ ہے کہ اس میں روزہ اور افطار کا سبب چاند کا نظر آنا مقرر کیا گیا ہے، لہٰذا جن لوگوں نے چاند دیکھا ہے یا کم از کم ان کے شہر کامطلع چاند دیکھنے والوں کے مطلع کے موافق ہے اور ان کو معتبر شہادت یا ذرائع سے رویت ہلال کی خبرمل گئی ہے ان کے لئے سبب متحقق ہونے کی وجہ سے روزہ وافطار لازم ہوگیا، لیکن جن شہروں میں چاند نہیں دیکھا گیا اور نہ ان کا مطلع ہی دیکھنے والوں کے شہر کے مطلع کے موافق ہے ان کے باشندوں کے لئے سبب متحقق نہ ہونے کی وجہ سے روزہ رکھنا جائز نہ ہوگا ، جیسے نماز ظہر کے وجوب کا سبب زوا ل آفتاب ہے ،لہٰذا جن شہروں میں زوال ہوجائے گا وہاں نماز ظہر کا وقت ہوجائے گا ، اور جہاں زوال نہیں ہوگا وہاں اس کا وقت نہیں ہوگا ، اسی واسطے دور دراز کے شہروں میں اوقات صلاۃ میں اختلاف ہوتا ہے، اور یہ چیز بالکل بدیہی اور سب کے مشاہدے کی ہے ۔
کتنی مسافت یا فاصلہ کو بعید قرار دیا جائے گا: رہایہ مسئلہ کہ کتنی مسافت کو قرب وبعد کے لئے حد فاصل مانا جائے کہ اس کی بنیاد پر مسافت بعیدہ کے شہروں کی رؤیت کا اعتبارنہ کیا جائے اور مسافت قریبہ کے شہروں کی رویت کا اعتبارکیا جائے، اس سلسلہ میں علماء کے درج ذیل مذاہب اور اقوال ہیں:
(۱) اس سلسلہ میں اختلاف مطالع کا اعتبار کیا جائے گا, چنانچہ جن علاقوں اور شہروں کے مطالع مختلف ہوں گے جیسے حجاز اور شام یا عراق اور خراسان ، ان کا اعتبار بلاد بعیدہ میں ہوگا، اورجن کے مطالع مختلف نہیں ہیں جیسے بغداد اور کوفہ یا رَی اور قزوین ان کو بلاد قریبہ میں شمار کیا جائے گا ،اس کے قائل جمہور عراقی اور صیدلانی وغیرہ شافعیہ ہیں اور امام نووی رحمہ اللہ نے اسی کو“ الروضۃ”اور  “ المجموع” میں اصح کہا ہے، اور اسی کے قائل محققین حنفیہ ، مالکیہ ،شافعیہ اورحنابلہ ہیں ۔ (المجموع :۶؍۲۲۷، فتح الباری :۴؍۱۲۳)
(۲) مسافت قصر، بعید ہے اور اس سے کم قریب ، اس کے قائل ،امام الحرمین ، غزالی ،بغوی ہیں اور رافعی نے“ الصغیر ”میں اور نووی نے شرح مسلم میں اس کو صحیح کہاہے ،اور اسی کو شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے المصفیٰ میں اختیار کیا ہے ،مگر امام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ نے مجموع فتاویٰ :(۲۵/۱۰۴) میں اس کی تضعیف کی ہے اور فرمایا کہ مسافت قصر کا ہلال سے کوئی تعلق نہیں ، اور امام نووی  رحمہ اللہ نے بھی المجموع: (۶؍۲۲۷) اس کو ضعیف قرار دیا ہے ۔
(۳) اقالیم کے اتحاد واختلاف کا اعتبار کیا جائے گا ،چنانچہ جو شہر اور علاقے ایک اقلیم کے ہیں وہ قریب مانے جائیں گے اور جو دوسرے اقلیم کے ہیں وہ بعید ،اس کے قائل صیمری وغیرہ ہیں، مگر امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کو بھی ضعیف کہا ہے ،وہ فرماتے ہیں : رہے ا قالیم تو ان کی حد کیا ہے ؟ پھر فرمایا کہ یہ دونوں قول دو وجوہ سے غلط ہیں ،ایک تو اس لئے کہ رؤیت مشرق ومغرب کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے ، اگر مشرق میں رؤیت ہوئی تو مغرب میں لازماً ہونی چاہئے ، لیکن اس کے برعکس صورت نہیں ، کیونکہ مشرق کی بہ نسبت مغرب میں غروب آفتاب تاخیر سے ہوتا ہے .............اوردوسری وجہ یہ ہے کہ اگر ہم مسافت قصر یا اقالیم کا اعتبار کریں تو جو شخص مسافت قصر یا اقلیم کے آخری سرے پر ہوگا اس کے لئے توروزہ رکھنا یا روزہ رکھنے کا سلسلہ بند کرنا اور قربانی کرنا لازم ہوگا اور دوسرا شخص جس کے اور پہلے شخص کے درمیان بس تیر کے نشانہ کے بقدر فاصلہ ہوگاوہ ان میں سے کوئی بھی چیز نہیں کرسکے گا اور یہ ایسی بات ہے جو مسلمانوں کے دین میں سے نہیں ہے۔(مجموع فتاوی:۲۵؍۱۰۴،۱۰۵ )
(۴) مقام رؤیت سے جو شہر یا علاقہ اتنے فاصلے پر ہو کہ جب یہاں چاند نظر آئے اور اگر کوئی مانع نہ ہو تو وہاں پر بھی لازماً اسے نظر آنا چاہئے ، ایسی صورت میں وہ قریب ہے ، ورنہ بعید ہے اوریہ سرخسی کا قول ہے۔
(۵) اگر امام اعظم (سلطان ) کے نزدیک رؤیت ہوجائے تو وہ اپنی پوری مملکت میں اس کو نافذ کرسکتا ہے، اس واسطے کہ پورا ملک اس کے حق میں ایک شہر کی طرح ہے کیو نکہ اس کا حکم سب میں نافذ ہوتاہے ، اور یہ ابن الماجشون کا قول ہے ۔ (فتح الباری : ۴؍۱۲۳)
مگر اس پر بھی امام ابن تیمیہ رحمہ الله کا وہ اعتراض وارد ہوتا ہے جو انہوں نے اقلیم والے قول پر وارد کیا ہے۔
(۶) مقام رؤیت سے جو جگہ طبعی اور جغرافیائی اعتبار سے مختلف ہو وہ بعید ہے اس کے علاوہ قریب ۔ مثلاًبلند مقام پر چاند نظر آیا تو اس رؤیت کو نشیبی علاقے کے لئے نہیں مانا جائے گا ،اسی طرح اس کے برعکس۔ ( نیل الاوطار:۴؍۲۰۶)
(۷) ایک مہینہ کی مسافت بعید ہے اور اس سے کم قریب ہے۔(مجمع الانہر:۱؍۲۲۹ ،الدررالمنتقیٰ برحاشیہ مجمع : ۱؍۲۳۹، فتاوی مولانا عبد الحئی : ۱؍۳۷۲)
اور ایک مہینہ کی مسافت سے مراد وہ فاصلہ ہے جو پیدل کی رفتار کے لحاظ سے بنتا ہے اور یہ اوسطاً سولہ میل فی یوم ہے ،اسی بناء پر فقہ حنفی وغیرہ میں مسافت قصر تین دن کی مسافت کو ۴۸ میل بتایا گیا ہے اور اس حساب سے ایک مہینہ کی مسافت ۴۸۰ میل ہوتی ہے ۔
(۸) وہ قریبی جگہ جہاں سے رؤیت کی خبر ان تک پہلے دن سورج ڈوبنے سے پہلے پہونچ جائے وہاں تک کی رویت معتبر ہوگی ، اور اسے قریب مانا جائے گا اور اگر ایسی جگہ سے رؤیت کی خبر آئی جہاں سے پہلے دن کے ختم ہونے سے پہلے خبر نہیں پہونچ سکتی تو وہاں کی رویت کا اعتبار نہیں ہوگا ۔ یہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ الله کا قول ہے ۔(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ :۲۵؍۱۰۶)
یہاں پر یہ یاد دہانی ایک بار پھر کراتا چلوں کہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے پہلے دن کی شام تک خبر کے پہونچنے میں قریبی جگہ کی صراحت کی ہے ، اور ان کے نزدیک اختلاف مطالع کا اعتبار ہے ، اس واسطے ان کے قول سے مطلقاً یعنی چاہے مسافت بعیدہ ہو یا قریبہ اور دونوں جگہوں کا مطلع ایک ہو یا مختلف ،خبر پہونچنے کا اعتبار کرنے کی بات سمجھنا اور اس کی وجہ سے اس وقت جبکہ پورے عالم اسلام میں اتنے وقت میں ریڈیو وغیرہ کے ذریعہ خبر پہونچ سکتی ہے ۔ ایک جگہ کی رؤیت کو پوری دنیا کے لئے رویت قرار دینا اور ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے ایک ہی دن روزہ رکھنے اور عید منانے کی تجویز پیش کرنا درست نہیں ہے۔
(۹) ہر شہر کی رؤیت صرف اسی شہر کے لئے معتبر ہوگی اوردوسرے شہر وں میں اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا ، ابن المنذر نے یہ قول عکرمہ ، قاسم ، سالم اور اسحاق بن راہویہ سے نقل کیا ہے ۔ (مجموع:۶/۲۲۸) اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے یہی’’اہل علم ‘‘کا یہی فیصلہ بتایا ہے اورکوئی دوسرا قول ذکر نہیں کیاہے ، اور ماوردی نے شافعیہ کے یہاں بھی اسے ایک وجہ بتایا ہے ۔ (انظر مرعاۃ : ۶؍۴۲۵) اور عموما لوگوں نے اس کے لئے کریب عن ابن عباس والی حدیث سے استدلال کیا ہے ۔
مگر حضرت ابن عباس رضى اللہ عنہما  کی وہ حدیث اس کے معارض ہے جس میں ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم کے پاس آکر کہا کہ میں نے رمضان کا چاند دیکھا ہے ،پھر آپ نے اس سے پوچھا کہ لاالہ الا اللہ ،محمد رسول اللہ کی گواہی دیتے ہو اس نے کہا کہ ہاں میں اس کی گواہی دیتا ہوں،تو آپ نے فرمایا : اے بلال! لوگوں میں اعلان کردو کہ وہ روزہ رکھیں ۔( رواہ ابوداودوالترمذی والنسائی والدارمی وھو حدیث صحیح )
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ  صلى الله عليه وسلمنے شہادت کی بناء پر دوسری جگہ کی رویت کا اعتبار کیا اور ہر شہر کی رویت صرف اسی شہر کے لئے معتبر نہیں ،بلکہ مسافت قریبہ یا اتفاق مطالع کی صورت میں معتبر شہادت یا خبر ہو تو دوسری جگہ کی رؤیت بھی معتبر ہوگی ۔
(۱۰) چوبیس فرسخ یا ۷۲ میل کی مسافت بعید ہے، اور اس سے کم مسافت قر یب ہے، چنانچہ حاشیہ ابن عابدین :(۲/۱۰۵) میں ہے: “ وَقَدْ نَبَّهَ التَّاجُ التَّبْرِيزِيُّ عَلَى أَنَّ اخْتِلَافَ الْمَطَالِعِ لَا يُمْكِنُ فِي أَقَلَّ مِنْ أَرْبَعَةٍ وَعِشْرِينَ فَرْسَخًا وَأَفْتَى بِهِ الْوَالِدُ وَالْأَوْجَهُ أَنَّهَا تَحْدِيدِيَّةٌ كَمَا أَفْتَى بِهِ أَيْضًا ” تاج تبریزی نے متنبہ کیا ہے کہ چوبیس فرسخ سے کم مسافت میں اختلاف مطالع ممکن نہیں ہے،میرے والد کا فتویٰ بھی یہی ہے ،اور اوجہ یہ ہے کہ یہ مقدار تحدیدی ہے تقریبی نہیں ۔
(۱۱) دو شہروں کی رویت میں ایک دن سے زیادہ کا فرق ہو تو یہ بعید شمار ہونگے اور ان میں اختلاف مطالع مانا جائے گا، اور اس سے کم فرق ہو تو وہ قریب شمار ہونگے اوران کا مطلع ایک ہی مانا جائے گا ،کیونکہ نصوص میں صراحت ہے کہ مہینہ ۲۹ یا ۳۰ دن کا ہوتا ہے (نہ کم نہ زیادہ) تو ایسی جگہ کی شہادت پر عمل نہیں کیا جائے گا جہاں کی شہادت پر عمل کرنے سے ۲۹ سے کم یا ۳۰ سے زیادہ دن کا مہینہ بن جاتا ہو ۔یہ قول مولانا شبیر احمد عثمانی ، مولاناانور کشمیری ،مفتی محمد شفیع اور دیگر بہت سے علماء احناف کا ہے چنانچہ فتح الملہم شرح صحیح مسلم :(۳/۱۲ )میں ہے : ينبغي أن يعتبر اختلافها إن لزم منه التفاوت بين البلدتين بأكثر من يوم واحد ، لأن النصوص مصرحة بكون الشهر تسعة وعشرين أو ثلاثين فلا تقبل الشهادة ولا يعمل بها فيما دون أقل العدد ولا في أزيد من أكثره ”۔(نیز دیکھئے مولانا برھان الدین سنبھلی کا رسالہ رویت ہلال کا مسئلہ ص: ۹۵-۹۸،۱۱۴)
(۱۲) مدینہ منورہ اور شام کے درمیان جتنی مسافت ہے وہ بعید ہے اور اس سے کم قریب ہے ۔اس کے قائلین نے حضرت ابن عباس رضى الله عنہما کی روایت کے ظاہر سے استدلال کیا ہے۔
یاد رہے کہ قرب وبعد یا اختلاف مطلع کے لئے کسی خاص مسافت کی تحدید کے سلسلہ میں کوئی نص وارد نہیں ہے، اس لئے علماء میں یہ اختلاف ہے البتہ محققین علماء تقریبا اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ جب کسی جگہ حقیقۃً ہلال کی رویت ثابت ہوگی تو اس کے مغرب میں بلا کسی تحدید مسافت کے رویت ثابت ہوگی الایہ کہ عرض البلد میں فرق ہوتو کبھی اس کیوجہ سے رویت میں فرق ہوسکتا ہے۔ اور مقام رویت سے مشرق کے شہروں کے بارے میں علامہ عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ کی رائے جدید علم ہيئت وجغرافیہ کی روشنی میں یہ ہے کہ ۵۶۰ میل تک اس کا اعتبار کیا جائے گا ۔ اور بعض فقہاء نے جو ایک ماہ کی دوری کو مسافت بعید ہ قرار دیا ہے اس کے بارے میں کچھ علماء نے لکھا ہے کہ وہ ۵۰۰ سے ۶۰۰ میل تک ہوتا ہے۔اور مدینہ منورہ سے شام تک کی مسافت بھی علامہ عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ نے سات سو میل کے قریب تحریر کی ہے اس واسطے یہ بات اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔مگر چونکہ اس تحدید کا مدار کسی شرعی نص پر نہیں ہے اس لئے اس سے ایک اندازہ تو قائم کیا جاسکتا ہے مگر اس کو حرف آخر نہیں کہا جاسکتا اس لئے اس کو لے کر آپس میں اختلاف نہیں کرنا چاہئے۔ سابق مفتی اعظم سعودی عرب علامہ عبد العزیزبن باز رحمہ الله فرماتے ہیں: یہ مسئلہ  ہيئۃ کبار علماء سعودی عرب کے سامنے شعبان ۱۳۹۲ ہجرى  میں پیش ہوا تھا ،سبھوں کی متفقہ رائے یہی تھی کہ اس میں وسعت سے کام لینا چاہئے اور ہر ملک کے اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ ماہ رمضان کی آمد اور رخصت کے وقت اس مسئلہ پر غور کریں اور اجتہاد کے بعد جو قول اقرب الی الحق معلوم ہو اس پر متفق ہوجائیں، اسی پر عمل کریں اور اس سے لوگوں مطلع کریں۔اس مسئلہ میں علماء کو جھگڑنا نہیں چاہئے ،اس سے لوگ مختلف گروہوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں اور ان میں گرما گرم بحثیں شروع ہوجاتی ہیں۔
اس میں ماہرین فلکیات وعلم ہيئت کے جدید خیالات وتحقیقات سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے جیسا کہ’’مجلس تحقیقات شرعیہ وندوۃ العلماء لکھنوء اور علامہ عبد اللہ بن حمید سابق رئیس المجلس العالی للقضاء وغیرہ نے یہ تجویز رکھی ہے ۔
یہاں کسی کو یہ اشکال نہ ہوکہ ایسی صورت میں تو علم نجوم وفلکیات کے حساب پر اعتمادکرنا پڑے گا جب کہ شرعی امور میں منجمین اور علماء فلکیات کے اقوال کا اعتبار نہیں ،کیونکہ اصول اور امور عامہ میں ان کے اقوال کے عدم اعتبار سے یہ لازم نہیں آتا کہ توابع اور کچھ امور خاصہ میں بھی ان سے استفادہ نہیں کیا جاسکتا۔
پورے عالم اسلام کی رؤیت میں وحدت و یگانگت کے شرعی امکان کا جائزہ:سابقہ سطور میں اما م ابن عبد البر ،امام ابن رشد اور ابن تیمیہ  رحمہم اللہ وغیرہم کا یہ قول گذر چکا ہے کہ دور دراز کے ممالک اور شہروں میں اختلاف مطالع متفق علیہ ہے اور یہ ایسی حقیقت ہے کہ جس کا کسی طرح انکار نہیں کیا جا سکتا ۔
اور جن ائمہ کرام نے یہ کہا ہے کہ ایک جگہ کی رؤیت پوری دنیا کے مسلمانو ں کے لئے معتبر مانی جائے گی خود ان کے متبعین میں سے محققین علماء نے اس کو تسلیم نہیں کیا ہے اور حدیث : “ صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ ”وغیرہ نصوص کو بلاد قریبہ پرمحمول کیا ہے اور کریب عن ابن عباس رضى الله عنہما کی حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے،نیزجیسے اوقات صلاۃ اورا وقات افطار وامساک میں ہر جگہ کے لوگ اپنے یہاں کے زوال اور غروب آفتاب اور طلوع صبح صادق وغیرہ کا اعتبار بالاتفاق کرتے ہیں ویسے ہی ماہ رمضان وغیرہ کے آغا زو اختتام کے لئے بھی ہر جگہ مسلمانوں کے لئے وہاں کی رؤیت کا اور معتبر شہادت یا خبر کے ملنے کی صورت میں بلاد قریبہ کی رویت کا اعتبار کرنا چاہئے، ورنہ جن علاقوں کے مطالع مقام رؤیت کے مطلع سے مختلف ہیں وہاں حدیث : “ صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ ” وغیرہ کی مخالفت ہوگی، کیونکہ جہاں کے لوگوں نے نہ چانددیکھاہے اورنہ وہاں اس کے نظر آنے کاامکان ہی ہے،وہاں کیسے رویت کوتسلیم کیاجاسکتااوریہ کہاجاسکتاہے کہ پوری دنیامیں رؤیت ہوگئی ہے ۔
علاوہ ازیں اگر اس کو تسلیم کرلیا جائے تو کبھی رمضان ۲۷ یا ۲۸ دن کا اور کبھی ۳۱ یا ۳۲ دن کا ہوجائے گا اس لئے کہ بعض ممالک جیسے قسطنطنیہ میں عموماً ہمارے یہاں سے دو روز قبل چاند نظر آتا ہے اب اگر اہل ہند نے اپنے یہاں کی رؤیت پر روزہ رکھنا شروع کیا پھر رمضان کے دوران قسطنطنیہ کی رؤیت کی خبر ملی توانھیں عید کو مقدم کرنا لازم ہوگا اورمہینہ۲۷ یا ۲۸ دن کا ہوگااور اگر کسی نے قسطنطنیہ میں روزہ رکھنا شروع کیا پھر عید سے پہلے یہاں آگیا تو اس کی عید تاخیر سے ۳۱یا۳۲ کو ہوگی ۔ جومہینہ کے منصوص ومقرر تعداد (۲۹،۳۰ دن) کے خلاف ہوگا۔العرف شاذی ص۳۰۳ میں اور اسی سے منقول ہے ,مرعاۃ(۶؍۴۲۷-۴۲۸) میں ہے: “ أقول لا بد من تسليم قول الزيلعي وإلا فيلزم وقوع العيد يوم السابع والعشرين، أو الثامن والعشرين، أو الحادي والثلاثين أو الثاني والثلاثين. فإن هلال بلاد قسطنطينية ربما يتقدم على هلالنا بيومين فإذا صمنا على هلالنا ثم بلغنا رؤية هلال بلاد قسطنطينة يلزم تقديم العيد، أو يلزم تأخير العيد. إذا صام رجل من بلاد قسطنطينية ثم جاءنا قبل العيد , انتهى .
علاوہ ازیں اگر مقام رویت کے علاوہ ایک ایسی جگہ جہاں ابھی صبح نو بجے کا وقت ہے رویت کی اطلاع پہونچی تو اگر اس دوسری جگہ کے لوگ اس رویت کا اعتبار کرکے اسی دن روزہ توڑ دیں اور عید کی نماز پڑھیں تو اس سے ایک خرابی تو یہ لازم آئے گی کہ دن کی رویت خواہ (دوپہر سے پہلے کی ہویابعد کی)اگلی رات کی مانی جاتی ہے جبکہ یہاں گذشتہ رات کی ماننا پڑے گی جو راجح قول اور صحیح دلیل کے خلاف ہے ،اس لئے کہ حضرت ابو وائل  رضى الله عنه کی حدیث ہے کہ ہمارے پاس حضرت عمر  رضى الله عنه کا خط آیا کہ بعض چاند بعض سے بڑا ہوتا ہے، اس واسطے اگر تم دن میں ہی چاند دیکھ لو تو اس وقت تک روزہ نہ توڑو جب تک کہ دو آدمی گواہی نہ دیں کہ ہم نے کل چاند دیکھا ہے اور امام نخعی رحمہ اللہ نے جو حضرت عمر  رضى الله عنه سے یہ قول نقل کیا ہے کہ تم زوال سے پہلے چاند دیکھو تو روزہ افطارکردو اور زوال کے بعد دیکھو تو افطار نہ کرو، اس کی روایت ضعیف ہے کیونکہ منقطع ہے ،امام نخعی رحمہ اللہ نے حضرت عمر  رضى الله عنه کا زمانہ ہی نہیں پایاہے۔(دیکھئے مرعاۃ: ۶؍۴۲۴،فتاوی رمضان للدکتور فضل الرحمن: ۲۵)
اور دوسرے اس کے باوجود دونوں جگہوں کی نماز عید ایک دن اور ایک تاریخ میں نہیں ہوسکتی کیونکہ ان لوگوں نے تو پہلے عید کر لی جب کہ جن لوگوں نے اپنے یہاں شام کو چاند دیکھا ہے وہ لازما رات گذارنے کے بعد دوسرے دن سورج نکلنے اور مکروہ وقت ختم ہونے کے بعد نماز عید ادا کریں گے اور جن لوگوں کو دن میں نو دس بجے رویت ہلال کی خبر ملی ہے انھوں نے اس سے ایک دن پہلے ہی نماز عید ادا کر لی، اور اگر وہ بھی دوسرے ہی دن نماز عید ادا کریں جیسا کہ ابو وائل عن عمر کی روایت سے معلوم ہوتا ہے تو بھی دونوں جگہ ایک ہی دن اور تاریخ میں عید نہیں ہوگی کیونکہ دوسرے دن جس وقت یہ لوگ نماز عید ادا کریں گے اس وقت مقام رویت میں سورج غروب ہو چکا ہوگا اور اسلامی تاریخ اور دن بدل گیا ہو گا۔
یہ تو دن اور تاریخ کی بات ہوئی رہی ایک وقت میں نماز عید ادا کرنے یا روزہ شروع کرنے اور افطار کرنے کی بات تو اس کا کسی صورت میں تصور کی نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ جس وقت دنیا کے ایک حصہ میں نماز عید ادا کی جارہی ہوگی اس وقت دوسے حصوں میں کہیں سورج غروب ہو رہا ہوگا اور کہیں رات ہوگی ،اور کہیں فجر کا وقت ہوگا،اور وہاں ان اوقات میں نماز عید ادا کرنے کا امکان اور تصور بھی نہیں ہوسکتا۔
علاوہ ازیں ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ اسلام ایک عالم گیر دین ہے اور اس کے ماننے والوں میں شہروں ، دیہاتوں ،پہاڑ کی چوٹیوں اور جنگل کے علاقوں کے رہنے والے ہر قسم کے لوگ ہیں ، اس واسطے اسلام نے ان سب کی رعایت کی ہے اور اپنے احکام کی بنیاد ایسے امور پر رکھی ہے جن کا جاننا سب کے لئے آسان ہے،اور جن پر عمل کرنا سب کے لئے ممکن ہے ، اب اگر ایک جگہ کی رویت کو پوری دنیا کے لئے رویت قرار دیں تو زمانہ قدیم میں جب کہ وسائل ابلاغ کی اتنی ترقی نہیں تھی پوری دنیا میں دوسرے دن نماز عید یا امساک کے وقت تک اس خبر کا پہونچنا اور ایک ہی تاریخ میں سب کا روزہ رکھنا یا عید منانا ناممکن تھا ،رہا دور حاضر میں تو اگر چہ ابھی وسائل ابلاغ میں کافی ترقی ہوگئی ہے اور چند گھنٹوں میں خبریں دنیا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہونچ جاتیں ہیں مگریہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ان تمام ترقیوں کے باوجود باشندگان عالم کی ایک بہت بڑی تعداد ( خاص طور سے وہ لوگ جن کے پاس جدید وسائل نہیں ہیں ) اس خبروں سے بر وقت نا واقف رہ جاتی ہے اور کئی کئی دنوں کے بعد انھیں صحیح خبر مل پاتی ہے ، اس واسطے ساری دنیا یا عالم اسلام کی رویت میں وحدت و یگانگت اور ایک ہی دن میں سب کے روزہ کی ابتدااور عید کرنے کا امکان بہر حال میرے نزدیک شرعی اور غیر شرعی دونوں اعتبار سے محل نظر ہے۔
هذا ماتبين لي والله اعلم بالصواب. وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين.

هناك 7 تعليقات:

  1. اللہ ھمارے استاذ محترم کے علم میں اضافہ فرمائے۔ اور انھیں دنیا و آخرت کی کامیابیاں نصیب فرمائے۔ آمین

    ردحذف
  2. اللہ جزائے خیر دے شیخ محترم کو
    اس تحریر کی فی الحال بہت ضرورت محسوس کی جارہی ہے خاص کر ان علاقوں میں جہاں کچه لوگ توحید روئیت کو لیکر جماعت میں انتشار پیدا کر رہے ہیں
    اللہ شیخ کو عافیت میں رکهے اور آپ کے علم سے امت کو فائدہ پہنچائے

    ردحذف
  3. ماشاء اللہ بہت بروقت اور مناسب تحریر

    ردحذف
  4. ماشاءاللہ بہت اچھا تحریر اللہ تعالٰی شیخ جزائے خیر دے
    لیکن حضرت لیلہ القدر ایک مانیں گے یا الگ الگ مانیں گے یہ کیسے حاصل ہوگا بعید والے پہلے ثواب حاصل کر لیں گے اور قیامت دن کے حساب سے ہو گا یا چاند سورج کے حساب سے ہوگا مہربانی کر کے بیان کیجئے

    ردحذف
  5. اللہ کی دنیا میں رؤیت ہلال کی خبر سے آسمان وجنت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔۔ یہ مطالع قریب بعید دو دن یا تین دن کے ماننے والوں کے لیے کیا ان کے حساب سے دروازے کھلتے ہیں ؟

    ردحذف
  6. چاند کی موٹائی اس کی تاریخ کے مطابق ہوتی ہے اور وہ ساری دنیا میں ایک جیسا دکھتا ہے ۔ چایے وہ پہلی کا ہو یا چودھویں کا۔ اسلئے چاند کی تاریخ میں اختلاف نہیں ہونا چاہیے ۔
    والسلام ثاقب

    ردحذف
  7. چاند نظر نہ آنے پر 30 کی گنتی پوری کرنے کا کہا گیا ہے یعنی چاند کی زمین کے گرد چکر 30 دن میں یقینی ہے وہ مقرر ہے۔
    چاند کی موٹائی اس کی تاریخ کے مطابق ہوتی ہے ۔ پہلی کا ہو یا چودہویں کا اور ساری دنیا میں ایک جیسا دکھتا ہے ۔
    اسلئے ایک دفعہ کہیں بھی چاند دکھ گیا مہینہ شروع ہو جانا چاہیے اس سے پہلے نہیں۔ اور چاہیے کہیں اور نظر آئے یا نہیں۔ خبر نہ ملے تو یہ ایک مجبوری ہوسکتی ہے ۔

    ردحذف