عورتوں کے عید گاہ جانے کا حکم
آپ دنیا کی قوموں کاجائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہر قوم میں ایسے ایام پائے جاتے ہیں جن میں لوگ نہا دھو کر ، اچھے اچھے کپڑے پہن کر اور زیب و زینت کر کے بال بچوں کے ساتھ خوشیاں منانے کے لئے کسی میدان میں جمع ہوتے ہیں ،وہاں کچھ پروگرام ہوتے ہیں، اس کے بعد دوست واحباب اور اعزواقارب ایک دوسرے سے گلے ملتے اچھے اچھے کھانے پکاتے اور دعوتیں کھاتے کھلاتے ہیں ،انہیں ایام کو عید اور تہوار کہا جاتا ہے اسی حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :“إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا” (صحيح البخاری:2/ 21) بیشک ہر قوم کے لئے ایک عید اور تہوار ہے ۔
اسلام دین فطرت ہے ، اور یہ انسانی فطرت میں داخل ہے کہ وہ مسلسل محنت و مشقت اور کام وکاج میں مشغول رہنے سے اکتا جاتا ہے اور اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ کچھ ایام ایسے ہوں جن میں وہ اپنے تمام اعمال کو چھوڑ کرخوشیاں منائے، جس سے جسم و روح کو بالیدگی حاصل ہو اس واسطے اسلام نے فطرت انسانی کی رعایت کرتے ہوئے اپنے متبعین کے لئے دو عیدیں مقرر کی ہیں ۔ عیدا لفطراور عید الاضحی ۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت اہل مدینہ کے یہاں دو دن تھے جن میں و ہ کھیلتے کودتے اور عید مناتے تھے ، آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ دونوں دن کیسے ہیں ؟ یعنی ان کو کھیل کود اور عید و خوشی کے لئے کیوں مقرر کر رکھا ہے ؟ انھوں نے کہا:ہم جاہلیت میں ان دونوں دنوں میں کھیلا کرتے تھے (اور اس وقت سے اب تک یہ سلسلہ جاری ہے ) اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : “إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا يَوْمَ الأَضْحَى وَيَوْمَ الْفِطْرِ” (سنن أبي داود محقق وبتعليق الألباني: 1/ 441, رقم ١١٣٤ ، وقال الالباني : اسناده صحيح)اللہ نے ان دونوں دنوں کے بدلے تمہیں ان سے بہتر دو دن عطا فرمایا ہے ، قربانی کا دن اور روزے سے افطار کا دن ۔
اسلام نے دونوں عیدوں کے لئے ایسے بہترین آداب و اصول مقرر کئے ہیں کہ اگر ان کی کما حقہ رعایت کی جائے تویہ عیدیں مسرت وشادمانی ، طہارت و نظافت ، محبت ومؤدت، اتحاد واتفاق اور معاشرے کی خدمت وتعاون کا بڑاحسین مرقع بن جاتی ہیں ۔
اگر ان دونوں عیدوں کا موازنہ دوسری اقوام کے تہواروں سے کیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ مسلمانوں کی یہ عیدیں دوسروں کی عیدوں سے ہر ناحیہ سے بہتر ہیں اس لئے کہ ان عیدوں میں طہارت، عبادت ، ذکر الٰہی ، خطبہ، مباح کھیل کود،جائز گیت ،پاکیزہ و حلال کھانے، دعوتیں اور دوست و احباب واعزواقارب کی پر لطف وخوشگوار مجلسیں اور ملاقاتیں ہیں ، اور ان میں کسی قسم کی گندگی ، گالی گلوج ، فحش وبے حیائی اور شرک و کفر کی باتیں نہیں ہیں، جبکہ دوسری قوموں کی عیدوں میں غیر اللہ کی عبادت ، شرکیہ افعال ، گندگی ونجاست ، شراب وکباب، ناچ گانے اور فحش و بے حیائی کی بہت سی چیزیں ہیں ۔
ان دونوں عیدوں میں نہادھو کر اور اپنی وسعت کے مطابق اچھے اچھے کپڑے پہن کر تکبیرات کہتے ہوئے عید گاہ جانے اور وہاں امام کی اقتدا ء میں مخصوص طریقہ پر نماز عید ادا کرنے اور خطبہ سننے کی بڑی تاکید ہے اور یہ تاکیدتمام مسلمانوں کے لئے ہے، اس میں بچے، بوڑھے، جوان اور مرد وخواتین سبھی شامل ہیں ، اسی واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مردوں کے ساتھ خواتین بھی عید گاہ جایا کرتی تھیں ، مگر افسوس کہ بعد میں کچھ لوگ عورتوں کو عید گاہ جانے سے منع کرنے لگے ،جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو عید گاہ جانے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ اس کا حکم دیا ۔اور اس بارے میں باکرہ ،ثیبہ، جوان ، بوڑھی اور پاک وناپاک میں کوئی فرق نہیں کیا بلکہ سب کو عید گاہ جانے کا حکم دیا ، البتہ حائضہ عورتیں نماز نہیں پڑھیں گی اور مسلمانوں کے اجتماع اور دعاوغیرہ میں شریک ہوں گی، حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : “أُمِرْنَا أَنْ نُخْرِجَ الْحُيَّضَ يَوْمَ الْعِيدَيْنِ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ فَيَشْهَدْنَ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَدَعْوَتَهُمْ وَيَعْتَزِلُ الْحُيَّضُ عَنْ مُصَلاَّهُنَّ قَالَتِ امْرَأَةٌ يَا رَسُولَ اللهِ إِحْدَانَا لَيْسَ لَهَا جِلْبَابٌ قَالَ لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا” (صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري 1/ 99)
ہمیں عیدین میں جوان اور حائضہ عورتوں کو عید گاہ لے جانے کا حکم دیا گیا، وہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کی دعا میں شریک ہونگی اور حائضہ عورتیں مصلیٰ (نماز کی جگہ ) سے الگ رہیں گی ایک عورت نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہوتو ؟ آپ نے فرمایا : چاہئے کہ اسے اس کی کوئی ساتھی اپنی زائد چادر دیدے ۔
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا : پردہ دار خواتین اور حائضہ عورتوں کو بھی جانا چاہئے ، حائضہ عورتیں مصلیٰ سے الگ رہیں گی اور خیر اور مسلمانوں کی دعامیں شریک ہوں گی، میں نے ان سے کہا : کیا حائضہ عورتیں بھی جائیں گی ؟ انھوں نے کہا: ہاں ، کیا حائضہ عورت عرفات اور فلان فلاں (مقامات مقدسہ) نہیں جاتیں ہیں؟ (بخاری :۲/٤٦٩)
اس طرح سے گویا بعض ذہنوں میں جو ایک اشکال اور شبہ پیدا ہوتا ہے کہ عید گاہ نماز، خطبہ اور ذکر الٰہی کی جگہ ہے ، وہاں ناپاک عورتیں کیسے جائیں گی ؟اس اشکال اور شبہ کو بھی دور کردیا کہ دیکھئے ناپاکی کی حالت میں عورت عرفات اور منیٰ وغیرہ مقدس مقامات پر جاتی ہے اور نماز و طواف کے علاوہ تمام ارکان حج ادا کرتی ہے ، عرفات میں دعائیں کرتی، خطبہ سنتی اور توبہ و استغفار اور ذکر الٰہی میں دن بھر مشغول رہتی ہے اسی طرح وہ عید گاہ بھی جاسکتی ہے اور نماز کے سوا باقی تمام اعمال کرسکتی ہے ۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عورتوں کو عید گاہ نماز پڑھنے کے لئے نہیں جانا چاہئے بلکہ انہیں محلہ کی مسجد میں نماز عید پڑھ لینا چاہئے حالانکہ حضر ت ام عطیہ وغیرہا کی احادیث کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں عور تیں بھی عید گاہ جایا کرتی تھیں ، اور وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کرتی تھیں اور آپ انھیں بعد میں خطبہ دیتے اور نصیحت فرماتے تھے، ایسا نہیں ہوتا تھا کہ عورتیں مسجد میں نماز عید پڑھیں اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کے سا تھ میدان میں ادا کریں۔
اسی طرح بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ عورتوں کو عید گاہ نہیں جانا چاہئے اورعیدکی نمازنہیں پڑھنی چاہئے وہ بھی غلط ہے، اس کی ممانعت صحیح مرفوع حد یث سے ثابت نہیں۔بلکہ صحیح احادیث میں انہیں عیدگاہ لے جانے کاحکم اورثبوت مو جو دہے۔یہاں پر میں چند حدیثیں ذکر کر رہا ہوں:
(١)ابھی حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی روایت گزر چکی ہے ، وہ فرماتی ہیں: کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاکہ عید الفطر اور عید الاضحی میں کنواری جوان لڑکیوں ،حیض والی عورتوں اورپردہ وا لی خواتین کو عید گاہ لے جائیں ،حیض والی عورتیں نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں گی اورکار خیراور مسلما نو ں کی دعا میں شریک ہوں گی۔میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول !ہم میں سے بعض کے پاس چادر نہیں ہوتی ؟آ پ نے فرمایا:اس کی بہن اسے اپنی چادر سے اڑھالے۔ (رواہ الجماعۃ ،انظر صحیح البخاری : کتاب العیدین ،باب خروج النساء والحیّض: ۲/١٦٣ ،وصحیح مسلم : کتاب صلاة العیدین : ۲/٣٣٧ ،جامع الترمذی:۱/٣٧٩)
(٢)حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید قرباں یا عید الفطر میں نکلے او ردو رکعت (نماز عید)ادا کی، نہ اس سے پہلے کوئی نماز پڑھی نہ اس کے بعد، پھر آپ نے خطبہ دیا ، پھر عورتوں کے پاس تشریف لے گئے ، آپ کے ساتھ حضرت بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے ،آپ نے انہیں صدقہ کر نے کا حکم دیا تو کوئی عورت چھلّے نکال کر دینے لگی ، کوئی لونگوں کا ہار دینے لگی ، پھر آپ اور حضرت بلال گھر تشریف لے گئے ۔ (متفق علیہ ، صحیح البخاری : ۲/ ٤٦٤-٤٦٧)
اس حدیث سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں خواتین نماز عید کے لئے عید گاہ جاتی تھیں اور وہ مردوں کے پیچھے رہتی تھیں اور مردوں میں خطبہ دینے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں نصیحت کرنے کے لئے ان کے پاس تشریف لے جاتے تھے ۔اسی طرح آج کے مسلمانوں اور علماء کرام کو بھی کرنا چاہئے ۔
(٣)حضرت حفصہ بنت سیرین رحمہا اللہ فرماتی ہیں کہ ہم اپنی لڑکیوں کو عید گاہ جانے سے روکتی تھیں ، پھر ایک خاتون باہر سے آئیں اور قصر بنو خلف میں انہوں نے قیام کیا ، میں ان سے ملاقات کےلئے حاضر ہوئی تو انھوں نے بیان کیا کہ ان کی بہن کے شوہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ غزووں میں شریک رہے تھے اور خود ان کی بہن اپنے شوہر کے ساتھ چھ غزووں میں شریک ہوئی تھیں ، ان کا بیان تھا کہ ہم مریضوں کی دیکھ بھال اور زخمیوں کا دواعلا ج کرتی تھیں۔ انہوں نے پوچھا: یا رسول اللہ !کیا ہم میں سے کسی کے پاس اگر چادر نہ ہواور اس وجہ سے وہ عید گاہ نہ جائے تو کوئی حرج ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس کی سہیلی اور ساتھ کی عورت کو چاہئے کہ اپنی چادر سے اس کو اڑھادے ۔ پھر وہ خیر اور مسلمانوں کی دعاء میں شریک ہوں ۔
(٤)ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے عطاء نے خبر دی ہے کہ انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن کھڑے ہوئے سب سے پہلے آپ نے نماز عید ادافرمائی ، پھر خطبہ دیا ، اس کے بعد عورتوں کے پاس تشریف لائے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کا سہارا لے کر آپ نے انہیں نصیحت فرمائی۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اپنا کپڑا پھیلائے ہوئے تھے جس میں عورتیں صدقہ ڈال رہی تھیں۔ ابن جریج رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے پوچھا : کیا وہ صدقۂ فطر دے رہی تھیں ؟ انھوں نے فرمایا: نہیں وہ ویسے ہی صدقہ دے رہی تھیں ۔ اس وقت اپنے چھلّے (وغیرہ ) برابر ڈال رہی تھیں پھر میں نے عطاء سے پوچھا: کیا آپ امام پر یہ حق سمجھتے ہیں کہ وہ عورتوں کے پاس جاکر انہیں نصیحت کرے ؟انھوں نے فرمایا : ہاں!ان پر یہ حق ہے ۔ انہیں کیا ہوا ؟ وہ ایسا کیوں نہیں کرتے؟(رواہ البخاری فی صحیحہ :باب موعظۃ الامام النساء یوم العید: 2/٤٦٦مع الفتح )
ان صحیح حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو نہ صرف عید گاہ جانے کی اجازت ہے بلکہ اس کی تاکید اور حکم ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک میں عورتیں عید گاہ جایا کرتیں تھیں اور آپ انھیں مردوں کے بعد الگ سے نصیحت فرماتے تھے ، اور ام عطیہ اور عطا وغیرہ بعد میں بھی اس کا فتویٰ دیا کرتے تھے ۔
ان صریح اور صحیح حدیثوں کے ہوتے ہوئے زمانے کی خرابی اور خواتین کی بگاڑ کا حوالہ دے کر عورتوں کوعید گاہ جانے سے روکنا اور اسے حرام کہنا،فاسد خیالات کے ذریعہ صحیح احادیث کو رد کرنا ہے۔اس موقع پر میں ان مانعین سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب مردوں کی طرح عورتیں بھی رمضان کے روزے رکھتی ہیں ، قرآن کی تلاوت کرتی ہیں ، شب قدر میں جاگتی ہیں ،تراویح کی نماز پڑھتی ہیں اور صدقہ وخیرات میں حصہ لیتی ہیں توپھر کس بناء پر انھیں عید گاہ جانے اور ان تمام اعمال حسنہ کی انجام دہی پر خوشیاں منانے اور اپنے گھر والوں کے ساتھ شکرانے کی دو رکعت نماز عید پڑ ھنے اور وعظ ونصیحت کی باتوں کے سننے سے روکا جاتا ہے ؟ اسی طرح عید الاضحی میں اگر قربانی مردوں اور عورتوں سب کےلئے ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات مبارکہ اور ان کے کارنامے سب کے لے اسوہ اور نمونہ ہیں تو پھر عید گاہ جانے اور نماز عید پڑھنے میں کیوں انھوں مردوں سے الگ کردیا گیا ۔
بعض حضرات اس سلسلہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا : “لَوْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی الله عليه وسلم رَأَى مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ الْمَسْجِدَ كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِى إِسْرَائِيلَ”( صحيح البخاری: 1/ 219ا،صحيح مسلم: 2/ 34)
یعنی اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان نئی نئی چیزوں کو دیکھتے جو آج عورتوں نے ایجاد کرلی ہیں تو آپ انہیں مسجد جانے سے منع فرمادیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کردیا گیا تھا ۔
حالانکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کایہ قول ان کے لئے کسی طرح بھی حجت نہیں ہے ،کیونکہ :
(١) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اس قول سے مقصد عورتوں کو مسجد یا عید گاہ جانے اور وہاں نماز پڑھنے سے روکنا نہیں تھا، بلکہ انھیں نِت نئے انداز سے بن سنور کر اور زیب وزینت کرکے مسجد میں جانے سے روکنا تھا ، اورانہیں یہ بتانا تھا کہ تمہاری یہ حرکتیں ایسی خراب ہیں کہ اگر انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ لیتے تو میرے خیال میں تم لوگوں کو مسجدوں میں جانے سے روک دیتے ۔ اس واسطے تم لوگوں کو سادہ لباس میں، بغیر خوشبولگائے اور زیب وزینت کئے مسجد جانا چاہئے ، تاکہ نہ فرمان رسول کی مخالفت ہو نہ اور کسی قسم کا فتنہ ۔
(٢)اگر ماحول کے بگاڑ اور عورتوں میں نِت نئے انداز سے بننے سنورنے کی بیماری کے حوالے سے انھیں مسجد اور عید گاہ جانے سے روکنا ہے تو یہ حضرات بتائیں کہ انھیں مطلق بازار جانے اور شادی وغیرہ کی تقریبات میں شریک ہونے سے کیوں نہیں روکتے ؟
کیا ہے کوئی مفتی اور عالم جو یہ فتوی صادر فرمائے کہ عورتوں کے لئے مطلق بازار جانا حرام ہے ؟اور کسی بھی سیروتفریح کے مقام پر خواہ کتنے ہی پردہ اور احتیاط سے کیوں نہ جائیں ان کاجانا قطعاً ناجائزہے ؟ اورکسی تقریب میں ان کی شرکت گناہ کبیرہ اور ارتکاب محرم ہے ؟!
اور اگر کوئی ایسا فتویٰ صادرنہیں کرسکتا تو بتایا جائے کہ آخر صرف عید گاہ اور مسجدوں میں جانے سے عورتوں کوکیوں منع کیا جاتا ہے ، کیابازاروں ، سیروتفریح کے مقامات اور شادی وغیرہ کی تقریبات میں عورتوں کے گناہ میں پڑنے کا کوئی خدشہ نہیں ؟اور گناہوں کے سارے خطرات وخدشات بس مسجدوں ، عید گاہوں اور عبادت ونصیحت اور ذکر الٰہی کے مقامات پر ہی ہیں؟ جبکہ سب کو معلوم ہے کہ ان مقدس مقامات کا احترام اور ان کے تقدس کا احساس ہر مسلمان کے دل میں ہوتا ہے اور عموماً خواتین ان جگہوں پر صرف عبادت کی نیت سے ،سادہ لباس میں اور بغیر خوشبو لگائے اور ایسا زیور پہنے جن سے آواز پیدا ہو ،جاتی ہیں ،وہاں ان کے بیٹھنے اور نماز پڑھنے کی جگہ مردوں سے بالکل الگ ہوتی ہے ،پردے کا ہر طرح سے اہتمام و انتظام ہوتاہے ،اور آتے جاتے وقت ان کے ساتھ گھر کے لوگ اور محرم مرد رہتے ہیں جبکہ سیر وتفریح اور مارکٹنگ کے لئے جانے اور تقریبات میں شرکت کے وقت ان سب چیزوں کا اہتمام تقریبا ًنا کے برابر ہوتاہے ۔
(٣)یہ محض حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کاگمان تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان چیزوں کو دیکھتے تو عورتوں کو مسجدوں میں آنے سے روک دیتے ۔ جو درست نہیں تھا کیونکہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نہیں دیکھا تو اللہ تعالیٰ جو عالم الغیب ہے اور ماکان ومایکون کا علم رکھتا ہے کو تو معلوم تھا کہ بعد میں عورتیں زیب وزینت کے لئے کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کریں گی ۔ اس کے باوجود بھی جب اس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)کو حکم نہیں دیا کہ بعد میں عورتیں ایسا ایسا کریں گی اس واسطے انھیں مسجدوں اور عید گاہ میں جانے سے منع کردیجئے ، تو بعد میں یہ کہنا کیسے درست ہوگا کہ اگر آپ ایسا دیکھتے تو منع فرمادیتے۔
(٤) کتنی خواتین ایسی ہیں جو بڑی نیک و پرہیز گار اور شرع کی پابند ہیں اور مسجد اور عید گاہ جاتے وقت اس کے آداب و شروط کا پورا خیال رکھتی ہیں ،وہ ان مقدس مقامات پر صرف نمازیں پڑھنے خطبہ اور وعظ ونصیحت کی باتیں سننے اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شرکت کے لئے جاتی ہیں ، آخر انہیں کس بنیاد پر مسجد اور عیدگاہ جانے سے منع کیا جاتا ہے ؟
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ خواتین کو مسجد اور عید گاہ جانے کے آداب وشروط بتائے جائیں اور جو عورتیں ان کی خلاف ورزی کریں انہیں سمجھایا جائے مگر افسوس کہ جس کا انہیں (یعنی عید گاہ جانے کا) حکم دیا گیا ہے اس سے روکا جاتاہے اور جن چیزوں سے انہیں روکا گیا ہے ( جیسے خوشبو لگا کر ، بغیر پردہ کے اور آواز والے زیور پہن کر باہر نکلنے سے ) ان کی خلاف ورزیوں پر سکوت اختیار کیا جاتا ہے، اس طرح عورتوں کی حق تلفی اور اسلام کی غلط نمائندگی کی جاتی ہے اور برائیوں اور خرابیوں کا ازالہ بھی نہیں ہوتا جبکہ اگر شریعت کے صحیح صحیح ا حکام پر عمل کیا جا ئے اور عورتوں کو عید گاہ اور مساجد جانے دیا جائے اور انہیں وہاں اچھی اچھی نصیحتیں کی جائیں ، پردہ اور عفت وپاکدامنی کی اہمیت و فضلیت پر روشنی ڈالی جائے تقویٰ وپرہیز گاری اور عبادات کی ترغیب دی جائے اور بے پرد گی وعریانیت اور دیگر برائیوں سے روکا جائے تو ان کی اصلاح بھی ہوگی اور عورتوں پراسلام نے جو احسانات کئے ہیں اور حقوق سے نوازا ہے انہیں اس کا احساس بھی ہوگا اور اعدائے اسلام کو شریعت اسلامیہ پر اعتراض کرنے اور عورتوں کی حق تلفی کا بیجا الزام لگانے کا موقع بھی نہیں ملے گا ۔
مختصر یہ کہ اسلام نے عورتوں کو عید گاہ جانے اور نمازعید باجماعت پڑھنے اور اس کی خوشیوں میں شریک ہونے کا حق عطا کیاہے ،انہیں اس سے روکنا ان کے حق کو غصب کرنا ہے جس کی ہرگز اجازت نہیں ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق کے سمجھنے اور اس پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین.
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق