الخميس، 24 نوفمبر 2011

ماہ محرم کا استقبال کیسے کریں


ماہ محرم کا استقبال کیسے کریں؟
خطبہ مسنونہ کے بعد
ارشاد باری تعالی ہے : ﴿ إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ(التوبہ:۳۶)
اس آیت کریمہ میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے : بےشک مہینوں کی تعداد اللہ کے نذدیک اس دن سے جب سے اس نے آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق کی کتاب اللہ میں بارہ ہے ان میں سے چار مہینے حرمت و ظمت کے ہیں ، یہ دین قیم ہے پس تم ان مہینوں میں اپنے نفسوں پر ظلم نہ کرو اور تم تمام مشرکین سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سے لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے سب سے پہلی بات یہ بتائی ہے کہ سال کے بارہ مہینے آج کی ایجاد نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالی نے جس دن سب سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق کی  اسی وقت ان مہینوں کو بھی مقرر کر کے لوح محفوظ میں لکھ دیا۔پھر یہ بتایا کہ ان میں سے چار مہینےحرمت ، عزت اور ادب کے ہیں ، اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ یہ چار حرمت والے مہینے :رجب ، ذولقعدہ ، ذوالحجہ اور محرم ہیں ، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبہ میں فرمایا: کہ زمانہ گھوم گھام کر اپنی اصلیت پر آگیا ہے ، سال کے بارہ مہینےہیں جن میں سے چار حرمت و عظمت والے ہیں ، تین تو مسلسل اور پے در پے ہیں ، ذولقعدہ ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا رجب مضر ہے ، جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے ۔ (صحيح البخاری: 4/ 130، صحيح مسلم:5/ 107)
یوں تو ہر مہینہ میں گناہ و معصیت سے بچنا چاہئے ، لیکن ان مہینوں میں خصوصی طور سے گناہ و معصیت اور شرک و کفر سے اجتناب  کرنا چاہئے ، اور اپنی جانوں پر ظلم نہیں کرنا چاہئے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی سال کے مہینوں کا وجود اور اس کے چار مہینوں کی حرمت و عظمت ابتدائے آفرینش سے ہے ، اور تاقیام قیامت باقی رہے گی ، اور ان مہینوں میں سے ایک مہینہ محرم الحرام کا ہے ، اس مقدس و محترم اور حرمت و عظمت والے مہینہ میں ہمیں اللہ کی نافرمانیوں سے بچنا اورمحرمات و منہیات سے اجتناب کرنا چاہئے، مگر بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج لوگوں نے کتاب و سنت کی اس تعلیم کو فراموش کر دیا ہے ، اور کتنے مسلمان اسیے ہیں جو اس کی حرمت کو پامال کر رہے ہیں ۔
معزز سامعین! آپ حضرات کو معلوم ہے کہ زندہ قومیں اپنے نئے سال کا استقبال ہنستے مسکراتے اور عزم و ہمت کے ساتھ کرتی ہیں ، نئے سال کی آمد پر وہ خوشیاں مناتی ہیں ، اپنے سال گذشتہ کا جائزہ لیتی ہیں ، اور اس میں جو ان کو کامیابیاں اور ترقیاں حاصل ہوئیں اور جو نقصانات اور ناکامیاں ہوئیں سب کے اسباب کا پتہ  لگاتی ہیں ، اور ایک طرف جہاں ناکامیابیوں کے اسباب کو زائل کرنے کی تدبیر یں کرتی ہیں وہیں دوسری طرف کامیابیوں اور ترقیوں کے سابقہ وسائل کے ساتھ مزید نئے نئے وسائل و ذرائع  اور طریقے تلاش کرتی ہیں اور سابقہ غلطیوں پر رونے اور نوحہ و ماتم کرنے کے بجائے نئے حوصلے اور جذبے کے ساتھ آنے والے سال کو اور زیادہ کامیاب بنانے کے عمل میں لگ جاتی ہیں ۔یہ دنیا کی تمام ہوشیار اور زندہ قوموں کا طریقہ ہے کہ وہ اپنے آنے والی نسلوں کو ماضی کے واقعات پر رونے کے بجائے انہیں عزم و ہمت اور صبر و استقلال کا درس دیتی ہیں ۔
آپ غور کریں گے تو معلوم ہو گا کہ یہی طریقہ ہر عاقل اور ہوشیار شخص کا ہے ، جو شخص بھی کامیابی کے ساتھ اپنی منزل مقصود کو پہونچنا چاہتا ہے وہ اپنے سفر کا آغاز عزم و ہمت کے ساتھ کرتا ہے ، جو شخص چاہتا ہے کہ اس کی اولاد ، یا  اس کے شاگرد یا اس کے تحت کام کرنے والے لوگ کامیاب و کامران ہوں وہ ہمیشہ انہیں حوصلہ دلاتا ، عزم و ہمت اور صبر استقلال کی تلقین کرتا ہے ، انہیں ماضی کی غلطیوں ، مصیبتوں اور ناکامیوں کو بھلا کر نئے جوش وولولے کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے کہتا ہے ، اس کے برخلاف وہ قومیں جن کی قسمت میں تنزلی و ناکامی لکھ دی گئی ہے اور جنہوں نے اپنے لئے شکست و نامرادی کا طریقہ اختیار کر لیا ہے وہ  اپنے لئے سال کا استقبال رو رو کر کرتی ہیں ، جو لوگ کارگہ حیات میں ترقی و کامرانی کے رموز سے نابلد ہیں وہ اپنے کاموں کی ابتداء روتے ہوئے اور بے دلی سے کرتے ہیں ، جو والدین اور اساتذہ اور مربی حضرات ، ناتجربہ کار اور اصول تعلیم و تربیت سے ناواقف ہیں وہ اپنے بچوں اور شاگردوں کو ہمیشہ ان کی ناکامیوں کی یاد دلا کر انہیں کم ہمت او بزدل بنادیتے ہیں ، ان کے حوصلے پست کردیتے ہیں ، اس طرح انہیں نفع پہنچانے کے بجائے برباد کر دیتے ہیں۔
برادران اسلام!ان حقائق کی روشنی میں آپ غور کیجئے کہ جو لوگ اسلامی سال سے پہلے مہینے محرم الحرام کا استقبال نوحہ و ماتم اور گریہ وزاری سے کرتے ہیں جو اس کا استقبال سیاہ ماتمی لباس پہن کر کرتے ہیں ، کیا وہ  ملت اسلامیہ کے خیر خواہ ہیں ، کیا وہ قوموں کے عروج وزوال کے رموز و اسباب سے واقف ہیں ، یقینا یہ لوگ مسلمانوں کے یا نادان دوست ہیں یا چھپے ہوئے دشمن ، کہ اسلامی سال کے پہلے ہی مہینے میں مسلمانوں کو رونے دھونے اور نوحہ و ماتم کی تعلیم دے کر اور ہر سال ابتداء میں ہی ان کی ان کی پرانی ناکامیوں کی یاد دلا کر ان کو حوصلوں کو پست کرتے ہیں ۔
معزز سامعین ! اسلام ہمیں ہمیشہ صبر و استقلال کی تعلیم دیتا ہے اور جزع و فزع اور نوحہ و ماتم سے روکتاہے ،ارشاد باری ہے : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا (آل عمران :200) اے مومنو! تم صبر سے کام لو اور صبر کرنے میں تم کافروں سے سبقت لے جاؤ، نیز فرمایا: ﴿وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (البقرہ:155)ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف ، بھوک اور مال و جان اور پھلوں کی کمی کے ذریعہ اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری دیدیجئے۔
دیکھئے اللہ تعالی مسلمانوں کو نہ صرف صبر کرنے کی تلقین کرتا ہے بلکہ صبر و استقامت میں انہیں دوسری قوموں سے سبقت لے جانے کے لئے کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ خوف ، بھکمری ، جان ومال کی ہلاکت کی صورت میں جو مصیبتیں آتی ہیں ان میں اللہ کی جانب سے تمہاری آزمائش ہے ، کہ دیکھیں تم صبر و شکر سے کام لیتے ہو یا جزع و فرع کرتے ، روتے دھوتے اور جوحہ و ماتم کرتے ہو ، پھر صبر کرنے والوں کو بشارت دینے کے لئے کہا ، کامیابی و کامرانی کی بشارات، اجر و ثواب کی بشارت ، جنت اور اس کی لازوال و بے مثال نعمتوں کی بشارت ، اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “عَجَبًا لأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ وَلَيْسَ ذَاكَ لأَحَدٍ إِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ”( صحيح مسلم: 8/ 227) یعنی مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے ، اس  کا ہر عمل خیر ہے ، اور یہ خصوصیت صرف مومن کو حاصل ہے ،  اگر کوئی خوشی کی چیز حاصل ہوتی ہے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے ، جو اس کے لئے خیر ہوتاہے اور اگر کوئی ضرر اور تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے اور یہ بھی اس کے لئے بہتر اور خیر خواہی ہوتا ہے ۔
تو اسلام کی تعلیم مسلمانوں کو ہمیشہ صبر و شکر کی ہے ، بڑی سے بڑی مصیبت پر بھی مسلمانوں کو ہمیشہ ہمیش کے لئے رونے اور سوگ منانے کی اجازت نہیں دیتا ۔ صحیح بخاری (7/ 79)کتاب الجنائز باب حد المرأة على غير زوجها میں یہ روایت ہے کہ ملک شام سے حضرت ابو سفیان > کی وفات کی خبر آئی تو ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ < نے جو حضرت ابو سفیان > کی بیٹی تھیں تیسرے روز خشبو منگوائی اور اپنے گالوں اور باہوں پر ملیں اور فرمانے لگیں مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں تھی لیکن میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :“لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ تُحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا (صحيح البخاری:2/ 99) جو عورت اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو اس کے لئے کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں ، البتہ شوہر کے انتقال پر وہ چار مہینے دس دن سوگ منائے گی ۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شوہر کے سوا کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں رہا نوحہ و ماتم کرنا گریبان چاک کرنا ، سینہ کوبی کرنا تو وہ ایک دن کے لئے بھی جائز نہیں،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ”( صحيح البخاری: 2/ 104)وہ شخص ہم میں سے نہیں جو گال پیٹے ، گریبان چاک کرے اور جاہلیت کی پکار پکارے ، ، اور نوحہ کرنے سے نوحہ کرنے والا اور جس کا وہ نوحہ کرتا ہے دونوں عذاب الٰہی کے مستحق ہیں ، رسول اکرم  ﷺ فرماتے ہیں : “أَرْبَعٌ فِى أُمَّتِى مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ لاَ يَتْرُكُونَهُنَّ : الْفَخْرُ فِى الأَحْسَابِ وَالطَّعْنُ فِى الأَنْسَابِ وَالاِسْتِسْقَاءُ بِالنُّجُومِ وَالنِّيَاحَةُ , وَقَالَ : النَّائِحَةُ إِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ مَوْتِهَا تُقَامُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَعَلَيْهَا سِرْبَالٌ مِنْ قَطِرَانٍ وَدِرْعٌ مِنْ جَرَبٍ ” میری امت میں چار چیز جاہلیت کی ہیں جنہیں لوگ نہیں  چھوڑیں گے :( ۱) حسب پر فخر کرنا ، (۲)نسب کے بارے میں طعنہ زنی کرنا   (۳ )ستاروں کے ذریعہ بارش طلب کرنا (۴) نوحہ کرنا ،اگر نوحہ کرنے والی نے اپنے موت سے قبل توبہ نہ کیا تو بروز قیامت اسے تارکول کو قمیص اور خارش کی زرہ پنا کر کھڑا کیا جائےگا۔
          ایک حدیث میں آپ نے فرمایا: “مَنْ نِيحَ عَلَيْهِ يُعَذَّبُ بِمَا نِيحَ عَلَيْه (صحيح البخاری: 2/ 102)جس پر نوحہ کیا گیا اس کو نوحہ کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ میت پر نوحہ کرنا اس کی خیر خواہی اور محبت نہیں بلکہ اس کے ساتھ عداوت و دشمنی ہے ، کیونکہ اس کی وجہ سے اس پر عذاب ہوتا ہے ۔
          معزز سامعین! تاریخ اسلام ظلم و ستم اور مصائب و آلام کے واقعات سے بھری پڑی ہے ، ہمارے رسول حضرت محمد ﷺ کو مشرکین مکہ اور کفار عرب نے طرح طرح سے اذیتیں دیں ، آ پ کو دیوانہ او رپاگل کہا گیا ، ساحر و کاہن کہا گیا ، آپ پر پتھر وں کی بارش کی گئی اوباشوں کو آپ کے پیچھے لگایا گیا ، عزوہ احد میں آپ کے رخسار مبارک زخمی اور دندان مبارک شہید ہوئے ، آپ کو اور آپ کے صحابہ کرام } کو اپنے دین و عقیدہ کی حفاظت کے لئے اپنا گھر بار اور مال و متاع چھوڑ کر ہجرت کرنے پڑی ، طائف میں آپ پر کس قدر ظلم و ستم ہوا ، حضرت عمار بن یاسر ، حضرت سمیہ ، حضرت خباب } اور دیگر بہت سے صحابہ کرام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے  گئےسید الشہداء عم رسول حضرت حمزہ > کی شہادت ہوئی ، ان کا مثلہ کیا گیا مختلف غزوات میں سیکڑوں صحابہ کرام نے جام شہادت نوش کی ، مگر ان میں سے کسی کے نوحہ و ماتم کے لئے کوئی دن اور اور مہینہ مقرر نہیں کیا گیا ، ایک ساتھ ستر قراء کو غداری اور بے وفائی و وعدہ خلافی کر کے قتل کر دیا گیاان کے اس سفاکانہ قتل پر رسول اللہ  ﷺکوسخت تکلیف پہونچی ، ان کے قاتلوں کے لئے آپ نے مہینہ بھر مسلسل بدعا کرتے رہے ، مگر نوحہ و ماتم اور سینہ کوبی کا اہتمام نہیں کیا ، حالانکہ ان لوگوں کا قتل حکومت و سلطنت حاصل کرنے کے لئے نہیں ہوا تھا ، یہ کسی حکومت کو چھیننے اورخود حاکم بننے نہیں گئے تھے ، ان کا مقصد صرف دین اسلام کی اشاعت اورلوگوں کو کفر و شرک کی ظلمتوں سے نکال کر ایمان و اسلام کی روشنی میں لانا تھا ، وہ ان لوگوں کو جہنم کی آگ سے بچا کر جنت میں پہونچانا چاہتے تھے ، مگر افسوس کی تمام تعلیمات کو فراموش کر کے اور اسلاف کے طریقے سے روگردانی کر کے کچھ لوگ ہر سال ماہ محرم میں حضرت حسین > اور ان کے ساتھیوں پر نوحہ و ماتم کرتے ہیں ۔
          معزز سامعین ! آپ کو معلوم ہے جب کسی کی حکومت چھیننے اور اس پر قبضہ کرنے کے لئے کوئی اپنی جماعت اور فوج لے کر جائے گا تو ایسے موقع پر قتل و خونریزی کا ہونا لازمی ہے ، کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ ہر شخص اپنے مال و دولت اور حکومت و سلطنت کی حفاظت کرتا ہے اور اس کےچھیننے کی کوشش کرنے والے دشمن سے لڑتا اور جنگ کرتا ہے ، اور اس کو ہلاک و برباد کرنے کی کوشش کرتا ہے ، خواہ اس کامخالف کتنوں زیادہ اچھا اور اعلی خاندان کا کیوں نہ ہو ، کیا یہ بات افسوس ناک نہیں کہ لوگ ان تمام امور کو نظر انداز کر دیتے ہیں اس واقعہ کے اصل ذمہ داروں اور مجرموں اور غداروں کو فراموش کر دیتے ہیں جنہوں نے حضرت حسین اور ان کے ساتھیوں کو ہر طرح سے ساتھ دینے اور تعاون کرنے کا وعدہ کرکے بلایا اور پھر غداری کی اور انہیں دشمنوں کے حوالہ کر دیا ، ان غداروں پر لعنت کرنے کے بجائے رسول اللہ ﷺ کے معزز صحابہ کرام } کو خلافاء راشدین  حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان ، حضرت علی } پر سب و شتم کرتے ہیں ۔
          محترم حاضرین! یہ مہینہ فتح و نصرت کا مہینہ ہے ، اسی مہینہ میں اور اس کی دسویں تاریخ کو اللہ تعالی نے حضرت موسی         اور ان کی قوم کو فرعونی ظلم و ستم سے نجات دی ، چنانچہ اس خوشی میں حضرت موسی        نےروزہ رکھا  ، حضرت ابن عباس > سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو  دسویں محرم کا روزہ رکھتے دیکھا، آپ ﷺ نے ان سے اس کی وجہ پوچھی انہوں نے بتایا کہ یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے حضرت موسی        اور ان کی قوم کو فرعون اور اس کے ظلم و ستم سے نجات دی ، لہٰذااس خوشی میں ہم اس دن روزہ رکھتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہم تمہاری بہ نسبت موسی         سے زیادہ قریب ہیں ، اور اس کا زیادہ حق رکھتے ہیں پھر آپ نے خود اس دن کا روزہ رکھا اور اپنی امت کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔
          یہی وہ مہینہ ہے جس کو اسلامی کلینڈر اور ہجری سن کا پہلا مہینہ ہونے کا شرف حاصل ہے ، اس کے آتے ہی ہجرت کو وہ عظیم واقعہ یاد آتا ہے جس نے اسلامی تاریخ اک رخ موڑ دیا اور اسلام اور مسلمانوں مظلومیت کو دور سے نکل کر عروج و ترقی کے دور میں داخل ہوگئے ، مسلمانوں کو اسلامی حکومت قائم کرنے اور اپنے تمام بھائیوں کی ایک جگہ اکٹھا کر کے اپنی طاقت مضبوط کرنے اور پوری آزادی اور قوت کے ساتھ اسلام کی اشاعت کا موقع ملا۔
          معزز سامعین ! یہ مہینہ ایسا تھا کہ اس میں ہجرت نبوی کی یادیں تازہ کی جاتی ، اس عبرت ناک واقعہ کو از اول تا آخر نیا کیا جاتا ، یار غار رسول سیدنا حضرت ابو بکر صدیق > پاسبان شب ہجرت حضرت علی > اور دیگر صحابہ کرام } اور  صحابیات رضوان اللہ علیھن کی بیش بہا قربانیوں اور شجاعتوں کا تذکرہ ہوتا ،ہجرت نبوی کا کیا پیغام ہے او رحق کی حفاظت اور اشاعت کے لئے کس طرح قربانیاں دینی پڑتی ہیں اس کا بیان ہوتا، مگر افسوس کہ ایسا کرنے کے بجائے مسلمان بہت سارے خرافات کرتے ہیں ۔
          یہ مہینہ اہل حق کے لئے فتح و کامرانی ، نجات و کامیابی کا مہینہ ہے یہ شکرانے کے روزے رکھنے کا مہینہ ہے ، یہ مہینہ اس میں رونما ہونے والے واقعات ہمیں پیغام دیتے ہیں کہ مسلمانو! تمہارا شعار گذرے ہوئے مصائب پر رونا اور نوحہ و ماتم کرنا نہیں کیونکہ یہ مصیبتیں جنہوں نے برداشت کی ان کے لئے وہ کامیابی اور رفع درجات کا موجب بنیں ، ان کے لئے وہ رحمت و نعمت ثابت ہوئیں ، اس کی وجہ سے انہیں تقرب الٰہی حاصل ہوا اور اللہ تعالی کی جنت میں انہیں اعلی منازل عطا فرمائے گا ، ان مصائب و قربانیوں کو یاد کر کے تمہیں بھی اپنے اندر ویسے ہی بہادری صبر تحمل اور حق کی خاطر قربانی دینے کا جذبہ ، ہمت اور عزم پیدا کرنا چاہئے ، اپنے اسلاف کی طرح تمہیں بھی ہنستے مسکراتے مصائب و آلام کا مقابلہ کرنا چاہئے،حق پر ثابت قدم رہنا چاہئے تب فتح و کامرانی نصیب ہوگی اور عزت و عظمت تمہاری قدم بوسی کرے گی۔
          محترم حاضرین! یہ مہینہ ہمیں درس دیتا ہے کہ مصائب و آلام کےکتنے بھی طوفان آئیں اور ظلم و ستم کی چکی میں ہم پیسے جائیں لیکن ہمیں اپنے اسلامی عقائد ، تہذیب و ثقافت ، اپنے دین اور مذہب سے ہرگز دست بردار نہیں ہونا چاہئے ۔
          یہ مہینہ ہمیں پیغام دیتا ہے کہ ایک مسلمان اپنے گھر بار سے دست بردار ہوسکتا ہے اپنے مال و متاع کی قربانی دے سکتا ہے ، خاندان اور قبیلے سے علاحدگی اختیار کر سکتا ہے اپنی جان کا بھی نذرانہ پیش کر سکتا ہے لیکن وہ اپنے عقیدہ کو ترک نہیں کر سکتا ، یہ مہینہ ہم سے پکار پکار کر کہتا ہے کہ مسلمانو! اسلام و ایمان کی راہ اختیار کرنا اور اس پر جمے رہنا آسان نہیں ، تمہیں اس راہ میں پھول بچھے ہوئے نہیں ملیں گے بلکہ تمہیں اپنی منزل مقصود تک پہونچنا ہے ، اپنے رب کی بارگاہ میں شرف قبولیت حاصل کرنا اور جنت کا مستحق بننا ہے تو تمہیں کانٹوں سے گزرنا پڑے گا۔
          یہ مہینہ ہمیں پیغام دیتا ہے کہ بے وفاؤں اور غداروں سے بہت ہوشیار رہنا ، انھوں نے اسلامی کاز کو ہمیشہ نقصان پہونچایا ہے یہ ما ۔۔۔۔۔آستین ہیں انہوں نے دوست ، ہمدرد اور بہی خواہ بن کر عالم اسلام کے قلب میں ہمیشہ خنجر مارا ہے ، خاص طور پر ارض الفتنہ عراق کے بے وفاؤں سے ہمیشہ متنبہ رہنا ، دیکھنا ان ے دھوکے میں نہ آنا انہوں نے نہ حضرت علی > سے وفاداری کی ، نہ حضرت حسین > سے ، نہ کسی اور مسلمان سے۔
          یہ مہینہ ہمیں پیغام دیتا ہے کہ ہمیشہ فتح و کامرانی اور ہمت و بہادری کے واقعات یاد کرنا ان پر رب کا شکر ادا کرنا شکستوں و ناکامیوں کا تذکرہ ہو تو عبرت و موعظت کے لئے  نہ گریہ وزاری  اور نوحہ و ماتم کے لئے ، کیونکہ ہمیشہ رونا اور نوحہ و ماتم کرنا زندہ قوموں کا طریقہ نہیں ۔
          یہ مہینہ ہمیں پیغام دیتا ہے کہ مسلمانو! ہمیشہ ایک دوسرے کا تعاون کرنا مصیبتو ں میں ایک دوسرے کے کام آنا ، اور ہمیشہ ایسے کام کرنا جن سے مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد اور مودت و محبت پیدا ہو ، سلف صالحین کو سب و شتم ، تبر بازی اور کوئی ایس کام پرگز نہ کرنا جو شرع کے مخالف ہو اور جس سے مسلمانوں میں اختلاف و انتشار ہو ، انہیں چیزوں نے تمہیں برباد کیا ہے اور انہیں کی وجہ سے کشتی غرقاب ہوئی ہے۔
          اللہ کرے ہم ان پیغامات کو صحیح طور سے سمجھ جائیں ، ہم اپنے دوستوں اور دشمنوں میں تمیز کر سکیں ، اے اللہ تو اس ماہ اور پورے سال کو ہمارے لئے خیر و برکت اور فتح نصرف کا ماہ و سال بنا ، ہمیں حق پر ثابت قدم رکھ ، اور اسلام -ا ور مسلمانوں کو تمام مصائب سے حفاظت فرما اور انہیں ترقیوں سے نواز۔ آمین

هناك 3 تعليقات:

  1. جزاكم الله خيرا

    نہايت ہى پرمغز اور چشم كشا خطاب ہـے ، الله تعالى امت مسلمہ كي اصلاح فرمائے اورانہين صحيح سمجہ عطافرمائے آمين

    ردحذف