السبت، 24 ديسمبر 2011


غیر مسلموں کی عیدوں میں شرکت کا حکم
خطبہ مسنونہ کے بعد!
          قال تعالیٰ: ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (6) صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (الفاتحہ:۶- ۷) وقال فی موضع آخر:﴿ وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا(الفرقان: ۷۲)  وقال النبیﷺ: “مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ” (سنن أبو داود :4/ 78)
          معزز سامعین !ان دنوں یہ اطلاع اور شکایت مختلف لوگوں کے ذریعہ اور بار بار مل رہی ہے کہ بہت سے مسلمان خاص طور سے نوجوان لڑکے ہندوؤں ، عیسائیوں اور کافروں کے مذہبی تہواروں اور رقص و سرور کی مجلسوں میں شرکت کرتے ہیں ان تہواروں اور مجلسوں میں جوان ہندو لڑکے اور کڑکیاں مل کر رقص کرتے ، گانے گاتے اور رات رات بھر لہو ولعب اور ناچ گانے میں مشغول رہتے ہیں ،ان مجلس میں مسلمان مرد اور نوجوان لڑکے بھی حاضر ہوتے ہیں اور وہاں جاکر صرف تماشہ بینی ہی نہیں کرتے بلکہ بہت سے لڑکے ہندو لڑکیوں کے ساتھ مل کر رقص کرتے اور ڈانڈیا کھیلتے ہیں بعض لوگوں نے تو یہ بھی کہنا ہے کہ اب اس قسم کی مجلسوں اور پروگراموں میں مسلم لڑکیاں اور خواتین بھی شرکت کرنے لگی ہیں ۔
          معزز سامعین!یہ بھی بہت ہی خطرناک انتہائی قابل افسوس اور بڑی تشویش ناک بات ہے ، اور ہمارے علماء کرام مسلم قائدین ملت کے بہی خواہوں اور ان لڑکوں ، لڑکیوں اور خواتین کے سرپرستوں کو اس جانب فوراتوجہ دینے کی ضرورت ہے ، اس لئے کہ اس سے صرف اسلامی تہذیب و تمدن ، اسلامی اخلاق وعادات ، دینی غیرت و حمیت ، شرم و حیا اور شرافت و پاکدامنی ہی کا ستیانس نہیں ہورہاہے ،بلکہ اس سے ارتداد اور کفر وشرک کا دروازہ بھی کھل رہا ہے ، ایسے لوگوں کا دین اسلام چھوڑ کر مرتد ہونے کا خطرہ ہے کسی بھی قوم کے تقلید کرنے ان کے وضع قطع ، شکل و صورت ،لباس وزبان ، عادات واطوار ، تہذیب وتمدن رسم ورواج کو اختیار کرنے اور ان کے مذہبی تہواروں میں شرکت کرنے اور حصہ لینے کے بہت نقصانات ہیں ، مثلاً:
1- اس کی وجہ سے اسلامی تہذیب وثقافت ، اخلاق عادات اور شکل وصورت پر کافروں اور غیر مسلموں کی تہذیب وتمدن اور اخلاق وعادات کو ترجیح دینے لگیں گے ، اور آہستہ آہستہ ایک وقت ایسا آئے گا جب اپنی اسلامی تہذیب اور عادات واطوار کو بالکل بھول جائیں گے ، اور ان کا رشتہ اپنے ماضی سے بالکل کٹ جائے گا۔
2- آہستہ آہستہ ان کے دلوں سے اسلامی عبادات وشعائر کا احترام اور منزلت ختم ہوجائے گی اور اسلامی و غیر اسلامی امور میں تفریق و تمیز کا احساس ان کے دلوں سے ختم ہوجائے گا وہ دوسری قوموں میں اس طرح مل جائیں گے کہ ان میں اور کفار میں فرق کرنا مشکل ہوجائے گا وہ برائے نام مسلمان رہ جائیں گے اور مسلمان کی زبان ، ثقافت، تہذیب ، عبادتیں اور تہوار کچھ بھی اپنی اصل شکل میں نہیں رہ جائیں گے۔
3- ان کے دلوں میں کفار و مشرکین اور ان کے غیر اسلامی عقائد و اعمال سے ایسی محبت اور لگاؤ ہوجائے گا کی وہ اس کی خاطر اخوت و محبت ،اسلامی عقائد اور اسلام کی عزت و وقارکو پس پشت ڈالدیں گے۔
4- ان کے اندر اخلاقی بگاڑ پیدا ہوگا ، بے حیائی و بے شرمی عام ہوگی عفت وپکدامنی کا تصور ختم ہوجائے گا ، غیر مسلم لڑکیوں اور لڑکوں سے شادیاں ہوں گی ،بہت سے لڑکے لڑکیاں اپنی اور اپنی قوم کی عزت و آبرو اور دینی عقیدہ سب ضائع کردیں گے اور اسلام و مسلمانوں کی بدنامی کا سبب بنیں گے۔
5- غیر مسلم لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ اس طرح بے محابہ اختلاط کی وجہ سے کبھی جھگڑا اور فرقہ وارانہ فساد ہوگا جس میں ان خطا کاروں اور ظالموں کے ساتھ بہت سے بے گناہ مسلمان بھی مارے جائیں گے ، ان کی عزتیں لوٹی جائیں گی ، ان کے مکانات اور دکانیں جلائی جائیں گی ، ان کی دولت وشروت کو لوٹ کر کاروبارکو تباہ کرکے انہیں ذلت ورسوائی اور غربت و مسکنت کی زندگی کذارنے پر مجبور کردیا جائے گا۔
6- ان کے مذہبی تہواروں میں جو رقص و غنا ہوتا ہے وہ ان کے معبودان باطلہ کی عبادت کے طور پر اور ان کو خوش کر نے کے لئے ہوتا ہے ، اور اس میں شرکت کرنے کا مطلب غیر اسلامی شعائر کی تعظیم اور غیراللہ کی عبادت اور پرستش ہے جو سراسر کفر و ارتداد ہے۔
          معزز سامعین!کسی بھی قوم کی تقلید لوگ جن امور میں کرتے ہیں وہ ان سے مرعوب ہوکر، اور خواہ لاشعوری طور پر ہی  ان امور کو اپنے یہاں پائے جانے والے اس طرح کے امور پر ترجیح دے کر اور اس قوم سے باطنی طور پر محبت و انسیت کی بنا پر کرتے ہیں ، آپ نے سفر میں اور بہت ساری مجلسوں میں ملاحظہ کیا ہوگا کہ جن کا لباس ، شکل و صورت، بال ، داڑھی اور علم و ثقافت ایک طرح ہوتی ہے وہ ایک دوسرے سے انسیت محسوس کرتے ہیں اور انہیں کے پاس بیٹھنے اور بات چیت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ، کیوں؟ اس لئے کہ ظاہری مشابہت ان کی باطنی مشابہت پر دلالت کرتی ہے ، اور انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمارے ہم مزاج ، ہم مشرب وہم خیال ہیں ، علماء و صلحا کا لباس اور وضع قطع اختیار کرنے والے اپنے اخلاق وکردار اور اعمال واقوال کی بھی اچھا بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور برائیوں اور غلط چیزوں ست اجتناب کرتے ہیں تاکہ ان کے لباس ووضع قطع کی لاج رہ جائے ، پھروہ بروں کی صحبت سے اجتناب کرتے اور اچھے لوگوں کی صحبت میں رہتے ہیں جس سے ان کی مزید اصلاح ہوتی ہے ، اس کے برخلاف مشرکوں ، کافروںاور اہل بدعت کے شکار لوگوں کی شکل و صورت اختیار کرنے والے ایسے ہی لوگوں کے طور طریقے اختیار کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ اچھائیوں اور برائیوں سے دور ہوتے جاتے ہیں ۔
          مسلمانوں میں داڑھی منڈانے مونچھ بڑھانے، انگریزی بال رکھنے ، انگریزی لباس پہنے ، گھڑے ہوگر پیشاب کرنے، بائیں ہاتھ سے کھانا کھانے ، سگریٹ نوشی ،شراب خوری ،روزہ و نماز سے غفلت ، دینی شرائر کااستہزاء وغیرہ خرابیاں اور برائیاں دوسروں کی تقلید اور مجالست و مشابہت کی بناپر پیدا ہوئی ہیں۔بہرحال دوسری قوموں کی مشاہت اختیا ر کرنے کے بیشمار نقصانات ہیں اسی واسطے پر وقم اپنی تہذیب وثقافت ، زبان و کلچر ، اخلاق وعادات ، لباس و وضع قطع اور مذہبی تہوار وں اور شعائردینیہ کی بھر پور حفاظت کرتی ہے اور اپنے فرزندوں کو دوسروں کی تقلید کرنے اور مشابہت اختیار کرنے سے روکتی ہے۔اسلام نے بھی یہود ونصاری اور مشرکین واعاجم کی مشابہت اختیار کرنے سے سختی کے ساتھ روکا ہے تاکہ اس مشابہت کی وجہ سے ان کے اندر ان قوموں کی ضلالتیں فاسد عقائد وافکار اور غلط رسم ورواج نہ داخل ہوجائیں ۔رسول اللہ ﷺ نے دوسری قوموں کی تقلید ومشاہت کی تاثیر اور مضروتوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: “مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ” (رواہ بوداود:4/ 78،واحمد وقال ابن قیم : اسنادہ جید ، وذکرہ ابن الحجر فی الفتح وذکرہ شاھدا مرسلاباسناد حسن وذکرہ السیوطی فی الجامع الصغیر واشارانہ حسن)
          جس نے کسی قوم کی مشاہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے ، اس حدیث کی روشنی میں کسی قوم کی دینی ومذہبی امور میں مشابہت اختیار کرنا گویا اپنے آپ کو ان امور میں اسلام سے خارج کر کے اس قوم میں داخل کرنا ہے ، خود اللہ تعالی فرماتا ہے :﴿وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ (المائدہ :51)اور حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں :﴿مَنْ بَنَى بِبِلاَدِ الأَعَاجِمِ وَصَنَعَ نَيْرُوزَهُمْ وَمِهْرَجَانَهُمْ وَتَشَبَّهَ بِهِمْ حَتَّى يَمُوتَ وَهُوَ كَذَلِكَ حُشِرَ مَعَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (رواہ البیہقی فی السنن الکبری: 9/ 234)
          جس نے مشرکین کے ملک میں گھر بنایا اور ان کے نیروز و مہرجان نامی تہواروں کو منایا اور ان سے مشابہت اختیار کی یہاں تک کہ اسی حالت میں انتقال کرجائے تو قیامت کے دن اس کا حشرانہیں کے ساتھ ہوگا، اس واسطے دوسری قوموں کی مشابہت اختار کرنے سے دوسری قوموں کی مشابہت اختیار کرنے سے مسلمانوں کو بڑی شدت سے اجتناب کرنا چاہئے ،سورہ فاتحہ جسے ہرنماز بلکہ ہر رکعت میں پڑھا جاتا ہے اس میں اللہ جل شانہ نے ہمیں: ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (6) صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (الفاتحہ:۶- ۷)  کی دعا سکھائی ہے ، یعنی اے اللہ ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت دے ان لوگوں کے راستے پر چلا جن پر تیرا انعام ہوا ہے اور ان کے راستے پر نہ چلا جن پر تیرا غضب نازل ہواہے اور نہ گمراہوں کے راستے پر چلا ۔ ﴿ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْسے مراد یہود اور ﴿الضَّالِّينَ سے مراد نصاری ہیں ، مگر ان کے عموم میں وہ تمام قومیں داخل ہیں جو گمراہ ہیں اور غضب الٰہی کے مستحق ہیں ، اس طرح اس میں یہود و نصاری تمام کفار و مشرکین کی روش اختیار کرنے سے محفوظ رکھنے کی دعا ہے اور ظاہر ہے کہ ان کے طریقے غلط اور مہلک ہیں اسی واسطے ان سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے ، اس واسطے ہمیں کفار کے تمام اور طریقوں سے جن میں ان کے تہوار بھی داخل ہیں اجتناب کرنا چاہئے اور ان سے محفوظ رہنے کے لئے اللہ سے دعا کرنا چاہئے۔
          معزز سامعین!اگر آپ احادیث نبویہ اور رسول اللہﷺ کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ آپ نے قدم قدم پر یہود ونصاری ، مجوس ، مشرکین اور اعاجم کے طور طریقوں کی مخالفت کی ہے اور مسلمانوں کی مخالفت کا حکم دیا ہے ،حضرت ابن عمر { سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:“خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ أَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَأَوْفُوا اللِّحَى”(صحيح البخاری:7/ 206، صحيح مسلم :1/ 222)مشرکین کی مخالفت کرو ، مونچھوں کو پست کرو اور داڑھی کو بڑھاؤ۔ اور حضرت ابو ہریرہ > کی حدیث میں ہے :“جُزُّوا الشَّوَارِبَ وَأَرْخُوا اللِّحَى خَالِفُوا الْمَجُوسَ” (صحيح مسلم :1/ 222) مونچھیں کٹاؤ، اور داڑھی بڑھاؤ ، اور مجوسیوں کی مخالفت کرو۔
          معاشرت کے سلسلہ میں دیکھئے حضرت انس > کی رووایت ہے کہ یہودیوں کے یہاں رواج تھا کہ عورت جب حالت حیض میں ہوتی تو اس سے علاحدگی اختیار کر لیتے ، نہ اس کے ساتھ کھانا کھاتے ، نہ اس کے ساتھ ایک کھر میں لیٹے بیٹھتے ، صحابہ کرام } نے اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ:﴿ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ نازل فرمایا، یعنی لوگ آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں ،کہہ دو وہ گندی چیز ہے ، اس واسطے حیض کی جگہ سے الگ رہو، اس کے بعد آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا: “اصْنَعُوا كُلَّ شَىْءٍ إِلاَّ النِّكَاحَ” جماع کے علاوہ ہر چیز کرو ، یونی ان کے ساتھ کھاؤ ،پیو ،لیٹو ، بیٹھو ، صرف جماع سے اجتناب کرو ، جب یہ بات یہودیوں تک پہونچی تو انہوں نے کہا کہ اس آدمی کو کیا ہوگیا ہے کہ ہر چیز میں ہماری مخالفت کرتا ہے ۔( صحيح مسلم: 1/ 246)
          نماز کے سلسلہ میں دیکھئے ، یہود جوتوں اور موزوںمیں نماز نہیں پڑھتے تھے ، آپ ﷺنے ان میں نماز پڑھنے کی اجازت دی،اور فرمایا:“خَالِفُوا الْيَهُودَ فَإِنَّهُمْ لاَ يُصَلُّونَ فِى نِعَالِهِمْ وَلاَ خِفَافِهِمْ” یہود کی مخالفت کرو ، اس لئے کہ وہ اپنے جوتوں اور موزوں (چمڑے کے)میں نماز نہیں پڑھتے ہیں ۔(رواہ ابو داود :1/ 247)
          قبلہ کے سلسلہ میں ان کی مخالفت کرتے ہوئے بیت المقدس کے بجائے خانہ کعبہ کو مسلمانوں کا قبلہ قرار دیا ، سورج کے طلوع اور غروب کے وقت نماز سے منع فرمایا، تاکہ کفار کی مشابہت نہ ہو ، کیونکہ وہ اس وقت اس کو سجدہ کرتے ہِیں۔
روزے کے بارے میں فرمایا:“فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَهْلِ الْكِتَابِ أَكْلَةُ السَّحَرِ” (صحيح مسلم: 2/ 770) یعنی ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا فرق ہے ، وہ سحری نہیں کھاتے ہیں اور ہم سحری کھاتے ہیں ، ایک حدیث میں آپ نے فرمایا:“لاَ يَزَالُ الدِّينُ ظَاهِرًا مَا عَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَ لأَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى يُؤَخِّرُونَ”( سنن أبی داود: 2/ 277) جب تک مسلمان افطار میں جلدی کریں گے یہ دین غالب رہے گا ، اس واسطے کہ یہود و نصاری اس مین تاخیر کرتے ہیں ، اس حدیث میں یہود و نصاری کی مخالفت کا حکم ہی نہیں دیا ، بلکہ یہ بھی بتایا کہ جب تک مسلمان ان کی مخالفت کرتے رہیں گے اس وقت تک دین اسلام کو غلبہ حاصل رہے گا۔
          یوم عاشورہ کے روزےکے بارے میں معلوم ہے کہ آپ نے یہ روزہ خود رکھا اور صحابہ کرام} کو اس کا حکم دیا ، اور اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:“أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِى قَبْلَهُ”( صحيح مسلم: 2/ 818) اللہ سے امید ہے کہ اس سے ایک سال پہلے کے صغیرہ گناہ معاف کر دئے جائیں گے ، مگر جب صحابہ کرام } نے کہا کہ اے اللہ کے رسول اس دن کی تو یہود  نصاری تعظیم کرتے ہیں ، تو آپ نے ان کی مخالفت کا حکم دیا ، صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس { کی روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے یوم عاشورہ کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس کے روزےرکھنے کا حکم دیا تو لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول یہ دن ایسا ہے جس کی یہود و نصاری تعظیم کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب آئندہ سال ہوگا تو اگر اللہ نے چاہا تو ہم نوویں تاریخ کو بھی روزہ رکھیں گے ، مگر آئندہ سال یوم عاشورہ آنے سے پہلے ہی آپ کی وفات ہوگئی۔( صحیح مسلم:۲/ ۷۹۷- ۷۹۸ [۱۱۳۳])
          اور مسند احمد (۱/ ۲۴۱)میں حضرت ابن عباس {ہی کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:“صُومُوا يَوْمَ عَاشُورَاءَ ، وَخَالِفُوا فِيهِ الْيَهُودَ ، صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا ، أَوْ بَعْدَهُ يَوْمًا” یوم عاشورہ کا روزہ رکھو اور اس میں یہود کی مخالفت کرو ایک دن اس سے پہلے یا ایک دن اس کے بعد روزہ رکھو۔
          غور کیجئے کہ اس فضیلت والے دن کے روزے میں بھی ان کی مخالفت کا حکم دیا اور فرمایا : ایک دن اس کے ساتھ ملا لو اور ۹- ۱۰ یا ۱۰ – ۱۱ محرم کا روزہ رکھو۔
معزز حاضرین!آپ کو معلوم ہے یہودیوں کے یہاں ہفتہ کی عید اور متبرک و مقدس دن سنیچر کا دن ہے ، اور عیسائیوں کے یہاں اتوارکا دن ، مگر مسلمانوں کے لئے شریعت اسلامیہ نے جمعہ کا دن مقرر کیا تاکہ ان میں سے کسی کی موافقت نہ ہو ۔
 عیدین کے سلسلہ میں حضرت انس > کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیکھا کہ اہل مدینہ کے یہاں دو دن ہیں جن میں وہ کھیلتے کودتے اور خوشیاں مناتے ہیں ، آپ نے ان سے دریافت فرمایا:“مَا هَذَانِ الْيَوْمَانِ” یہ دونوں دن کیسے ہیں ؟ یعنی تم کیوں ان میں کھیلتے کودتے اور تہوار مناتے ہو ؟ انھوں نے جواب دیا : “كُنَّا نَلْعَبُ فِيهِمَا فِى الْجَاهِلِيَّةِ” ہم لوگ ان میں دور جاہلیت میں کھیلتے تھے ، اور اس رواج کے مطابق آج بھی کھیلتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:“إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا يَوْمَ الأَضْحَى وَيَوْمَ الْفِطْر” اللہ نے تم کو ان کے بدلے ان سے بہتر دو دن تہوار دئے ہیں : قربانی کا دن اور عید الفطر۔(سنن أبی داود:1/ 441)
غور کیجئے کہ دور جاہلیت کے تہواروں کے دونوں کے بدلے میں رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کے عید کے دوسرے دو  دن مقرر کئے ، اور جاہلیت کے ان دونوں  دنوں میں کھیلنے کودنے ، اور عید منانے کی اجازت نہیں دی ، اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے صرف دو تہوار ہیں : عید الفطر اور عید الاضحی ، ، اور ان کے علاوہ جتنے بھی تہووار لوگوں نے بنائے ہیں وہ سب غلط ہیں ، خواہ وہ عید میلاد النبی ہو یا دسویں محرم ہو یا پندرہویں شعبان ، یا اور کوئی دن ، اسی طرح اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو غیر مسلموں کے تہوار میں شرکت نہیں کرنا چاہئے ، خواہ وہ یہودیوں کا تہوار ہو یا عیسائیوں کا یا ہندوؤں کو یا مجوسیوں کا یا اور کسی مذہب والوں کا ،  اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ ایک مرتبہ عید کے دن رسول اللہ ﷺ کے گھر حضرت ابو بکر > تشریف لائے ، تو دیکھا کہ آپ منہ پر کپڑا ڈالے ہوئے لیٹے ہیں، اور دو بچیاں گیت گا رہی ہیں ، ، آپ نے انہیں ڈانٹا ، تو رسول اللہ ﷺ نے چہرہ مبارک سے کپڑا ہٹایا ، اور فرمایا:“دَعْهَا يَا أَبَا بَكْرٍ، فَإِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا، وَهَذَا عِيدُنَا” (المسند المستخرج على صحيح الإمام مسلم :2/ 476)اے ابو بکر انہیں چھوڑ دو ، ہر قوم کی عید ہوتی ہے ان کی خوشی کا ایک دن ہوتا ہے اور یہ ہماری عید کا دن ہے ، اس حدیث میں آپ نے مسلمانوں اور غیر مسلموں کی عید الگ الگ بنائی اور دوسری قوموں کے تہوار کو مسلمانوں کا تہوار نہیں بنایا،اور اللہ تعالی نے عباد الرحمن کے اوصاف میں بتایا: ﴿ وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا(الفرقان: ۷۲) اور وہ لوگ جو جھوٹ اور غلط چیزوں کی مجلسوں میں شریک اور حاضر نہیں ہوتے ، اور جب لغو اور بیہودہ کام کے پاس سے گذرتے ہیں تو جزرگانہ طور  پر گزرتے ہیں۔
اس آیت کریمہ میں :﴿ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَکی تفسیر میں علمائے تابعین کا ایک قول ہے کہ اس سے مراد غیر مسلموں کی عید ہے ، چنانچہ ابو بکر غلال نے اپنی سند سے محمد بن سیرین سے روایت کی ہے کہ انھوں نے اس کے بارے میں فرمایا:“هو الشعابين” یہ شعابین ہے،اور شعابین عیسائیوں کی ایک عید ہے ، جسے وہ عیسی مسیح کے بین المقدس میں داخل ہونے کی خوشی میں عید الفسح سے پہلے اتوار کو مناتے ہیں ، اور حضرت مجاہد اور ربیع بن انس رحمہما اللہ کا قول ہے کہ یہ “مشرکین کی عید یں ” ہیں ، اور عکرمہ کا قول ہے کہ یہ دور جاہلیت کے لوگوں کا لعب ہے ، اور ضحاک سے بھی ایک روایت ہے  کہ یہ مشرکین کی عیدیں ہیں۔
اور امام ابن تیمیہ ~ نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے : ﴿ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَکہا ہے ،  لَا يَشْهَدُونَ بالزُّورنہیں کہا ہے اور عرب جب صرف“ شہادت ”کہتے ہیں تو حاضر ہونے کے معنی میں ہوتا ہے، جیسے حضرت ابن عباس کا قول ہے :“شَهِدْتُ الْعِيدَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم” (رواہ البخاری فی کتاب العیدین باب الخطبۃ قبل العید، رقم :962) میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عید میں حاضر اور شریک تھا،اور جیسے حضرت عمر > نے فرمایا:“الْغَنِيمَةُ لِمَنْ شَهِدَ الْوَقْعَةَ” (رواہ عبد الرزاق : 5/ 302)
 مال غنیمت اس کے لئے ہے جو معرکہ میں حاضر رہا ہو،اور جبشهدت بكذا”کہتے ہیں تو گواہی اور خبر دینے کے معنی میں ہوتا ہے ۔ (المصدر السابق: ۱/ ۴۲۸- ۴۲9)
بعض حضرات کہتے ہیں کہ ہولی میں خرافات ہوتے ہیں ، گنپتی میں مورتی کی پوجا ہوتی ہے ، دسہرا وغیرہ میں شرکیہ اعمال ہوتے ہیں ، لڑکے لڑکیاں ڈانڈیاں کھیلتے ہیں تو اس طرح ان مین فتنہ و فساد اور حرام کام ہے ، مگر دیوالی میں صرف مٹھائی ، روشنی اور تذیین و آرائش ہے ، لکشمی پوجا وغیرہ غیر مسلموں کا خاص عمل ہے اس میں مسلمان شریک نہیں ہوتے ، تو پھر دیوالی منانے اور اس میں شرکت کرنے میں کیا قباحت ہے ؟ میں کہتا ہوں کہ یہ مٹھائی اور چراغاں اور زیبائش و آرام سب ان کا مذہبی عمل ہے ، ان کو ثواب سمجھ کر اور اپنے معبودان باطلہ کے تقرب کے لئے کرتے ہیں ، جیسے مسلمانوں میں عید الفطر کو کھجور ، شیر خرمااور سوئیاں اور بقرہ عید میں قربانی کا گوشت کھانا صرف ایک رواج اور برائے خوشی نہیں ہے بلکہ اس کی ایک شرعی حیثیت ہے ، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے عید الفطر میں عید گاہ جانے سے قبل کچھ کھا لینے اور ممکن ہو تو طاق کھجور ہی کھانے کا حکم دیا اور بقرہ عید میں قربانی کے گوشت سے ہی حتی الامکان ناشتہ کرنے کے لئے کہا ، اسی طرح ہندوؤں کے یہاں مٹھائی وغیرہ کی بھی ایک مذہبی حیثیت ہے ، جیسے شب برات کا حلوہ خالی حلوہ نہیں ہے بلکہ ایک خاص حلوہ ہوتا ہے اسی طرح دیوالی کی مٹھائی صرف مٹھائی نہیں ، بلکہ ایک خاص مٹھائی ہے ۔
پھر غور کیجئے کہ حضرت انس >کی حدیث میں جس کا تذکرہ پہلے ہوچکا ہے یہی تو ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے دو دن تھے جن میں وہ کھیلتے تھے ، اس میں یہ نہیں ہے کہ اس میں وہ شرک و کفر کرتے ، غیر اللہ کی پوجا پاٹ کرتے تھے، مرد و زن کا اختلاط ہوتا تھا ، بلکہ صرف کھیل کود کا تذکرہ ہے ، اس کے باؤجود آپ نے ان کے بدلے دوسرے دو دن مقرر کئے ، اسی طرح اگر فرض کر لیں کہ دیوالی ، کرسمس میں یا غیر مسلموں کے کسی اور تہوار میں شرک و کفر نہیں ، بے شرمی و بے حیائی کی کوئی بات نہیں ، مرد و زن کا اختلاط نہیں تو بھی مسلمانوں کے لئے اس میں شرکت کرنا جائز نہیں ،اس لئے کہ وہ ان کا تہوار اور عید ہے ، اس میں وہ خوشیاں مناتے ، کھیلتے کودتے ، سیر و تفریح کرتے ، اچھا اچھا کھاتے پہنتے ، گھر وں اور دوکانوں کی صفائی کرتے اور سجاتے ہیں ، اگر اس میں شرکت جائز ہوتا تو رسول اللہ ﷺ مدینہ کے مسلمانوں کے لئے جاہلیت کے ان دو نوں تہواروں میں شرکت کی اجازت دیتے اور الگ سے بھی ان کو دو عید مقرر کر دیتے ، مگر آپ نے ایسا نہیں فرمایا ، بلکہ انہیں بدل دیا ، مسلمونوں کے لئے غیر مسلموں کے تہوار وں میں شرکت کرنا ، ان کے ساتھ اس دن تہوار منانا ، یا غیر مسلموں کے نقالی میں عید الاضحی اور عید الفطر کے علاوہ دوسرے تہواروں ایجاد کرنا کسی طرح جائز نہیں۔
اس میں شریعت اسلامیہ کی مخالفت ہے ، اپنی تہذیب ،اپنے عقیدہ ، اور اپنے دین کو برباد کرنا ہے ، اللہ تعالی سارے مسلمانوں کو اس حقیقت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ، انہیں پر قسم کی ضلالت اور گمراہی سے محفوظ رکھے ، اور صحیح طریقے سے شاہراہ سلام پر چلنے اور اپنے دین ، ثقافت ، عقیدہ  اور تہذیب و تمدن کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے ، آمین۔
 وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

هناك تعليقان (2):

  1. اللہ آپ کو سلامت رکھے ڈاکٹر صاحب - بڑی مفید معلومات دیتے ہیں آپ - میری ناقص راۓ ہوگی کہ آپ روزناموں میں پیش آمدہ موضوعات کا شرعی تجزیہ پیش کرتے رہیں - یہ عصرحاضر کا سب سے بڑا تقاضا ہے

    ردحذف
  2. Wynn Casino Hotel - MapYRO
    Find the 광양 출장안마 Wynn Casino Hotel 경상북도 출장안마 in Las Vegas (LasVegas) on MapYRO. The hotel's location 문경 출장마사지 and map 군산 출장안마 are updated 용인 출장마사지 regularly to ensure your

    ردحذف