الأحد، 29 يناير 2012

ربیع الاول اور اس کے بدعات



ربیع الاول اور اس کے بدعات


ربیع الاول اسلامی کیلنڈر کا تیسرا مہینہ ہے ، کچھ لوگ اس کی بارہ تاریخ کو رسول اللہ ﷺ کی وفات کی مناسبت سے بارہ وفات منائیں گے ، اور کچھ اس دن کو آپ کی ولادت کا دن مان کر –حلانکہ صحیح قول کےمطابق آپ کی ولادت 9/ ربیع الاول کو ہوئی ہے – عید میلاد النبی منائیں گے ،اور کچھ لوگ نہ عید میلاد النبی ﷺ منائیں گے نہ بارہ وفات ، آئیے کتاب و سنت کی روشنی میں جائزہ لیں کہ ان تینوں موقفوں میں سے کون سا موقف صحیح ہے ۔
رسول اللہ ﷺ سے پہلے لاکھوں انبیاء ﷩ پیدا ہوئے اور وفات پائے ، مگر اللہ نے ان میں سے کسی کی قرآن کریم میں ولادت یا وفات کی مناسبت سے عید میلاد یا یوم وفات منانے کا حکم نہیں دیا ، نہ اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے اس کی ترغیب دی ۔
خود رسول اللہ ﷺ کی ولادت با سعادت ہوئی اس کی بعد جب آپ چالیس سال ہوئے تو نبوت و رسالت کا عظیم منصب اور شرف آپ کو عطا کیا گیا ، آپ پر وحی او قرآن کا نزول ہونے لگا ، آپ کے پاس حضرت جبریل        تشریف لانے لگے ، آپ کو سید الاولین ، خاتم النبیین ، رحمۃ للعالمین کا خطاب ملا ، آپ تمام بنی آدم کے سردار قرار پائے اور عقائد ، عبادات ، معاملات ، اخلاقیات وغیرہ تمام امور کے سلسلے میں احکام کا نزول ہوا ، اور آپ نے نماز ، روزہ ، حج ، زکاۃ ، بیع شراء اور آداب و احکام ، حکومت سے لے کر قضاء حاجت تک کے آداب و احکام بتائے ، مگر پوری زندگی میں آپ نے نہ کبھی عید میلاد النبی خود منائیں نہ صحابہ کو اس کا حکم دیا ، نہ صحابہ کرام میں سے کسی نے اس کا اہتمام کیا ، پھر آپ کے بعد عہد صحابہ و تابعین و تبع تابعین جسے خیر القرون کہا گیا ہے اس میں کسی نے یہ عید میلاد منائی ، اور نہ یوم وفات النبی کا اہتمام کیا ، حلانکہ ان مبارک عہد میں صحابہ کرام ، تابعین عظام ، اور تبع تابعین وغیرہ میں بڑے بڑے علمائ ، فضلاء ، قراء ، فقہاء ، محدثین ، متقی و پرہیز گار لوگ گزرے ، جن کی علمی بصیرت کی عظمت اور گہرائی اور رسول اللہ ﷺ سے ان کی محبت ، تقوی و پرہیز گاری میں کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا ، بلکہ ان سارے امور میں وہ متأخرین مسلمانوں سے بہت اعلی و ارفع تھے۔
اسی طرح بارہ وفات کے سلسلہ میں نہ رسول اللہ  کا کوئی ارشاد ہے، نہ صحابہ کرام ﷢ اور اہل بیت کا کوئی عمل یا قول ہے۔
مگر کچھ لوگ جو عید میلاد النبی ﷺ مناتے اور اس کے جشن کا اہتمام کرتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ یہی محبت رسول کا تقاضاہے، اور جو لوگ یہ جشن نہیں مناتے وہ رسول اللہ ﷺ سے محبت نہیں کرتے ، وہ آپ کے شیدائی اور فدائی نہیں ، بلکہ آپ کے دشمن اور مخالف ہیں ۔
آئیے اس مجلس میں ذرا جائزہ لیں کہ رسول اللہ ﷺ کی محبت کا کتاب و سنت کی روشنی میںکیا طریقہ ہے ، اس کا اظہار کس طرح ہوتا ہے ، اس کا ثبوت کیا ہے ۔
کیا سال میں ایک دن عید میلاد النبی منالینا اور اس مناسبت سے گھروں ، دوکانوں اور بازاروں کو قمقموں وغیرہ سے سجالینا ، سڑکوں پر جگہ جگہ گیٹ اور محراب بنانا ، اس دن اچھے اچھے پکوان پکانا ، اور خود کھانا اور دوسروں کو کھلانا ، قوالی اور میلاد خوانی کا اہتمام کرنا ، رسول اللہ ﷺ کی شان میں کچھ قصیدے اور نعتیہ کلام پڑھنا اور سننا ، جس میں مبالغہ آرائی اور غلو ہو اسی کا نام محبت ہے ۔
آپ کو معلوم ہے کہ عید میلا د النبی ﷺ منانے کے مختلف شہروں ، ملکوں ، ور معاشرے میں الگ الگ طریقے ہیں ، چنانچہ بعض لوگ اس مناسبت سے خاص طعام تیار کرتے ہیں، اچھے اچھے کھانے پکواتے ہیں ، اور پھر پورے گھر کے لوگ ایک دستر خوان پر بیٹھ کر کھاتے اور خوشیاں مناتے ہیں ، اس مناسبت سے وہ بیٹیوں اور کچھ رشتہ داروں اور دوست و احباب کی دعوت بھی کر لیتے ہیں ، اس کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔
کہیں اس مناسبت سے مختلف شکل و صورت اور متعدد ذائقے کی مٹھائیاں بنائی جاتیں ہیں اور ”حلوی المولد“میلاد کی مٹھائی کے نام سے بازار میں بکتی ہیں ۔
بعض لوگ کچھ میلاد اور نعت پڑنے والوں کو بلا کر مجلس میلاد کرتے کا اہتمام کرتے ہیں ، اس میں آپ کی ولادت با سعادت کا واقعہ موضوع و من گھڑت باتوں کی آمیزش کے سنایا جاتا ہے ، اور عموما مسلم معاشرہ میں اسی طریقے کا رواج ہے ، اس کی شکل عموما یہ ہوتی ہے کہ کسی مسجد میں ، یا کسی میدان ، یا کسی یا کسی بڑے آدمی کی حویلی میں اس پروگرام کا اہتمام کیا جاتا ہے ، شروع ربیع الاول سے لے کر 12/ ربیع الاول تک اس کی تیاریاں ہوتی ہیں اور پھر 12/ ربیع الاول کو وقت مقررہ پر اس کا آغاز ہوتا ہے  ، تلاوت کلام پاک سے ابتداءکی جاتی ہے ، خاص طورسے ایسی آیتیں پڑھیں جاتیں ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ کا ذکر ہوتا ہے ، پھر کچھ آپ کی سیرت کا بیان ہوتا ہے ، جس میں آپ کے حسب و نسب اور آپ کی ابتلاء و ازمائش اور شمائل و اخلاق کا بیان ہوتا ہے ، یہاں تک کہ جب آپ کی ولادت با سعادت کا  ذکر ہوتا ہے تو تمام حاضرین آپ کی تعظیم میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور خوش آمدید اور مرحبا مرحبا کے کلمات ادا کرتے ہیں ، اور اس قیام تعظیمی کو واجب سمجھا جاتا ہے ، اور عدم قیام کو گستاخی رسول ﷺ مانا جاتا ہے۔
کوئی کہتا ہے؂
مرحبا مرحبا مرحبا               مرحبا جد حسین مرحبا
کوئی کہتا ہے؂
یانبی سلام علیک                  یا رسول سلام علیک
اسی طرح کے اشعار میں نہیں لوگ اپنی مرضی اور اور پسند کے مطابق پڑھتے ہیں ، اس کے بعد پھر آپ کے حیات مبارکہ کے واقعات بیان شروع ہوجاتا ہے اور درمیان میں اشعار میں درود و سلام کا سلسلہ چلتا رہتا ہے ، عموما سیرت کے واقعات بیان کرتے اور میلاد خوانی کے لئے ایسے شخص کو منتخب کیا جاتا ہے جو جوان رعنا ہو خوبصورت ہو ، اس کی آواز خوبصورت ہو ، ترنم اور نغمگی کے ساتھ مدائح اور قصیدے پڑھے ، یہ قصیدے عموما مبالغہ آرائی اور غلو پر مشتمل ہوتے ہیں ، عرب ممالک میں عموما قصیدے وغیرہ پڑحا جاتا ہے جس میں بعض اشعار شرک پر مشتمل ہیں ، ہندستان ، پاکستان و بنگلادیش کا بھی یہی حال ہے کہ یہاں ایسے موقع پر جو قصیدے ، میلاد نامے اور اشعار پڑھے جاتے ہیں عموما شرکیہ کلمات پر مشتمل ہوتے ہیں ، آپ نے یہ شرکیہ شعر تو سنا ہی ہوگا کہ ؂
وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہوکر          اتر پڑا ہے مدینےمیں مصطفی ہوکر
یا
اللہ کے پلے میں وحدت کے سوا کیا ہے             لینا ہے ہمیں جو کچھ لے لیں گے محمد سے
            بہر حال ان محفلوں اور مجلسوں میں عموما اس قسم کے اشعار پڑھے جاتے ہیں جن میں مبالغہ آرائی ہوتی ہے ، حلانکہ یہ غلط اور ناجائز ہے اور اس سے رسول اللہ ﷺ نے یہ کہہ کر منع فرمایا ہے :”لاَ تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ فَقُولُوا عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُه(صحيح البخاری:4/ 204،مسند أحمد:1/ 24)
            جیسے نصاری ( عیسائیوں ) نے عیسی ابن مریم (        ) کے بارے میں مبالغہ آرائی کی اور انہیں نبوت کے منصب سے اٹھا کر الوہیت کی کرسی پر بٹھا یا ، انہیں ابن اللہ کہا ، اس طرح تم لوگ میرے بارے میں مبالغہ آرائی نہ کرنا ، میں صرف اللہ کا بندہ ہوں اس واسطے مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہنا ۔ 
            مگر لوگ نہیں مانے اور اس طرح کے شرکیہ اور غلو پر مشتمل اشعار کہے اور بہت سے لوگ آج بھی ان اشعار کو پڑھتے اور ان میں ذکر کردہ شرکیہ باتوں پر عقیدہ رکھتے ہیں ،- معاذ اللہ ، اللھم اھدی قومی فانھم لا یعلمون – خیر میں دعا ہوتی ہے ، اور بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے یہ دعا بھی شرک و بدعات سے پاک و صاف نہیں ہوتی ، اس کے بعد کہیں مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں ، کہیں حاضرین کے لئے شاندار دعوت اور کھانے کا انتظام ہوتا ہے ، بعض مالدار لوگ فقراء و مسکین میں کچھ پیسے اور کپڑے وغیرہ بھی تقسیمکرتے ہیں ، اگر اس میں عورتوں اور مردوں کا اختلاط نہ ہوا ، طبلے سارنگی اور موسیقی اور گانے وغیرہ کا پروگرام نہ ہو تو یہ میلاد کی سب سے بہترین قسم مانی جاتی ہے ، حالانکہ شرک و بدعت اور شان رسول ﷺ میں غلو سے یہ بھی خلالی نہیں ہوتی۔
            عید میلا کے کچھ پروگرام ریڈیو اور ٹی وی پر ہوتے ہیں جن میں فلمی دنیا کے ہیرو ، ہروئین  اور کانے بجانے والیاں بھی حصہ لیتی ہیں ۔
            اور اس طرح کچھ پروگرام تو خالص دنیا کے لوگ ہی منعقد کراتے ہیں ، اگر چہ اس میں قرآن خوانی ، سیرت کا بیان اور میلاد خوانی وغیرہ ہوتی ہے ، مگر سابقہ خرابیوں کے ساتھ ان فساق و فجار کی وجہ سے اس مجلس کی کتنی بے حرمتی ہوتی ہےوہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ، صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ ان پر فرمان باری ہے : ﴿الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَهْوًا وَلَعِبًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا﴾ (الاعراف:51)کا انطباق ہوتا ہے ۔
            یعنی جنہوں نے اپنے دین کو لہو لعب بنادیا اور دنیا اور دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکہ میں ڈال دیا ۔
            ایک میلاد کا طریقہ وہ ہے کہیں کہیں سرکاری سطح پر اور کہیں کہیں اجتماعی طور پر منایا جاتا ہے م جس میں سرکاری چھٹی ہوتی ہے ، تمام ادارے بند ہوتے ہیں ، جلوس کا اہتمام ہوتا ہے ، جس میں ہاتھیوں ، اونٹوں ، گھوڑوں ، کاروں ، ٹرکوں ، موٹر سائیکلوں وغیرہ کے قافلے شریک ہوتے ہیں ، طرح طرح کے نعرے لگائے جاتے ہیں ، مسلم و غیر مسلم سیاسی لیڈروں ، دینی و ملی قائدوں ، سماجی شخصیات وغیرہ شریک ہوتی ہیں ، ہر ایک کو ان شخصیات اور رتبہ و مقام کے اعتبار سے سواریاں دی جاتی ہیں ، یہ قافلے مقررہ جگہ سے مقررہ وقت پر روانہ ہوتا ہے ، اور ایک مخصوص راسے سے گزرتا ہوا مقررہ مقام تک پہونچ جاتا ہے ، وہاں پہلے سے اسٹیج سجا ہوتاہے ، ، مہمان خصوصی  اور اعلی شخصیات کے لئے مخصوص نشستیں ہوتی ہیں،پھر تلاوت کلام ، نعتیہ نظمیں اور قصیدے پڑھے جاتے ہیں ، علماء ، فضلاء اور قائدین کے خطابت ہوتے ہیں ، ، مہینوں سے اس کی تیاری ہوتی ہے ، پورے شہر  کو طرح طرح کی روشنیوں ، رنگ برنگے کاغذوں ، گیٹوں و محروبوں وغیرہ سے سجا یا جاتا ہے ، مرد عورتیں اور بچے سبھی اچھے اچھے کپڑے پہنتے اور اچھے کھانوں کا اہتمام ہوتا ہے ، یعنی پوری طور ہر عید کا سماں ہوتا ہے ، اس پر کس قدر  رقم خرچ ہوتی ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ملک  المظفر ابوسعید کوکبوری کے بعض عید میلاد کے جشن کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ اس میں پانچ ہزار بھنے ہوئے بکرےھ ، دس ہزار مرغ ، ایک لاکھ زبدیہ ، تیس ہزار صینی حلوے پیش کئے گئے ، علماء ، صوفیاء اور راعیان شہر شریک ہوتے ہیں ، انہیں خلقت سے نوازا جاتا، صوفیاء سماع کی مجلس سجاتے ، ظہر سے لے کر فجر تک پروگرام چلتا ، جس میں صوفیاء کے ساتھ بادشاہ بھی رقص کرتا ، اور ا س وقت وہ مولد پر تیس لاک دینار خرچ کرتا تھا ۔
            اور اس طرح  ہر زمانہ میں اور ہر جگہ اس پر اسراف و فضول خرچی ہوتی ہے ہے اور آج بھی ہوتی ہے ، لوگوں کے مال و اوقات برباد ہوتے ہیں ، فرائض میں کوتاہیاں ہیں اور دوسرے بہت سے منکرات و محرمات کا ارتکاب ہوتا ہے ۔
            اب غور کیا جائے عید میلاد منانے کے یہ طرقے جو نہ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہیں ، اور نہ صحابہ کرام ﷢ و تابعین عظام ﷭ سے ،کیا یہی محبت رسول کی دلیلیں ہیں ؟! کیا کسی کی محبت کا یہی تقاضا ہوتا ہے کہ اس کا برتھ ڈے یا دیتھ ڈے منالیا جائے!؟یا محبت کا تقاضا کچھ اور ہے؟کتاب وسنت کا جائز لیجئے تو معلوم ہوگا اللہ اور اس کے رسول سے اصل محبت یہ ہے کہ ان کے احکام کی پیروی و اتباع کیا  جائے ، کتاب وسنت پر عمل کیا جائے ، انہیں کے مطابق اپنے عقیدہ رکھا جائے ، انہیں کے مطابق نماز پڑھی جائے ، روزے رکھے جائیں ، زکاۃ ادا کی جائے ، حج کیا جائے ، انہیں کے مطابق ہمارا بیع و شراء ، لین دین اور تمام معاملات ہوں ، اسی طرح ہمارے نکاح ، طلاق اور خلع وغیرہ ہوں ، انہیں کے مطابق ہماری شکلیں و ضع وقطع  اور لباس ہوں ، انہیں کے مطابق بیوی بچوں کے ساتھ ، پڑوسیوں کے ساتھ ، رشتہ داروں اور دوسرے تمام انسانوں کے ساتھ ہمارے تعلقات ہوں ، اگر ایسا نہیں ہے تو لاکھ محبت کے دعوے کر لیں اور اپنی مرضی سے اس کے اظہار کے طریقے ایجاد کر لیں اللہ کے یہاں مقبول نہ ہوں گے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ﴿قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (آل عمران :31)اے نبی کہہ دیجئے اگر تمہیں اللہ سے محبت ہے و میرے اتباع کرو ، اللہ تم کو اپنا محبوب بنائے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔
            اس سے معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول کی حقیقی محبت رسول اللہ ﷺ کی اتباع ہے یہی اس کی صحیح دلیل ہے۔
            امام ابن کثیر﷫فرماتے ہیں :یہ آیت کریمہ فیصلہ کرتی ہے جواللہ کی محبت کا دعوی کرے اور طریقۂ محمدیہ پر نہ ہو وہ اپنے دعوی میں جھوٹا ہے ، جب تک کہ وہ تمام اقوال وافعال میں شرع محمدی اور دین نبوی کی اتباع نہ کرنے لگے۔ (تفسير ابن كثير:2/ 32)
            امام ابن القیم ﷫ فرماتے ہیں کہ فرمان باری ﴿ يُحْبِبْكُمُ اللَّهُمیں محبت کی دلیل اور اس کے ثمرہ اور فائدہ کی طرف اشارہ ہے ، چنانچہ اس کی دلیل اور علامت رسول کی اتباع ہے۔( مدارج السالكين:3/ 22)
            کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؂
تَعْصِي الإِله وَأنْتَ تُظْهِرُ حُبَّهُ     هذا محالٌ في القياس بديعُ
لَوْ كانَ حُبُّكَ صَادِقاً لأَطَعْتَهُ      إنَّ الْمُحِبَّ لِمَنْ يُحِبُّ مُطِيعُ
تو اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اور اس سے محبت اظہار کرتا ہے ، یہ قیاس میں محال اور عجیب چیز ہے ۔
اگر تیری محبت سچی ہوتی تو تو اس کی اطاعت کرتا ، کیونکہ محبت کرنے والا جس سے محبت کرتا ہے اس کا مطیع و فرمابردار ہوتا ہے۔
اتباع ہی میزان ہے سچی محبت کے پرکھنے اور توالنے کا،جس کو رسول اللہ ﷺ سے محبت ہوتی ہے وہ آپ کی محبت اور اتباع پر ساری دنیا کی محبتوں اور رسوم و رواج ک قربان کردیتا ہے ، تب اس کا ایمان کامل ہوتا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا: ”لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ وَوَالِدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ” (صحيح مسلم:1/ 49)تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد ، اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ۔
جب حضرت عمر ﷜ نے آپ سے کہا: ”يَا رَسُولَ اللهِ لأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِلاَّ مِنْ نَفْسِي“اے اللہ کے رسول ﷺ آپ میر جان کو چھوڑ کر سب سے زیادہ میرے نذیک محبوب ہیں ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :”لاَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ“نہیں اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ( تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوگا) یہاں تک کہ میں تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب ہو جاؤں ، حضرت عمر ﷜ نے فرمایا: ”فَإِنَّهُ الآنَ وَاللَّهِ لأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي“تو اب آپ اللہ کی قسم میرے نذدیک میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں ، آپ نے فرمایا: ”الآنَ يَا عُمَرُ “اب تمہارا ایمان مکمل ہوا۔( صحيح البخاری:8/ 161)
اللہ تعالی ہم سب کو اپنے رسول کی سچی محبت عطا فرمائے ، آپ کی کامل اتباع کی توفیق دے ، اور ہر قسم کے افراط و تفرایط سے محفوظ رکھے ، آمین۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

هناك 4 تعليقات: