السبت، 28 يوليو 2012


رمضان المبارک میں ہونے والی چند مخالفات و بدعات
قال الله تعالی :﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرہ: ۱۸۳)
اے مومنو! تمہارے اوپر اسی طرح روزے فرض کئےگئے ہیں جیسے تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ متقی بن جاؤ۔
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ کی فرضیت اللہ  تعالی نے اس واسطے فرمائی ہے ہے کہ لوگ متقی و پرہیزگار بن جائیں ، ان کے دلوں میں خوف الٰہی پیدا ہوجائے ، ان کے اعمال، اخلاق ،زبان اور سیرت کی اصلاح ہوجائے۔
            یہ مہینہ در اصل عبادتوں کا مہینہ ہے ، اور کتاب و سنت کا جائزہ لیں تو اس میں کئی قسم کی عبادتیں نظر آئیں گی ، اور ان سب کے بڑے فضائل و فوائد ہیں، ان عبادتوں میں سب سے اہم عبادت روزہ ہے جسے اللہ تعالی نے اس ماہ میں ہر عاقل، بالغ مقیم ، اور تندرس مسلمان و عورت پر فرض کیا ہے ، اور فرمایا: ﴿كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْاور اس کے اجر و ثواب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ(صحيح البخاری:1/16،كتاب الإيمان باب صوم رمضان احتسابا من الإيمان)جس نے ایمان واللہ سے اجر کی امید سے رمضان المبارک کے روزے رکھے اس کے پہلے کے تمام صغیرہ گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں۔
            اور رسول اللہ ﷺ و صحابہ کرام﷢ اس عبادت کا بڑا اہتمام کیا کرتے تھے حتی کی بچوں سے بھی روزے رکھاتے تھے ۔
            اس ماہ کی دوسری اہم عبادت تراویح  اور قیام اللیل ہے ، اس کی افادیت اور فضیلت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس نے ایمان واللہ سے اجر کی امید سے رمضان المبارک میں تراویح یا تہجد کی نماز پڑھی اس کے پہلے کے تمام صغیرہ گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں۔(صحيح البخاری:1/16،كتاب الإيمان باب صوم رمضان احتسابا من الإيمان)
            اس ماہ کی تیسری اہم عبادت قرآن کریم کی تلاوت ہے ، کیونکہ اسی ماہ میں اس کا نزول ہوا اور اس ماہ میں جبرئیل ﷤ ہر رات رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لاتے اور آپ ان پر قرآن پیش کرتے تھے اور اس کی تلاوت ہر اعتبار سے باعث خیر و برکت اور اجر وثواب ہے۔
            اس ماہ کی چوتھی اہم عبادت صدقہ  و خیرات ہے ، رسول اللہ ﷺ اس ماہ میں بکثرت صدقہ و خیرات کرتے تھے ، اور جب قرآن کے دور کے لئے آپ کے پاس جبرئیل  ﷤تشریف لاتے تو آپ کی سخاوت کا دریا او زیادہ موجزن ہوجاتا ، یہاں تک کہ اس کی عمومیت و افادیت ہواؤں سے زیادہ بڑھ جاتی ہے ، اس کے علاوہ دعائیں ، توبہ و استغفار اور ذکر و اذکار اور آخری عشرہ میں اعتکاف ، شب قدر میں شب بیداری صدقۃ الفطر وغیرہ عبادات بھی ہیں۔
            مختصر یہ کہ یہ مہینہ مختلف عبادتوں کا توبہ و استغفار اور اللہ کی رحمت و مغفرت حاصل کرنے اور جنت کے مستحق بننے کا مہینہ ہے ، اس واسطے مسلمانوں کو حتی الامکان شب و روز کی عبادت میں خوب محنت کرنی چاہئے ، اور تمام عبادات کے آداب کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔
            مگر آج جب ہم اس تعلق سے مسلمانوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ان میں کئی قسم کی کوتاہیاں اور خرابیاں نظر تی ہیں ، آج کے خطبہ میں ہم ان میں سے بعض کی جانب آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں ، تاکہ آپ کی ان سے اجتناب کرتے ہوئے رمضان المبارک کے برکات سے مستفید ہوں ۔
            آج بہت سے مسلمانوں نے اس مبارک مہینے کو کھانے پینے اور سونے کا مہینہ بنالیا ہے ، چنانچہ انہیں عبادتوں سے زیادہ انواع و اقسام کے کھانوں ، پھلوں اور مشروبات سے اپنے دسترخوان کو سجانے کی فکر ہوتی ہے ، ہر روز نئے نئے ڈش اور انواع و اقسام کے کھانوں کے پکانے اور کھانے کا پروگرام بناتے ہیں ، اور دس گیارہ بجے دن سے ہی افطاری اور کھانے پینے کے سامان خریدنے کے لئے عورتوں ، نوکروں اور بچوں کو لے کر نکل جاتے ہیں ، اور قسم قسم کے فروٹ اور کھانے پینے کے سامان خریدتے ہیں، اور گھنٹوں بازار میں گھوم کر خریداری کرنے کے بعد جب گھر آتے ہیں تو پھر خواتین وغیرہ افطار او سحری کے پکانے اور تیار کرنے کے سلسلے میں طرح طرح کی ہدایات اور مشورے دیتے ہیں ۔
شام گھر شاندار دسترخوان سجتاہے ، دوست و احباب کے ساتھ ڈٹ کر افطار کرتے ہیں ، اور کھانا کھاتے ہیں ، اور عشاء کے بعد کبھی گھر پر مجلسیں جمتی ہیں ، کبھی ہوٹلوں اور چائے خانوں میں بیٹھ کر گپ شپ میں رات گذاری جاتی ہے اور ان کے اعمال و حرکات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ماہ اکل و شرب اور گپ شپ  اور بیداری کے لئے ہے ، جبکہ اصلا یہ مہینہ عبادت کے لئے ہے ، رسول اللہﷺ کا اسوہ ٔمبارکہ  افطار کے سلسلہ میں یہ تھا کہ اگر تازہ کھجور میسر ہوتی تو اس سے ، اگر وہ میسر نہیں ہوتا تو خشک کھجور سے اور وہ بھی میسر نہیں ہوتا تو پانی سے افطار فرماتے اور پھر مغرب کی نماز ادا فرماتے ۔
            اور انواع و اقسام کے کھانوں کو خوب ڈٹ کر کھانے کے سلسلہ میں آپ نے فرمایا:”إِنَّ مِنْ شِرَارِ أُمَّتِي الَّذِينَ غُذُّوا بِالنَّعِيمِ الَّذِينَ يَطْلُبُونَ أَلْوَانَ الطَّعَامِ(السلسلہ الصحیحہ :4/513،صحیح الجامع : [۳۵۹۹] وقال الالبانی : حسن)میری امت کے برے لوگ وہ ہیں جو انواع و اقسام کے کھانے کھاتے ہیں اور ہمیشہ نعمتوں کی غذا استعمال کرتے ہیں ۔
            ایک حدیث میں فرمایا:”مَا مَلاَ آدَمِيٌّ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنِهِ(شعب الإيمان :7/447،کتاب المطاعم والمشارب الفصل الثانی فی ذم کثرۃ الاکل)آدمی نے پیٹ سے زیادہ خراب کوئی برتن نہیں بھرا، ایک حدیث میں فرمایا:”بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ أُكُلاَتٌ يُقِمْنَ صُلْبَهُ فَإِنْ كَانَ لاَ مَحَالَةَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِهِ وَثُلُثٌ لِشَرَابِهِ وَثُلُثٌ لِنَفَسِهِ(سنن الترمذی:4/590،كتاب الزهد باب ما جاء فی كراهيۃ كثرة الأكل)یعنی ابن آدم کے لئے چند لقمے کافی ہیں جن سے اس کی پیٹھ ٹھیک رہے ، اور اگر مزید کی ضرورت ہو تو پیٹ کے تین حصے کرے ، ایک حصہ کھانے کے لئے، ایک حصہ پانی کے لئے اور ایک حصہ سانس کے لئے ۔
            اگر رمضان میں پر تکلف کھانوں اور افطار پر اس قدر فضول خرچی کے بجائے یہ رقم غریبوں ، مسکینوں ، یتیموں ، بیواؤں اور دینی اداروں و پرگراموں پر خرچ کریں تو اس سے انہیں بھی اجر و ثواب ملے گا اور قوم و ملت اور دین و معاشرہ کا بہت بڑا کام ہو جائے گا۔
            بہت سے لوگ رات بھر جاگتے اور دن بھر  سوتے ہیں اس طرح رمضان کا کوئی مزہ نہیں ملتا ہے ، کیونکہ دن بھر سو کر گذارنے  سے انہیں بھوک  پیاس  وغیرہ کا ذرا بھی احساس نہیں ہوتا ہے اور تلاوت قرآن  و ذکر و اذکار وغیرہ کی نعمتوں او اجر وثواب سے بھی محروم رہ جاتے ہیں ، اور بعض لوگ تو سونے میں ظہر کی جماعت بھی فوت کردیتے ہیں ، اور اسے عصر کے ساتھ پڑھتے ہیں جو یقینا گناہ اور بدنصیبی کی بات ہے ۔
            اسی طرح جو لوگ رات بھر جاگتے ہیں ان میں سے خوش نصیب وہ لوگ ہیں جو وقت عبادات میں لگاتے ہیں ، مگر بہت سے لوگ پوری رات لایعنی باتوں ، بازاروں میں گھومنے ، ہوٹلوں اور چائے کانوں میں بیٹھنے ، یا قوالی اور گانوں کے سننے یا فلموں کے دیکھنے میں گذار دیتے ہیں ، جو یقینا بڑی ہی محرمی کی بات ہے ۔
            ابھی یہ بات گذر چکی ہے کہ اس ماہ کی ایک اہم عبادت ترایح کی نماز ہے ، جسے رسول اللہ ﷺ بہت اطمینان اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتے تھے ،حضرت عائشہ﷞ سے رمضان میں  رسول اللہ ﷺ کی نماز تراویح اور قیام اللیل کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا:”مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ ، وَلاَ فِي غَيْرِهَا عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي ثَلاَثًا(صحيح البخاری:3/59،كتاب صلاة التراويح باب فضل من قام رمضان)یعنی رسول اللہ ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں کبھی بھی قیام اللیل گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ، آپ چار رکعت پڑھتے تو اس طرح پڑھتے کہ ان کے حسن اور طول کے بارے میں نہ پوچھو ، پھر چار رکعت پڑھتے تو ان کی خوبصورتی اور لمبائی کے بارے میں نہ پوچھو ، پھر تین رکعت پڑھتے ۔
            مگر آج اکثر لوگوں نے نبی ﷺ کی سنت کو چھوڑ کر بیس رکعت پڑھنا شروع کر دیا ہے ، پھر اطمینان کے ساتھ اور لمبی نماز پڑھنے کے بجائے اس طرح جلدی جلدی قرآن پڑھتے اور رکوع و سجود کرتے ہیں کہ نماز بے روح ہوکر رہ جاتی ہے ، نہ قرآن سمجھ میں آتا ہے اور نہ رکع و سجود صحیح ہوتا ہے ، حالانکہ قرآن ترتیل سے اور اچھی آواز میں پڑھنے کا حکم ہے ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے :﴿وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا(المزمل:۴) اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”زَيِّنُوا الْقُرْآنَ بِأَصْوَاتِكُمْ(سنن أبی داود:1/548،كتاب الوتر باب استحباب الترتيل فى القراءة)اس واسطے ائمہ کرام کو چاہئے کہ قرآن اور نماز اطمینان سے پڑھیں ،اور مقتدیوں کو چاہئے کہ اگر کوئی امام اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کو اس سے روکیں،  اور سنت کے مطابق نماز پڑھانے کے لئے کہیں ۔
            بعض لوگ کچھ ائمہ کے پیچھے ہی نماز تراویح پڑھنے کا اہتما م کرتے ہیں ، اور اس کی وجہ سے کبھی کبھی ان کی نماز باجماعت بھی چھوٹ جاتی ہے ۔
            اگر کوئی امام قرآن ترتیل کے ساتھ اور اچھی آواز میں پڑھتا ہو تو یقینا اس کے پیچھے پڑھنے میں لطف آتا ہے ، اور دلوں پر اس کا اثر ہوتا ہے ، اور خشوع و خضوع طاری ہوتا ہے ،لیکن کسی دوسرے محلہ کے امام کے پیچھے نماز ترایح پڑھنے کا اس قدر اہتمام کرنا کہ وہاں تک پہونچتے پہونچتے عشاء کی نماز باجماعت فوت ہوجائے  تو درست نہیں ، اگر ایسا شوق ہے تو  اتنا پہلے جانا چاہئے  کہ عشاء کی نماز باجماعت مل جائے  یا پھر اپنے محلہ کی مسجد میں اچھے امام رکھیں اور اس کے لئے کوشش کریں ۔
            بعض لوگ تراویح کی نماز میں ہر دو رکعت کے درمیان کچھ مخصوص اذکار و ادعیہ کا اہتمام کرتے ہیں ، جیسے : ”الصلاة و السلام عليک يا اول خلق الله“وغیرہ ، حالانکہ ان میں سے کسی کا بھی ثبوت نہیں  ہے ، اور مطلقا اول خلاق اللہ تو کیا اول خلق اللہ من البشر بھی آپ نہیں ، بلکہ آدم ﷤ ہیں ۔
            بعض لوگ افطاری کا وقت ہوجانے  کے بعد بھی احتیاط کے نام پر تاخیر کرتے ہیں ، سورج غروب ہونے کے سات آٹھ منٹ بعد افطار کرتے ہیں ، بعض لوگ جب مؤذن اذان میں ”اشہد ان لا الہ الا اللہ “ کہتا ہے تب افطار کرتے ہیں،حالانکہ سورج غروب ہوجانے کے بعد ان اذان مغرب اور افطار کا وقت ہوجاتا ہے ، اور افطار میں جلدی کرنا افضل ہے ، رسول اللہﷺ نے فرمایا:”لاََ يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ(صحيح البخاری:3/47،كتاب الصوم باب تعجیل الإفطار ، صحيح مسلم:3/131، كتاب الصيام باب فضل السحور وتأكيد استحبابہ...)لوگ جب تک افطار میں جلدی کریں گے بھلائی میں رہیں گے،اور یک حدیث میں ہے : ”لاَ يَزَالُ الدِّينُ ظَاهِرًا مَا عَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَ لأَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى يُؤَخِّرُونَ(سنن أبی داود:2/277، كتاب الصوم باب ما یستحب من تعجیل الفطر ،سنن ابن ماجہ:2/595، كتاب الصيام باب ما جاء فی تعجیل الإفطار)لوگ جب تک افطار میں جلدی کریں گے دین غالب رہے گا، اس واسطے کہ یہود نصاری اس میں تاخیر کرتے ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ افطار میں تاخیر کرنا یہود و نصاری کا طریقہ ہے جن کی مشابہت اختیار کرنے سے  مسلمانوں کو منع کیا گیاہے ، اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ(سنن أبی داود:4/78، كتاب اللباس باب فى لبس الشهرة)جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ اسی میں سے ہے ہوگا ، دوسرے وقت ہونے کے بعد جلدی افطار کرنے میں لوگوں کے لئے خیر و عافیت ہے ،اور جب تک مسلمان اس پر عمل کریں گے وہ بھلائی میں رہیں گے ، اسی طرح سے دین اسلام کو غلبہ رہے گا ، اس کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ اگر مسلمان اس کی خلاف ورزی کریں گے تو اس نعمت سے محروم ہوجائیں گے ، چنانچہ بہت لوگوں  سے اس کی مخالفت کی وجہ سے آپ  دیکھ رہے ہیں کہ آج مسلمانوں کو کس قدر شر فساد اور مصائب و مشکلات کا سامنا ہے ، اسی طرح اسلام پر کس قدر اعداء اسلام یلغار کر رہے ہیں ، کہ کس قدر مظلوم ہے ، اس طرح اور اسباب کے ساتھ بہت سے مسلمانوں کی ہی غلطی کا بڑا دخل ہے ، اس واسطے مسلمانوں کو یہ عمل تورا ترک کر دینا چاہئے ، اور فرمان نبوی کے مطابق افطار کرنا چاہئے۔
            بعض لوگ سحری نہیں کھاتے اور بغیر سحری کھائے روزہ رکھنے کو کمال سمجھتے ہیں ، جبکہ رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے:”تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَكَةً(صحيح البخاری :3/37، كتاب الصوم باب بركۃ السحور من غير إيجاب ،صحيح مسلم:3/130، كتاب الصیام باب فضل السحور وتأكید استحبابہ)سحری کھایا کرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے ، اس طرح فرمان نبوی کی خلاف ورزی کرتے اور سحری کی برکتوں سے محروم رہتے ہیں ، ایک حدیث میں ہے :”فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَهْلِ الْكِتَابِ أَكْلَةُ السَّحَرِ(رواہ مسلم : 3/130، كتاب الصیام باب فضل السحور وتأكید استحبابہ)ہمارے اور اہل کتاب کے  روزے کے درمیان سحری کھانے کا فرق ہے ، اور یہ لوگ اس عمل کی وجہ سے اس فرق کو مٹاتے اور رسول اللہ ﷺ کے روزے  کے مثل روزے رکھنے کے بجائے اہل کتاب کی طرح روزہ رکھتے ہیں جو بڑی سخت غلطی اور محرومی کی بات ہے۔
            بعض لوگ فجر سے گھنٹے دو گھنٹے پہلے ہی سحری کھا کر سوجاتے ہیں ، حالانکہ رسول اللہ ﷺکے سحری کھانے اور نماز فجر کے لئے کھڑے ہونے کے درمیان کل پچاس آیتوں کے پڑھنے کا موقع اور وقت رہتا تھا ، پھر جلدی سحری کھانے کی وجہ سے لیٹ کر سو جاتے ہیں، بسا اوقات ان کی فجر باجماعت فوت ہوجاتی ہے ۔
            بعض لوگ رمضان میں تو پنچوقتہ نماز وں کا اہتمام کا خوب اہتمام کرتے ہیں ، لیکن رمضان ختم ہوتے ہی وہ نماز اور سجدوں کو اس طرح تک کردیتے ہیں کہ کسی شاعر کے بقول :مسجدیں ان کے اس عمل پر مرثیہ خوانی ہیں،  اور یہ صرف ہفتہ میں ایک مرتبہ جمعہ کی نماز پڑھنےمسجد آتے ہیں ، حالانکہ نماز وہ عبادت ہے جس کی فرضیت کے لئے اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ کومعارج کرایااور اپنے پاس بلایا،اور رسول اللہ ﷺ کی بار بار گذارش پر اسے کم کر کے روزانہ صرف پانچ مرتبہ پڑھنے کو کہا ، اور فرمایاکہ یہ پانچ ہیں لیکن ثواب میں پچاس کے برابر ہیں ، اور س کے ترک کو کفر قرار دیا ، اور فرمایا : ”مَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ كَفَرَ(تعظیم قدر الصلاة ، لمحمد بن نصر بن الحجاج المروزی:2/889)جس نے عمدا نماز ترک کیااس نے کفر کیا اور فرمایا: ”بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلاَةِ (صحيح مسلم:1/62، كتاب الإيمان باب بيان إطلاق اسم الكفر على من ترك الصلاة) آدمی اور کفر شرک کے درمیان نماز کا فاصلہ ہے ، اور فرمایا:”اول ما يحاسب  عليه العبد يوم القيامة الصلاة , فان صلحت صلح له سائر عمله , واذا افسدت فسدسائر عمله(المعجم الاوسط للطبرانی:2/240،صحيح الترغیب والترہیب 1/90، وقال الالبانی : صحیح لغیرہ)بندے کا قیامت کے دن سب سے پہلے حساب نماز کے سلسلہ میں ہوگا ، ، اگر نماز درست ہوئی تو سارے اعمال درست ہوں گے ، اور اگر وہ فاسد ہوئی تو تمام اعمال فاسد ہوں گے، ان لوگوں کے عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رمضان کے لئے نماز پڑھتے ہیں اور رمضان کے رب اللہ جل شانہ کے لئے نماز نہیں پڑھتے ، ورنہ بعد میں بھی پڑھتے ، کیونکہ اللہ تو رمضان مین رہتا ہے اور دوسرے مہینوں میں بھی۔
            بعض لوگ خاص طور سے ستائسویں رمضان کی رات سب بیداری کرتے اور ہیں اور آخری عشرہ کے وتر راتوں کو آرام کرتے ہیں ، حالانکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:”تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ(صحيح البخاری :3/61، كتاب صلاة التراويح باب تحری لیلۃ القدر فی الوتر من العشر الأواخر)سب قدر ک رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو ، اس واسطے اکیسویں ، تیئسویں ، پچیسویں ،ستائسویں اور رمضان کی رات میں بھی شب بیداری اور عبادت کرنی چاہئے، تاکہ شب قدر کے پانے اور ان راتوں میں عبادت کرنے کے ثواب سے اپنے دامن مراد کو بھر لیں۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق