رمضان المبارک اور قرآن
خطبہ مسنونہ کے بعد!
قال اللہ
تعالی:﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ
وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ﴾ (البقرہ:۱۸۵)
وقال في موضع آخر:﴿إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ
إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ﴾ (الدخان: ۳) وقال
في موضع:﴿إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ﴾ (القدر:۱)
پہلی آیت
میں اللہ جل شانہ نے فرمایاکہ رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں لوگوں کی ہدایت
کے لئے اور حق و باطل میں فرق کرنے والا اور ہدایت و رہنمائی کی واضح نشانیوں کے
طور پر قرآن کو نازل کیا اور دوسی آیت میں اللہ تعالی فرماتاہے کہ ہم نے اس (قرآن)
کو ایک مبرک رات میں نازل کیا ہے ،اورتیسری آیت میں فرمایا:ہم نے اس کو شب قدر میں
نازل کیا ہے۔
اس سے
معلوم ہوتا ہے کہ اس سےپہلی والی آیت میں جو مبارک رات میں اس کے نازل ہونے کا ذکر
ہے ،اس اس مابارک رات سے مراد شب قدر ہی ہے ، اور ہم سب کو معلوم ہے کہ شب قدر رمضان
المبارک میں ہوتی ہے ، اس طرح یہ دونوں آیتیں بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہیں جس پر
پہلی آیت یعنی : ﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ﴾دلالت
کرتی ہے ، اور ان سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسی مبارک مہینہ میں اللہ تعالی نے
لوگوں کی ہدایت کے لئے و رہنمائی کے لئے اور اس کی وحدانیت کی
واضح نشانیوںو دلائل کے ساتھ قرآن کریم کو نازل فرمایا ہے، اس
طرح یہ مہینہ قرآن مجید کے نزول کا مہینہ ہے ۔
اسی واسطے
رسول اللہ ﷺ ہر سال اس ماہ مبارک میں
جبرائیل کے ساتھ ہر رات اس کا دور کرتے تھے۔
امام
بخاریوغیرہ نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ :”كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم
أَجْوَدَ النَّاسِ ، وَكَانَ أَجْوَدَ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ
، وَكَانَ جِبْرِيلُ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ
فَلَرَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ
مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ“ (صحيح البخاری: 4/137، كتاب
بدء الخلق باب ذكر الملائكۃ)یعنی رسول اللہ ﷺلوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے اور سب سے
زیادہ سخی رمضان میں اس وقت ہوتےجب جبرائیل آپ سے ملاقات کرتے اور وہ آپ سے
رمضان کی ہر رات میں ملاقات کرتے تھے ، چنانچہ آپ ان پر قرآن پڑھتے تھے اور اس وقت
چلنے والی ہو ا سے بھی زیادہ سخی ہوتے تھے۔
بہر حال
رمضان میں آپ کا قرآن کے ساتھ اعتنا بڑھ جاتا تھا۔
قرآن
کریم اور رمضان المبارک میں ایک دوسرے ناحیہ سےبھی تعلق اور مناسبت ہے کہ جس طرح
اس ماہ میں قرآن کریم کا نزول ہوا اسی طرح مسلمانوں پر اس ماہ کے روزے فرض کئے گئے
، ارشاد الٰہی ہے :﴿فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ﴾(البقرہ: ۱۸۵)جو اس ماہ میں گھر پر موجود رہے وہ اس کا روزہ رکھے ۔
نیز قرآن
اور روزہ دونوں قیامت کے دن بندے کے لئے شفارش کریں گے ، رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے :”الصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ
لِلْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، يَقُولُ الصِّيَامُ : أَيْ رَبِّ ، مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ
وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ ، فَشَفِّعْنِي فِيهِ ، وَيَقُولُ الْقُرْآنُ : مَنَعْتُهُ
النَّوْمَ بِاللَّيْلِ ، فَشَفِّعْنِي فِيهِ ، قَالَ : فَيُشَفَّعَانِ“(رواہ أحمد
:2/174،شعب الإيمان :3/378،باب عظیم القرآن فصل فی ادمان تلاوۃ القرآن)قیامت کے دن روزہ اور قرآن دونوں بندہ کے لئے سفارش کریں گے
، روزہ کہے گا: اے پروردگار میں نے اسے دن میں کھانے پینے اور شہوتوں سے روک دیا
تھا ، لہذا میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما ، اور قرآن کہے گا :میں نے اسے رات
میں سونے سے روک دیا تھا ، اس واسطے میری سفارش اس کے حق مین قبول فرما، چنانچہ
دونوں کی سفارش قبو ل کی جائے گی ۔
اس واسطے
اس مبارک ماہ میں قرآن کی تلاوت ، سمع اور دروس وغیرہ کا خوب اہتمام کرنا چاہئے ،
قرآن کریم تو وہ مقدس کتاب ہے جس کی تلاوت ہر اعتبار سے اجر وثواب اور خیر و برکت
کا باعث ہے ۔
حضرت عبد
اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :”مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ
كِتَابِ اللَّهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا لاَ أَقُولُ
الم َرْفٌ وَلَكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلاَمٌ حَرْفٌ وَمِيمٌ حَرْفٌ“(سنن الترمذی:
5/175،
كتاب فضائل القرآن باب ما جاء فیمن قرأ
حرفا من القرآن ما لہ من الأجر)یعنی قرآن کریم کا ایک حرف پڑھا اس کے لئے ایک نیکی ہے ،
اور نیکی کو اس کے دس گنا بڑھا دیا جاتا ہے، اس طرح قرآن کا ایک حرف پڑھنے پر دس نیکیاں ملتی
ہیں ، میں نہیں کہتا کہ ﴿ الم ﴾ ایک حرف ہے ، بلکہ” الف“ ایک حرف ہے ، ”لام“ یک حرف ہے اور”
میم“ ایک حرف ہے، اس طرح صرف ﴿الم ﴾ پڑھنے سے تیس نیکیاں ملتی ہیں ۔
قرآن
کریم وہ مقدس کتاب ہے جس کے پڑھنے اور پڑھانے والے کو زبان رسالت سے بندوں میں سب
سے اچھا ہونے کی سند ملی ، ارشاد نبوی ہے :”خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ
الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ“ (صحيح البخاری: 6/236،كتاب فضائل القرآن
باب خيركم من تعلم القرآن وعلمہ)تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے ۔
یہ وہ
مقدس کتاب ہے جس کے درس کی مجلس میں شرکت کتنے والوں پر سکینت کا نزول ہوتا ہے ،
انہیں فرشتے چاروں طرف سے اپنے گھیرے اور جھرمٹ میں لے لیتے ہیں ، انہیں رحمت
ڈھانپ لیتی ہے ، اور ان کا ذکر خیر اللہ جل شانہ اپنے مقرب فرشتوں میں کرتا ہے۔
حضرت ابو
ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :”مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِى
بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ تَعَالَى يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَيَتَدَارَسُونَهُ
بَيْنَهُمْ إِلاَّ نَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمُ
الْمَلاَئِكَةُ وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ“(صحيح مسلم: 8/71،کتاب الذكر والدعاء
والتوبۃ باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن وعلى الذكر،سنن أبی داود: 1/544، کتاب
الوتر
باب فى ثواب قراءة القرآن) جب بھی کچھ
لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اکٹھا ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں
آپس میں درس و تدریس کا اہتمام کرتے ہیں ان پر سکینت کا نزول ہوتا ہے نہیں رحمت
الٰہی ڈھانپ لیتی ہے ، اور فرشتے انہیں چارو طرف سے گھیر لیتے ہیں اور ان کا تذکرہ
اللہ اپنے پاس کے فرشتوں میں فرماتا ہے ۔
قرآن
اللہ کی وہ پاکیزہ کتاب ہے جس کے اندر ایسی کشش ہے کہ اگر اس کی بلند اور اچھی
آواز میں تلاوت کی جائے تو فرشتے اس کے سماع کے لئے بالکل قریب آجاتے ہیں ۔
صحیح بخاری
میں حضرت اسید بن حضیر سے مروی ہے کہ وہ رات کو سورہ بقرہ کی تلاوت کر رہے تھے ان
کا گھوڑا ان کے قریب ہی بندھا ہوا تھا ، تھوڑی دیر میں گھوڑا گھومنے اور چکر لگانے
لگا تو میں نے پڑھنا بند کردیا گھوڑا بھی پرسکون ہوگیا تو میں پھر پڑھنے لگا ، اس
سے گھوڑا پھر بدکنے اور کھونٹے کے ارد گرد گھومنےلگا ، چنانچہ میں نے پڑھنا بند کر
دیا اور گھوڑا بھی پر سکون ہوگیا ، اس کے بعد پھر پڑھنا شروع کیا تو گھوڑا پھر
بدکنے لگا جس سے مجبور ہوکر میں نے پڑھنا بند کردیا ، کیونکہ میرا لڑکا یحییٰ قریب
میں لیٹا تھا اور میں ڈرا کہ وہ کچل نہ جائے ، اور اس کو کوئی تکلیف نہ لاحق ہو
جائے ، جب صبح صادق ہوئی تو میں نے اس واقعہ کو رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا ، آپ نے
فرمایا: اے ابن حضیر ! تمہیں اپنی قرأت جاری رکھنی چاہئے ، ابن حضیر تمہیں قرآن
پڑھتے رہنا چاہئے ،میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! مجھے ڈر ہوا کہ کہیں یحیی ٰ کچل
نہ جائے ، وہ اس کے قریب ہی تھا ، پھر میں نے سر اوپر کی طرف اٹھایا اور اس کی طرف
متوجہ ہوا تو کیا دیکھتا ہوں ایک چیز سایہ کی طرح ہے جس میں چراغوں کی طرح قمقمے
ہیں ، پھر مین باہر نکل کر دیکھتا رہا یہاں تک کہ وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی ، رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: جانتے ہو وہ کیا تھا ؟ کہا : نہیں ، آپ نے فرمایا: وہ فرشتے تھے
جو تمہاری تلاوت کی آواز سننے کے لئے قریب آگئے تھے ، اگر تم قرآن پڑھتے رہتے تو
صبح لوگ انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ،اور وہ ان کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہوتے ۔(رواہ البخاری: 6/234، كتاب فضائل
القرآن باب نزول السكینۃ والملائكۃ عند قراءة القرآن)
قرآن وہ بابرکت
کتاب ہے کہ اس کو مہارت سے پڑھنے والے قیامت کے روز معزز فرشتوں کے ساتھ ہوں گے،
اور اٹک اٹک کر پڑھنے والوں کے لئے دو ثواب ہے ۔
حضر
عائشہسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”الْمَاهِرُ بِالْقُرْآنِ
مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ وَالَّذِى يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَتَتَعْتَعُ
فِيهِ وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌّ لَهُ أَجْرَانِ“(رواہ البخاری:6/206،كتاب التفسير باب
تفسير سورة عبس ،ومسلم:2/195،کتاب صلاة المسافرين
باب فضل الماهر بالقرآن والذى يتتعتع فيہ واللفظ لہ)قرآن کا ماہر نیک او معزز فرشتوں کے ساتھ ہوگا ، اور جو
قرآن کو اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اور اسے اس کے پڑھنے میں مشقت ہوتی ہے اس کے لئے دو
اجر ہے ۔
قرآن
والوں کو قیامت کے دن کہا جائے گا : قرآن پڑھتے جاؤ اور جنت کی سیڑھیوں پر چڑھتے
جاؤ جہاں تم آخری آیت پڑھو گے وہیں تمہای منزل ہوگی۔
اس طرح
ہر مسلمان کو اس کے (قرآن کے )یاد رکھنے اور ترتیل کے ساتھ پڑھنے کے اعتبار سے جنت
میں اعلیٰ مقام ملے گا۔
حضرت عبد
اللہ بن عمرو بن العاصسے روایت ہے کہ
رسول اللہ ﷺنے
فرمایا:”يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ اقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ
تُرَتِّلُ فِى الدُّنْيَا فَإِنَّ مَنْزِلَتَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَأُ بِهَا“(رواہ الترمذی: 5/177 [۲۹۱۴]،كتاب فضائل القرآن
باب ما جاء فيمن قرأ حرفا من القرآن ما لہ من الأجر ، وقال الترمذی و الالبانی: حسن صحیح)
قرآن والے سے کہا جائےگا پڑھتا جا اور
چڑھتا جا اور اسی طرح ترتیل سے اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسے دنیا میں پڑھا کرتا تھا
، کیونکہ تیری منزل اس جگہ ہوگی جہاں تو آخری آیت پڑھے گا۔
قرآن
کبھی کبھی دوسرے سے بھی سننا چاہئے ، جس کی قرأت اچھی ہو اور آواز بھی خوبصورت ہو
اور اس کے معانی و مطالب پر غور کرنا ور عبرت حاصل کرنا چاہئے۔
حضرت عبد
اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے کہا : مجھے قرآن پھ کر سناؤ ،
میں نے کہا : میں آپ پر قرآن پڑھوں حالانکہ آپ پر قرآن نازل ہوا ہے ، آپ نے
فرمایا: ایسی بات نہیں ، میری خوہش ہے کہ کسی دوسرے سے قرآن سنوں ، چنانچہ میں نے
سورہ النساء پڑھنا شروع کیا ، یہاں تک کہ میں جب آیت کریمہ:﴿فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ
كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا﴾(النساء :۴۱) وہ وقت کیسے ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور
آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے ۔کی تلاوت کی تو آپ نے فرمایا:”كُفَّ ، أَوْ أَمْسِكْ“ بس کرو ، میں نے دیکھا کہ آپ کی دونوں آنکھیں اشکبار ہیں۔(صحيح البخاری:6/243، كتاب فضائل
القرآن باب البكاء عند قراءة القرآن ،صحيح مسلم: 2/195،
کتاب صلاة
المسافرين باب فضل استماع القرآن...)
بہر حال
قرآن کریم ہر اعتبار سے بہت ہی بابرکت کتاب ہے ، اسے اللہ تعالی نے سید الاولین و
الآخرین خاتم الانبیاء والمرسلین حضرت محمد ﷺ پر سید الملائکہ حضرت جبرائیل کے
واسطے نازل فرمایا، اور جس میں اس کی نزوک کی ابتدا ہوئی اسے ام القریٰ (تمام
بستیوں کی ماں) اور جس امت کے لئے اس کا نزول ہوا اسے خیر الامم کا شرف عطا
فرمایا، اور اس کے نزول کے لئے رمضان المبارک جیسے مقدس و محترم مہینے اور شب قدر
جیسی بابرکت و فضیلت والی رات کا انتخاب فرمایا۔
اس واسطے
میرے مسلمان بھائیو!اس کتاب کی قدر منزلت کو پہچانو ، اس کے حقوق کو سمجھو ، اور
خاص طور سے رمضان المبارک میں رسول اللہ ﷺ کی طرح اس کی نماز و خارج نماز ،ہر طرح
بکثرت تلاوت پر وجہ دو ، اور اپنے دامن مراد کو نیکیوں سے بھر لو ، خود پڑھو اور
اپنے بیوی بچوں کو پڑھنے کے لئے کہو ، مساجد میں اس کی تلاوت اور درس کا اہتمام
کرو ، اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین . وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق