ماہ شوال کی خصوصیات اور فضائل
خطبہ
مسنونہ کے بعد!
قال اللہ
تعالی :﴿الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا
رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ
اللَّهُ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَا أُولِي
الْأَلْبَابِ﴾ (البقرۃ:197) عَنْ أَبِى أَيُّوبَ الأَنْصَارِىِّ
> أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ
@ قَالَ : ”مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ
سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ“(صحيح مسلم:3/169،كتاب الصيام
باب استحباب صوم ستۃ أيام من شوال
اتباعا لرمضان)
آپ سب کو
معلوم ہے کہ سال کے بارہ مہینے ہیں اور ہر مہینہ کی کچھ نہ کچھ خصوصیات ہیں ، جن
کی بنا پر اللہ تعالی نے انہیں دوسرے مہینے سے ممتاز کیا ہے ، یہ مہینہ شوال کا ہے
، شوال ہجر ی سال کا دسواں مہینہ ہے ، اس ماہ کی بہت سی خصوصیات اور فضائل ہیں،ان میں سے ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کی پہلی تاریخ
یعنی یکم شوال کو مسلمانوں کی دو شرعی عیدوں میں پہلی عید یعنی عید الفطر کا دن
ہونے کا شرف حاصل ہے ، یہی وہ دن ہے جس میں مسلمان مرد ، عورتیں اور بچے غسل کر کے
اچھے کپڑے پہن کر اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ ، اللہ اکبر اللہ کبر وللہ
الحمد کی صدائے دلنواز بلند کرتے اور اللہ جل شانہ کی کبریائی کے گیت گاتے ہوئے
عید گاہ جاتے ہیں ، وہاں دو رکعت عید کی نماز ادا کرتے اور امام سے خطبہ سنتے ہیں
، پھر ایک دوسرے کو عید کی مبارک بادیاں دیتے اور ”تقبل اللہ منا ومنکم“کہتے
دعوتیں کھاتے اورکھلاتے اور ہر طرح سے خوشیاں مناتے ہیں۔
یہ دن در
حقیقت روزہ دار کے انعام و بخشش کا دن ہے ، رمضان المبارک کا مہینہ در حقیقت ٹرینگ
، تربیت اور امتحان کا مہینہ تھا ، اور عید کا دن اسی امتحان میں کامیابی پر انعام
لینے اور خوشی و جشن منانے کا دن ہے ، اور آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ طلبہ کو تعلیم
، ٹریننگ اور امتحان کے ایام میں زیادہ خوشی تقسیم انعام اور جشن کا دن ہوتا ہے ،
اور یہ دن انہیں بڑا ہی محبوب اور پیارا ہوتا ہے ، امتحان اور تعلیم و تربیت کے
ایام میں انہیں کوئی خوشی نہیں ہوتی ،
کیونکہ ان ایام میں انہیں زیادہ سے زیادہ محنت کرنی ہوتی ہے ، اور نہیں یہ
فکر ہوتی ہے زیادہ سے زیادہ محنت اور جد جہد کر کے اپنے اعلی مقصد کو حاصل کر لیں
، اور منزل مقصود تک پہونچ جائیں ، لیکن کامیابی کے بعد انعام و جشن کے دن تو وہ
مارے خوشی کے پھولے نہیں سماتے ، حالانکہ اگر آپ ذرا گہرائی میں جائیں اور ٹھنڈے
دل سے غور کریں تو اس نتیجہ پر پہونچیں کے کہ افادیت اور معنویت کے اعتبار سے
تعلیم و تربیت اور ٹریننگ و مشق کے ایام کی ہمیت انعام و جشن والے دن کی بہ نسبت
زیادہ ہے ، اس واسطے کہ خوشی اور جشن تو ایک دن کے لئے ہے ، اگر تربیت و تعلیم کے
ایام میں خوب محنت کی ہے اور واقعی اس کی تربیت اور ٹریننگ صحیح طریقے پر ہوئی ہے
تو اس کے اثرات دیر پا ہوں گے ، اور ان کے ثمرات سے وہ ہمیشہ ہوتا رہے گا۔
ہم نے
عید کی خوشیاں منالیں اور رمضان کے روزے مکمل کر کے ہم نے یہ سمجھا کہ امتحان بھی
کامیاب ہوگئے ، مگر آئیے ذرا غور کریں کہ ایک ماہ کی ٹریننگ کا جو کورس تھا جس میں
ہمیں روزوں کا مکلف کیا گیا تھا اور ایمان و اخلاص کے ساتھ روزے کی نیت سے کھانے
پینے اور جماع کرنے کو ترک کردینے اور جھوٹ ، غیبت ،گالی گلوج ، جنگ وجدال وغیرہ
برائیوں سے اجتناب کرنے کی تاکید تھی جس میں نماز تروایح ، تلاوت کلام پاک ، آخری
عشرہ میں شب قدر کی تلاش و شب بیداری ، اعتکاف ، صدقہ و خیرات وغیرہ عبادتوں کے
ذریعہ ہمارے اندر تقوی و پرہیز گاری پیدا کرنے ، نیک و صالح بنانے ، اور ہم میں
سال بھر کے لئے ان عبادتوں کا ذوق و شوق پیدا کرنے اور ان کی اہمیت کو ہمارے دلوں
میں جاگریں کرنے کی کوشش کی گئی ، اور بتایا گیا کہ روزوں کی فرضیت کا اصل مقصد
یہی تقوی شعاری ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ
الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾ (البقرہ: 183) اے لوگوں جو ایمان
لائے ہوتمہارے اوپر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کئے گئے
تھے ، تاکہ تم متقی اور پرہیزگار بن جاؤ ، اور آپ جانتے ہیں کہ کسی بھی کورس میں
اصل کامیابی یہ ہے کہ اس کا جو مقصد ہے اس کی جو غایت ہو وہ حاصل ہوجائے ، صرف
کورس مکمل کرنا اور پھر اس کی تکمیل پر جشن منا لینا اصل کامیابی نہیں ہے ، اس
ناحیے سے آئیے غور کریں کہ ہم نے رمضان کے روزے رکھ کر کورس پورا کر لیا ، اس کے
بعد جشن اور عید بھی منا لی مگر کیا جو روزوں اوررمضان المبارک کی دیگر عبادتوں کا
مقصد تھا وہ ہمیں حاصل ہوگیا ، کیا جیسے ہماری مسجدیں رمضان المبارک میں پانچوں
وقت نمازیوں سے بھری رہتی تھیں اسی طرح ابھی بھری رہتی ہیں ، کیا جیسے رمضان میں
ہم اور ہمارے اہل خانہ نے قرآن کی تلاوت کرتے تھے اسی طرح اب بھی قرآن کی تلاوت ہو
رہی ہے ، کیا آج بھی تہجد اور نفلی نمازوں کا اہتمام جیسے پہلے تھا اسی طرح
ہے ؟ کیا صدقہ وہ خیرات کا جو جذبہ ہمارے
دلوں میں رمضان میں موجزن تھا وہ اب بھی ہے ، اگر ایسا ہے تو یقینا یہ ہمای بڑی
خوش نصیبی کی بات ہے ، کیونکہ ہم نے روزوں کا مقصد اصلی کو پالیا ہے اور ماہ رمضان
کی عبادتوں کے حقیقی ثمرات سے بہرا مند ہو رہے اور اگر رمضان المبارک کو الوداع
کہنے کے ساتھ ہم نے نماز ، روزہ ، صدقہ و خیرات ، تلاوت قرآن اور سب بیداری وغیرہ
کو بھی الودع کہہ دیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس عظیم الشان ماہ کی برکات و فیوض
سے ہم محروم رہ گئے ، اور رمضان کے روزوں و دیگر عبادتوں کا اصل مقصد اس سے ابھی
ہم دور ہیں ، اور بھوک و پیاس ، تھکاوٹ ، اور شب بیداری کی زحمت کے سوا ہمیں کچھ
نہیں ملا۔
روزے صرف
رمضان کے ساتھ خاص نہیں،بلکہ دوسرے مہینوں میں بھی روزے ہیں ، رسول اللہ ﷺپیر اور
جمعرات کے روزے رکھتے تھے ، اور فرماتے تھے ان دونوں دنوں میں بندوں کے اعمال کی
پیشی ہوتی ہے ، اور میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش کئے جائیں تو میں روزہ کی
حالت میں رہوں ، ہر ماہ تین دن کا روزوں کی بڑی فضیلت ہے ، عاشوراء کے روزے ہیں
یوم عرفہ کا روزہ ہے ، شعبان کے روزے ہیں ، رمضان کے روزوں کی فرضیت میں یہ پیغام
اور اشارہ ہے کہ یہ ٹریننگ اس واسطے دی جارہی ہے تاکہ سال بھر ہم غفلت میں نہ
گزاردیں ، بلکہ روزے کی روحانیت اور فیوض و برکات کو ہمیشہ یاد رکھیں ، اور ہر
مہینہ سے کچھ دن روزہ رکھ کر ایمان و تقوی اور اجر وثواب میں اضافہ کریں ۔
اسی طرح
قیام اللیل جسے رمضان میں ترویح اور دوسرے ایام میں تہجد کہتے ہیں رمضان کے ساتھ
خاص نہیں ہے ، بلکہ تہجد اور قیام سال بھر کے لئے ہے ، اسی طرح دعائیں ، ذکر واذکار
اور توبہ و استغفار کے لئے بھی پورا سال ہے ، قرآن کا نزول اگر چہ رمضان میں ہوا
مگر اس کی تلاوت کا اجر و ثواب ہر ماہ میں برابر ہے ، اس کے مطالعہ اور درس و
تدریس کی اہمیت رمضان اور غیر رمضان سب میں ہے ، قرآن اللہ کی نازل کردہ مقدس کتاب
بھی ہے ، اور پوری انسانیت کے لئے قیامت تک کے لئے دستور حیات اور قانون الہی بھی
ہے ، اس واسطے رمضان کے بعد اسے غلاف میں لپیٹ کر رکھ دینا قطعا درست نہیں ، اسے
سال بھر پڑھنا چاہئے ، اسے سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چاہئے ، صدقہ وخیرات کا حکم
اور فضیلت اور اہمیت سال بھر کے لئے ہے ، اس واسطے جیسے رمضان میں پوری کوشش ہوتی
تھی کہ کوئی غریب و مسکین ہمارے پاس سے خالی ہاتھ نہ جائے اسی طرح ہمیں سال بھڑ
صدقہ و خیرات کرنا چاہئے ۔
ماہ شوال کی ایک دوسری خصوصیت یہ ہے کہ رمضان کے
روزوں کے بعد اگر کوئی اس ماہ میں چھ روزے رکھ لے تواسے پورے سال کے روزوں کا ثواب
مل جائے گا ، حضرت ابو ایوب انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ
سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ“ (صحيح مسلم:3/ 169،كتاب الصيام باب
استحباب صوم ستۃ أيام من شوال اتباعا لرمضان)جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے
رکھے اس نے گویا ہمیشہ روزے رکھے،یعنی اس کو پورے سال روزے رکھنے کا ثواب مل جائے
گا ، اور اگر ہر سال اسی طرح اس نے شش عیدی روزوں کا اہتمام کیا تو گویا اس نے
پوری عمر روزے رکھے ، کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے :﴿مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ
فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا﴾(الانعام :160)جس نے نیکی کی اسے اس کے دس گنا ملے گا ، اس واسطے ایک
مہینے کا روزہ دس ماہ کے روزے کے برابر ہوگیا اور چھ دن کے روزے ساٹھ دن کے روزے
کے برابر ہوئے ، اس طرح بارہ ماہ یعنی مکمل ایک سا کے روزے رکھنے کا ثواب ملے گا ۔
اس سے
معلوم ہوا کہ شوال کے چھ روزے مسنون ہیں ، اور ان کی بڑی فضیلت ہے ۔
شوال کے
ان روزوں کو عید کے بعد ایک ساتھ بھی رکھ سکتے ہیں اور متفرق طریقے پر بھی ، اور
عید کے دن کو چھوڑ کر شروع سے لے کر آخری شوال تک کسی بھی وقت روزہ رکھ سکتے ہیں ،
کیونکہ ان احادیث میں اس طرح کی کوئی قید نہیں ہے کہ انہیں مسلسل رکھے جائیں یا
عید کے فوارا ان کا اہتمام کیا جائے ،بلکہ :”ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ“ہے یعنی پھر شوال کے چھ روزے رکھے اور یہ ان تمام صورتوں
کو عام ہے ، البتہ عید کا دن مسلمانوں کے تہوار اور خوشی و مسرت کا دن ہے ان کے
خود کھانے اور دوسروں کو کھلانے کا دن ہے اس لئے اس دن روزہ رکھنا حرام ہے ، حضرت
ابو سعید خدری سے روایت ہے:”نَهَى النَّبِيُّ @ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الْفِطْرِ وَالنَّحْرِ“(صحيح البخاری:3/55،كتاب
الصوم باب صوم يوم الفطر،صحيح مسلم:3/152،کتاب الصيام
باب النهى عن صوم يوم الفطر ويوم الأضحىٰ)رسول اللہ ﷺنے عید الفطراور عیدقربان کے دن روزہ رکھنے سے
منع فرمایا ، ایک روایت میں ہے :”وَلاَ صَوْمَ فِي يَوْمَيْنِ الْفِطْرِ وَالأَضْحَى“(صحيح البخاری:3/56،كتاب
الصوم باب الصوم يوم النحر ،صحيح مسلم:3/152، کتاب
صلاة المسافرىن وقصرها باب الأوقات التى نهى عن الصلاة فىها)رسول اللہ ﷺنے فرمایا: دو دن میں روزہ نہیں ہے ، عید الفطر
کے دن اور عید الاضحیٰ کے دن ۔
ان چھ
روزوں کی جنہیں شش عیدی روزے کہا جاتا ہے فضیلت آپ نے سنی یہ اللہ کا ہمارے اوپر
بڑا ہی فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمارے لئے یہ آسانی رکھی کہ رمضان کے بعد چھ روزے
شوال میں بھی رکھ لیں تو ہمیں پورے سال کا ثواب مل جائے ۔اس واسطے اللہ کے اس فضل
و کرم سے ہمیں استفادہ کرنا چاہئے ، اور یہ سنہرا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا
چاہئے ، بعض حضرات کہتے ہیں کہ ان چھ روزوں کے رکھنے سے ہمارا روزہ صوم الدھر و
زمانے کا روزہ یا سال بھر کا روزہ ہوجائے گا اور صوم الدھر سے احادیث میں ممانعت
وارد ہے ، اس واسطے ان روزوں کا رکھنا ٹھیک نہیں ، مگر ان کی بات بالکل غلط ہے اس
واسطے کہ ممانعت سال بھر برابر روزے رکھنے کی ہے اور یہاں سال بھر روزے نہیں رکھنا
ہے ، بلکہ شوال کے چھ روزے رکھ کر سال بھر کے روزوں کا ثواب حاصل کرنا ہے ، یہ تو
اللہ تعالی اپنے فضل خاص سے ہم لوگوں کو عنایت فرمانا چاہتا ہے اور دونوں میں فرق
ہے ، ایک کی ممانعت ہے دوسرے کی ترغیب ہے
، ایک طرف مسلسل سال بھر روزہ رکھنے میں فائدے کی بجائے نقصان ہے کیونکہ اس سے
آدمی کمزور اور بیمار ہوجائے گا ، اس کی صحت خراب ہوجائے گی ، اور بال بچوں کے لئے
کمانے، جہاد کرنے کے لئے قوت نہیں رہ جائے گی ، نیز روحانی اعتبار سے بھی کوئی
فائدہ نہیں حاصل ہو گا ، کیونکہ جو شخص سال بھر مسلسل روزہ رکھے وہ اس شخص کی طرح
ہوجائے گا جس کی صرف دو وقت کھانے کی عادت ہے ، اس سے اسے بھوک پیاس اور روزے کا
احساس نہیں ہوگا ، اور روزے کی حالت میں جو اس پر روحانی کیفیت طاری ہونی چاہئے وہ
غریبوں مسکینوں کے بھوک پیاس کا احساس ہونا چاہئے وہ حاصل نہیں ہوگا ، اس واسطے یہ
روزے اپنی افادیت کھو دیں گے ، جبکہ شش عیدی روزوں کے رکھنے میں کوئی مضرت نہیں ،
اور اس سے روزوں کے تمام روحانی و ایمانی ثمرات حاصل ہوتے ہیں ۔
دوسرے
اگر یہ مان بھی لیں کہ شش عیدی روزے اس واسطے نہیں رکھے جائیں گے کہ ان کی وجہ سے
سال بھر کے روزے کا ثواب ملے گا اور صوم الدھر ہوجائے گا تو بہت سے فضائل کا انکار
کرناپڑے گا ، جیسے ایام بیض کے روزے کہ ان کے رکھنے سے بھی سال بھر روزہ رکھنے کا
ثواب ملتا ہے کیونکہ نبیﷺکا ارشاد ہے :”ثَلاَثٌ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَرَمَضَانُ
إِلَى رَمَضَانَ فَهَذَا صِيَامُ الدَّهْرِ كُلِّهِ“(صحيح مسلم:3/167، کتاب الصيام باب
استحباب صيام ثلاثۃ أيام من كل شهر... ،مسند أحمد:5/34)
بعض
حضرات نے کہا کہ اہل مدینہ اور میرے جانکار اہل علم یہ روزے نہیں رکھتے ، اس واسطے
یہ مسنون نہیں مگر یہ بات بھی غلط ہے ، کیونکہ کوئی بھی عمل مسنون ہوتا ہے رسول
اللہ ﷺکے قول و فعل سے ، اور جب اس کی فضیلت اور ثواب صحیح احادیث سے ثابت ہوگئی
تو کسی کے عمل نہ کرنے سے اس کے مسنون ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔
ماہ شوال کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کا شمار اشہر
حج میں ہوتا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ﴿الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ
فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ
وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ
التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ﴾(البقرۃ:197)حج کے مقرر مہینے ہیں اس لئے جو شخص ان میں حج لازم کرے وہ اپنے بیوی سے میل
ملاپ نہ کرنے ، گناہ کے کرنے ، اور جھگڑے لڑائی کرنے سے بچتا رہے اور تم جو نیکی
کرو گے اس سے اللہ تعالی باخبر ہے ، اور اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو سب سے
بہترین توشہ اللہ کا ڈر ہے اور اے عقلمدو مجھ سے ڈرتے رہا کرو۔
امام ابن
کثیراس کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ”قَالَ البُخَارِي: قَالَ اِبْن عُمَر: هِيَ شَوال، وذو القعدة،
وعشر من ذي الحجة , وَهَذَا الذِي عَلَّقَهُ البُخَارِي عَنْهُ بِصِيْغَةِ الجَزم“(تفسير ابن كثير
:1/541،فی تفسیر سورۃ البقرہ آیۃ رقم:197)یعنی امام
بخاری نے اپنی صحیح میں عبد اللہ بن عمرسے جزم کے ساتھ تعلیقا روایت کی ہے کہ
اشہر معلومات سے مراد شوال ذی القعد اور عشرہ ذی الحجہ ہے ۔
اس سے
معلوم ہوتا ہے کہ حج کے مہینوں کی ابتدا شوال سے ہوتی ہے ، اور جو شخص اس سے قبل
حج کا احرام باندھے گا اس کا احرام حج صحیح نہیں ہوگا ، کیونکہ حج کا یہ احرام اس
کے وقت سے پہلے باندھا گیا ہے ، جس طرح اگر کوئی نماز کو اس کے وقت سے پہلے پڑھ لے
تو اس کی نماز درست نہیں ہوگی ، اور اسے وہ نماز کا وقت ہوجانے کے بعد دوبارہ
پڑھنی پڑے گی ، اسی طرح شوال سے پہلے احرام حج باندھنے والے کو ماہ شوال شروع ہونے
کے بعد دوبارہ احرام باندھنا پڑے گا۔
اسی طرح
اگر کسی نے شوال سے پہلے تمتع کی نیت سے عمرہ کا احرام باندھا اور عمرہ کیا تو اس
کا یہ عمرہ حج تمتع کا عمرہ نہیں ہوگا بلکہ نفلی عمرہ ہوگا ۔
شوال سے
پہلے حج کے دوسرے مہینوں میں بھی فسق وفجور ، گندی اور بےہودہ باتوں اور جنگ وجدال
سے اسی طرح بچنا چاہئے جس طرح اشہر الحرام میں بچنا چاہئے ، خاص طور سے احرام کی
حالت میں تو اس سے احتراز لازمی ہے۔
بہر حال
شوال کی اشہر حج میں سے ہونے کا بھی شرف حاصل ہے جو بہت بڑی فضیلت ہے۔
ماہ شوال کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اس ماہ شادی کرنا
اور رخصتی کر کےنئی نویلی دلہن کو اپنے گھڑ لانا بہت سے علماء کے نزدیک مستحب ہے ، اور اس کو شادی
بیاہ کے لئے منحوس سمجھنا بالکل غلط اور جاہلیت کے امور میں سے ہے، امام نسائی نے
حضرت عائشہ سے روایت ذکر کی ہے :”تَزَوَّجَنِى رَسُولُ اللَّهِ @ فِى شَوَّالٍ وَأُدْخِلْتُ عَلَيْهِ
فِى شَوَّالٍ وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَسْتَحِبُّ أَنْ تُدْخِلَ نِسَاءَهَا فِى شَوَّالٍ
فَأَيُّ نِسَائِهِ كَانَتْ أَحْظَى عِنْدَهُ مِنِّي“(سنن النسائی:4/64، كتاب
النكاح التزويج فى شوال)مجھ سے نبی ﷺنے شوال میں نکاح
کیا اور شوال میں ہی میری رخصتی ہوئی تو آپ کی بیویوں میں کون سے بیوی رسول اللہ ﷺکے
نزدیک مجھ سے زیادہ پیاری ہے ، اور حضرت عائشہ پسند کرتی تھیں کہ عورتوں کی رخصتی
شوال میں ہو۔
صحیح
مسلم میں ہے:”تَزَوَّجَنِى
رَسُولُ اللَّهِ @ فِى شَوَّالٍ وَبَنَى بِى فِى شَوَّالٍ“رسول اللہﷺنے مجھ سے شوال میں شادی کی اور میری رخصتی شوال
میں ہوئی”وَكَانَتْ
عَائِشَةُ تَسْتَحِبُّ أَنْ تُدْخِلَ نِسَاءَهَا فِى شَوَّالٍ“ اور وہ اپنی عورتوں کی رخصتی شوال میں مستحب قرار دیتی
تھیں ۔(صحیح مسلم : ۵/509، كتاب النكاح باب
استحباب التزوج والتزويج فى شوال...) اور امام ترمذی اس
حدیث پر ”باب
مَا جَاءَ فِى الأَوْقَاتِ الَّتِى يُسْتَحَبُّ فِيهَا النِّكَاح“ یعنی وہ اوقات جن میں نکاح کرنا مستحب ہے ،کی ہیڈنگ لگائی
ہے ، اور امام نوویاس کی شرح میں فرماتے ہیں :”فِيهِ اِسْتِحْبَاب التَّزْوِيج وَالتَّزَوُّج
وَالدُّخُول فِي شَوَّال ، وَقَدْ نَصَّ أَصْحَابنَا عَلَى اِسْتِحْبَابه ، وَاسْتَدَلُّوا
بِهَذَا الْحَدِيث ، وَقَصَدَتْ عَائِشَة بِهَذَا الْكَلَام رَدّ مَا كَانَتْ الْجَاهِلِيَّة
عَلَيْهِ ، وَمَا يَتَخَيَّلهُ بَعْض الْعَوَامّ الْيَوْم مِنْ كَرَاهَة التَّزَوُّج
وَالتَّزْوِيج وَالدُّخُول فِي شَوَّال ، وَهَذَا بَاطِل لَا أَصْل لَهُ ، وَهُوَ مِنْ
آثَار الْجَاهِلِيَّة ، كَانُوا يَتَطَيَّرُونَ بِذَلِكَ لِمَا فِي اِسْم شَوَّال مِنْ
الْإِشَالَة وَالرَّفْع“(شرح النووی لمسلم: 5/ 209)
اس حدیث
سے معلوم ہوتا ہے کہ شوال میں نکاح کرنا اور شب زفاف منانا مستحب ہے ، ہمارے اصحاب
نے اس کے استحباب کی صراحت کی ہے ، اور اس کے لئے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے ،
اور حضرت عائشہسے اس قول کا مقصد اہل جاہلیت اور آج کے عوام اس عقیدہ کی تردیک
کرنا ہے ، جو شوال میں شادی بیاہ کرنے کو منحوس سمجھتے ہیں حالانکہ یہ عقیدہ باطل
ہے اور بے اصل ہے اور جاہلیت میں لوگ شوال کے نام میں جو دور کرنے اور اٹھا لینے
کا معنی لیا جاتا ہے اس سے برا فال لیتے تھے اور اس کی وجہ سے اس ماہ میں شادی
کرنا منحوس سمجھتے تھے ۔
مگر کتنی
افسوس کی بات ہے کہ آج بھی بہت سے مسلمان دور جاہلیت کے اس عقیدہ میں مبتلا ہیں
اور اس مال میں شادی بیاہ کو برا اور منحوس سمجھتے ہیں ، جو سراسر باطل ہے ، اور
رسول اللہ ﷺ نے خو اپنی اس ماہ میں حضرت
عائشہنکاح کیا اور دخول کر کے اس عقیدہ کے فساد اور بطلان کو واضح کیاہے ، اور
حضرت عائشہنہ صرف عقیدہ کی تردید کرتی تھیں بلکہ اس میں شادی اور رخصتی ہو مستحب
قرار دیتی تھیں ، اور چاہتی تھیں ان کے رشتہ دار کی خواتین کی شادی اسی ماہ میں ہو
تاکہ اس عقیدہ کا نام و نشان مٹ جائے ، اور لوگوں کو اس کے بطلان کے بارے میں یقین
کامل حاصل ہوجائے ۔
اس ماہ کی پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺنے
ایک سال رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف نہیں کیا اور شوال میں اس کی قضاء کی ،
حضرت عائشہفرماتی ہیں کہ نبی ﷺجب اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو فجر کی نماز پڑھ کر
اپنے معتکف میں داخل ہوتے ، چنانچہ آپ نے رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کا ارادہ
کیا اور خیمہ لگانے کا حکم دیا چنانچہ خیمہ لگادیا گیا ، پھر حضرت عائشہ نے خیمہ
اپنے لئے خیمہ لگانے کا حکم دیا تو ان کے لئےبھی خیمہ لگا دیا گیا،پھر حضرت حفصہ
نے حکم دیا تو ان کے لئے بھی خیمہ لگا دیا گیا ، جب حضرت زینبنے ان دونوں خیموں
کو دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے لئے خیمہ لگانے کا حکم دیا ، جب رسول اللہ ﷺنے یہ
دیکھا تو فرمایا: کیا انہوں نے خیر کا ارادہ کیا ہے ؟ پھر آپ نے اعتکاف نہیں کیا ،
ان کے خیموں کو بھی اکھڑوا دیا اور اس کے بدلے شوال میں دس دن اعتکاف کیا ۔( صحیح ابن ماجہ :2/90[ 1446-1798]،كتاب الصيام باب
ما جاء فىمن يبتدىء الاعتكاف وقضاء الاعتكاف)
ما شاء الله
ردحذفجزاه الله خير