الجمعة، 20 يوليو 2012


روزے کی اہمیت و فضیلت
            فقد قال اللہ تعالی فی القرآن المجید الفرقان الحمید :﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ( البقرہ: 183)
 اے وہ لوگو جو ایمان لئے ہو تمہارے اوپر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم متقی و پرہیزگار بنو جاؤ ۔
            اس آیت کریمہ میں سب سے پہلے اللہ تعالی یہ بتایا کہ مسلمانوں پر رمضان کے روزے فرض ہیں ، رمضان کے روزے کی فرضیت کتاب وسنت اور اجماع سے ثابت ہے ، چنانچہ اس آیت میں : ﴿ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ کہہ کے اس کی فرضیت بتائی اور دوسری آیت میں فرمایا گیا : ﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ(البقرہ : 185) رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں لوگوں کی ہدایت کے لئے قرآن کریم کو نازل کیا گیا م جس میں لوگوں کے لئے ہدایت کی باتیں اور حق وباطل مین فرق کرنے والی وضح آیتیں اور نشانیاں ہیں ، لہذا جو شخص بھی اس ماہ میں مقیم ہو وہ اس کے روزے رکھے اور جو مسافر ہو یا مریض ہو تو اتنی دوسرے ایام میں روزے رکھے ، اللہ تعالی تمہارے ساتھ آسانی کرنا چاہتا ہے سختی نہیں کرنا چاہتا ۔
            اس آیت کریمہ  میں روزے کاحکم بھی ہے اوریہ بھی وخاحت ہے کہ یہ روزے اس مہینہ رمضان المبارک کے ہیں ، اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”بُنِىَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ شَهَادَةُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَإِقَامُ الصَّلاَةِ وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ وَصَوْمُ رَمَضَانَ وَحَجُّ الْبَيْتِ(صحيح البخاری: 1/9،كتاب الإيمان باب الإيمان وقول النبی ﷺ بنی الإسلام على خمس، صحيح مسلم: 1/34 كتاب الإيمان باب قول النبى ﷺ بنى الإسلام على خمس، سنن الترمذی: 5/5 كتاب الإيمان باب ما جاء بنی الإسلام على خمس ،واللفظ لہ)
 اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : 1- لاالہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کی گواہی دینا ،2- نماز قائم کرنا ، 3 - زکاۃ دینا ، 4- رمضان کے روزے رکھنا ،5- استطاعت ہو تو بیت اللہ کا حج کرنا ۔
اس حدیث سے صرف رمضان کے روزوں کی فرضیت ہی نہیں معلوم ہوتی بلکہ یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ ارکان اسلام میں سے ایک اہم رکن ہے اور اس کا چھوڑنا اسلام کی عمارت کے ایک اہم رکن کو منہدم کرنا ہے ۔
            اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ کی ایک لمبی حدیث ہے جس میں ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! مجھے بتائیے کہ روزوں مین سے کیا للہ نے ہم پر فرض کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا: ماہ رمضان کے روزے ، اس نے عرض کیا :”هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُ“؟ کیا اس کے علاہو بھی روزے فرض ہیں ؟ آپ نے فرمایا:”لاََ ، إِلاَّ أَنْ تَطَوَّعَ“نہیں ، الا یہ کہ تم نفلی روزے رکھو ۔(صحيح البخاری: 1/18، كتاب الصوم , باب وجوب صوم رمضان، صحيح مسلم: 1/31،كتاب الإيمان باب بيان الصلوات التى هى أحد أركان الإسلام) اس میں بھی رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے روزوں کو فرض بتایا ہے ۔
            علامہ ابن قدامہ ﷫ فرماتے ہیں : ”وَأَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى وُجُوبِ صِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ (المغنی : 3/85) ماہ رمضان کے روزوں کے وجوب پر مسلمانوں کااجماع ہے ۔
            اورعلامہ سید سابق فرماتے ہیں : امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ رمضان کے روزے واجب ہیں اور نہ ان رکان اسلام میں سے ایک رکن ہے جن کے بارے میں بدیہی طور سے معلوم ہے جہ وہ دن میں سے ہیں ، اس کا منکر کافر ، مرتد عن الاسلام ہے ، اس لئے ہر عاقم و بالغ مسلمان پر رمضان کے روزے فرض ہیں جو  روزی کی فرضیت کا منکر ہے وہ کافر ہے اور جو فرضیت کا منکر نہ ہو مگر روزے نہ رکھے وہ سخت گنہگار ہے اگر بعد میں زندگی پھر روزے رکھے تو بھی اس کے اجرو ثواب کو نہیں پاسکتا اور اس کی قضا نہیں ہوسکتی ، حضرت ابو ہریرہ ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مَنْ أَفْطَرَ يَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ ، وَلاَ مَرَضٍ لَمْ يَقْضِهِ صِيَامُ الدَّهْرِ وَإِنْ صَامَهُ(رواہ البخاری : 3/41، كتاب الصوم , باب إذا جامع فی رمضان) یعنی جس نے بلا کسی رخصت اور عذر کے رمضان کا یک روزہ نہیں رکھا وہ قیامت تک روزہ رکھے تب بھی اس قضا نہیں ہوسکتی ۔
            دوسری بات اس آیت کریمہ میں یہ بتائی گئی ہے کہ روزے جسے مسلمانوں پر فرض کئے گئے اسی طرح اس سے پہلے جو لوگ اور قومیں گزریں ہیں ان پر فرض تھے ، چنانچہ جب ہم اقوام عالم کے تاریخ و شریعت کا جائزہ لیتے ہیں تو اہل روم و یونان کے یہاں بھی روزہ ملتا ہے اور یہود و نصاری کے یہاں بھی ،اسی طرح ہندوؤں کے یہاں بھی روزے اُپاس کے نام سے موجود ہیں ، اور جینیوں اور بدھو مت کے ماننے والوں کے یہاں بھی ، غرضیکہ تمام اقوام میں روزہ کا وجود ہے ، پھلے ہی تعداد میں اور کیفیات میں کچھ فرق ہو ، اور یہ بتانے سے ایک مقصد تسلی دینا ہے کہ اللہ نے روزے صرف مسلمانوں پر فرض کرکے انہیں مشقت میں نہیں ڈال دیا ہے بلکہ یہ دوسری قومیں پر فرض تھے ، اور انہوں نے یہ روزے رکھے ہیں اور آج بھی ان میں جو قومیں موجود ہیں وہ روزے رکھ رہی ہیں ، رکھانا آسان ہے اس سےگھبرانے اور ڈرنے کی ضرورت نہیں ، اور نہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے دین میں سختی ہے ، دین اسلام تو سب سے آسان دین ہے، اس میں ذرا بھی حرج و مشقت نہیں ، اور کوئی بھی مافوق الاستطاعت حکم نہیں ﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا(البقرہ :286) اللہ تعالی کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا ، ﴿وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ(الحج :78) تمہارے لئے دین میں کوئی حرج اور مشقت کی چیز نہیں ،”إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ (صحيح البخاری: 1/16، كتاب الايمان , باب الدين يسر)دین آسان ہے ۔
            دوسرا مقصد یہ اشارہ کرنا ہے کہ روزوں کی بڑی ہی افادیت اور اہمیت ہے ، اسی واسطے اللہ تعالی نے تمام اقوام پر فرض کئے ہیں ، چنانچہ ہم غور کرتے ہیں تو اس کے  بہت سے فوائد معلوم ہوتے ہیں ، اس سے ایک طرف تو اللہ کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے جس سے ہم اللہ کے مطیع و فرماں بردار بندے بن جاتے ہیں اور اطاعت کا اجر و ثواب حاصل کرتے ہیں دوسری طرف ہمارے سابقہ گناہوں کی مغفرت ہوجاتی ہے ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ(صحيح البخاری: 3/33،كتاب الصوم , باب من صام رمضان إيمانا واحتسابا ونیۃ ، صحيح مسلم: 2/ 177، كتاب صلاة المسافرين , باب الترغيب فى قيام رمضان وهو التراويح)جس نے رمضان کے روزے ایمان و احتساب کے ساتھ رکھا اس کے مقدم گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں ، تیسرے اس سے ہمارے اخلاق کا تزکیہ ہوتا ہے اور نفس پر کنٹرول حاصل ہوتا ہے ، غریبوں کے دکھ سکھ کا احساس ہوتا ہے ، اور دل میں ان کے لئے رحمت و شفقت اور پھر صدقہ و خیرات کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ، اس میں ایک  ہی وقت سحری کھانے اور ایک ساتھ روزہ رکھنے اور ایک ہی وقت افطار کرنے سے اتحاد امت اور اجتماعیت کا درس ملتا ہے ، نیز ا سے تنظیم و ترتیب کا سبق بھی ملتا ہے کہ جیسے روزے کے متعلق ہر حکم مرتب و منظم ہے اسی طرح مسلمانوں کی پوری زندگی مرتب و منظم ہوجا چاہئے ، غرضیکہ دوسری قوموں روزہ ہونے کے بتانے میں یہ اشارہ ہے کہ روزے کی عظیم اہمیت و افادیت کے پیش نظر ہی اسے تمام اقوام پر فرض کیا گیا ہے ۔
            پھر تیسری چیز اس آیت کریمہ میں بتائی گئی ہے روزوں کے فرض کرنے کا مقصد ہے کہ تمہارے اندر تقوی و پرہیزگاری پیدا ہوجائے ، تم متقی بن جاؤ ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روزے سے تقوی کیسے پیدا ہوتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ انسان کے اندر خیر وشر دونوں کے مادے موجود ہیں ، اس کے اندر بہیمیت بھی ہے اور ملکویتات بھی ہے اب اگر اس کے اندر ملکوتی صفات غالب ہوتے ہیں اور مادہ خیر قوی ہوتا ہے تو وہ متقی ، صالح اور اللہ کا محبوب و برگزیدہ بن جاتا ہے ، اور اگر بہیمیت غالب ہوتی ہے اور شر قوی ہوتا ہے تو انسان برائی میں مبتلا ہوجاتا ہے ، اور اس کا شمار برے اور خبیث لوگوں میں ہونے لگتا ہے ، بعد میں بات مسلم ہے کہ انسان جس قدر اکل و شرب ، لذات و جنسی شہوات میں مشغول اور غرق ہوگا اسی قدر اس کے اندر بہیمیت قوی ہوگی ، شیطان کو اسے بہکانے کا موقع ملے گا ، اللہ سے غفلت ہوگی اور شر کا غلبہ ہوگا ، اور جس قدر وہ لذات و شہوات سے دور رہے گا اسی قدر اس کے اندر ملکوتی صفات پیدا ہوں گے ، وہ برائیوں سے دور ہوگا اس پر روحانیت کا غلبہ ہوگا ، اسی بناء پر آپ دیکھیں گے تمام ادیان و مذاہب کے صوفی سنت اور زاہد لوگ لذات و شہوات میں غرق ہونے سے اجتناب کرتے اور کھانے پینے اور بیوی بچوں سے تعلقات رکھنےمیں بڑے اعتدال سے کام لیتے ہیں ، بلکہ بعض نےتو اس میں غلو سے کام لیا ہے ، اور بیوی بچوں اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی ، اپنے اوپر گوشت ، مچھلی اور اندے وغیرہ کو حرام کر لیا اور جنگلوں اور پہاڑوں میں جاکر رہبانیت اختیار کر لی ، مگر اسلام افراط و تفریط سے پاک ہے ، ایک بڑا ہی مناسب و معتدل دین کے ، اس واسطے اس نے اس غلو سے منع کیا اور ﴿وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ (الحدید : 27)اور  رہبانیت (ترک دنیا) تو ان لوگوں نے از خود ایجاد کر لی تھی ، ہم نے ان پر اسے واجب نہ  کیا تھا ، اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”لَا رَهْبَانِيَّةَ فِي الإِسْلامِ (شرح السنۃ للبغوی : 2/371، كتاب الصلاة , باب فضل القعود فی المسجد لانتظار الصلاة،سلسلہ احادیث الصحیحہ للالبانی :4/385)اسلام میں رہبانیت نہیں ، مگر تہذیب نفس  کے لئے انسان کے اندر خشیت الہی اور تقوی پیدا کرنے کے لئے مادہ شر کو شکست دینے اور شہوت کی حدت کو توڑنے اور کم کرنے کے لئے رمضان کے روزوں کو فرض کیا گیا ہے ، جس میں آدمی ایک موہ طلوع صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک آدمی ایمان و اختساب کے ساتھ خالصۃ لوجہ اللہ کھانے پینے اور جماع سے اجتناب کرتا ہے ، اس طرح اس کی شہوت ٹوٹتی ہے اور بہیمیت کمزور پڑتی ہے ، روزے کے اندر کسر شہوت کی خاصیت موجود ہے ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ(رواہ الجماعہ ،صحيح البخاری: 3/ 34،کتاب النکاح باب من لم يستطع الباءة فليصم، صحيح مسلم : 4/ 128،کتاب النكاح, باب استحباب النكاح لمن تاقت نفسہ إليہ...)اے نوجوانوں کی جماعت تم میں سے جس کےپاس شادی کرنے کی استطاعت ہو وہ شادی کرے کیونکہ شادی کی وجہ سے نگاہیں جھک جاتی ہیں اور شرمگاہ کی حفاظت ہوتی ہے ، اور جس کےپاس شادی کی استطاعت نہ ہو وہ روزہ کو لازم پکڑے ، کیونکہ روزہ اس کی شہوت کو توڑنے ولا ہے ۔
            اس سے ایک تو یہ معلوم ہو ا کہ شادی کی بڑی اہمیت ہے ، کیونکہ اس سے سکون قلب اور جائز اولاد کے حصول کے علاوہ عزت و آبرو کی حفاظت ہوجاتی ہے ، اور نگاہیں  پست ہوجاتیں ہیں ، اس لئے کہ جس کے پاس گھر میں بیوی موجود ہے ، اس کو اِدھر اُدھرتانک چھانک کرنے کی اور جائز لطف ولذت کو چھوڑ کر زنا کاری میں پڑنے کی ضرورت کیا ہے ؟نیز بیوی ایک مراقب و نگراں کی حیثیت سے بھی ہوتی ہے ، اس واسطے اس کے بہکنے کا سوال نہیں ہوتا ، اب ایسی حالت میں بھی اگر کوئی غلط کام کرتا ہے تو یقینا وہ بڑا بدبخت ہے ، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ روزہ رکھنے سے شہوت کمزور ہوتی ہے اور زنا کاری و گناہ میں پڑنے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے ، اس طرح سے روزہ رکھنے سے انسان متقی اور پرہیزگار بنتا ہے ، روزہ جیسا ابھی گذر چکا ہے روزہ  سے نیت کے ساتھ کھانا پینا اور جماع کو ترک کرے گا ، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”مَنْ لَمْ يُبَيِّتِ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ، فَلَا صِيَامَ لَهُ (رواہ النسائی : 4/196، كتاب الصیام ، باب ذكر اختلاف الناقلین لخبر حفصۃ فی ذلك)جس نے رات سے ہی روزے کی نیت نہیں کی اس کا روزہ نہیں ، اس لئے روزہ کے لئے نیت ضروری ہے اور پھر یہ کھانے ، پینے اور جماع کا ترک خالصۃً لوجہ اللہ ہونا چاہئے ، اگر کسی نے ایسا نہیں کی تو وہ حقیقی روزہ دار نہیں ہوگا اور اس کے اجر وثواطب سے محروم ہوگا ، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :”كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلاَّ الصَّوْمَ فَإِنَّهُ لِى وَأَنَا أَجْزِى بِهِ يَدَعُ شَهْوَتَهُ وَطَعَامَهُ مِنْ أَجْلِى(متفق علیہ ، بخاری : 3/34، كتاب الصوم , باب هل يقول إنی صائم إذا شتم،مسلم : 3/158 كتاب الصيام باب فضل الصيام)ابن آدم کے ہر نیکی کا ثواب دس گنا  سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے ، سوائے روزہ کے ، روزہ کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اس کا بدلہ میں خصوصی طور سے دوں گا ، کیونکہ بندہ روزہ خالص میرے لئے رکھتا ہے اور میری خاطر ہی کھانا ،  پینا اور اپنی شہوت ہوری کرنا چھوڑدیتا ہے ، چنانچہ آپ دیکھتے ہیں اک روزہ دار بھوکا پیاسا ہوتا ہے اور اس کے گھر میں لذیذ کھانے اور بہترین ٹھنڈے میٹھے مشروبات ہوتے ہیں ، اور اللہ کے سوا کوئی بھی دیکھنے والا بھی نہیں ہوتا مگر وہ نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے ، اسی طرح ایک شخص دریا میں غسل کرتا ہے اسے شدید پیاس لگی ہوتی ہے وہ پانی کے اندر ڈپکی لگا تا ہے وہاں کوئی نہیں دیکھتا وہ چاہے تو پانی پی لے اور کسی کو خبر نہ ہو مگر وہ پانی نہیں پیتا ، ایک شخص جنگل میں یا کسی بھی سنسان جگہ میں تنہا ہوتا ہے اور اسے بھوک پیاس بھی لگی ہوتی ہے اور پھل ، کھانے کی دوسری چیزیں موجود ہوتی ہیں مگر وہ نہیں کھاتا ، کیوں؟ اس لئے کہ وہ روزہ اللہ کے لئے رکھتا ہے ، اس کے دل میں اللہ کا خوف ہوتا ہے اس کے دل میں یہ یقین اور ہوتا ہے کہ کوئی دیکھے یا نہ دیکھے اللہ دیکھ رہا ہے ، اسی طرح جو ان ہوتا ہے اس کے گھر میں حسین و جمیل بیوی ہوتی ہے ،دل میں جونگی کی امگیں اور خوہشات ہوتی ہوتی ہیں ، تنہائی اور موقع ہوتا ہے مگر اس کے باؤجود بیوی سے ہم بستری نہیں کرتا ، کیوں ؟ اس لئے کہ اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ روزے سے ہے اور روزہ کی حالت میں یہ ممنوع ہے اور کسی کو خبر ہو نہ ہو اللہ تعالی سب کچھ دیکھ رہا ہے ، اس طرح اللہ تعالی کے حاضر و ناظر ہونے کا اور ایک مہینے تک ان کے اندر احساس پیدا ہوتا ہے اور پھر ایک مہینہ کی تربیت سے یہ یقین و احساس اس قدر پختہ ہوجاتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح سال بھر قائم رہتا ہے ، اور وہ متقی و پرہیز گار بن جاتا ہے ، آپ ایک اور ناحیہ سے غور کیجئے کہ ایک شخص جب روزہ کی حالت میں اپنے ہاتھ کی کمائی ہوئی جائز روزی اور کھانا نہیں کھاتا تو کیا وہ روزہ کی حالت میں یا س کے بعد حرام کی روزی کھائے گا ، کسی دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے لے گا ؟ چوری ،ڈکیتی ، غصب ، رشوت اور سود کے پیسوں سے حاصل کردی کھانا کھائے گا ؟ اگر حقیقت میں اس نے روزہ رکھا ہے تو یقینا وہ ایسا نہیں کرے گا ، جیسے روزہ کی حالت میں اس احساس سے کہ اس وت یہ ہمارے لئے حلال نہیں وہ گھر کا کھانا نہیں کھاتا اسی طرح اسی احساس کی بنا پر کہ چوری ، غصب اور رشوت و سود ک ذریعہ حاصل کیا ہوا مال حرام ہے ، وہ ان کو بھی ہاتھ نہیں لگائے گا ، بتائیے کہ جو روزہ کی حالت میں ممنوع ہونے کی وجہ سے اپنی حلال اور منکوح بیوی سے ہم بستری نہیں کرتا وہ کسی دوسرے کی بہو بیٹی پر غلط نگاہ ڈالے گا ؟ جو صرف اس احساس کی بنا پر اپنی عورت سے مجامعت نہیں کرتا کہ اس وقت یہ ممنوع ہے اگر اس کے اندر یہ احساس زندہ و باقی ہے تو کسی غیر عورت سے زناکرے گا ؟ پرگز نہیں ، وہ رمضان کے روزے رکھنے سے متقی بن جائے گا ۔
            سب کو معلوم ہے کہ روزہ کی حالت میں جیسے کھانا ، پینا اور جماع کرنا ممنوع ہے ، اسی طرح جھوٹ بولنا ، غیبت کرنا ، اور تمام غلط اعمال بھی ممنوع ہیں ، اور جو ان چیزوں کو نہیں چھوڑتا اس کا روزہ مقبول نہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ(رواہ البخاری : 3/33، كتاب الصوم , باب من لم يدع قول الزور والعمل بہ فی الصوم)
            جو جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑے اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی اللہ کو کوئی حاجت نہیں ، کیونکہ اللہ تعالی روزہ کا حکم دیکر کسی کو بھوکا و پیاسانہیں مارنا چاہتا ہے ، بلکہ اس کا مقصد اس کے باطن کی اصلاح کرنی ہے ، اس کو متقی ، پرہیزگار اور صالح بنانا ہے ، اور اگروہ متقی نہیں بنتا ، جھوٹ اور غلط اقوال و اعمال اور حرکات کو ترک نہیں کرتا تو اس کا کھانا وپینا چھوڑنا پبکار ہے ، اس کا روزہ بے سود ہے ، اسی طرح رسول اللہﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا: ”كَمْ مِنْ صَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلَّا الظَّمَأُ، وَكَمْ مِنْ قَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ قِيَامِهِ إِلَّا السَّهَرُ(سنن الدارمی:3/ 1789،كتاب الرقاق باب فی المحافظۃ على الصوم)کتنے لوگ ایسے ہیں جن کو روزہ سے پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا ، اور اسی طرح کتنے تہجد گزار ہیں جن کو شب بیداری کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔
            اس واسطے جن کو صحیح اور مقبول روزہ رکھنا ہے اس کو تمام برائیوں سے بچنا پڑے گا ، اور تمام محرمات و ممنوعات کو ترک کرنا پڑے گا ، اور جو ایک ماہ تک ممنوع و حرام چیزوں کو بالقصد اور خالصۃ لوجہ اللہ چھوڑدے وہ یقینا متقی بن جائے گا ۔
            اس کے علاوہ آپ کو معلوم ہے کہ اس ماہ میں شیطان جکڑ دئےجاتے ہیں ، حدیث میں ہے : ”إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ،وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ(متفق علیہ ، صحيح البخاری: 3/33، كتاب الصوم , باب هل يقال رمضان أو شهر رمضان ومن رأى كلہ واسعا، صحیح مسلم : 3/121كتاب الصیام , باب فضل شهر رمضان)جب رمضان کا مہینہ داخل ہوتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں اور شیاطین گڑ دئے جاتے ہیں ۔
            اور ایک حدیث میں ہے : ”إِذَا كَانَتْ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ ، صُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ ، وَمَرَدَةُ الْجِنِّ ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ ، فَلَمْ يُفْتَحْ مِنْهَا بَابٌ ، وَفُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ ، فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْهَا بَابٌ ، وَنَادَى مُنَادٍ : يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلْ ، وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ ، وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ ، وَذَلِكَ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ(رواہ الترمذی:3/66،كتاب الصوم , باب ما جاء فی فضل شهر رمضان،وابن ماجہ :1/526، كتاب الصيام , باب ما جاء فی فضل شهر رمضان،عن ابی ہریرہ )
            جب ماہ رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطان اور شرکس جن جکڑ دئے جاتے ہیں  ، اور جہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں ، پھر ان میں سے کوئی دروازےنہیں کھلتا ، اور جنت کے دروزاے کھول دئے جاتے ہیں پھر ان میں سے کوئی دروزہ نہیں بند ہوتا ، اور یک منادی بلند آواز سے پکارتا ہے اے بھلائی و خیر کے تلاس کرنے والے آگے بڑھ اور اے برائی کے تلاش کرنے والے پیچھے ہٹ ، اور اللہ تعالی بہت سے لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے اور ایسا ہر رات ہوتا ہے ۔
            ان حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے رمضان میں اللہ تعالی کی جانب سے نیکیوں کا خاص ماحول تیار کیا جاتا ہے ، اس کے لئے فضا سازی کی جاتی ہے اور برائی کے ماحول اور اس کے اسباب کو ختم کیا جاتا ہے ، شیطانوں اور شرکس جنوں کو جو مومنوں کو اذیت دیتے اور لوگوں برائیوں پر ابھارتے ہیں جکڑ دیا جاتا ہے ، اوراللہ کی جانب سے ایک اعلان کرنے والا بلند آواز سے اعلان کرتا ہے کہ نیکی کے متلاشی حضرات آگے بڑھیں  ، ان کے لئے بڑا سنہرا موقع ہے ، رمضان  المبارک کا مہینہ نیکیوں کا موسم بہار ہے ، اس واسطے اس کے لئے محنت کریں اور جد و جہد کے شیدائی بن جائیں ، برائیوں سے باز آجائیں ، یہ توبہ و استغفار کا مہینہ ہے ، انابت الی اللہ کا موسم ہے ، ہر رات اللہ تعالی بہت سے لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے اور جو یہ مبارک مہینہ پاکر بھی اپنی عاقبت اور آخرت نہ سنوار لے وہ بڑا ہی محروم ہے ، اس سے زیادہ بدبخت کوئی نہیں ، غرضیکہ رمضان کا مہینہ اور اس کے روزوں سے تقوی و پرہیزگاری پیدا کوتی ہے ، علاوہ ازیں جب لوگ ایک ماہ تک روزہ رکھتے اور طلوع صبح صادق سے غروب شمس تک کھانے ، پینے سے اجتناب کرتے ہیں تو انہیں بھوک پیاس لگتی ہے اور کمزوری کا احساس اور تکلیف ہوتی ہے ، جس سے انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے جو انہیں مال و دولت سے نوازا ہے اور کھانے پینے کی چیزیں وافر مقدار میں عطا کی ہیں ، وہ ان پر اللہ کا بہت بڑا احسان ہے اور اانہیں اس احسان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے  ، نیز انہں یہ بھی احساس ہوتاہے کہ ہمارے جو بھائی غیرب و محتاج ہیں جب کے گھروں میں فاقے ہورہے ہیں اور جن کے پاس کھانے پینے کے سامان نہیں ، انہیں کتنی تکلیف ہوتی ہے ، ان کی مفلسی اور فقر وفاقہ کی خبر پاکر ان کی مدد نہ کرنا کس قدر غلط اور بے حسی کی بات ہے ، اس طرح ان کے اندر صدقات و خیرات کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ، اللہ کا خوف پیدا ہوتا ہے کہ کہیں اس بے حسی کی وجہ سے اللہ تعالی ہم سے یہ نعمت چھین نہ لے ، اس طرح وہ متقی بن جاتے ہیں ۔
            پھر ایک ساتھ کے روزہ رکھنے اور سحری و افطار کرنے سے جہاں مسلمانوں کو ایک ملت ہونے کا احساس ہوتا ہے ، جہاں ان کے اتحاد واتفاق کا مظاہرہ ہوتا ہے ، وہیں نیکیوں میں ایک دوسرے سے مدد بھی ملتی ہے ، چراغ سے چراغ گلتے ہیں ، اور نیکی و اطاعت تقوی و پرہیزگاری اورعبادت کے کاموں میں اضافہ ہوتا ہے ، ہر طرف نماز ، روزہ ، صدقہ و خیرات ، تراویح وتہجد وغیرہ تذکرہ ہوتا ہے ، اور ان کی عطر بیزیوں پورا ماحول مہکنے لگتا ہے ، جولوگ سال بھر بے نمازی تھی وہ نمازی بن جاتے ہیں ، جنہوں نے سال بھر قرآن کو ہاتھ نہیں لگایا تھا ، وہ رمضان آتے ہی وہ اس کے گرد و غبارکو جھاڑ کر آنکھوں سے لگاتے چومتے اور خوب خوب تلاوت کرتے ہیں ، شرابی شراب چھوڑدیتے ہیں ، رشوت خور ، چور ڈاکو ، زانی اور دوسرے غلط کام کرنے والے اپنے غلط کاموں سے باز آجاتے ہیں ، اور سب کو محسوس ہونے لگتا ہے واقعی شیطان جکڑ دیئے گئے اور جنت کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں ، اور روزہ سے تقوی حاصل ہوتا ہے ، مختصر یہ کہ رمضان کے روزوں کو اللہ تعالی نے تمام عاقل و بالغ مسلمانوں پر فرج کیا ہے ، جو مقیم اور تندرست اور ہر قسم کے سرعی عذر سے خالی ہیں ، وہ ان روزوں کو رمضان میں رکھیں گے ، لبتہ اگر وکوئی مسافر ہے یا بیمار ہے تو اس کے لئے رخصت ہے کہ ابھی نہ رکھے مگر جتنے روزے چھوڑے گا بعد  میں ان کی قضا کرنی پڑے گا ، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ(البقرہ : 185) تم میں سے جو مریض یا مسافر ہو وہ دوسرے ایام میں روزے رکھے ۔ اور جو عورتیں حالت حیض یا نفاس میں ہوں وہ اسی حالت میں روزے نہیں رکھیں گی ، بلکہ بعد میں انہیں ان کو قضا کرنا پڑے گا ، حضرت عائشہ ﷞ سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ ہم عورتیں رسول اللہ ﷺ کے عہدمیں حائضہ ہوتی تھیں تو ہمیں روزوں کی قضا کرنے کا حکم دیا جاتا تھا اور نماز کی قضا کا حکم نہیں دیاجاتا تھا ۔(صحیح البخاری :1/88، كتاب الحیض باب لا تقضی الحائض الصلاة،وصحیح مسلم  : 1/182، كتاب الحيض , باب وجوب قضاء الصوم على الحائض دون الصلاة)
            رہے بچے تو اگر وہ ممیز ہوں اور روزے رکھنے پر قدر ہوں تو جب تک وہ بالغ نہیں ہوتے ان پر روزے تو فرض نہیں ہیں لیکن عادت ڈالنے کے لئے ان سے روزے رکھوانے چاہئے ، جیسے بلوغت سے پہلے ہی انہیں نماز کا حکم دیا جاتا ہے تاکہ انہیں اس کی عادت اور اس کے مسائل سے واقفیت ہوجائے ۔
            اسی طرح روزے بھی رکھوانا چاہئے تاکہ ابھی سے انہیں عادت پڑ جائے اور اس کے مسائل سے واقف ہوجائیں ، رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے عہد مبارک میں بھی بچے روزے رکھتے تھے ، ربیع بنت معوذ فرماتی﷞ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار ی بستیوں میں عاشوراء کی صبح کو یہ کہلا بھیجا کہ جو روزے سے ہوں وہ اپنے روزے کو مکمل کریں اور جو صبح سے روزے سے نہ ہوں وہ بھی اس وقت سے نہ کھائیں پئیں ، اور بقیہ دن کا روزہ رکھیں ، اس کے بعد ہم لوگ عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے ، اور اپنے چھوٹے بچوں سے بھی رکھواتے تھے ہم مسجد چلی جاتیں تھیں اور بچوں کے لئے رنگین اون کے کھلونے بناتیں اور ان میں سے کوئی جب کوئی کھانے کے لئے رونے لگتا تو یہ کھلونے دے دیتیں یہاں تک کہ افطار کا وقت ہوجاتا ۔(رواہ البخاری: 3/48، كتاب الصوم , باب صوم الصبيان ، و مسلم :3/152،كتاب الصيام , باب من أكل فى عاشوراء فلیكف بقیۃ يومہ)
            ظاہر ہے کہ جب عاشوراءکے روزے کا یہ صحابیات اتنا اہتمام کرتی تھیں ، اور اپنے بچوں سے روزہ رکھواتی تھیں تو رمضان کے روزے بھی رکھواتی رہی ہوں گے ۔
            صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عمر ﷜ کےپاس رمضان میں ایک نشہ میں متوالہ شخص لایا گیا تو آپ نے درے لگائے اور فرمایا: کم بخت تیرا ستیاناس ہو تو رمضان میں شراب پیتا ہے حالانکہ ہماے بچے روزے سے ہیں۔ (صحیح بخاری: 3/48، كتاب الصوم , باب صوم الصبيان)
            اس واسطے ہم تمام مسلمانوں کو روزوں کا خوب اہتمام کرنا چاہئے ، اور بلا کسی عذر شرعی کے ہرگز نہیں چھوڑنی چاہئے اور روزے رکھتے وقت اس کے تمام آداب و شروط کا لحاظ رکھنا چاہئے اور اس کے مقاصد کو بھی مد نظر رکھانا چاہئے ، تاکہ اسلام کے اس اہم رکن کی ادائیگی کے ساتھ اس کے ثمرات و برکات بھی حاصل ہوں ور جن  مقاصد کے لئے اللہ نے انہیں فرض کئے ہیں وہ مقاصد و ثواب حاصل ہو ں ، اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین 

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق