الأحد، 22 يوليو 2012


روزے کے فوائد و فضائل
            خطبہ ٔ مسنونہ کے بعد
            قال اللہ تعالی فی القرآن المجید :﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرہ: ۱۸۳)
بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر  اللہ تعالی نے یہ روزے کیوں فرض کئے  ہیں کہ رمضان میں مسلمانوں کو ایک ماہ تک مسلسل طلوع صبح صادق سے لے کر سورج غروب ہونے تک کھانے پینے اور اپنی بیویوں کے ساتھ ہم بستری سے منع کردیا ، اور بہت ساری پابندیاں عائد کردیں۔
برادران اسلام!ابھی جو آیت کریمہ ہم نے آپ کے سامنے پیش کی ہے اس میں اللہ تعالی نے اسی سوال اور شبہ کا جواب دیا ہے اور فرمایا کہ اے مومنوتمہارے اوپر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے ، تاکہ تم متقی و پرہیزگار بن جاؤ۔
اس سے ایک بات تو معلوم ہوتی ہے کہ یہ روزے صرف امت محمدیہ پر فرض نہیں کئے گئے ہیں ، بلکہ اس سے پہلے جو قومیں اور امتیں گذری ہیں ان پر بھی یہ روزے فرض تھے ، اور اس فرضیت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے روزہ داروں میں تقوی و پرہیزگاری پیدا ہوتی ہے ۔
چنانچہ ہم سبھی لوگ مشاہدہ کرتے ہیں کہ رمضان المبارک میں جب لوگ روزے رکھتے ہیں تو بڑے ہی تقوی و طہارت اور نیکی و روحانیت کا ماحول رہتا ہے ، لوگ نمازی بن جاتے ہیں ، گھر گھر میں قرآن کی تلاوت ہونے لگتی ہے ،فلم دیکھنے والے فلم دیکھنا ، اور شرابی شراب پینا بند کردیتے ہیں ، زنا کار زنا کاری اور جھوٹ بولنے والے کذب بیانی ترک کر دیتے ہیں ، ہر آدمی جھگڑے لڑائی اور گالی گلوج سے بچنے لگتا ہے ، لوگ بکثرت صدقہ و خیرات کرنے لگتے ہیں ، تراویح و تہجد کا اہتمام ہونے لگتا ہے ، ایک دوسرے کے یہاں افطار بھیجنے ، اجتماعی افطار کرنے کا اہتمام ہوتا ہے جس سے مؤدت و محبت میں اضافہ ہوتا ہے ۔
غرضیکہ روزے میں تقوی و پرہیزگاری کے مظاہر بڑے واضح طور پر نظر آتے ہیں ، اور ہر طرف ایمان و عمل کی بہار نظر آتی ہے ، برائیوں اور گناہوں کا دائرہ بہت تنگ ہوجاتا ہے ، اور بہت ہی بدبخت اور بد قسمت قسم کے لوگ ہی اس ماہ میں گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خوف الٰہی اور تقوی و پرہیزگاری کے پیدا کرنے میں روزے کی بڑی تاثیر ہے ، جس کی بنا پر اللہ نے رمضان کے روزے فرض کئے ہیں۔
روزوں کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس سے پہلے کے تمام صغیرہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں، حضرت ابو ہریرہ﷜سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ(صحيح البخاری: 3/33،كتاب الصوم , باب من صام رمضان إيمانا واحتسابا ونیۃ) جس نے رمضان المبارک کے روزے ایمان کے ساتھ اور خالص اللہ سے اجر وثواب حاصل کرنے کے لئے رکھے گا اس کے پہلے کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
اگر ذرا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ بہت ہی بڑا فائدہ ہے کہ ان روزوں کی وجہ سے سال بھر کے صغیرہ گناہوں کی جن میں کتنوں کے بارے میں ہمیں کچھ غم نہیں رہتا یا جنہیں ہم بھول گئے اور توبہ نہیں کی ان کی مغفرت و بخشش ہوتی ہے ، اور کبیرہ گناہوں سے سچے دل سے توبہ کر لیں تو اس  طرح گناہوں سے پاک و صاف ہوجاتے ہیں ۔
روزوں کی تیسری فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے روزے داروں کی تکریم اور اعزاز کے لئے جنت میں ان کے داخلہ کے لئے ایک خصوصی گیٹ بنایا ہے ، جس کا نام ہے : ”باب الریان“ یعنی ریان گیٹ ، اس گیٹ کی وہی حیثیت ہے جو کسی پروگرام کے موقع پر یا مخصوص جگہوں پر جانے کے لئے V.I.P. شخصیات اور خصوصی مہمانوں کے لئے اسپیشل گیٹ بنائے جاتے ہیں تاکہ وہ بغیر اژدحام میں پھنسے نہایت آسانی اور عزت کے ساتھ وہ اپنے مقام تک پہونچ جائیں ۔
اسی طرح روزے داروں کے لئے جنت میں جانے کے واسطے اسپیشل گیٹ باب الریان بنایا ہے جس سے صرف روزے دار ہی داخل ہو سکتے ہیں ۔
حضرت سہل بن سعد﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:فِي الْجَنَّةِ ثَمَانِيَةُ أَبْوَابٍ فِيهَا بَابٌ يُسَمَّى الرَّيَّانَ لاَ يَدْخُلُهُ إِلاَّ الصَّائِمُونَ (صحيح البخاری: 4/145،كتاب بدء الخلق باب صفۃ أبواب الجنۃ،صحيح مسلم: 3/158،كتاب الصیام باب فضل الصيام) جنت میں آٹھ گیٹ ہیں ، ان میں سے ایک گیٹ ہے جس کا نام ریان گیٹ ہے اس سے صرف روزے دار داخل ہوں گے۔
چوتھی فضیلت روزے کی یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس کو اپنے لئے خاص کیا ہے اور اس کے لئے خصوصی اجر و ثواب دینے کا وعدہ دینے کا وعدہ فرمایاہے ۔
اس کی پانچویں فضیلت یہ ہے کہ جب روزے دار اپنے روزے کو پورا کر کے افطار کرتا ہے تو اسے بے انتہائی خوشی و فرحت حاصل ہوتی ہے اور وہ ایک مخصوص قسم کی فرحت محسوس کرتا ہے ۔
اس کی چھٹویں فضیلت یہ ہے کہ روزے کی حالت میں معدے کےخالی ہونے کی وجہ سے اس کے منہ سے جو بو نکلتی ہے وہ اللہ تعالی کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندہے ، اور روزہ ڈھال ہے جو روزہ دار کو گناہوں اور جہنم کے عذاب سے بچاتا ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:”كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلاَّ الصَّوْمَ فَإِنَّهُ لِى وَأَنَا أَجْزِى بِهِ يَدَعُ شَهْوَتَهُ وَطَعَامَهُ مِنْ أَجْلِى لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ وَفَرْحَةٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّهِ. وَلَخُلُوفُ فِيهِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ(صحيح مسلم: 3/158، كتاب الصیام باب فضل الصيام)ابن آدام کے ہر عمل کا ثواب دس گناہ سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے  سوائے روزے کے ،اس کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ روزہ میرے لئے  ہے اورمیں اس کا خصوصی  ثواب دوں گا، کیونکہ بندہ اپنی شہوت اور کھانے پینے کو میرے لئے چھوڑتا ہے ،اور روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں : ایک خوشی افطار کے وقت دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت ،اور روزے دار کی منہ کی بو (جو خلو معدہ کی وجہ سے خارج ہوتی ہے )اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سےبھی زیادہ عمدہ اور پاکیزہ ہے۔
اس کا ساتواں فائدہ یہ ہے کہ اس سے روزہ دار کو غریبوں، مسکینوں کے دکھ درد کا احساس ہوتا ہے ، کیونکہ جب روزہ دار کو بھوک  و پیاس لگتی ہے اور اس سے اسے تکلیف ہوتی ہے تو اسے احساس ہوتا ہے  کہ اسی طرح غریبوں کو جب کھانا نہیں ملتا اور ان کے بال بچے بھوکے رہتے ہیں تو انہیں بھی تکلیف ہوتی ہوگی ، جس سے اس کے اندر غریبوں سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے اور ان کے ساتھ تعاون اور صدقہ و خیرات کے بیشمار دینی و دنیوی فوائد ہیں۔
آٹھواں فائدہ یہ ہے کہ اس سے کھانا پانی اوراللہ کے عطا کردہ مال و دولت اور دوسرے انعامات کا احساس ہوتا ہے ، اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ ساری چیزیں جو ہمیں وافر مقدار میں میسر ہیں وہ اللہ کے کس بڑے فضل و کرم کا نتیجہ ہے ۔
اور پھر اس کے اندر امتنان و شکر کے جذبہ پیدا ہوجاتے ہیں ، اور وہ اللہ کی ناشکری اور اس کی نعمتوں کی ناقدری کو چھوڑ کر اس کا شکر گزار بندہ ہو جاتا ہے ، اور ارشاد الٰہی :﴿لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ (ابراہیم:۷) کے موجب اللہ کے فضل کرم کا مستحق بن جاتا ہے اور اس کے مال و دولت وغیرہ میں اضافہ ہوتا ہے ۔
روزہ کا نواں فائدہ یہ ہے کہ اس سے اس کے اندر موجود ملکوتی صفات کا تقویت حاصل ہوتی ہے ، اور بہیمیت و شیطنت کا مادہ کمزور ہوتا ہے ، کیونکہ یہ بات مسلم ہے کہ انسان جس قدر لذات و شہوات میں مشغول ہوتا ہے اس قدر اس کے اندر موجودو بہیمیت و شیطنت کو قوت ملتی اور عبادت الٰہی اور اذکار و اوراد سے غفلت ہوتی ہے ، اور جس قدر وہ شہوات و لذات سے دور رہتا ہے اس قدر اس کے اندر تقو ی و پرہیزگاری پیدا ہوتی ہے ، وہ یاد الٰہی اور عبادتوں میں مشغول ہوتا ہے ، اور ملکوتی صفات کو تقویت حاصل ہوتی ہے ، اسی واسطے تمام ادیان میں زاہد و عابد اور صفی سنت لوگ لذات و شہوات میں استغراق سے بچتے ہیں ، اور بہت اچھے اچھے کھانوں ، کپڑوں وغیرہ کا زیادہ اہتمام نہیں کرتے ، اور عبادت و ریاضت پر زیادہ توجہ دیتے ہیں ،بلکہ بعض ادیان کے ماننے والوں میں سے کچھ لوگ رہبانیت اختیار کر لیتے ہیں ، اور بیوی ،بچوں اور گھر بار سے علاحدگی اختیار کر کے کسی جنگل میں شب وروز پوجا پاٹ اور عبادت و ریاضت میں لگے رہتے ہیں، جو اسلامی نقطہ نظر سے غلط ہے ، اور صحیح اسلام کی تعلیم اعتدال کی تعلیم پر مبنی ہے ، جسم میں روزہ بھی ہے اور افطار بھی ، رات میں تہجد گذاری اور قیام اللیل بھی ہے ، اور سونا اور آرام کرنا بھی ہے ، عبادت و ریاضت بھی ہے اور بیوی بچوں اور مہمانوں وغیرہ کے حقوق کی ادئیگی بھی ۔
بہر حال روزے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے ملکوتی صفات کو تقویت حاصل ہوتی ہے ، اور بہیمیت کا مادہ کمزور ہوتا ہے۔
اس کا دسواں فائدہ یہ ہے کہ اس سے ہر وقت ہمارے اللہ کی نظروں کے سامنے ہونے اور اس کے ہمارے تمام اعمال کو دیکھنے کا احساس پیدا ہوتاہے ، اور اس کی تربیت ہوتی ہے ، کیونکہ بندہ رات ہی سے نیت کر کے روزہ رکھتا ہے ، کیونکہ حدیث ہے :”مَنْ لَمْ يُبَيِّتِ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ ، فَلاَ صِيَامَ لَهُ“ (رواہ النسائی : 4/196، كتاب الصیام ، باب ذكر اختلاف الناقلین لخبر حفصۃ فی ذلك) اور دن بھر یہ احساس رکھتے ہوئے کھانے پینے ، جماع اور دوسرے تمام مفطرات سے اجتناب کرتا ہے کہ کوئی دیکھے یا نا دیکھے اللہ ہم کو دیکھ رہاہے ، اور یہ روزہ ہم اسی کے لئے رکھ رہے ہیں ، اسی بنا پر وہ بھوکا ہوتا ہے ، مگر کھانا نہیں کھاتا ، پیاسا ہوتا ہے مگر پانی نہیں پیتا ، گھر میں جوان و حسین بیوی ہوتی ہے اور دل میں امگیں بھی ہوتی ہیں مگر وہ اللہ کے لئے ہم بستری نہیں کرتا ،جیسا کہ حدیث :”فَإِنَّهُ لِى وَأَنَا أَجْزِى بِهِ“ سے معلوم ہوتا ہے ، اس طرح مہینہ بھر کی ٹریننگ وتربیت کے بعد اس کے اندر اتنا احساس و یقین پیدا ہوجاتا ہے کہ ماہ رمضان ختم ہونے کے بعد بھی اس کے اندر یہ احساس باقی رہتا ہے کہ اللہ ہمارے تمام اعمال کو دیکھتا ہے۔
گیارہواں فائدہ روزے کا یہ ہے کہ اس سے جنسی شہوت کی شدت ختم ہوجاتی ہے ، اور زنا و گناہ میں پڑنے کے خطرات کم ہوجاتے ہیں ، اسی واسطے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:“يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ (صحيح مسلم : 4/128،کتاب النكاح, باب استحباب النكاح لمن تاقت نفسہ إليہ...)
اے جوانوں کی جماعت تم میں سے جو شادی کی استطاعت رکھتا ہو وہ شادی کر لے اور جو شادی کی استطاعت نہ رکھتا ہو روزے رکھا کرے اس سے اس کی شہوت کم ہوجائے گی ۔
ان روحانی فائدوں کے علاوہ اس کے بہر سے جسمانی فائدے بھی ہیں ، اس سے بدن اور خصوصا پیٹ کا تنقیہ ہوجاتا ہے ، فاسد مادے خارج ہوجاتے ہیں ، معدہ کو کچھ اوقات کے لئے سکون مل جاتا ہے ، بلڈپریشر بھی کم ہوجاتا ہے ، اور وزن و شکر بھی ،اسی واسطے بہت سے اطباء اس قسم کے مریضوں کو فاقہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں ۔
بہر حال روزے کے بہت سے روحانی وجسمانی اور سماجی و اخلاقی فائدے ہیں ،  اللہ تعالی ہم سب کو صحیح طریقہ پر روزہ رکھنے اور اس سے ہر طرح سے استفادہ کرنے کی توفیق دے۔ آمین.وآخردعواناان الحمد للہ رب العالمین

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق